حسن ناصر کی یادیں
حسن ناصر کے ساتھ کھیلا جانے والا کھلواڑ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔
حسن ناصر 1928میں آندھرا پردیش، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ وہاں وہ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس لیگ کے جنرل سیکریٹری تھے۔ پاکستان بننے کے بعد 1948میں سجاد ظہیر، دانیال لطیفی کے ساتھ کراچی، پاکستان آگئے اورکمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے کارکن بن گئے۔
کچھ عرصے کراچی سٹی کے سیکریٹری بھی رہے، بعد ازاں مرکزی کمیٹی کے رکن بن گئے ۔ اس وقت مرکزی کمیٹی کے اراکین میں فیروز الدین ، سید جمال الدین بخاری،طفیل عباس، منہاج برنا، شرف علی، سوبھوگیان چندانی وغیرہ تھے اور سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر ہوا کرتے تھے۔
جب 1951 میں عام انتخابات ہوئے تو مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ صرف 19نشستیںحاصل کر پائی جب کہ پیشتر نشستیں جگتو فرنٹ نے حاصل کیں، جن میں اکثریت کمیونسٹوں کی تھی ۔اس خوف سے حکمران طبقات نے 1954میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی اور اس سے منسلک تمام طلبہ، مزدور، کسان، دانشور، ادیبوں کی تنظیموں پر بھی پابندی لگا دی گئی ۔ حسن ناصر 1957 میں نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہو گئے۔
1960میں وہ گرفتارکر لیے گئے۔گرفتاری کے بعد 13ستمبرکو انھیں ایک سیل میں قید کردیا گیا ۔ 24اکتوبرکو انکوائری ختم ہونے کے بعد 29 اکتوبر 1960میں کرا چی سے لاہور بھیجا گیا، جہاں سے کبھی واپس نہیں آئے۔ ان کا تفتیشی افسر انسپکٹر پولیس قربان علی خان تھا۔ 13 نومبر 1960کو لاہور کے بد زمانہ شاہی قلعے میں انھیں شدید جسمانی اذیت دے کر قتل کردیا گیا اور انھیں میانی صاحب قبرستان لاہور میں دفنایا گیا تھا ۔ جب گورکن کا ریکارڈ دیکھا گیا تو اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا ۔
میجراسحاق کی کتاب ''حسن ناصرکی شہادت '' میں، حسن ناصرکی والدہ نے اپنے بیٹے کے بارے میںلکھا ہے کہ '' ہر انسان کی زندگی کا اپنی ذات کے علاوہ بھی مقصد ہوتا ہے ورنہ وہ انسان نہیں ۔ بعض مقاصد ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں جان کی بازی لگانی ہوتی ہے۔ میرے بیٹے کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔ میں بہت دنوں سے یہ جانتی تھی۔کئی سالوں سے جی کڑا کیے رکھا ۔ با لآخر وہ لمحہ آگیا جو ٹل نہیں سکتا تھا ۔ میری بات چھوڑیے۔ البتہ حسن ناصر خوش قسمت تھا کہ اگر اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکا ، تو اس کے لیے جان دے دینے کی سعادت تو پالی ۔ (زہرہ علمدار حسین) ۔
اسی کتاب کی پشت پر فیض احمد فیض کہتے ہیں، ''وہ تین برس اورگذرگئے، ایوب خان کی فوجی حکومت قائم ہوئی اور پہلا (بلکہ دوسرا) مار شل لا ء نافذ ہوا ۔ ہم لوگ ایک بار پھر جیلوں میں بھردیے گئے اور اس دفعہ لاہور قلعے کے وحشت ناک زندان کا منہ دیکھا، چار پانچ مہینے کے بعد رہائی ہوئی ۔ ہمیں نکلے ہوئے تھوڑے دن گذرے تھے کہ ایک شام مال روڈ پر مجھے لاہور قلعے کا ایک وارڈن ملا ، علیک سلیک کے بعد اس نے بتایا کہ قلعے میں ہمارے ساتھ کا کوئی نیا قیدی آیا تھا جو دو دن پہلے فوت ہوگیا ہے۔
