’’عمران خان کی سیاست‘‘

سیاست میں اس تاثر کی بہت اہمیت ہوتی ہے کہ سیاسی لیڈر کو خود پر اور اپنی ٹیم پر کتنا اعتماد ہے

شاہ زیب خانزادہ

اگر سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے ابھی تک نہیں سیکھا تو اب سیکھ لیں اور جان لیں کہ سیاست میں انتہائی پوزیشن نہیں لی جاتی اور آزاد میڈیا کے دور میں تو بالکل نہیںکیونکہ عوام کے جذبات بھڑکانے کے لیے میڈیا پر آکر بلند بانگ نعرے لگا کر مخالف کے خلاف انتہائی پوزیشن تو لینا آسان ہے مگر اس سے پیچھے ہٹنا مشکل ہے۔مشکل اس لیے کہ پیچھے ہٹنے کے بعد جب میڈیا وہی نعرے بار بار دکھاتا ہے تو عوام کو یہ بھر پور احساس ہوتا ہے کہ سیاستدان صرف انھیں جذباتی ہی نہیں کرتے بلکہ ان کے جذبات سے کھیلتے بھی ہیں۔

عمران خان کی مثال لیجیے۔ ان کا مختصر سیاسی کیریئر انتہائی پوزیشنز لینے اور ان سے پیچھے ہٹنے کی ایک مثال بن چکا ہے۔ انتہائی پوزیشنز اگر لے لی جائیں اور ان سے پیچھے ہٹا جائے تو یہ سیاسی جماعتیں کسی واضح مجبوری کے تحت کرتی ہیں مگر تحریک انصاف ایک ایسی انوکھی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے جس کی کبھی پوزیشن لینے اور پھر پیچھے ہٹنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔

عمران خان اسٹیٹس کو توڑنے اور تبدیلی لانے کا نعرہ لگاکر سیاسی میدان میں کودے مگر ایسا لگتا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی نظام اور ملکی حالات میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی مگر خود عمران خان میں تبدیلیاں آتی جارہی ہیں۔ اسٹیٹس کوکے خلاف نعرے لگانے والے عمران خان خود اسٹیٹس کو قائم رکھنے والی قوتوں کے جال میں پھنستے جارہے ہیں۔ سب سے تازہ مثال تو خان صاحب کی طرف سے شیخ رشید کے جلسے میں شرکت کی ہے۔ خود پارٹی کے لوگ ابھی تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ آخر خان صاحب نے ایسا کیوں کیا ۔

ٹی وی ٹاک شوز میں خان صاحب کے اس کارنامے کا دفاع کرنا ان کے لیے وبال جان بن چکا ہے۔ جیسے ہی تحریک انصاف کا کوئی رہنما تبدیلی کی بات کرتا ہے تو مخالف شیخ رشید صاحب کے جلسے کو بنیاد بناکر طعنہ دے دیتا ہے جس سے تحریک انصاف کے رہنما کے پاس آئیں بائیں شائیں یا لاجواب ہونے کے سواکوئی راستہ نہیں رہ جاتا۔ پتہ نہیں کچھ عرصہ پہلے پنڈی ہی میں ایک شاندار جلسہ کرنے کے بعد ایک ناکام جلسے میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرکے خان صاحب خود کیا سوچ رہے ہیں۔ خان صاحب کی اس ملک کے لیے فلاحی خدمات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا مگر تحریک انصاف قطعی طور پر ایک فلاحی ادارہ نہیں۔

یہ ایک سیاسی جماعت ہے اور سیاسی جماعتیں اقتدار کی سیاست کرتی ہیں۔ وہ جو دعویٰ وہ کرتی ہیں وہ اقتدار میں آکر ہی ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں فلاحی اداروں کے برعکس اپنے مفاد کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرتی ہیں۔ یہ فیصلے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ مگر تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ کے سیاسی اتحاد میں بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ عمران خان اور شیخ رشد احمد کے سیاسی اتحاد میں یہ ناچیز یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کس اصول کو مدنظر رکھا گیا۔

کچھ لو اور کچھ دو یا پھر مشترکہ سیاسی فائدے کے اصول کی بنیاد پر شیخ رشید احمد کے جلسے سے پہلے لال حویلی جاکر اور پھر جلسہ گاہ جاکر خان صاحب نے تحریک انصاف کے لیے کونسا سیاسی کارنامہ سرانجام دیا۔ کیا شیخ رشید احمد کے جلسے میں شرکت کرکے خان صاحب اسٹیٹس کو کے خلاف زیادہ بڑی طاقت بن گئے؟ کیا وہ بھر پور انداز میں خود کو واحد تبدیلی کا چیمپئن کہہ سکتے ہیں؟ کیا راولپنڈی کے عوام جنہوں نے چند ہفتے پہلے ہی عمران خان کے تبدیلی کے نعرے پر لبیک کہہ کر ان کے جلسے میں بھر پور شرکت کی، وہ مطمئن اور خوش ہوں گے کہ عمران خان نے کچھ ہی دن میں انھیں شیخ رشید احمد کے ساتھ اتحاد کا تحفہ دیا ہے؟


کیا یہ ممکن ہوسکے گا کہ تحریک انصاف NA55 کی نشست پر شیخ رشید احمد کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے انھیں جتوادے اور شیخ رشید احمد NA56 میں تحریک انصاف کے ساتھ تعاون کرکے ن لیگ کے امیدوار کو جو 2008 کے انتخابات میں حنیف عباسی تھے شکست دیدے؟ کیا واقعتاً شیخ رشید احمد صاحب اپنے اس دعوے کو کہ وہ عمران خان کو ایک نہیں پچیس سیٹس دیں گے عملی جامہ پہنا سکیں گے؟ بدقسمتی سے ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں نظر آتا ہے۔ کہیں سے کوئی صورت ایسی نظر نہیں آتی کہ جس سے یہ واضح ہوسکے کہ عمران خان اور شیخ رشید کے درمیان ہونے والا معاہدہ ایک اچھی سیاسی ڈیل ہے جس میں کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں سیاسی جماعتوں کو بھر پور فائدہ پہنچنے کی توقع ہے۔

