وہ تو ہمارےاپنےتھے …
من حیث القوم ہم لوگ اس قدر ڈھیٹ اور بے باک ہوچکے ہیں، مذہب تو رہا ایک طرف، انسانیت ہی کو بھلا بیٹھے ہیں۔
14 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی مجلسِ دستور ساز سے خطاب کرتے ہوئے لارڈ مائونٹ بیٹن نے ناصحانہ انداز میں کہا کہ مجھے امید ہے کہ پاکستان میں غیر مسلم اقلیتوں سے اسی قسم کی رواداری اور حسنِ سلوک روا رکھا جائے گا، جس طرح مغلیہ سلطنت میں شہنشاہِ اکبر نے روا رکھا تھا۔ یہ سننا تھا کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے جھٹ سے جواب دیا کہ غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک کے لیے ہمیں کسی اکبر کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں، ہمارے سامنے ہمارے رسولِ مقبولؐ کا اسوۂ حسنہ ہے، جنھوں نے عیسائی اور یہودی اقلیتوں سے ایسی کشادہ ظرفی کا برتائو کیا تھا جس کی مثال تاریخِ عالم میں نہیں ملے گی، ہم اس رسولؐ کے اسوۂ حسنہ کا اتباع کریں گے۔
پھر 8 اگست 2012 کو سندھ کے مختلف اضلاع سے 200 سے اوپر ہندو برادری کے لوگ کیوں انخلا یا نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ نقل مکانی دو صورتوں میں کی جاتی ہے یا کی جاسکتی ہے۔ ایک تو جب تعصب، نفرت، صعوبتوں کا عفریت دن دہاڑے اور رات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں زندگی کو زندگی نہ رہنے دے یا زندگی کو موت سے بدتر بنادے۔ دوسرے تب جب حصولِ آزادی یا مستقبل قریب کے تابناک خوابوں کی تکمیل کے لیے یہ عمل ہو، جب ایک کاوش جزو لازم بن جائے۔
تقسیمِ برصغیر پاک و ہند کے بعد جو غیر مسلم اقلیتی برادری کے لوگ چاہے ان میں ہندو ہوں یا عیسائی، سکھ ہوں کہ بدھ مت کے ماننے والے، پارسی ہوں یا دیگر مذاہب کے لوگ، وہ یہیں پاکستان کی سرزمین میں رہ گئے تھے۔ وہ پاکستانی ہی ہیں اور پاکستانی ہی رہیں گے۔ پھر کیا وجہ ہوئی ہندوئوں کی یہاں سے نقل مکانی کرنے کی؟ وہ کیوں مجبور ہوئے یا کیے گئے؟ وہ کیا مضمرات تھے جو اس ساری صورت حال کی وجہ بنے۔ یہ ایک طویل اور بحث طلب مسئلہ ہے۔ تقسیم کے بعد ہی سے ہندوئوں سے، عیسائیوں سے، سکھوں سے ہمارے برادرانہ تعلقات رہے ہیں، اچھی خاصی دوستی ہے، آپس میں ملنا جلنا ہے، جب ٹی وی اور ذرایع ابلاغ کے دیگر ذرایع کے ذریعے یہ اندوہناک خبر سنی تو دل دہل کر رہ گیا۔ بہت ہی افسوس ہوا کہ ہمارے لوگ کیوں ہم سے دور ہورہے ہیں اور کوئی انھیں روکنے والا نہیں؟
من حیث القوم ہم لوگ اس قدر ڈھیٹ اور بے باک ہوچکے ہیں، مذہب تو رہا ایک طرف، انسانیت ہی کو بھلا بیٹھے ہیں۔ ہم غیر مسلم اقلیتوں پر ہونے والے ظلم و بربریت پر نوحہ کناں تو کجا ان کی مقدس مذہبی مقامات کو نذرِ آتش کیے دے رہے ہیں اور ذرا بھی ندامت و شرمساری نہیں بلکہ انسانوں کے بھیس میں بھیڑیے ہیں، خونخوار جانور بھی جب شکار کرتے ہیں، جب ان کو بھوک لگے۔ اگر ان کو بھوک نہ لگ رہی ہو تو آپ ان کے پاس سے بھی گزر جائیں تو آپ کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ یعنی انسانیت کا درس جانوروں سے سیکھا جائے، کیا معراج ہوگئی ہے انسانیت کی، صرف کفِ افسوس ملیے۔