اسی شام یا اگلے دن اسحاق سے ملاقات ہوئی اور ہم دونوں نے طے کیا کہ ہو نہ ہو یہ قیدی ضرور حسن ناصر ہوگا ۔ اس کے بعد جس دلیری سے اسحاق نے اس درد ناک سانحے کے سلسلے میں مختلف دروازے کھٹکھٹائے،اس کی تفصیل ان کی کتاب ''حسن ناصرکی شہا دت'' میں موجود ہے ۔ اسحاق کی سیاسی زندگی کا حال سب جانتے ہیں۔
مزدورکسان کے مسائل میں اور لوگوں نے بھی حصہ لیا لیکن جس خلوص ، ثابت قد می، ایثار اور جانثاری سے اسحاق نے سب سکھ آرام تج کر اور درویشی کا چولا اوڑھ کر اس مظلوم طبقے میں اپنی ذات کو جذب کیا، اس سے پابلو نرودا کے الفاظ یاد آتے ہیں۔''میں تمھاری جھونپڑی کی خاک میں مل کر خاک ہوگیا ہوں ۔ میں تمھاری سیاہ باجرے کی رو ٹی کا ایک نوالہ اور تمھارے چاک چاک کرتے کی ایک دھجی بن گیا ہوں۔''
میجر اسحاق اپنی کتاب ''حسن ناصر کی شہادت'' میں لکھتے ہیں کہ ''میں نے خفیہ پو لیس کے متعلقہ افسروں سے رابطہ قائم کیا، تاکہ حقیقت حال معلوم کی جاسکے ۔ میں ان سب کو خوب جانتا تھا،کیونکہ خود بھی چند روز ہی پہلے قلعے کے اسی بندی خانے میں ایک مہینہ گذارنے کے بعد 22 اکتوبر کو رہا ہوا تھا لیکن ان لوگوں نے انتہائی ٹال مٹول سے کام لیا اور حسن ناصرکی لاہور میں موجودگی سے یکسر انکارکر دیا اورکہہ دیا کہ وہ کراچی کے آدمی تھے، وہیں سے ان کے بارے میں دریافت کیا جاسکتا ہے۔ با لاخر جب بات ہائی کورٹ تک پہنچی تو اس المیے کی خبر ملی کہ حسن ناصر کی 13نو مبر 1960کو لاہور قلعے کے قید خانے میں تشدد کے ذریعے موت وا قع ہوگئی ہے۔ پولیس کا موقف یہ تھا کہ حسن ناصر نے خودکشی کی ہے ۔میں اس بات پر اڑا رہا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ حسن ناصر جیسی خصوصیات کا حامل جواں مرد خودکشی کرسکے ۔ میرے لیے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ میں اپنی بات کیسے ثابت کروں، یہ وقوعہ قلعے میں واقعہ ایک پراسرار بندی خانے کا تھا۔ میں نے کوشش کی کہ وہاں کے مکینوں کی شہادت حاصل کرسکوں ۔ سرکار والے مجھے یہ سہولت دینے سے صاف انکارکرگئے کہ میری دوسری کوشش یہ تھی کہ حسن ناصر سے متعلقہ ریکارڈکی جا نچ پڑتال کی جائے۔اس میں بھی کورا جواب ملا۔ میری تیسری کوشش تھی کہ پولیس کی طرف سے جوگواہ پیش کیے گئے تھے، جرح میں ان سے معلومات حاصل کرسکوں ۔اس میں بھی جب فیصلہ کن مرحلے آ ئے تو سرکاری راز داری کا بہانا بنایا گیا ۔ حتی کہ حسن ناصرکے مختلف اوقات میں ڈاکٹری معائنے کی شہادت پیش کی گئی لیکن اس معائنے کا ریکارڈ سرکاری رازکہہ کر پیش نہ کیا گیا ۔ ان حالات میں، میں صرف یہی کرسکا کہ پولیس نے جو شہادت پیش کرنے پر رضامندی ظاہرکی تھی ،اس کی جانچ پڑتال کرکے ثابت کرتا کہ سارا معاملہ ایک سوانگ ہے جو قانونی تقاضوں کی خانہ پوری کرنے کے لیے کھیلا گیا ہے۔ ''
حسن ناصر کے ساتھ کھیلا جانے والا کھلواڑ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ایسے واقعات دنیا بھر میں کمیونسٹوں، مزدوروں اور کسانوںکے ساتھ ہزار ہا بار پیش آچکے ہیں ، لیکن مزدور طبقہ اس کا جواب بیلا روس سے شمالی کوریا تک ، جنوبی امریکا سے لے کر جنو بی افریقہ تک ، نیپال سے زمبابوے تک اورہندوستان سے برازیل تک حقوق کی جنگ لڑ کر دے رہا ہے اور یہ لڑائی دنیا کو ایک ، ایک کرکے، طبقات کا خاتمہ کرکے اورجائیداد وملکیت کو اجتماعی حیثیت دیکر ہی رک سکتی ہے ، اس کے سوا اورکوئی متبادل راستہ نہیں ہے، یہی شہید حسن ناصرکا مشن ہیں۔