شیخ رشید احمد ایک سیاستدان ہیں اور انھوں نے اپنی عقل اور سیاسی تجربے کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے ایک بہترین ڈیل کی ہے۔ اور اس ڈیل کا شیخ رشید احمد کی عوامی مسلم لیگ کو سراسر فائدہ اور عمران خان کی تحریک انصاف کو سراسر نقصان ہوتا نظر آتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ جنرل پاشا کی ریٹائرمنٹ کے بعد بہت سے شاندار جلسے کرکے تحریک انصاف نے اس الزام کو غلط ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کی کہ ان کے جلسوں اور سیاسی ترقی کے پیچھے ایجنسیوں کا کوئی کردار ہے مگر اس اتحاد سے اس تاثر کو پھر تقویت ملی ہے۔

عمران خان کیونکہ میڈیا پر انتہائی پویشنز لیتے رہے ہیں، اس لیے شیخ رشید احمد کے جلسے میں شرکت کا خمیازہ بھی انھیں بھگتنا پڑا۔ شیخ رشید احمد جیسا سیاستدان کبھی نہ بننے کی دعا کرنا، شیخ رشید کو نازیبا لفظ سے مخاطب کرکے یہ کہنا کہ وہ تو یونین کونسل کا الیکشن بھی نہیں جیت سکتے اور پھر شیخ رشید کا تحریک انصاف کو ایک تانگہ پارٹی کہنا، یہ وہ باتیں ہیں جو میڈیا نے دکھائیں بلکہ بار بار دکھائیں۔ ایک زمانے میں خان صاحب یہ فرماتے تھے کہ وہ ان لوگوں کو ساتھ نہیں ملائیں گے جو روایتی خاندانی سیاست کرکے اسٹیٹس کو کا سہارا بنے رہے مگر 30 اکتوبر کے جلسے کے بعد خان صاحب نے اپنے دروازے ہر روایتی خاندانی سیاستدان کے لیے کھول دیے۔ میڈیا نے اس وقت بھی خان صاحب کے دعوے بار بار عوام کو دکھائے۔

ایک زمانہ تھا عمران خان متحدہ قومی موومنٹ کو ایک دہشتگرد جماعت ثابت کرنے پر بضد تھے اور اس کے لیے اسکارٹ لینڈ یارڈ تک گئے مگر پھر جب رویہ نرم ہوا اور گذشتہ برس پچیس دسمبر کو کراچی کے جلسے میں ایم کیو ایم کا ذکر تک نہ کیا تو پھر خان صاحب کے ماضی کے دعوے ہدف تنقید بنے۔ یا تو اس آزاد میڈیا کے دور میں عمران خان ایسی انتہائی پوزیشن نہ لیا کریں یا پھر ان سے اس طرح پیچھے نہ ہٹا کریں کہ ایسے ہدف تنقید بنیں۔

سیاست میں اس تاثر کی بہت اہمیت ہوتی ہے کہ سیاسی لیڈر کو خود پر اور اپنی ٹیم پر کتنا اعتماد ہے کیونکہ یہی وہ اعتماد ہے جو عوام کو کسی بھی سیاسی لیڈر کی باتوں اور دعوئوں پر یقین کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ 30 اکتوبر 2011کے لاہور کے شاندار جلسے کے بعد عمران خان ایک ایسے سیاسی لیڈر کے طور پر سامنے آئے جنھیں خود پر اور اپنی نوجوانوں کی ٹیم پر بھر پور اعتماد ہے۔ جنھیں روایتی سیاستدانوں کی کوئی ضرورت نہیں اور لاہور کا تاریخی جلسہ ملک میں تبدیلی کی ایسی لہر لائے گا جس میں عمران خان اپنی نوجوانوں کی ٹیم کے ساتھ بڑی سے بڑی سیاست جماعت اور بڑے بڑے روایتی سیاسی خاندانوں کی وکٹیں اکھاڑ دیں گے۔

مگر انھی روایتی سیاستدانوں کے لیے اپنے دروازے کھول کر اور انھیں اپنے ساتھ ملا کر عمران خان نے یہ تاثر دیا کہ انھیں خود پر اور اپنی نوجوانوں کی ٹیم پر اعتماد ہی نہیں۔ پھر کراچی میں شاندار جلسہ کیا مگر کراچی میں جس اسٹیٹس کو کو چیلنج کرتے رہے ، اس کے بارے میں کچھ نہ کہا اور آج تحریک انصاف کراچی بلکہ سندھ میں اسی جگہ کھڑی ہے جہاں 25 دسمبر 2011 کے جلسے سے پہلے تھی۔ الیکشن سر پر ہیں اور اگر عمران خان اسی طرح سیاسی غلطیاں کرتے رہے تو ان کی مخالف جماعتوں کو تحریک انصاف کے خلاف زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ عوام کا اعتماد اور بھروسہ حاصل کرنے کے لیے خان صاحب کو اپنی ہر سیاسی حکمت عملی سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ انھیں خود پر، اپنے تبدیلی کے نعرے پر اور اپنی نوجوانوں کی ٹیم پر بھرپور بھروسہ ہے۔

Recommended Stories

Load Next Story