اندرونِ سندھ ہندوئوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے، ان میں عمر کوٹ، ضلع بدین، شہداد پور، میرپور ماتھیلو، میرپورخاص، ضلع تھرپارکر قابلِ ذکر ہیں۔ جیکب آباد میں ہندو برادری کی تعداد ذرا زیادہ ہے۔ بھارت میں مسلمان بھی اقلیت میں ہیں، ان کے ساتھ بھی بھارتی حکومت کا سلوک کوئی خاص اچھا نہیں ہے، لیکن اِتنا برا بھی نہیں ہے کہ ان کو وہاں سے پاکستان کی طرف نقل مکانی کرنی پڑے۔
بھارتی فلم انڈسٹری پر پچھلے کئی برسوں سے خانز کا راج ہے اور اس سے پہلے بھی کئی مسلمان اداکار، موسیقار، گیت کار، ادیب، صحافی، محقق، کالم نگار، ماہرِ تعلیم چھائے ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ تقسیمِ برصغیر کے بعد منتقلی ہندو و مسلمان سے قائم ہے جو آدھے بھارت میں مقیم ہیں اور اِتنی ہی تعداد غیر مسلم اقلیتوں کی پاکستان میں موجود ہے۔ سرحدیں تقسیم ہوتی ہیں لوگ نہیں جو زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں، ان میں سول انتظامیہ ہو یا عدلیہ، بیورو کریسی ہو یا سماجی فلاحی تنظیموں کے سربراہان ہوں۔ جو بھارت میں مقیم ہیں چاہے وہ مسلمان ہی ہوں وہ بھارتی شہری ہیں اور جو پاکستان میں رہ گئے وہ چاہے ہندو ہوں یا پارسی وہ پاکستانی ہی ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کو اعلیٰ سول اعزازات راج پتی بھون سے بھی نوازا گیا ہے۔
اسی طرح پاکستان میں ہندوئوں کو بھی اعلیٰ سول اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ اس معاملے میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ بھارت میں بھارتی جنتا پارٹی (BJP) کے سربراہ بال ٹھاکرے نہایت متعصب اور کٹّر ہندو واقع ہوئے ہیں۔ وہ کوئی کسر روا نہیں رکھتے پاکستان کو بدنام کرنے میں لیکن ان کے اس طرح کے بیانات و مظالم سے وہاں کے مسلمان ہجرت کرنے پر تو مجبور نہیں ہوتے۔
یہاں ہماری سول حکومت، ہیومن رائٹس کمیشن، اعلیٰ انتظامی امور کے نگراں کا کیا کام ہے، وہ کیا کررہے ہیں؟ ہندو برادری کے لوگ واہگہ کے راستے بھارت داخل ہوگئے، کسی کے پاس مکمل سفری دستاویزات تھے تو کسی کے پاس نہیں۔ بھارت جانے والے دو خاندانوں کے پاس این او سی (NOC) موجود تھا، باقی تمام حضرات اس سے مبّرا تھے۔ ڈاکٹر نند اور ڈاکٹر رادھا کشن کے پاس (NOC) تھا۔ سبب پوچھا گیا تو ان میں سے ایک شخص نے کہا یہاں ہمارے لوگ اغوا ہورہے ہیں، ان کو قتل کیا جارہا ہے، یہی صورت حال کیا مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہے۔ ہماری لڑکیاں محفوظ نہیں ہیں۔
ہماری تاجر برادری سخت اذیت میں ہے۔ سبب وہی ہے بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی اور امن و امان کی ناقص صورتِ حال۔ حکومتِ وقت نے اس سلسلے میں تین رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ اس کمیٹی میں وفاقی وزیر مولا بخش چانڈیو، سینیٹر ہری رام، لعل چند این اے شامل ہیں۔ اس سلسلے میں صدارتی ترجمان فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے متعلقہ حکام سے ہندوئوں کی بھارت نقل مکانی پر فوری رپورٹ طلب کرلی ہے اور انھوں نے ہندو برادری کو تحفظ فراہم کرنے کی فوراً ہدایت جاری کی ہے۔
