قطری شہزادے کے خطوط اپنے دفاع کے لیے پیش نہیں کیے نواز شریف
حسن اور حسین نواز سے منسوب کوئی بیان میرےخلاف بطور شواہد پیش نہیں کیا جاسکتا، نوازشریف
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے احتساب عدالت میں پوچھے گئے سوالات کے جواب میں کہا ہے کہ میں نے کبھی بھی قطری شہزادے کے خطوط کسی فورم پر اپنے دفاع کے لیے پیش نہیں کیے۔
اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران نواز شریف نے تیسرے روز بھی عدالت کی جانب سے پوچھے گئے مزید 30 سوالات کے جواب تحریری طور پر جمع کرادیئے۔ العزیزیہ ریفرنس کی سماعت 19 نومبر تک ملتوی کردی گئی ہے ، پیر کے روز بھی نواز شریف اپنا 342 کا بیان جاری رکھیں گے۔
نواز شریف نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ قطری شہزادے کے خطوط میں نے کبھی بھی کسی فورم پر اپنے دفاع کے لیے پیش نہیں کیے، جے آئی ٹی کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ ان خطوط کو محض افسانہ قرار دے۔
نواز شریف نے کہا کہ قطری شہزادے حمد بن جاسم کے خطوط سے ایسا کہیں نہیں لگتا کہ وہ جے آئی ٹی سے تعاون کے لیے تیار نہیں تھے، انہوں نے جےآئی ٹی کو لکھا کہ وہ سپریم کورٹ میں پیش دونوں خطوط کی تصدیق کرتے ہیں ۔ انہوں نے جے آئی ٹی کو سوالنامہ فراہم کرنے کا کہا تھا، ان کی جانب سے یہ ایک معقول درخواست تھی کہ سوالنامہ دیا جائے لیکن جے آئی ٹی نے بیان ریکارڈ کرنےکے لیےغیر ضروری طور پر سخت شرائط رکھیں،جے آئی ٹی کے طریقہ کار سے ایسا لگا کہ وہ قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ ہی کرنا نہیں چاہتی۔
نواز شریف نے اپنے جواب میں کہا کہ العزیزیہ کی ملکیت کا دعویٰ کبھی نہیں کیا، ہمیشہ کہا ہے کہ العزیزیہ اسٹیل ملز کی ملکیت سے کچھ لینا دینا نہیں، العزیزیہ اسٹیل ملز میرے والد نے قائم کی، یہ درست نہیں کہ العزیزیہ اسٹیل ملز حسین نواز نے قائم کی، العزیزیہ اسٹیل ملز کا کاروبار حسین نواز چلاتے تھے۔ میں العزیزیہ اسٹیل ملز کی فروخت یا اس سے متعلق کسی ٹرانزیکشن کا کبھی حصہ نہیں رہا۔ شریک ملزم نے 6 ملین ڈالر میں العزیزیہ کے قیام کا بیان میری موجودگی میں نہیں دیا۔
سابق وزیر اعظم نے جواب نے کہا ہے کہ حسن اور حسین نواز کا بیان جے آئی ٹی میں میری موجودگی میں ریکارڈ نہیں ہوا، دونوں نا تو اس عدالت میں پیش ہوئے اور نا ہی ان کا ٹرائل میرے ساتھ ہورہا ہے، ان سے منسوب کوئی بیان میرے خلاف بطور شواہد پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تفتیش کے دوران کسی بھی شخص کا دیا گیا بیان قابل قبول شہادت نہیں ہوتا۔
اسلام آباد میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران نواز شریف نے تیسرے روز بھی عدالت کی جانب سے پوچھے گئے مزید 30 سوالات کے جواب تحریری طور پر جمع کرادیئے۔ العزیزیہ ریفرنس کی سماعت 19 نومبر تک ملتوی کردی گئی ہے ، پیر کے روز بھی نواز شریف اپنا 342 کا بیان جاری رکھیں گے۔
نواز شریف نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ قطری شہزادے کے خطوط میں نے کبھی بھی کسی فورم پر اپنے دفاع کے لیے پیش نہیں کیے، جے آئی ٹی کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ ان خطوط کو محض افسانہ قرار دے۔
نواز شریف نے کہا کہ قطری شہزادے حمد بن جاسم کے خطوط سے ایسا کہیں نہیں لگتا کہ وہ جے آئی ٹی سے تعاون کے لیے تیار نہیں تھے، انہوں نے جےآئی ٹی کو لکھا کہ وہ سپریم کورٹ میں پیش دونوں خطوط کی تصدیق کرتے ہیں ۔ انہوں نے جے آئی ٹی کو سوالنامہ فراہم کرنے کا کہا تھا، ان کی جانب سے یہ ایک معقول درخواست تھی کہ سوالنامہ دیا جائے لیکن جے آئی ٹی نے بیان ریکارڈ کرنےکے لیےغیر ضروری طور پر سخت شرائط رکھیں،جے آئی ٹی کے طریقہ کار سے ایسا لگا کہ وہ قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ ہی کرنا نہیں چاہتی۔
نواز شریف نے اپنے جواب میں کہا کہ العزیزیہ کی ملکیت کا دعویٰ کبھی نہیں کیا، ہمیشہ کہا ہے کہ العزیزیہ اسٹیل ملز کی ملکیت سے کچھ لینا دینا نہیں، العزیزیہ اسٹیل ملز میرے والد نے قائم کی، یہ درست نہیں کہ العزیزیہ اسٹیل ملز حسین نواز نے قائم کی، العزیزیہ اسٹیل ملز کا کاروبار حسین نواز چلاتے تھے۔ میں العزیزیہ اسٹیل ملز کی فروخت یا اس سے متعلق کسی ٹرانزیکشن کا کبھی حصہ نہیں رہا۔ شریک ملزم نے 6 ملین ڈالر میں العزیزیہ کے قیام کا بیان میری موجودگی میں نہیں دیا۔
سابق وزیر اعظم نے جواب نے کہا ہے کہ حسن اور حسین نواز کا بیان جے آئی ٹی میں میری موجودگی میں ریکارڈ نہیں ہوا، دونوں نا تو اس عدالت میں پیش ہوئے اور نا ہی ان کا ٹرائل میرے ساتھ ہورہا ہے، ان سے منسوب کوئی بیان میرے خلاف بطور شواہد پیش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تفتیش کے دوران کسی بھی شخص کا دیا گیا بیان قابل قبول شہادت نہیں ہوتا۔