غیرمسلم پاکستانیوں کاترک وطن۔ ایک قومی المیہ

سندھ اور بلوچستان سے تقریباً ہر سال سیکڑوں ہندو تیرتھ یاترائوں پرجاتے رہے ہیں۔

zahedahina@gmail.com

انگریزی اور سندھی اخباروں کو دعا دیجیے جنہوں نے سندھ سے ہندوستان جانے والے ہندوئوں اور ان کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کا معاملہ اٹھایا۔ اسی کے بعد سندھ کے وزیر اعلیٰ اور وفاقی وزیر داخلہ اور چنددوسرے وزیر یک زبان ہوکر یہ کہنے لگے کہ جانے والے تیرتھ یاترا کو جارہے ہیں جسے غلط رنگ میں پیش کیا جارہا ہے۔چند نے یہ بھی بیان دیا کہ پاکستان میں آباد غیر مسلم پاکستانی چین آرام سے ہیں اور ان کے ساتھ مساوی سلوک ہوتا ہے۔'مساوی سلوک' کی کہانی تو پاکستانی آئین کی ورق گردانی سے کھل جاتی ہے، جس میں واضح طور پر یہ لکھا گیا ہے کہ کوئی بھی غیر مسلم پاکستانی صدر یا وزیر اعظم کے عہدے پر فائز نہیں ہوسکتا۔

سندھ اور بلوچستان سے تقریباً ہر سال سیکڑوں ہندو تیرتھ یاترائوں پرجاتے رہے ہیں۔ ان کے بارے میں کبھی یہ بات نہیں کہی گئی کہ وہ بڑے پیمانے پر ترک وطن کررہے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس مرتبہ تواتر سے یہ بات کیوں کہی جارہی ہے۔ اس کی کوئی وجہ تو ہوگی۔

مشکل یہ ہے کہ اپنے بارے میں ہماری رائے ہمیشہ اس قدر اچھی رہی ہے کہ ہم نے کبھی دوسروں کی مشکلوں کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ متعدد خاندانوں کے ترک وطن کی تردید کرنے والوں نے اسے حسب معمول ''دشمنوں کی سازش'' کہا اور ان خبروں پر غور نہیں کیا جو مٹھی، کھپرو، شکارپور، تھر، سکھر اور سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں سے تعلق رکھتی تھیں اور مسلسل چھپ رہی تھیں۔ ہندو تاجروں کا اغواء برائے تاوان ایک پھلتا پھولتا کاروبار بن چکا ہے جو ہینگ لگے نے پھٹکری رنگ آئے چوکھا، کی مثال ہے۔ ہندو دکانداروں سے ہر مہینے بھتہ وصول کیا جانے لگا۔ حسرت رہی کہ کوئی ہندو لڑکا اسلام کی آفاقیت سے متاثر ہوکر مسلمان ہوجائے اور اس کے ساتھ کسی مسلمان لڑکی کی شادی کی خبر شایع ہو جائے۔

یہاں پر اس ٹیلی ویژن پروگرام کا ذکر محض بد مذاقی ہو گا جس میں شہرت اور ریٹنگ کی طلبگار خاتون میزبان نے ایک ہندو لڑکے کو نہ صرف مسلمان ہوتے دکھایا بلکہ اس میں شامل افراد کو اس کا نام رکھنے کی دعوت بھی دی۔ ہندو لڑکیوں کے اچانک مشرف بہ اسلام ہونے اور کلمہ پڑھتے ہی کسی مسلمان سے شادی کرنے کی خبریں تواتر سے آتی رہی ہیں۔

ان پاکستانی ہندوئوں کی سراسمیگی کا تصور کیجیے جن کی عزت محفوظ رہی، نہ مال اور جان۔ ستیش آنند جیسا نامی گرامی اور عزت دار پروڈیوسر اور ڈائریکٹر جتنی مدت تک اغواء کرنے والوں کے رحم وکرم پر رہا اور جس قدر بھاری تاوان ادا کرکے آزاد ہوا۔ اس کی تفصیل سب ہی جانتے ہیں۔ اس طرح یہ بات کیسے بھلائی جاسکتی ہے کہ وفاقی وزیر رہنے والے اور ذوالفقار علی بھٹو کے گہرے دوست رانا چندر سنگھ جنہوں نے 1965 اور 1971کے پر آشوب دور میں سندھ سے ہندوئوں کی نقل مکانی اور ترک وطن کو روکا تھا، وہ اب سے چند برس پہلے بستر مرگ پر یہ کہتے ہوئے کف افسوس ملتے رہے کہ آج میں اپنی برادری کے ساتھ جو کچھ ہوتے دیکھ رہا ہوں، اس پر مجھے صدمہ ہے کہ میں نے انھیں ترک وطن سے کیوں باز رکھا تھا۔

