پہلی جنگ عظیم کی یاد میں ایک اور جنگ
ٹرمپ اپنی قوم پرست پالیسیوں سے گلوبل ازم کے سنہرے خواب کو ابدی نیند سلانے کی کوشش کررہے ہیں۔
برسات کی نرم پھوار میں بھیگی فرانس کی دل فریب سڑکوں کو دیکھ کر بھلاکیسے یقین آئے کہ سوسال قبل انھی سڑکوں سے انسانی خون کے بھبھکے اٹھ رہے تھے۔ پہلی جنگِ عظیم میں توپوں کی گھن گرج اور موت کی ہیبت پیرس کے بازاروں کی ساری رونق کسی جونک کی طرح چوس چکی تھی۔
اب سے ٹھیک سو سال قبل جنگ بندی کے ایک معاہدے کے نتیجے میں یورپی زمین کا کلیجہ ٹھنڈا کیا گیا اور اس تاریخی لمحے کے سوسال پورے ہونے پر فرانس میں گزشتہ ہفتے ایک بہت بڑی تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں ڈونلڈ ٹرمپ ، ولادی میر پیوٹن اور انجیلا مرکل سمیت تقریباً ستر ممالک کے نمایندے شریک ہوئے۔ اس تقریب کے ہیرو فرانس کے میزبان صدر میکرون تھے۔
انھوں نے دنیا کی موجودہ سپر ڈوپر پاورزکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جو خطاب کیا اس کو ایک دنیا نے سراہا ۔ مختصراً میکرون نے یہ کہا کہ وہ محب وطن ہیں لیکن قوم پرست نہیں۔ قوم پرستی، حب الوطنی کی مکمل ضد ہے، یہ منفی جذبہ اخلاقی اقدار کے منافی ہے اور اس سے دوسروں کو صرف نقصان پہنچتا ہے۔
میکرون کی اس تقریرکو ٹرمپ نے کچھ زیادہ ہی دل پر لے لیا۔ لینا بھی چاہیے تھا کیونکہ اب تو وہ کھل کر خود کو قوم پرست کہنے لگے ہیں۔ وہ اسی سفاک جذبے کا شکار ہیں جس نے دنیا کا دامن تباہ کن جنگوں سے آلودہ کر رکھا ہے۔
ایئرپیس کانوں میں لگائے ٹرمپ نے میکرون کی چبھتی ہوئی تقریر پتھریلے تاثرات کے ساتھ سنی اور بنا کسی رد عمل کے امریکا لوٹ گئے، لیکن اپنے دیس میں پاؤں رکھنے کی دیر تھی کہ امریکا کی پُرزور ہوائیں ان کی خاموشی کا قفل توڑ بیٹھیں ، مزاج کا ازلی تنتنا لوٹ آیا، انھوں نے ٹوئٹرکی طرف دوڑ لگادی اور فرانسیسی صدر پر جوابی حملہ کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ میکرون کو فرانس میں بہت کم حمایت حاصل ہے اور وہاں بیروزگاری کی شرح بھی بہت زیادہ ہے، اسی باعث وہ سیاسی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اور لوگوں کی توجہ کا دھارا دوسری جانب موڑنا چاہتے ہیں، جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ فرانس سے زیادہ قوم پرست افراد دنیا میں کہیں نہیں۔
میکرون کی تنقید اور ٹرمپ کی جوابی تنقید نے کم ازکم یہ اچھی طرح باور کروا دیا ہے کہ امریکا اور فرانس کی دوستی فلم کا اب دی اینڈ ہو رہا ہے۔ ویسے تو فرانس کی سرزمین پر قدم رکھنے سے پہلے ہی ٹرمپ کا موڈ آف ہوچکا تھا، جس کی وجہ تقریب سے چند روز قبل میکرون کا ایک انٹرویو بنا، جس میں انھوں نے کہا کہ یورپ کی سرحدوں پر مطلق العنان حکومتوں کا ظہور ہورہا ہے، جو بہت مسلح ہیں اور سائبر حملوں کے ذریعے یورپ کی جمہوری اقدار خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ لہٰذا ہمیں چین اور روس کے ساتھ خود کو امریکا سے بھی بچانا ہوگا۔
اسی انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ اب بیرونی خطرے سے نمٹنے اور اپنے دفاع کے لیے یورپ کو ایک علیحدہ فوج بنانے کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ نے اس بیان کو ہتک آمیز قرار دیا اور ان کا مزاج ایسا برہم ہوا کہ کسی آنکھ سے ٹرمپی زہریلے تاثرات چھپ نہ سکے۔
