انسان عورتمرد
ضیاء الحق کے دور میں منشیات اور کلاشنکوف کلچر عام ہوا۔
CHARSADDA:
انسان اکیسویں صدی میں داخل ہو چکا ہے لیکن آج بھی عورت کو خود کو انسان منوانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ آج بھی اسے یہ نعرہ لگانا پڑ رہا ہے کہ ''عورتوں کے حقوق انسانی حقوق ہیں۔'' جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، ہماری عورتوں کو شروع سے ہی متضاد رویوں کا سامنا رہا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے ہی علامہ اقبال، شبلی نعمانی اور دیگر مسلم زعما سے عطیہ فیضی جیسی خواتین اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کا لوہا منوا چکی تھیں۔ پھر رشید جہاں تھیں جن کی کہانی ''انگارے'' کے نام سے شایع ہونے والے افسانوی مجموعے میں شامل تھی۔ ان افسانوں نے برصغیر کے قدامت پسندوں کو ہلا کے رکھ دیا تھا اور ترقی پسندی کی لہر نے نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ پھر عصمت چغتائی اور ان کے ساتھ قرۃ العین حیدر نے مردوں کے اس معاشرے میں اپنے آپ کو منوایا۔
پاکستان کی تحریک نے زور پکڑا تو بہت سی خواتین کے نام سامنے آئے جن میں شائستہ اکرام اﷲ، بیگم جہاں آرا شاہ نواز، سلمیٰ تصدق حسین، تزئین فریدی اور دیگر بہت سی خواتین شامل تھیں جو فاطمہ جناح اور رعنا لیاقت علی خاں کی سرکردگی میں پاکستان کے قیام اور پھر اس کی ترقی کے لیے کوشاں رہیں۔ پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے ہر موقع پر فاطمہ جناح کو ساتھ رکھ کر واضح طور پر یہ پیغام دے دیا تھا کہ پاکستان میں مردوں اور عورتوں کو مساوی مقام حاصل ہوگا۔ عورتوں نے بڑھ چڑھ کر تحریکِ پاکستان میں حصّہ لیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین کی امداد کی اور ان کی آبادکاری اور بحالی میں حصّہ لیا۔ بیگم رعنا لیاقت علی کی ویمن نیشنل گارڈز کی اسکیم میں حصّہ لے کر فوجی تربیت حاصل کی۔ اپوا اور خاندانی منصوبہ بندی کی تنظیم بنائی۔ کچھ بعد میں طاہرہ مظہر علی خاں اور دیگر ترقی پسند خواتین نے انجمن جمہوریت پسند خواتین بنائی۔
ایوب خاں کی آمریت کے دور میں بھی اپوا کی خواتین بہت سرگرم رہیں اور ان کی وکالت کی بدولت عائلی قوانین بنے، جنھیں پاکستان کی تاریخ میں عورتوں کے لیے سب سے زیادہ ترقی پسند قوانین کہا جاتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ معاشرے پر ان لوگوں کی گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی جو قیامِ پاکستان کے خلاف تھے اور خود کو مذہب کا ٹھیکے دار سمجھتے تھے۔ گو کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی عورتوں کے لیے ماحول سازگار رہا۔ اسی دور میں 1975 کو اقوام متحدہ نے عورتوں کا عالمی سال قرار دیا اور میکسیکو میں عورتوں کی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاکستانی عورتوں کے وفد کی قیادت بیگم نصرت بھٹو نے کی تھی۔
اقوام متحدہ نے 1975 تا 1985کو خواتین کا عشرہ قرار دیا تھا۔ بدقسمتی سے اسی عشرے میں پاکستان پر آمریت کی سیاہی چھا گئی۔ ضیاء الحق کی طویل آمریت میں عورتوں اور اقلیتوں کے خلاف تفریقی اور امتیازی قوانین بنائے گئے۔ ایک اسکول کی طالبہ کو کوڑوں کی سزا سنائی گئی اور ایک نابینا لڑکی صفیہ بی بی کو زنا کا مرتکب قرار دیا گیا۔ ان سزائوں کے خلاف احتجاج کے لیے 1981 میں خواتین محاذ عمل وجود میں آیا اور امتیازی قوانین کے خلاف پاکستانی عورتوں کی تحریک کا آغاز ہوا۔ عورتوں نے ڈنڈے بھی کھائے اور جیل بھی گئیں۔ حبیب جالب جیسے شاعر انقلاب نے بھی عورتوں کا ساتھ دیا اور ان کے ساتھ ڈنڈے بھی کھائے۔