ہماری نئی نسل کی اکثریت سندھی ہندوئوں کو نادار اور بے آسرا خیال کرتی ہے کاش انھوں نے کراچی میں عامل سندھیوں کی وہ شاندار کوٹھیاں دیکھی ہوتیں جن کی آج بھی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ان کی تجارتی کامیابیوں کا اندازہ لگانے کے لیے سیٹھ نائوں مل کی ہوت چند کی یادداشتیں پڑھیے جن میں سیٹھ نائو مل نے لکھا ہے کہ 1812 تک ان کے بزرگوں کا کاروبار اس قدر بڑھ گیا تھا کہ تقریباً 500 شہروں میں ان کی تجارتی کوٹھیاں تھیں۔ اس زمانے میں بھیانک قحط پڑا اور سندھ کے آس پاس کے علاقوں سے ہزاروں لوگ یہاں آگئے۔اناج کی قلت کا یہ عالم تھا کہ مال و دولت رکھنے والے بھی جو اور جوار جیسے معمولی اناج کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے۔

اس قحط میں بے شمار لوگ مرگئے سیٹھ نائو مل نے لکھا ہے کہ ''میرے بزرگوں سیٹھ دریانومل اور سیٹھ لعلمن داس کے پاس اناج کی کوٹھیاں بھری ہوئی تھیں اور انھوں نے سوچا کہ دان کرنے کا اس سے بہتر موقع نہیں ملے گا۔ انھوں نے اناج کی مفت تقسیم شروع کیا اور ذات پات کی تمیز کیے بغیر ، ہندو ہو یا مسلمان یا کوئی اور جس کو بھی اناج کی ضرورت ہوتی اسے روزانہ فی آدمی سیر بھر باجرا یا چاول کے حساب سے اناج ملتا تھا۔ دان کا کام کوٹھی کے عقبی دروازے پر ہوتا تھا اور صبح سے رات کو دیر تک چلتا تھا۔ بہت سے آسودہ حال لوگ مجبوری کے سبب چہرہ چھپائے آکر خیراتی اناج لیتے تھے۔


سیٹھوں کو پتہ چلا کہ بہت سے معزز خاندانوں کو پیسے دے کر بھی اناج نہیں ملتا اور انھیں دن دہاڑے بلکہ رات کو بھی سیٹھوںکے دان سے فائدہ اٹھانے میں شرم آتی ہے کیونکہ وہ ڈرتے ہیں کہ کوٹھی کے دیوں کی روشنی میں کوئی انھیں پہچان نہ لے۔ اس لیے انھوں نے حکم دیا کہ آیندہ گودام میں رات کو دیے گل کردیے جائیں اور کوئی بھی مرد یا عورت ہاتھ پھیلائے تو اسے سیر بھر اناج دیا جائے۔ اس کے بعد کتنے ہی آسودہ حال خاندانوںنے جنھیں دولت کے بدلے بھی اناج نہیں مل رہا تھا، سیٹھ کی سخاوت کا فائدہ اٹھایا۔ پھر جب میرے بزرگوں کو خبر ملی کہ بہت سے گھروں میں ایسی بیوائیں اور اپاہج رہتے ہیں جن میں باہر نکلنے کی طاقت نہیں توانھوںنے ان کے گھروں میں مہینے کا غذائی سامان پیشگی بھیجنے کا انتظام کیا۔