ابھی ٹرمپ اسی توہین کے احساس میں گھرے ہوئے تھے کہ ان کی دوسری بے عزتی میکرون نے قوم پرستی کے خلاف تقریرکرکے کر ڈالی، جو ٹرمپ کے فلسفہ حکومت پر زبردست حملہ تھا، کیونکہ وہ مڈ ٹرم الیکشن میں بھی علی الاعلان خود کو قوم پرست قرار دے چکے ہیں۔ یوں چورکی داڑھی میں تنکا کے مترادف ان کو میکرون کی تقریر ذاتی حملے سے زیادہ کچھ نہ لگی ۔گویا پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے کی سو سالہ تقریب دنیا کو کوئی مثبت پیغام تو نہ دے سکی، لیکن بدقسمتی سے اختلافات کی خلیج کچھ اور وسیع ہوئی اور زبانی کلامی ایک اور نئی جنگ چھڑ گئی۔
تعصب کی عینک ایک طرف دھرکر جائزہ لیں تو فرانس کے صدر میکرون کی تقریرکا ایک ایک لفظ حقیقت پر مبنی تھا؟ قوم پرستی کے صرف اور صرف منفی اثرات میں بھلا اب کس شک وشبہ کی گنجائش ہے؟ مگر ساتھ ہی دنیا کی سیاست کے بدلتے ہوئے رنگوں کو دیکھ کر یہ ماننا پڑے گا کہ قوم پرستی کا فرسودہ نظریہ اپنی آب وتاب کھونے کے باوجود آج بھی زندہ ہے، جس نے ایک بد روح کی طرح اب بھی کتنے ہی دماغوں میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ امریکا اور یورپ کی ہی بات کیوں کریں خود ہمارے خطے میں بھی بعض ممالک اسی جذبۂ قومیت کی ایسی سخت گرفت میں ہیں کہ انھیں اپنے سامنے سب کیڑے مکوڑے لگتے ہیں۔
بین الاقوامی معاملات پر تھوڑی سی بھی نظر رکھنے والا فرد بہ خوبی اس بات کا ادراک کرسکتا ہے کہ اس وقت دنیا میں کم وبیش وہی سیاسی حالات ہیں جو پہلے بھی بڑی جنگوں کا باعث بن چکے ہیں۔ اس پیچیدہ ماحول میں پہلی جنگ عظیم کی یاد میں تقریب منعقد کرنا اور مرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہی کافی نہیں تھا، بلکہ آپس کے اختلافات بھول کر دوستی کا ہاتھ بھی بڑھانا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہ ہوسکا اور یہ تاریخی موقع بھی سطحی رویوں کی تیز لہروں میں ڈبو دیا گیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ناراضی کی ٹھوس وجہ کوئی بنتی تو نہیں کیونکہ قوم پرستی کے بت کی پوجا وہ منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد سے ہی کر رہے ہیں۔ امریکا فرسٹ کا ٹرمپی نعرہ اسی جذبے کا عکاس تو ہے۔ حالیہ سال کی ہی بات کرلیں تو امریکی زمین پر بننے والے ''ٹینڈر ایج کیمپوں'' کا احوال تو جذبۂ قومیت کی بھیانک تاریخ میں جِلی حرفوں سے لکھا جائے گا، جہاں غیرقانونی تارکین وطن سے نمٹنے کی پالیسی کے تحت ننھے ننھے بچے والدین سے جدا کر کے رکھے گئے۔ ان کیمپوں میں11786بچوں کو ڈالا گیا اور ان کا حال معلوم کرنے تک کی اجازت میڈیا کو نہ دی گئی۔
جدا ہوتے ہوئے بچوں کی اپنے والدین کے پیروں سے لپٹی، روتی بلکتی تصاویر قوم پرست ٹرمپ سے سوال کررہی تھیں کہ آخر ان کا قصورکیا ہے؟ لیکن ٹرمپ تو ''امریکا سب سے پہلے'' کی دُھن میں صرف غیرقانونی ہی نہیں بلکہ قانونی امیگریشن بھی بندکرنے میں مصروف ہیں۔ ذرایع ابلاغ کی آزادی پر ٹرمپ کی سخت تنقید اور سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈالنے کی خواہش کا اظہار ایک قوم پرست رہنما کی سوچ نہیں تو اورکیا ہے؟ اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل میک فال کا کہنا ہے کہ امریکی صدرکو قوم پرستی کے لفظ کی تاریخ کا علم بھی ہے یا نہیں؟ یا پھر وہ جان بوجھ کر اس تصورکے ممکنہ منفی اثرات کو نظرانداز کر رہے ہیں؟
