یوم آزادی کا سوال
پاکستان کی معیشت اس وقت سخت مشکلات میں گِھری ہے۔
اگست کے مہینے اور رمضان کے مہینے میں ایک خاص تعلق پاکستانیوں کے لیے بہت اہم ہے اور وہ ہے پاکستان کی آزادی کا دن۔ اتفاق ہے کہ آخری عشرے میں ہی اس برس 14 اگست کا دن بھی شامل ہے۔ 1947 میں بھی یہی آخری عشرہ تھا جب ہندوستان سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے ہجرت کی اور پاکستان کے خطے کو ایک آزاد ریاست کی شناخت ملی۔
آزادی حاصل کرنے کے لیے پاکستانی قوم ایک طویل عمل سے گزری۔ یہ عمل اسی وقت شروع ہوچکا تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی تجارتی مصروفیات سے پھیل کر برصغیر کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی شروع کی تھی۔ 1947 تک کا سفر چند برسوں تک کا نہ تھا۔ پندرہویں صدی سے شروع ہونے والا یہ سفر یورپ کے ان سفید فام آقائوں کی حرص و ہوس سے شروع ہوا جب انھوں نے برصغیر میں مال و دولت کی فراوانی کو دیکھا تو ان کی رال ٹپکنا شروع ہوگئی۔
ہم ہر برس آزادی کا جشن زور شور سے مناتے ہیں لیکن ہر گزرتا برس ہمارے لیے مسائل کے انبار میں اضافہ ہی کررہا ہے۔ اور ہم حالتِ جنگ میں ہیں کیونکہ دور جدید میں باقاعدہ اعلانِ جنگ کر کے میدان میں اترنا سیاسی اعتبار سے سودمند نہیں ہوتا بلکہ چھوٹے چھوٹے محاذوں پر مخالفین ایسی شاطرانہ چالیں بچھاتے ہیں کہ خودبخود حالات جنگ کے سے بن جاتے ہیں۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں آئے دن دہشت گردی کی وارداتیں بھی اسی طرز کی ہوتی ہیں۔ ایسے حالات میں ملک میں اقتصادی اور معاشی شکستگی پیدا ہوتی ہے۔
2001میں پاکستان کے لیے تجزیہ کاروں نے جو کچھ اندازے لگائے تھے، اس کے مطابق 2015 تک پاکستان کے حالات زیادہ بہتر نہ ہوں گے۔ ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ پاکستان ایک شکستہ ناکام ریاست اور ایک ایسا مردِ بیمار ہے جو سائوتھ ایشیا میں ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس وقت اس بات کی بھی پیش گوئی کی گئی تھی کہ پاکستان میں اسلامی نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کا کردار ابھر کر سامنے آئے گا جس نے فوج پر اپنا نظریاتی تسلط مسلط کرنا شروع کر دیا ہے یا دوسرے لفظوں میں افواجِ پاکستان میں اسلامی نظریات یا شدّت پسندی کے جذبوں کو خاص اہمیت دی گئی تھی۔
2001 کی اس رپورٹ پر اگر غور کیا جائے تو گزرے چند برسوں میں پاکستان میں اندرونی اور خارجی انداز میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں، فوج کے حوالے سے کچھ سرکردہ لوگوں نے جو سرگرمیاں شدّت پسندی کے جذبوں سے عیاں ہوئیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ برا ہونے کی پیش گوئی کی جاتی ہے، اس میں بہت سے تجزیے ہوائوں میں تیر چھوڑنے کی حد تک ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ ان دیکھے، کچھ شناسا اور اجنبی چہرے بھی درمیان میں شامل ہوتے ہیں جو رپورٹس کی اہمیت اور سچّا ہونے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
2000 سے پاکستان کی مالیاتی پوزیشن مستقل گر رہی ہے۔ ملکی اور غیر ملکی انویسٹرز ملکی حالات کے باعث اپنے سرمائے کو کسی بھی پروجیکٹ میں لگانے سے گریز کرتے رہے اور آج 2012 میں بھی اسی قسم کی صورت حال ہے، جس کی وجہ سے روپے کی قدر میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ایک عرصے تک آئی ایم ایف کے زہریلے شکنجے کی صدائیں گونجتی رہیں تو اب دوسرے قرضے بھی آکاس بیل کی طرح پاکستانی خزانے کو نگل رہے ہیں۔ کسی بھی ملک کی تنزلی کی وجہ اس کے حکمران ہوتے ہیں۔