کچھ عرصے کراچی سٹی کے سیکریٹری بھی رہے، بعد ازاں مرکزی کمیٹی کے رکن بن گئے ۔ اس وقت مرکزی کمیٹی کے اراکین میں فیروز الدین ، سید جمال الدین بخاری،طفیل عباس، منہاج برنا، شرف علی، سوبھوگیان چندانی وغیرہ تھے اور سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر ہوا کرتے تھے۔
جب 1951 میں عام انتخابات ہوئے تو مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ صرف 19نشستیںحاصل کر پائی جب کہ پیشتر نشستیں جگتو فرنٹ نے حاصل کیں، جن میں اکثریت کمیونسٹوں کی تھی ۔اس خوف سے حکمران طبقات نے 1954میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی اور اس سے منسلک تمام طلبہ، مزدور، کسان، دانشور، ادیبوں کی تنظیموں پر بھی پابندی لگا دی گئی ۔ حسن ناصر 1957 میں نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہو گئے۔
1960میں وہ گرفتارکر لیے گئے۔گرفتاری کے بعد 13ستمبرکو انھیں ایک سیل میں قید کردیا گیا ۔ 24اکتوبرکو انکوائری ختم ہونے کے بعد 29 اکتوبر 1960میں کرا چی سے لاہور بھیجا گیا، جہاں سے کبھی واپس نہیں آئے۔ ان کا تفتیشی افسر انسپکٹر پولیس قربان علی خان تھا۔ 13 نومبر 1960کو لاہور کے بد زمانہ شاہی قلعے میں انھیں شدید جسمانی اذیت دے کر قتل کردیا گیا اور انھیں میانی صاحب قبرستان لاہور میں دفنایا گیا تھا ۔ جب گورکن کا ریکارڈ دیکھا گیا تو اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا ۔
میجراسحاق کی کتاب ''حسن ناصرکی شہادت '' میں، حسن ناصرکی والدہ نے اپنے بیٹے کے بارے میںلکھا ہے کہ '' ہر انسان کی زندگی کا اپنی ذات کے علاوہ بھی مقصد ہوتا ہے ورنہ وہ انسان نہیں ۔ بعض مقاصد ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں جان کی بازی لگانی ہوتی ہے۔ میرے بیٹے کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔ میں بہت دنوں سے یہ جانتی تھی۔کئی سالوں سے جی کڑا کیے رکھا ۔ با لآخر وہ لمحہ آگیا جو ٹل نہیں سکتا تھا ۔ میری بات چھوڑیے۔ البتہ حسن ناصر خوش قسمت تھا کہ اگر اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکا ، تو اس کے لیے جان دے دینے کی سعادت تو پالی ۔ (زہرہ علمدار حسین) ۔
اسی کتاب کی پشت پر فیض احمد فیض کہتے ہیں، ''وہ تین برس اورگذرگئے، ایوب خان کی فوجی حکومت قائم ہوئی اور پہلا (بلکہ دوسرا) مار شل لا ء نافذ ہوا ۔ ہم لوگ ایک بار پھر جیلوں میں بھردیے گئے اور اس دفعہ لاہور قلعے کے وحشت ناک زندان کا منہ دیکھا، چار پانچ مہینے کے بعد رہائی ہوئی ۔ ہمیں نکلے ہوئے تھوڑے دن گذرے تھے کہ ایک شام مال روڈ پر مجھے لاہور قلعے کا ایک وارڈن ملا ، علیک سلیک کے بعد اس نے بتایا کہ قلعے میں ہمارے ساتھ کا کوئی نیا قیدی آیا تھا جو دو دن پہلے فوت ہوگیا ہے۔
اسی شام یا اگلے دن اسحاق سے ملاقات ہوئی اور ہم دونوں نے طے کیا کہ ہو نہ ہو یہ قیدی ضرور حسن ناصر ہوگا ۔ اس کے بعد جس دلیری سے اسحاق نے اس درد ناک سانحے کے سلسلے میں مختلف دروازے کھٹکھٹائے،اس کی تفصیل ان کی کتاب ''حسن ناصرکی شہا دت'' میں موجود ہے ۔ اسحاق کی سیاسی زندگی کا حال سب جانتے ہیں۔
