سمادھ جھنگر شاہ ستھرا

اب فقط سمادھ موجود ہے، باقی تعمیرات کے کوئی آثار بھی نہیں... جن سب کا تباہ ہوجانا ناقابل فہم ہے

عجب ہے کہ اب فقط سمادھ موجود ہے، باقی تعمیرات کے کوئی آثار بھی نہیں۔ 1992 میں سانحہ بابری مسجد کے باعث یہاں بھی حملہ تو ہوا مگر سب کچھ تباہ ہوجانا ناقابل فہم ہے۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

جھنگر شاہ ستھرا کی سمادھ، شاہی قلعہ لاہور کی بیرونی دیوار سے ملحق ہے۔ گریٹر اقبال پارک کی پارکنگ کے دروازے سے چند قدم پر یہ سمادھ واقع ہے۔ نور احمد چشتی کے بقول، جھنگر شاہ بہرام (برہما) پور ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے جبکہ بعض نے جائے پیدائش لاہور بتائی ہے۔ ان کا اصل نام چندرا مل بتایا جاتا ہے اور انہیں ''ستھرے'' کا لقب ملنے کی مختلف روایات موجود ہیں۔

مثلاً ایک فقیر تیغ شاہ کے گھر ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام چندرا رکھا گیا، چندرا جب پیدا ہوا تو پیدائشی طور پر اس کے ماتھے پر ایک کالا نشان تھا اور منہ میں دانت موجود تھے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ مونچھیں تھیں، یا رنگت سیاہ تھی۔ اس باعث بچے کو منحوس جانا گیا۔ ان باتوں سے تنگ آکر والدین نے بچے کو علاقے کے باہر پھینک دیا۔ وہاں سے ایک سکھ گرو کا گزر ہوا جن کا نام چشتی نے کنہیالال، سر ڈینزل ابسٹن نے گرو ہرراے جبکہ ای ڈی میکلیگن نے گورو ہرگوبند بتایا ہے؛ دیگر مصنفین نے گرو گوبند بھی لکھا ہے۔ بہرحال، ستھرے شاہ کا سن پیدائش، جو 1615عیسوی یا 1625 عیسوی بتایا جاتا، اس کے حوالے سے گورو ہرگوبند ہی درست لگتا ہے۔ خیر، گرو جی نے جب بچے کے رونے کی آواز سنی یا اسے دیکھا تو اسے اٹھوایا تو چیلوں نے کہا یہ کھترا یا کتھرا ہے۔ گرو جی نے کہا یہ کھترا نہیں بلکہ یہ ''ستھرا'' ہے۔ یوں انہیں ''ستھرے'' کا لقب ملا اور اسی سے یہ معروف ہوئے۔ (یہ سب سے معروف روایت ہے جسے چشتی، ندیم ڈار اور تانیا قریشی نے اپنے اپنے مضامین میں جبکہ ہرجیت سنگھ، ای ڈی میکلیگن، ماتا بلجیت کور اور دیگر سکھ مبلغین نے بھی درج کیا ہے۔ علاوہ ازیں کنہیا لال، نقوش لاہور نمبر، ایس ایم ناز و بعض دیگر کے بقول جھنگر شاہ کو یہ لقب ان کی صاف گوئی و بے باکی کے باعث ملا۔ اس ضمن میں نور احمد چشتی نے بھی ایک روایت درج کی ہے)۔



ستھرا نے اپنا بچپن گرو جی کے زیر سایہ گزارا اور ان کی حق پرستی اور فہم و فراست کے بہت سے قصے موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ گرو ہرراے نے جھنگر شاہ کو عالمگیر کے دربار میں ہندوؤں کی زنار شکنی روکنے کےلیے بھیجا۔ عالمگیر اور جھنگر شاہ کی ملاقات سے متعلق بہت سی ناقابل فہم کہانیاں موجود ہیں۔ یہ بھی معروف ہے کہ عالمگیر اور بعد میں رنجیت سنگھ کے حکم سے ستھرے شاہ فرقے کے لوگوں کو بازاروں، دکانوں، بیاہ اورطوائف کے کوٹھوں سے ایک خاص رقم نذرانے کی صورت میں ملتی تھی۔



ستھرے شاہی فرقے کے ماننے والوں میں ہندو، سکھ اور مسلمانوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اس سلسلے میں نور احمد چشتی نے جھنگر شاہ کے مذہب سے متعلق اس کا اپنا یہ بیان درج کیا ہے: ''میں دونوں میں مشترک ہوں۔ مذہب میرا صلح کل۔ ہندو مسلمان کا دعاگو ہوں۔''

مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں اس فرقے کو خاص عروج ملا۔ سر ڈینزل ابٹسن کا بیان ہے: ''یہ اگرچہ سکھ سلسلے سے ہیں، لیکن ان کا اندراج بطور ہندو ہوا... یہ ساری ہندو رسومات ادا کرتے ہیں۔'' میکلیگن کا بیان زیادہ واضح ہے: ''مسلمان اور ہندو، دونوں اس پنتھ میں داخل ہوتے ہیں۔ مسلمان ستھرے ایک ڈنڈا ساتھ رکھتے ہیں جس کے ساتھ لوہے کی چوڑی چھنکاتے رہتے ہیں۔ ہندو ستھرے اپنا فرقہ اداسی بتاتے ہیں۔ یوں تو وحدانیت پرست ہیں مگر ہندو سے بھیک مانگنے کی وجہ سے دیوتاؤں کو بھی پوجتے ہیں۔'' جھنگر شاہ کے بعد اس فرقے کی عادات بدل گئیں اور آہستہ آہستہ یہ فرقہ برائی کی جانب مائل ہوگیا۔ جیسا کہ پنڈت شردھا رام پھلوری نے اپنی کتاب ''سکھاں دے راج دی ویکھا'' میں اور ڈینزل ابسٹن نے بھی ان کی وجہ شہرت جوئے بازی، چوری چکاری، نشے بازی اور بدکاری بتائی ہے۔



(بحوالہ ابسٹن) ٹرمپ کا کہنا ہے ''ان میں کوئی سلسلہ یا باقاعدہ تنظیم نہیں... عوامی سطح پر بدکردار ہیں اور سکھ انہیں اپنے میں سے تسلیم نہیں کرتے۔''

کنہیا لال کی رائے میں: ''(جھنگر شاہ کا) اصلی وطن لاہور تھا۔ آخر اسی جگہ وہ فوت ہوا اور اسی جگہ جلایا گیا جس جگہ اب سمادھ ہے۔'' اس کی آخری رسومات ہندوؤں اور سکھوں نے اپنے اپنے دھرم کے مطابق ادا کرنے کی خواہش کی۔ سمادھ کے ساتھ کبھی بہت سی عمارات تھیں۔ ان کی چیلہ بنانے کی رسومات اور سمادھ کے گرد تعمیرات کے متعلق نور احمد چشتی نے خاصی تفصیل سے لکھا ہے۔ کنہیا لال نے سمادھ کا احوال یوں درج کیا ہے: ''جس جگہ اب سمادھ ہے، احاطہ مکان پختہ بنا ہوا ہے۔ طول میں زیادہ اور عرض میں کم۔ دروازہ مکان کا بجانب شرق ہے۔ جب اس سے اندر جائیں تو صحن میں داخل ہوتے ہیں۔ اس صحن کے جنوب و شمال میں فقراء کے رہنے کےلیے مکانات بنے ہیں اور ایک درخت بڑ کا بہت بڑا سر بفلک کھڑا ہے... جب اس سے آگے بڑھیں تو فرش پختہ اور چاہ آتا ہے۔ اس چاہ کے جنوب کی سمت کو ایک نشست گاہ نہایت مکلف چاہ کے چبوترے کے برابر کرسی دے کر بنی ہوئی ہے... اس بیٹھک میں مہنت کی نشست رہتی ہے۔ چاہ کے شمال کی سمت کو بھی ایک مکلف چونہ گچ نشست گاہ بنائی گئی ہے... اس بیٹھک سے آگے بڑھ کر ایک اور مکلف مکان چونہ گچ بنا ہوا ہے۔ اس میں گرنتھ رکھا رہتا ہے اور اس سلسلے کے فقراء اس کو نہایت شوق سے پڑھتے ہیں۔ اس مکان سے بجانب جنوب دیوار بہ دیوار قلعہ لاہور کے مکان سمادھ جھنگر شاہ ستھرے کا عالیشان پختہ گنبد دار بنا ہواہے۔ دروازہ اس کا بجانب شمال ہے۔ مندر کے اندر کی عمارت منقش چونہ گچ ہے اور دیواروں پر گروؤں کی تصویریں رکھی ہیں۔ چھت قالبوتی ہے اور اس کے اوپر گنبد مدور عالی شان بنا ہے۔ مندر کے وسط میں اصلی سمادھ جھنگر شاہ کی ایک سنگ مرمر کے چبوترے پر ہے۔ یہ چبوترہ نہایت مکلف بنایا گیا ہے۔ سنگ مرمر کے اندر بیل بوٹے عقیق وغیرہ پتھروں کے رنگارنگ بنائے گئے ہیں۔ اس کے اوپر سمادھ چھوٹی سی سنگ مرمر کی نہایت قبول صورت تعمیر ہوئی ہے۔ چبوترے کے چاروں کونوں پر چار ستون سنگین قائم کرکے ایک قبول صورت گنبد ہے، عمدہ بنایا گیا ہے جس سے مکان کی زینت دوبالا ہوگئی ہے۔''