ضیاء الحق کے دور میں منشیات اور کلاشنکوف کلچر عام ہوا۔ فرقہ واریت کو پروان چڑھایا گیا۔ وفاق کی بات کرنے والی پارٹی کو کمزور کرنے کے لیے علیحدگی پسند قوم پرستوں کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی کی گئی۔ رجعت پسند اور انتہا پسند عناصر کو مضبوط کیا گیا۔ اس دور میں جو بیج بوئے گئے، اس کی فصل ہم آج تک کاٹ رہے ہیں۔ عورتیں اور اقلیتیں خاص طور پر اس سے متاثر ہوئیں۔ ضیاء الحق کے بعد آنے والی جمہوری حکومتوں کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں تھی، اس لیے بھی وہ امتیازی قوانین کو تبدیل یا منسوخ نہ کر سکیں۔
پرویز مشرف کی آمریت میں روشن خیالی کا نعرہ لگایا گیا۔ لوکل گورنمنٹ کا نظام متعارف کرایا گیا۔ لیکن مذہبی عناصر کے دبائو کی وجہ سے انھیں ہر وہ اقدام واپس لینا پڑا جو وہ روشن خیالی کے نام پر کرنا چاہتے تھے۔اب پاکستان میں جمہوریت آ چکی ہے لیکن عورتوں کے حوالے سے جو مائنڈ سیٹ بن چکا ہے وہ تبدیل ہونا تو دور کی بات ہے بلکہ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ کچھ عناصر ہمیں تاریخ کے سیاہ دور میں واپس لے جانا چاہتے ہیں۔حالیہ چند برسوں میں عورتوں کے لیے بہت سے ترقی پسند قوانین بنے ہیں۔
جن میں کام کی جگہ پر عورتوں کی جنسی ہراسانی کے خلاف قانون، رسم و رواج کے خلاف قانون، خود مختار نیشنل کمیشن کے قیام کا قانون بھی شامل ہیں لیکن ان سارے قوانین اور سول سوسائٹی کی ساری پیروکاری کے باوجود آج بھی کچھ عناصر عورت کو انسان ماننے سے انکاری ہیں۔ ایک کالم نگار جو مذہب کی اپنی تشریح کے مطابق علم کو عام کرنے کے لیے ایک ٹرسٹ کی ذمے داریاں سنبھال چکے ہیں، اپنے کالم میں اس بات کا پرچار کر رہے ہیں کہ عورتوں کو تعلیم تو دی جائے لیکن ان کا نصاب الگ ہو، انھیں گھرداری اور بچّوں اور بوڑھوں کی نگہداشت جیسے مضامین ہی پڑھائے جائیں۔
گویا سائنسی تحقیق خواہ وہ طبعی ہو یا سماجی سائنس ہو، اس پر مردوں کی اجارہ داری ہو گی۔اسی طرح ایک اور صاحب نے مزاحیہ کالم لکھنے کی کوشش کی۔ دُکھ انھیں بجاطور پر اس بات کا تھا کہ پاکستان کو اولمپک گیمز میں کوئی تمغہ نہیں ملا۔ حل انھوں نے یہ پیش کیا تھا کہ یہ معاملہ رحمن ملک کے سپرد کر دیا جائے، وہ سارے کھیلوں میں پاکستان کو تمغے دلوادیں گے اور کالم نگار کی تجویز تھی کہ عورتوں کے کھیلوں والے تمغے دوسرے ملکوں کے لیے چھوڑ دیے جائیں۔ بات وہی مائنڈ سیٹ کی آ گئی۔ ان کالم نگار جیسے مرد حضرات یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ پاکستانی عورتیں بھی کھیلوں میں حصّہ لے سکتی ہیں۔ جب تک ہم انسانی ترقی پر زور نہیں دیں گے، کسی بھی قسم کی ترقی ممکن نہ ہوگی۔
انسانی ترقی کا مطلب عورت اور مرد کو تعلیم، صحت کی سہولتوں تک رسائی اور اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے مساوی مواقعے فراہم کرنا ہے۔ اپنی نصف آبادی کو ان مواقعے سے محروم کر کے کوئی ملک بھی ترقی نہیں کر سکتا۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ عورتوں کے حقوق انسانی حقوق ہیں۔ لیکن ان انتہا پسند عناصر کا کیا کریں جو بچیوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑا دیتے ہیں۔ لیکن اب عورتوں کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ویسے بھی یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے اب کوئی بھی کام کرنے کے لیے جسمانی طاقت کی نہیں بلکہ مہارت اور ڈسپلن کی ضرورت ہے اور عورتوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ تعلیم اور آئی ٹی کے میدان میں مردوں سے آگے نکل سکتی ہیں۔ اور ملک و قوم کا نام روشن کرسکتی ہیں۔