مزدورکسان کے مسائل میں اور لوگوں نے بھی حصہ لیا لیکن جس خلوص ، ثابت قد می، ایثار اور جانثاری سے اسحاق نے سب سکھ آرام تج کر اور درویشی کا چولا اوڑھ کر اس مظلوم طبقے میں اپنی ذات کو جذب کیا، اس سے پابلو نرودا کے الفاظ یاد آتے ہیں۔''میں تمھاری جھونپڑی کی خاک میں مل کر خاک ہوگیا ہوں ۔ میں تمھاری سیاہ باجرے کی رو ٹی کا ایک نوالہ اور تمھارے چاک چاک کرتے کی ایک دھجی بن گیا ہوں۔''
میجر اسحاق اپنی کتاب ''حسن ناصر کی شہادت'' میں لکھتے ہیں کہ ''میں نے خفیہ پو لیس کے متعلقہ افسروں سے رابطہ قائم کیا، تاکہ حقیقت حال معلوم کی جاسکے ۔ میں ان سب کو خوب جانتا تھا،کیونکہ خود بھی چند روز ہی پہلے قلعے کے اسی بندی خانے میں ایک مہینہ گذارنے کے بعد 22 اکتوبر کو رہا ہوا تھا لیکن ان لوگوں نے انتہائی ٹال مٹول سے کام لیا اور حسن ناصرکی لاہور میں موجودگی سے یکسر انکارکر دیا اورکہہ دیا کہ وہ کراچی کے آدمی تھے، وہیں سے ان کے بارے میں دریافت کیا جاسکتا ہے۔ با لاخر جب بات ہائی کورٹ تک پہنچی تو اس المیے کی خبر ملی کہ حسن ناصر کی 13نو مبر 1960کو لاہور قلعے کے قید خانے میں تشدد کے ذریعے موت وا قع ہوگئی ہے۔ پولیس کا موقف یہ تھا کہ حسن ناصر نے خودکشی کی ہے ۔میں اس بات پر اڑا رہا کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ حسن ناصر جیسی خصوصیات کا حامل جواں مرد خودکشی کرسکے ۔ میرے لیے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ میں اپنی بات کیسے ثابت کروں، یہ وقوعہ قلعے میں واقعہ ایک پراسرار بندی خانے کا تھا۔ میں نے کوشش کی کہ وہاں کے مکینوں کی شہادت حاصل کرسکوں ۔ سرکار والے مجھے یہ سہولت دینے سے صاف انکارکرگئے کہ میری دوسری کوشش یہ تھی کہ حسن ناصر سے متعلقہ ریکارڈکی جا نچ پڑتال کی جائے۔اس میں بھی کورا جواب ملا۔ میری تیسری کوشش تھی کہ پولیس کی طرف سے جوگواہ پیش کیے گئے تھے، جرح میں ان سے معلومات حاصل کرسکوں ۔اس میں بھی جب فیصلہ کن مرحلے آ ئے تو سرکاری راز داری کا بہانا بنایا گیا ۔ حتی کہ حسن ناصرکے مختلف اوقات میں ڈاکٹری معائنے کی شہادت پیش کی گئی لیکن اس معائنے کا ریکارڈ سرکاری رازکہہ کر پیش نہ کیا گیا ۔ ان حالات میں، میں صرف یہی کرسکا کہ پولیس نے جو شہادت پیش کرنے پر رضامندی ظاہرکی تھی ،اس کی جانچ پڑتال کرکے ثابت کرتا کہ سارا معاملہ ایک سوانگ ہے جو قانونی تقاضوں کی خانہ پوری کرنے کے لیے کھیلا گیا ہے۔ ''
حسن ناصر کے ساتھ کھیلا جانے والا کھلواڑ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ایسے واقعات دنیا بھر میں کمیونسٹوں، مزدوروں اور کسانوںکے ساتھ ہزار ہا بار پیش آچکے ہیں ، لیکن مزدور طبقہ اس کا جواب بیلا روس سے شمالی کوریا تک ، جنوبی امریکا سے لے کر جنو بی افریقہ تک ، نیپال سے زمبابوے تک اورہندوستان سے برازیل تک حقوق کی جنگ لڑ کر دے رہا ہے اور یہ لڑائی دنیا کو ایک ، ایک کرکے، طبقات کا خاتمہ کرکے اورجائیداد وملکیت کو اجتماعی حیثیت دیکر ہی رک سکتی ہے ، اس کے سوا اورکوئی متبادل راستہ نہیں ہے، یہی شہید حسن ناصرکا مشن ہیں۔