ماضی میں اس سمادھ میں موجود درخت کے باعث قلعے میں داخل ہونا ممکن تھا اس وجہ سے حکامِ وقت نے اس کو گرانے کی بھی کوشش کی۔ نقوش لاہور نمبر، شائع شدہ 1962 میں کنہیا لال کی بیان کردہ عمارات کا ذکر موجود ہے اور ڈاکٹر ایس ایم ناز نے لاہور نامہ، شائع شدہ 1991، میں بھی سمادھ کے ساتھ موجود عمارات کا ذکر کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ سمادھ کے ساتھ مندر میں سکھ یاتری بھی بھارت سے آتے رہے ہیں۔ لیکن عجب ہے کہ اب فقط سمادھ موجود ہے، باقی تعمیرات کے کوئی آثار بھی نہیں۔ 1992 میں سانحہ بابری مسجد کے باعث یہاں بھی حملہ تو ہوا مگر سب کچھ تباہ ہوجانا ناقابل فہم ہے۔ اگر اوپر درج دونوں بیانات کو درست مانا جائے تو عمارات کا غائب ہوجانا عجب ہے۔

2013 میں روزنامہ ڈان میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ حکومت نے سمادھ کی بحالی کا فیصلہ کیا ہے۔ اس خبر کو ہندوستان ٹائمز اور انڈیا ٹوڈے نے بھی شائع کیا۔ 2016 میں یہ منصوبہ مکمل ہوا۔ مجھے سمادھ تلاش کرنے میں بہت مشکل ہوئی بلکہ قلعے کی دیوار کا طواف کرنے کے بعد سمادھ ملی۔ سیکیورٹی پر مامور کسی جوان کو یہ معلوم نہ تھا کہ یہاں کوئی سمادھ بھی ہے۔ سمادھ تو حکومت نے مرمت کردی ہے جو قابل ستائش ہے مگر سمادھ کے آگے گند کے ڈھیر کو صاف کرنا اور معلوماتی بورڈ لگانا بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔ سمادھ کے آس پاس کی جگہ پر پی ایچ اے نے گملوں کا قبرستان بنا رکھا ہے۔ یوں لگتا ہے سمادھ کے ارد گرد کی جگہ باغ سے جدا کوئی کھنڈر ہے۔



سمادھ پر گئے تو حفاظتی جنگلے میں موجود دروازے کو تالا لگا ہوا تھا جسے مجبوراً پھلانگنا پڑا۔ سمادھ کی عمارت چھوٹی سی ہے مگر دیکھنے میں بھلی معلوم ہوتی ہے۔ سمادھ کے داخلی دروازے پر تین عبارات کندہ ہیں جن کا مطلب کچھ یوں ہے:

  1. جو رب کا نام اپنی زبان سے ادا کرتا رہتا ہے، اس کے ہم شکر گزار ہیں۔

  2. دوسری عبارت اپنیشد کا معروف اشلوک ہے، اسکی مختلف شرحیں دیکھیں جن میں سے ایک کا مفہوم یہ ہے: رب کی ذات کامل و اکمل ہے، اور اس کے تخلیق کردہ ہم بھی کامل ہیں، ہماری کاملیت سے رب کی کاملیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ (ہم جزواً بیج کی مانند ایک مکمل درخت نہ ہوتے ہوئے بھی درخت بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں)۔

  3. رات سو کر گنوا دی، دن کھانے پینے میں؛ اپنی ہیرے جیسی اعلی زندگی کوڑھی کی مانند گنوا رہا ہے۔


دروازے کے دائیں جانب ہندی میں بھگت کبیر جی کی وانی درج ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے: ''کبیر اگر کوئی رب کا نام خواب میں بھی لے، تو میں اپنی کھال کے جوتے بناکر اس کو پیش کروں۔ اس کی زبان بہترین ہے جو رب کے نام کی تسبیح کرتا رہتا ہے، اس کا جسم اس بانسری کی مانند ہے جو رب کا نام اس خوش الحانی سے بلند کرے کہ پورا ماحول پاکیزہ ہوجائے۔''

(سنسکرت سے ترجمہ سرحد پار سے روہت بھرداوج صاحب نے کرکے دیا اور بھگت جی کی وانی کا ترجمہ جناب عمران پرویز کی محبتوں کے باعث ممکن ہوا۔ جس کے لیے ان کا بے حد شکر گزار ہوں۔)

وقت کی گرد سے بچ جانے والے اس اثاثے کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ گو کہ محکمہ آثار قدیمہ نے حال ہی میں اسے آنے والی نسلوں کےلیے محفوظ تو کردیا ہے مگر اب بھی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ یہاں سکھ اور ہندو یاتریوں کے علاوہ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو بھی جانے کی اجازت ہونی چاہیے اور حکومت، سیاحوں کےلیے آسانیاں پیدا کرے نہ کہ مشکلات۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story