رواں سال مئی میں امریکا میں قوم پرستی کے حق میں مظاہرے بھی ہوئے، جنہوں نے امن پسند ریاست ورجینیا کی خاک کو اس منفی نظریے سے آلودہ کردیا۔ قوم پرست سفید فاموں نے جلوس نکالے، ٹرمپ کے حق میں نعرے بھی لگائے۔ ان ریلیوں میں جو جھڑپیں ہوئیں اس میں کئی لوگ جان سے توگئے لیکن جذبۂ قومیت اور زندہ ہوا۔ یہ مظاہرے نیونازی اورگنجے سروں والے سفید فام قوم پرستوں کی طرف سے کیے گئے۔ ان ریلیوں کا عنوان تھا '' امریکا واپس لو۔'' بین السطور مطالبہ یہی تھا کہ امریکا سے سفید فاموں کے سوا باقی سب کو نکال پھینکا جائے۔
ٹرمپ اپنی قوم پرست پالیسیوں سے گلوبل ازم کے سنہرے خواب کو ابدی نیند سلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسی جنون میں انھوں نے امریکا کو بے شمار بین الاقوامی معاہدوں جیسے پیرس معاہدہ، ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل، ایرانی نیوکلیئر ڈیل اور دیگر بے شمار معاہدوں سے علیحدہ کرلیا، جس کی وجہ سے دنیا میں سیاسی بے چینی بڑھی اور وقت نہ چاہتے ہوئے بھی کروٹیں لینے پر مجبور ہوا۔
لیکن قوم پرستی کا الزام صرف ٹرمپ پر لگانا ان کے ساتھ زیادتی ہے، اس منفی جذبے کی ترویج میں روس کے پیوٹن، چین کے ژی جن پنگ، انڈیا کے نریندر مودی، اسرائیل کے نیتن یاہو، ہنگری کے وکٹر اوربان سمیت بہت سارے نام شریکِ جرم ہیں ۔ نئی صدی کے نئے تقاضوں سے صرفِ نظر کرکے پرانے اور زمین کو خون میں نہلا دینے والے نظریوں کا طوق گلے میں ڈالنا ایسا سنگین انسانی جرم ہے، جس کے لیے آنے والی کئی نسلیں ان مجرموں کو معاف نہیں کرسکیں گی۔
اب سے ٹھیک سو سال قبل جنگ بندی کے ایک معاہدے کے نتیجے میں یورپی زمین کا کلیجہ ٹھنڈا کیا گیا اور اس تاریخی لمحے کے سوسال پورے ہونے پر فرانس میں گزشتہ ہفتے ایک بہت بڑی تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں ڈونلڈ ٹرمپ ، ولادی میر پیوٹن اور انجیلا مرکل سمیت تقریباً ستر ممالک کے نمایندے شریک ہوئے۔ اس تقریب کے ہیرو فرانس کے میزبان صدر میکرون تھے۔
انھوں نے دنیا کی موجودہ سپر ڈوپر پاورزکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جو خطاب کیا اس کو ایک دنیا نے سراہا ۔ مختصراً میکرون نے یہ کہا کہ وہ محب وطن ہیں لیکن قوم پرست نہیں۔ قوم پرستی، حب الوطنی کی مکمل ضد ہے، یہ منفی جذبہ اخلاقی اقدار کے منافی ہے اور اس سے دوسروں کو صرف نقصان پہنچتا ہے۔
میکرون کی اس تقریرکو ٹرمپ نے کچھ زیادہ ہی دل پر لے لیا۔ لینا بھی چاہیے تھا کیونکہ اب تو وہ کھل کر خود کو قوم پرست کہنے لگے ہیں۔ وہ اسی سفاک جذبے کا شکار ہیں جس نے دنیا کا دامن تباہ کن جنگوں سے آلودہ کر رکھا ہے۔