ایک وہ جو طاقت کے نشے میں چور ہوتے ہیں اور دوسری قسم کے حکمران وہ جنھیں دولت کی لالچ ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان دو قسم کے حکمرانوں کے باعث بڑے بڑے ایوانوں کے تخت الٹ دیے گئے، برصغیر میں مغلیہ دور ہو یا یورپ میں بادشاہی راج، طاقت کا نشہ عوام کے دکھ درد اور ملک کی حالت پر نظر ڈالنے نہیں دیتا جب کہ دولت کی لالچ آنکھیں خیرہ کر دیتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے ساتھ بھی گذشتہ چھیاسٹھ برس سے کچھ ایسا ہی ہورہا ہے۔
پاکستان کی معیشت اس وقت سخت مشکلات میں گِھری ہے۔ زرعی یا صنعتی دونوں یونٹ غلط حکمت عملی کے باعث شکستگی کا شکار ہیں۔ پانی کے مسئلے کو ہم نے اپنی عاقبت نااندیشی سے خود اپنے اوپر مسلط کیا۔ ہمارے پانیوں کو ہم سے چھین لیا گیا اور اس پر بند باندھ کر اس کے راستے ہمارے لیے بند کر دیے گئے، جس کی وجہ سے ہمارے زرعی اور صنعتی یونٹس مسائل میں گِھرے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ پانی کی کم یابی سے ایک عام انسان کی زندگی بھی بہت متاثر ہوئی ہے۔ آج چھوٹے اور بڑے گھروں میں لوگ دن رات سکشن پمپ چلا کر پانی چوری کرنے پر مجبور ہیں، جس سے ایک جانب تو وہ چوری کے مرتکب ہو رہے ہیں تو دوسری طرف بجلی سے چلنے والے یہ سکشن پمپ مالی طور پر عوام کو مزید بدحالی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔
پاکستان قدرتی گیس کی دولت سے مالا مال تھا لیکن اس کے بہت سے ذخائر حاصل کرنے سے پہلے ہی سیل کر دیے گئے تا کہ ہم دوسروں کی دوستی کا دم بھرنے والوں میں سر فہرست رہیں۔ اس کے علاوہ جو ذخائر پاکستانی قوم کے نصیب میں آئے ان میں سے کچھ حکومت اور عوام کی کھینچا تانی میں ضایع ہوئے لیکن قوم کو کیا ملا، آج گیس کی بندش سے کتنے صنعتی یونٹس بند ہو گئے، کتنے افراد بے روزگار ہوئے۔
ہم میں سے اکثر اس بات کا واویلا کرتے ہیں کہ پاکستان کی حالت کو بگاڑنے میں ان بڑی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔ اگر اس مفروضے کو، جو کسی حد تک درست بھی ہے، مان بھی لیا جائے تو کیا ہمارے اربابِ اقتدار اور حزب مخالف پر کوئی ذمے داری عاید نہیں ہوتی، لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ ان میں زیادہ تر حضرات اپنے ان ٹاک شوز کے لیے زیادہ وقت تیاری پر لگا دیتے ہیں جو انھیں نیوز چینلز پر اپنے مخالفین پر بھاری ثابت کر سکتا ہے۔ ہمارے سامنے ایسے بہت سے ملکوں کی مثالیں ہیں جنھوں نے تنزلی سے ترقی کی جانب سفر کیا ہے۔
اس کی ایک مثال سنگاپور بھی ہے۔ چالیس برس پہلے وہاں کے حالات بہت ابتر تھے، وہاں کے چینی، مالی اور انڈین باشندے سنگاپور حکومت کے لیے مسائل پیدا کر رہے تھے تو دوسری جانب ملائیشیا نے اسے فیڈریشن سے نکال باہر کیا تھا۔ اس کا الزام تھا کہ ملائیشیا کو سنگاپور کی جانب سے فوجی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ کمیونسٹ ٹریڈ یونین جنگی محاذوں کی مانند ہو چکی تھیں۔ راتوں رات برطانیہ نے اپنا نیول بیس سنگاپور میں بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے بے روزگاری میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔ سنگاپور چاروں جانب سے مشکلات میں گھر چکا تھا لیکن دانش مندانہ پالیسیوں، سخت محنت اور نظم و ضبط سے سنگاپور نے اپنے آپ کو اپنے قدموں پر کھڑا کیا اور ایک رول ماڈل کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔
پاکستان بھی سنگاپور کی طرح اپنی پالیسیوں اور دانش مندانہ فیصلوں کی بدولت اپنی معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرسکتا ہے لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے دلوں کو کھولنا ہوگا۔ اگست کا یہ مہینہ ہم سے یہ سوال کرتا ہے۔ کیا ہمارے پاس اس کا جواب ہے۔
آزادی حاصل کرنے کے لیے پاکستانی قوم ایک طویل عمل سے گزری۔ یہ عمل اسی وقت شروع ہوچکا تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی تجارتی مصروفیات سے پھیل کر برصغیر کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی شروع کی تھی۔ 1947 تک کا سفر چند برسوں تک کا نہ تھا۔ پندرہویں صدی سے شروع ہونے والا یہ سفر یورپ کے ان سفید فام آقائوں کی حرص و ہوس سے شروع ہوا جب انھوں نے برصغیر میں مال و دولت کی فراوانی کو دیکھا تو ان کی رال ٹپکنا شروع ہوگئی۔
ہم ہر برس آزادی کا جشن زور شور سے مناتے ہیں لیکن ہر گزرتا برس ہمارے لیے مسائل کے انبار میں اضافہ ہی کررہا ہے۔ اور ہم حالتِ جنگ میں ہیں کیونکہ دور جدید میں باقاعدہ اعلانِ جنگ کر کے میدان میں اترنا سیاسی اعتبار سے سودمند نہیں ہوتا بلکہ چھوٹے چھوٹے محاذوں پر مخالفین ایسی شاطرانہ چالیں بچھاتے ہیں کہ خودبخود حالات جنگ کے سے بن جاتے ہیں۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں آئے دن دہشت گردی کی وارداتیں بھی اسی طرز کی ہوتی ہیں۔ ایسے حالات میں ملک میں اقتصادی اور معاشی شکستگی پیدا ہوتی ہے۔
2001میں پاکستان کے لیے تجزیہ کاروں نے جو کچھ اندازے لگائے تھے، اس کے مطابق 2015 تک پاکستان کے حالات زیادہ بہتر نہ ہوں گے۔ ایک خیال یہ بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ پاکستان ایک شکستہ ناکام ریاست اور ایک ایسا مردِ بیمار ہے جو سائوتھ ایشیا میں ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس وقت اس بات کی بھی پیش گوئی کی گئی تھی کہ پاکستان میں اسلامی نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کا کردار ابھر کر سامنے آئے گا جس نے فوج پر اپنا نظریاتی تسلط مسلط کرنا شروع کر دیا ہے یا دوسرے لفظوں میں افواجِ پاکستان میں اسلامی نظریات یا شدّت پسندی کے جذبوں کو خاص اہمیت دی گئی تھی۔
2001 کی اس رپورٹ پر اگر غور کیا جائے تو گزرے چند برسوں میں پاکستان میں اندرونی اور خارجی انداز میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں، فوج کے حوالے سے کچھ سرکردہ لوگوں نے جو سرگرمیاں شدّت پسندی کے جذبوں سے عیاں ہوئیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ برا ہونے کی پیش گوئی کی جاتی ہے، اس میں بہت سے تجزیے ہوائوں میں تیر چھوڑنے کی حد تک ہی نہیں ہوتے بلکہ وہ ان دیکھے، کچھ شناسا اور اجنبی چہرے بھی درمیان میں شامل ہوتے ہیں جو رپورٹس کی اہمیت اور سچّا ہونے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
2000 سے پاکستان کی مالیاتی پوزیشن مستقل گر رہی ہے۔ ملکی اور غیر ملکی انویسٹرز ملکی حالات کے باعث اپنے سرمائے کو کسی بھی پروجیکٹ میں لگانے سے گریز کرتے رہے اور آج 2012 میں بھی اسی قسم کی صورت حال ہے، جس کی وجہ سے روپے کی قدر میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ایک عرصے تک آئی ایم ایف کے زہریلے شکنجے کی صدائیں گونجتی رہیں تو اب دوسرے قرضے بھی آکاس بیل کی طرح پاکستانی خزانے کو نگل رہے ہیں۔ کسی بھی ملک کی تنزلی کی وجہ اس کے حکمران ہوتے ہیں۔