پیر حسام الدین راشدی جو پاکستانی سیاست، ادب، صحافت سے گہرا تعلق رکھتے تھے انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ''درحقیقت سندھ کو بنانے والے،اسے سجانے سنوارنے والے ہندو ہی تھے۔ انھوں نے دنیا کے کونے کونے سے دولت کما کر سندھ کو مالا مال کیا۔ انھوں نے بڑے بڑے مکان بنائے۔ آج ہم ان مکانوں کی ٹھیک سے دیکھ بھال تک نہیں کر پاتے۔'' آگے چل کر کہتے ہیں '' سندھ کے اصل مالک ہندو تھے۔ تعلیم، ملازمتیں، بیوپار، زمینیں سب انھیں کی تھیں'' انھیں شکایت ہے کہ ہندوئوں نے مسلمانوں کے ساتھ مہربان بڑے بھائی کا سا برتائو نہیں کیا ممکن ہے وہ ٹھیک کہتے ہوں، شاید ہندئوں کو مسلمانوں کے لیے اورزیادہ کام کرنا چاہیے تھا۔

مگر ہندوئوں کے قائم کیے ہوئے اسکول، کالج، اسپتال اور دوسرے ادارے مسلمانوں کے لیے کھلے ہوئے تھے۔ اس کے برعکس مسلمان دولت مند زمینداروں نے کبھی کسی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ نہ ہندوئوں کے لیے اور نہ مسلمانوں کے لیے۔

تقسیم سے پہلے کا سندھی سماج ایک روادار اور وسیع المشرب منظر نامہ پیش کرتا ہے جس کی رنگا رنگ تصویریں ہمیں ''شاہ جو رسالو'' کے صفحوں پر نظر آتی ہیں۔ شاہ لطیف کا یہ 'رسالو' سندھ کے ہر باسی کے لیے محترم ہے اور کیا مسلمان،کیا ہندو دونوں اس کی تکریم کرتے ہیں۔ اس کا آفاقی پیغام اسی طرح سر آنکھوں پر رکھا جاتا ہے جس طرح مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی ۔ یہ مثنوی ہے جس کے صحفۂ اول پر یہ لکھا جاتا ہے کہ 'ہست قرآں درزبان پہلوی'

شاہ کے 'رسالو' میں رواداری کی خوشبو ہے جس سے ان کے کردار سرشار ہیں۔ ان کے اشعار میں مسلمان اورہندوعشق کے ایک ہی دھارے میں بہہ رہے ہیں۔ راجے، مہاراجے، سردار، کسان، ساربان اورمچھیرے ہیں۔ طبقاتی تفریق، عشق کی آگ میں جل جاتی ہے۔ دھرتی کی کشش محل دو محلوں پر بھاری ہے۔ سرکش اور ظالم سردار ہار جاتے ہیں اور سسی، ماروی سر اٹھاکر ان کے جبر کا مقابلہ کرتی ہیں۔ اس کلام میں قبر آباد کرنے والے بھی ہیں اور چتا کی آگ میں جل جانے والیاں بھی، 'شاہ جو رسالو' جسے آج عالمی شہرت حاصل ہے۔

اس کے بارے میں یہ حقیقت کیسے فراموش کی جاسکتی ہے کہ اس کلام کی تدوین اور اس کی اشاعت کا سہرا اس شخص کے سر ہے جس کا نام ڈاکٹر گربخشانی تھا۔ یہ وہ عالم و فاضل اور ادب دوست، فارسی، اردو اور انگریزی شاعری کے حافظ۔ اپنی گرہ سے شاہ کے رسالے کے 3جلدیں چھپوائیں۔ لیکن روپے نہ ہونے کی وجہ سے چوتھی جلد شایع نہ کراسکے۔ ایک سندھی ہندو اپنی پونجی ایک سندھی مسلمان کے کلام پر خرچ کررہا تھا اور مسلمان اس کی جس طرح 'قدر' کررہے تھے اس کا نقشہ پیر علی محمد راشدی نے ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ ''سندھی زبان و ادب پر ان کا اتنا بڑا احسان ہے کہ سندھ کے لوگ اس کا بار کبھی نہیں اتار سکتے''۔ اس حوالے سے مزید گفتگو ہم آیندہ کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔

غور طلب بات یہ ہے کہ ہمارے ہم مذہب بنگالی ہم وطن ہمارے ناروا سلوک سے تنگ آکر ہمیں چھوڑ گئے۔ ہندو مذہب رکھنے والے ہمارے ہم وطنوں کا یہ حق ہے کہ وہ جہاں چاہیں جائیں اور رہیںلیکن اگر وہ ہمارے سلوک اور طرز عمل سے تنگ آکر ترک وطن کرتے ہیں تو یہ ہمارا ایک اور قومی المیہ ثابت ہوگا۔

Recommended Stories

Load Next Story