ایئرپیس کانوں میں لگائے ٹرمپ نے میکرون کی چبھتی ہوئی تقریر پتھریلے تاثرات کے ساتھ سنی اور بنا کسی رد عمل کے امریکا لوٹ گئے، لیکن اپنے دیس میں پاؤں رکھنے کی دیر تھی کہ امریکا کی پُرزور ہوائیں ان کی خاموشی کا قفل توڑ بیٹھیں ، مزاج کا ازلی تنتنا لوٹ آیا، انھوں نے ٹوئٹرکی طرف دوڑ لگادی اور فرانسیسی صدر پر جوابی حملہ کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ میکرون کو فرانس میں بہت کم حمایت حاصل ہے اور وہاں بیروزگاری کی شرح بھی بہت زیادہ ہے، اسی باعث وہ سیاسی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اور لوگوں کی توجہ کا دھارا دوسری جانب موڑنا چاہتے ہیں، جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ فرانس سے زیادہ قوم پرست افراد دنیا میں کہیں نہیں۔
میکرون کی تنقید اور ٹرمپ کی جوابی تنقید نے کم ازکم یہ اچھی طرح باور کروا دیا ہے کہ امریکا اور فرانس کی دوستی فلم کا اب دی اینڈ ہو رہا ہے۔ ویسے تو فرانس کی سرزمین پر قدم رکھنے سے پہلے ہی ٹرمپ کا موڈ آف ہوچکا تھا، جس کی وجہ تقریب سے چند روز قبل میکرون کا ایک انٹرویو بنا، جس میں انھوں نے کہا کہ یورپ کی سرحدوں پر مطلق العنان حکومتوں کا ظہور ہورہا ہے، جو بہت مسلح ہیں اور سائبر حملوں کے ذریعے یورپ کی جمہوری اقدار خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ لہٰذا ہمیں چین اور روس کے ساتھ خود کو امریکا سے بھی بچانا ہوگا۔
اسی انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ اب بیرونی خطرے سے نمٹنے اور اپنے دفاع کے لیے یورپ کو ایک علیحدہ فوج بنانے کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ نے اس بیان کو ہتک آمیز قرار دیا اور ان کا مزاج ایسا برہم ہوا کہ کسی آنکھ سے ٹرمپی زہریلے تاثرات چھپ نہ سکے۔
ابھی ٹرمپ اسی توہین کے احساس میں گھرے ہوئے تھے کہ ان کی دوسری بے عزتی میکرون نے قوم پرستی کے خلاف تقریرکرکے کر ڈالی، جو ٹرمپ کے فلسفہ حکومت پر زبردست حملہ تھا، کیونکہ وہ مڈ ٹرم الیکشن میں بھی علی الاعلان خود کو قوم پرست قرار دے چکے ہیں۔ یوں چورکی داڑھی میں تنکا کے مترادف ان کو میکرون کی تقریر ذاتی حملے سے زیادہ کچھ نہ لگی ۔گویا پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے کی سو سالہ تقریب دنیا کو کوئی مثبت پیغام تو نہ دے سکی، لیکن بدقسمتی سے اختلافات کی خلیج کچھ اور وسیع ہوئی اور زبانی کلامی ایک اور نئی جنگ چھڑ گئی۔
تعصب کی عینک ایک طرف دھرکر جائزہ لیں تو فرانس کے صدر میکرون کی تقریرکا ایک ایک لفظ حقیقت پر مبنی تھا؟ قوم پرستی کے صرف اور صرف منفی اثرات میں بھلا اب کس شک وشبہ کی گنجائش ہے؟ مگر ساتھ ہی دنیا کی سیاست کے بدلتے ہوئے رنگوں کو دیکھ کر یہ ماننا پڑے گا کہ قوم پرستی کا فرسودہ نظریہ اپنی آب وتاب کھونے کے باوجود آج بھی زندہ ہے، جس نے ایک بد روح کی طرح اب بھی کتنے ہی دماغوں میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ امریکا اور یورپ کی ہی بات کیوں کریں خود ہمارے خطے میں بھی بعض ممالک اسی جذبۂ قومیت کی ایسی سخت گرفت میں ہیں کہ انھیں اپنے سامنے سب کیڑے مکوڑے لگتے ہیں۔