انسان اکیسویں صدی میں داخل ہو چکا ہے لیکن آج بھی عورت کو خود کو انسان منوانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ آج بھی اسے یہ نعرہ لگانا پڑ رہا ہے کہ ''عورتوں کے حقوق انسانی حقوق ہیں۔'' جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، ہماری عورتوں کو شروع سے ہی متضاد رویوں کا سامنا رہا ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے ہی علامہ اقبال، شبلی نعمانی اور دیگر مسلم زعما سے عطیہ فیضی جیسی خواتین اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کا لوہا منوا چکی تھیں۔ پھر رشید جہاں تھیں جن کی کہانی ''انگارے'' کے نام سے شایع ہونے والے افسانوی مجموعے میں شامل تھی۔ ان افسانوں نے برصغیر کے قدامت پسندوں کو ہلا کے رکھ دیا تھا اور ترقی پسندی کی لہر نے نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ پھر عصمت چغتائی اور ان کے ساتھ قرۃ العین حیدر نے مردوں کے اس معاشرے میں اپنے آپ کو منوایا۔
پاکستان کی تحریک نے زور پکڑا تو بہت سی خواتین کے نام سامنے آئے جن میں شائستہ اکرام اﷲ، بیگم جہاں آرا شاہ نواز، سلمیٰ تصدق حسین، تزئین فریدی اور دیگر بہت سی خواتین شامل تھیں جو فاطمہ جناح اور رعنا لیاقت علی خاں کی سرکردگی میں پاکستان کے قیام اور پھر اس کی ترقی کے لیے کوشاں رہیں۔ پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے ہر موقع پر فاطمہ جناح کو ساتھ رکھ کر واضح طور پر یہ پیغام دے دیا تھا کہ پاکستان میں مردوں اور عورتوں کو مساوی مقام حاصل ہوگا۔ عورتوں نے بڑھ چڑھ کر تحریکِ پاکستان میں حصّہ لیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین کی امداد کی اور ان کی آبادکاری اور بحالی میں حصّہ لیا۔ بیگم رعنا لیاقت علی کی ویمن نیشنل گارڈز کی اسکیم میں حصّہ لے کر فوجی تربیت حاصل کی۔ اپوا اور خاندانی منصوبہ بندی کی تنظیم بنائی۔ کچھ بعد میں طاہرہ مظہر علی خاں اور دیگر ترقی پسند خواتین نے انجمن جمہوریت پسند خواتین بنائی۔
ایوب خاں کی آمریت کے دور میں بھی اپوا کی خواتین بہت سرگرم رہیں اور ان کی وکالت کی بدولت عائلی قوانین بنے، جنھیں پاکستان کی تاریخ میں عورتوں کے لیے سب سے زیادہ ترقی پسند قوانین کہا جاتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ معاشرے پر ان لوگوں کی گرفت مضبوط ہوتی چلی گئی جو قیامِ پاکستان کے خلاف تھے اور خود کو مذہب کا ٹھیکے دار سمجھتے تھے۔ گو کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی عورتوں کے لیے ماحول سازگار رہا۔ اسی دور میں 1975 کو اقوام متحدہ نے عورتوں کا عالمی سال قرار دیا اور میکسیکو میں عورتوں کی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاکستانی عورتوں کے وفد کی قیادت بیگم نصرت بھٹو نے کی تھی۔
اقوام متحدہ نے 1975 تا 1985کو خواتین کا عشرہ قرار دیا تھا۔ بدقسمتی سے اسی عشرے میں پاکستان پر آمریت کی سیاہی چھا گئی۔ ضیاء الحق کی طویل آمریت میں عورتوں اور اقلیتوں کے خلاف تفریقی اور امتیازی قوانین بنائے گئے۔ ایک اسکول کی طالبہ کو کوڑوں کی سزا سنائی گئی اور ایک نابینا لڑکی صفیہ بی بی کو زنا کا مرتکب قرار دیا گیا۔ ان سزائوں کے خلاف احتجاج کے لیے 1981 میں خواتین محاذ عمل وجود میں آیا اور امتیازی قوانین کے خلاف پاکستانی عورتوں کی تحریک کا آغاز ہوا۔ عورتوں نے ڈنڈے بھی کھائے اور جیل بھی گئیں۔ حبیب جالب جیسے شاعر انقلاب نے بھی عورتوں کا ساتھ دیا اور ان کے ساتھ ڈنڈے بھی کھائے۔