ایک وہ جو طاقت کے نشے میں چور ہوتے ہیں اور دوسری قسم کے حکمران وہ جنھیں دولت کی لالچ ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان دو قسم کے حکمرانوں کے باعث بڑے بڑے ایوانوں کے تخت الٹ دیے گئے، برصغیر میں مغلیہ دور ہو یا یورپ میں بادشاہی راج، طاقت کا نشہ عوام کے دکھ درد اور ملک کی حالت پر نظر ڈالنے نہیں دیتا جب کہ دولت کی لالچ آنکھیں خیرہ کر دیتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے ساتھ بھی گذشتہ چھیاسٹھ برس سے کچھ ایسا ہی ہورہا ہے۔
پاکستان کی معیشت اس وقت سخت مشکلات میں گِھری ہے۔ زرعی یا صنعتی دونوں یونٹ غلط حکمت عملی کے باعث شکستگی کا شکار ہیں۔ پانی کے مسئلے کو ہم نے اپنی عاقبت نااندیشی سے خود اپنے اوپر مسلط کیا۔ ہمارے پانیوں کو ہم سے چھین لیا گیا اور اس پر بند باندھ کر اس کے راستے ہمارے لیے بند کر دیے گئے، جس کی وجہ سے ہمارے زرعی اور صنعتی یونٹس مسائل میں گِھرے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ پانی کی کم یابی سے ایک عام انسان کی زندگی بھی بہت متاثر ہوئی ہے۔ آج چھوٹے اور بڑے گھروں میں لوگ دن رات سکشن پمپ چلا کر پانی چوری کرنے پر مجبور ہیں، جس سے ایک جانب تو وہ چوری کے مرتکب ہو رہے ہیں تو دوسری طرف بجلی سے چلنے والے یہ سکشن پمپ مالی طور پر عوام کو مزید بدحالی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔
پاکستان قدرتی گیس کی دولت سے مالا مال تھا لیکن اس کے بہت سے ذخائر حاصل کرنے سے پہلے ہی سیل کر دیے گئے تا کہ ہم دوسروں کی دوستی کا دم بھرنے والوں میں سر فہرست رہیں۔ اس کے علاوہ جو ذخائر پاکستانی قوم کے نصیب میں آئے ان میں سے کچھ حکومت اور عوام کی کھینچا تانی میں ضایع ہوئے لیکن قوم کو کیا ملا، آج گیس کی بندش سے کتنے صنعتی یونٹس بند ہو گئے، کتنے افراد بے روزگار ہوئے۔
ہم میں سے اکثر اس بات کا واویلا کرتے ہیں کہ پاکستان کی حالت کو بگاڑنے میں ان بڑی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔ اگر اس مفروضے کو، جو کسی حد تک درست بھی ہے، مان بھی لیا جائے تو کیا ہمارے اربابِ اقتدار اور حزب مخالف پر کوئی ذمے داری عاید نہیں ہوتی، لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ ان میں زیادہ تر حضرات اپنے ان ٹاک شوز کے لیے زیادہ وقت تیاری پر لگا دیتے ہیں جو انھیں نیوز چینلز پر اپنے مخالفین پر بھاری ثابت کر سکتا ہے۔ ہمارے سامنے ایسے بہت سے ملکوں کی مثالیں ہیں جنھوں نے تنزلی سے ترقی کی جانب سفر کیا ہے۔
اس کی ایک مثال سنگاپور بھی ہے۔ چالیس برس پہلے وہاں کے حالات بہت ابتر تھے، وہاں کے چینی، مالی اور انڈین باشندے سنگاپور حکومت کے لیے مسائل پیدا کر رہے تھے تو دوسری جانب ملائیشیا نے اسے فیڈریشن سے نکال باہر کیا تھا۔ اس کا الزام تھا کہ ملائیشیا کو سنگاپور کی جانب سے فوجی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ کمیونسٹ ٹریڈ یونین جنگی محاذوں کی مانند ہو چکی تھیں۔ راتوں رات برطانیہ نے اپنا نیول بیس سنگاپور میں بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے بے روزگاری میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔ سنگاپور چاروں جانب سے مشکلات میں گھر چکا تھا لیکن دانش مندانہ پالیسیوں، سخت محنت اور نظم و ضبط سے سنگاپور نے اپنے آپ کو اپنے قدموں پر کھڑا کیا اور ایک رول ماڈل کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔
پاکستان بھی سنگاپور کی طرح اپنی پالیسیوں اور دانش مندانہ فیصلوں کی بدولت اپنی معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرسکتا ہے لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے دلوں کو کھولنا ہوگا۔ اگست کا یہ مہینہ ہم سے یہ سوال کرتا ہے۔ کیا ہمارے پاس اس کا جواب ہے۔