بین الاقوامی معاملات پر تھوڑی سی بھی نظر رکھنے والا فرد بہ خوبی اس بات کا ادراک کرسکتا ہے کہ اس وقت دنیا میں کم وبیش وہی سیاسی حالات ہیں جو پہلے بھی بڑی جنگوں کا باعث بن چکے ہیں۔ اس پیچیدہ ماحول میں پہلی جنگ عظیم کی یاد میں تقریب منعقد کرنا اور مرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہی کافی نہیں تھا، بلکہ آپس کے اختلافات بھول کر دوستی کا ہاتھ بھی بڑھانا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہ ہوسکا اور یہ تاریخی موقع بھی سطحی رویوں کی تیز لہروں میں ڈبو دیا گیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ناراضی کی ٹھوس وجہ کوئی بنتی تو نہیں کیونکہ قوم پرستی کے بت کی پوجا وہ منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد سے ہی کر رہے ہیں۔ امریکا فرسٹ کا ٹرمپی نعرہ اسی جذبے کا عکاس تو ہے۔ حالیہ سال کی ہی بات کرلیں تو امریکی زمین پر بننے والے ''ٹینڈر ایج کیمپوں'' کا احوال تو جذبۂ قومیت کی بھیانک تاریخ میں جِلی حرفوں سے لکھا جائے گا، جہاں غیرقانونی تارکین وطن سے نمٹنے کی پالیسی کے تحت ننھے ننھے بچے والدین سے جدا کر کے رکھے گئے۔ ان کیمپوں میں11786بچوں کو ڈالا گیا اور ان کا حال معلوم کرنے تک کی اجازت میڈیا کو نہ دی گئی۔
جدا ہوتے ہوئے بچوں کی اپنے والدین کے پیروں سے لپٹی، روتی بلکتی تصاویر قوم پرست ٹرمپ سے سوال کررہی تھیں کہ آخر ان کا قصورکیا ہے؟ لیکن ٹرمپ تو ''امریکا سب سے پہلے'' کی دُھن میں صرف غیرقانونی ہی نہیں بلکہ قانونی امیگریشن بھی بندکرنے میں مصروف ہیں۔ ذرایع ابلاغ کی آزادی پر ٹرمپ کی سخت تنقید اور سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈالنے کی خواہش کا اظہار ایک قوم پرست رہنما کی سوچ نہیں تو اورکیا ہے؟ اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل میک فال کا کہنا ہے کہ امریکی صدرکو قوم پرستی کے لفظ کی تاریخ کا علم بھی ہے یا نہیں؟ یا پھر وہ جان بوجھ کر اس تصورکے ممکنہ منفی اثرات کو نظرانداز کر رہے ہیں؟
رواں سال مئی میں امریکا میں قوم پرستی کے حق میں مظاہرے بھی ہوئے، جنہوں نے امن پسند ریاست ورجینیا کی خاک کو اس منفی نظریے سے آلودہ کردیا۔ قوم پرست سفید فاموں نے جلوس نکالے، ٹرمپ کے حق میں نعرے بھی لگائے۔ ان ریلیوں میں جو جھڑپیں ہوئیں اس میں کئی لوگ جان سے توگئے لیکن جذبۂ قومیت اور زندہ ہوا۔ یہ مظاہرے نیونازی اورگنجے سروں والے سفید فام قوم پرستوں کی طرف سے کیے گئے۔ ان ریلیوں کا عنوان تھا '' امریکا واپس لو۔'' بین السطور مطالبہ یہی تھا کہ امریکا سے سفید فاموں کے سوا باقی سب کو نکال پھینکا جائے۔
ٹرمپ اپنی قوم پرست پالیسیوں سے گلوبل ازم کے سنہرے خواب کو ابدی نیند سلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسی جنون میں انھوں نے امریکا کو بے شمار بین الاقوامی معاہدوں جیسے پیرس معاہدہ، ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل، ایرانی نیوکلیئر ڈیل اور دیگر بے شمار معاہدوں سے علیحدہ کرلیا، جس کی وجہ سے دنیا میں سیاسی بے چینی بڑھی اور وقت نہ چاہتے ہوئے بھی کروٹیں لینے پر مجبور ہوا۔
لیکن قوم پرستی کا الزام صرف ٹرمپ پر لگانا ان کے ساتھ زیادتی ہے، اس منفی جذبے کی ترویج میں روس کے پیوٹن، چین کے ژی جن پنگ، انڈیا کے نریندر مودی، اسرائیل کے نیتن یاہو، ہنگری کے وکٹر اوربان سمیت بہت سارے نام شریکِ جرم ہیں ۔ نئی صدی کے نئے تقاضوں سے صرفِ نظر کرکے پرانے اور زمین کو خون میں نہلا دینے والے نظریوں کا طوق گلے میں ڈالنا ایسا سنگین انسانی جرم ہے، جس کے لیے آنے والی کئی نسلیں ان مجرموں کو معاف نہیں کرسکیں گی۔