ضیاء الحق کے دور میں منشیات اور کلاشنکوف کلچر عام ہوا۔ فرقہ واریت کو پروان چڑھایا گیا۔ وفاق کی بات کرنے والی پارٹی کو کمزور کرنے کے لیے علیحدگی پسند قوم پرستوں کی پشت پناہی اور حوصلہ افزائی کی گئی۔ رجعت پسند اور انتہا پسند عناصر کو مضبوط کیا گیا۔ اس دور میں جو بیج بوئے گئے، اس کی فصل ہم آج تک کاٹ رہے ہیں۔ عورتیں اور اقلیتیں خاص طور پر اس سے متاثر ہوئیں۔ ضیاء الحق کے بعد آنے والی جمہوری حکومتوں کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں تھی، اس لیے بھی وہ امتیازی قوانین کو تبدیل یا منسوخ نہ کر سکیں۔
پرویز مشرف کی آمریت میں روشن خیالی کا نعرہ لگایا گیا۔ لوکل گورنمنٹ کا نظام متعارف کرایا گیا۔ لیکن مذہبی عناصر کے دبائو کی وجہ سے انھیں ہر وہ اقدام واپس لینا پڑا جو وہ روشن خیالی کے نام پر کرنا چاہتے تھے۔اب پاکستان میں جمہوریت آ چکی ہے لیکن عورتوں کے حوالے سے جو مائنڈ سیٹ بن چکا ہے وہ تبدیل ہونا تو دور کی بات ہے بلکہ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ کچھ عناصر ہمیں تاریخ کے سیاہ دور میں واپس لے جانا چاہتے ہیں۔حالیہ چند برسوں میں عورتوں کے لیے بہت سے ترقی پسند قوانین بنے ہیں۔
جن میں کام کی جگہ پر عورتوں کی جنسی ہراسانی کے خلاف قانون، رسم و رواج کے خلاف قانون، خود مختار نیشنل کمیشن کے قیام کا قانون بھی شامل ہیں لیکن ان سارے قوانین اور سول سوسائٹی کی ساری پیروکاری کے باوجود آج بھی کچھ عناصر عورت کو انسان ماننے سے انکاری ہیں۔ ایک کالم نگار جو مذہب کی اپنی تشریح کے مطابق علم کو عام کرنے کے لیے ایک ٹرسٹ کی ذمے داریاں سنبھال چکے ہیں، اپنے کالم میں اس بات کا پرچار کر رہے ہیں کہ عورتوں کو تعلیم تو دی جائے لیکن ان کا نصاب الگ ہو، انھیں گھرداری اور بچّوں اور بوڑھوں کی نگہداشت جیسے مضامین ہی پڑھائے جائیں۔
گویا سائنسی تحقیق خواہ وہ طبعی ہو یا سماجی سائنس ہو، اس پر مردوں کی اجارہ داری ہو گی۔اسی طرح ایک اور صاحب نے مزاحیہ کالم لکھنے کی کوشش کی۔ دُکھ انھیں بجاطور پر اس بات کا تھا کہ پاکستان کو اولمپک گیمز میں کوئی تمغہ نہیں ملا۔ حل انھوں نے یہ پیش کیا تھا کہ یہ معاملہ رحمن ملک کے سپرد کر دیا جائے، وہ سارے کھیلوں میں پاکستان کو تمغے دلوادیں گے اور کالم نگار کی تجویز تھی کہ عورتوں کے کھیلوں والے تمغے دوسرے ملکوں کے لیے چھوڑ دیے جائیں۔ بات وہی مائنڈ سیٹ کی آ گئی۔ ان کالم نگار جیسے مرد حضرات یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ پاکستانی عورتیں بھی کھیلوں میں حصّہ لے سکتی ہیں۔ جب تک ہم انسانی ترقی پر زور نہیں دیں گے، کسی بھی قسم کی ترقی ممکن نہ ہوگی۔
انسانی ترقی کا مطلب عورت اور مرد کو تعلیم، صحت کی سہولتوں تک رسائی اور اعلیٰ تعلیم اور روزگار کے مساوی مواقعے فراہم کرنا ہے۔ اپنی نصف آبادی کو ان مواقعے سے محروم کر کے کوئی ملک بھی ترقی نہیں کر سکتا۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ عورتوں کے حقوق انسانی حقوق ہیں۔ لیکن ان انتہا پسند عناصر کا کیا کریں جو بچیوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑا دیتے ہیں۔ لیکن اب عورتوں کو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ویسے بھی یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے اب کوئی بھی کام کرنے کے لیے جسمانی طاقت کی نہیں بلکہ مہارت اور ڈسپلن کی ضرورت ہے اور عورتوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ تعلیم اور آئی ٹی کے میدان میں مردوں سے آگے نکل سکتی ہیں۔ اور ملک و قوم کا نام روشن کرسکتی ہیں۔