لیکن یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ پاکستانی ہندوئوں نے بھارت نہ جانے پر احتجاج کیوں کیا۔ کیوں امیگریشن حکام کے خلاف نعرے بازی کی۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے کو کہا گیا ہے کہ مکمل سفری دستاویزات کے حامل ہندو شہریوں کو ضروری جانچ پڑتال کے بعد بھارت یاترا کی اجازت دے دی جائے اور سیاسی وجوہ کے حامل ہندو شہریوں کو ترکِ وطن کی اجازت نہ دی جائے۔ یہ بلاشبہ اچھا اقدام ہے اور حکومت اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے۔ بعض ہندوئوں نے کہا ہے کہ وہ بھارت اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کے لیے جارہے ہیں، ان کو اجازت دی جائے، ان کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے، وہ واپس ہی آئیں گے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔
انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے، اس کا فروغ عام ہونا چاہیے۔ آدم سے انسان بننے کے عمل میں زیادہ محنت درکار ہوتی ہے۔ فروغِ انسانیت ہوگا تو امن کی فاختائیں اپنی اپنی چونچوں میں زیتون کی ڈالیاں اِدھر ادھر لیے گھومتی پھرتی رہیں گی۔ جنوبی افریقہ میں گوروں کا کالوں کے ساتھ کس قدر بھیانک کردار رہا ہے، لاکھوں کالوں کو غلام بنا کر لایا گیا۔ ان کو مارا گیا، ان کی نسل کشی کی گئی، انھی میں سے ایک نیلسن منڈیلا اٹھے اور اپنی قوم سے کہا کہ آپ صبر و ہمت سے رہیں اور ملکی استحکام کو مزید خراب نہ کریں اور ہتھیار نہ اٹھائیں، انسانیت کا فروغ جاری رکھیں، امن و امان قائم کریں۔
ان کو 21 سال جیل کاٹنی پڑی اور آج سے بارہ سال پہلے ان کو امن کا نوبل پرائز ملا اور جنھوں نے لاکھوں کالوں کو مارا، ان کا نام بھی کوئی نہیں جانتا، کیونکہ باطل کبھی حق پر حاوی نہیں ہوسکتا، واقعۂ کربلا اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ جب تیروں کی نوک پر معصومین کے لاشے تھے اور زبان پر صرف کلمۂ حق تھا۔
پچھلے دنوں صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اقلیتوں کی نشستوں میں 4 سیٹوں کا اضافہ کیا ہے جو ایک خوش آیند قدم ہے، لیکن اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بھی حکومتی اور نیم سرکاری سطح پر کام ہونا چاہیے۔ اگر آپ بحیثیت مسلمان کسی کو بھی دکھ پہنچانے کے دار پر ہیں تو آپ اﷲ تعالیٰ اور رسولِ خداؐ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ حدیثِ نبویؐ ہے کہ اگر آپ کو کوئی یہودی، عیسائی اپنی شراب امانتاً رکھوائے تو آپ اس کی حفاظت اس طرح کریں جس طرح اپنے سرکے کی۔
پھر 8 اگست 2012 کو سندھ کے مختلف اضلاع سے 200 سے اوپر ہندو برادری کے لوگ کیوں انخلا یا نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔ نقل مکانی دو صورتوں میں کی جاتی ہے یا کی جاسکتی ہے۔ ایک تو جب تعصب، نفرت، صعوبتوں کا عفریت دن دہاڑے اور رات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں زندگی کو زندگی نہ رہنے دے یا زندگی کو موت سے بدتر بنادے۔ دوسرے تب جب حصولِ آزادی یا مستقبل قریب کے تابناک خوابوں کی تکمیل کے لیے یہ عمل ہو، جب ایک کاوش جزو لازم بن جائے۔
تقسیمِ برصغیر پاک و ہند کے بعد جو غیر مسلم اقلیتی برادری کے لوگ چاہے ان میں ہندو ہوں یا عیسائی، سکھ ہوں کہ بدھ مت کے ماننے والے، پارسی ہوں یا دیگر مذاہب کے لوگ، وہ یہیں پاکستان کی سرزمین میں رہ گئے تھے۔ وہ پاکستانی ہی ہیں اور پاکستانی ہی رہیں گے۔ پھر کیا وجہ ہوئی ہندوئوں کی یہاں سے نقل مکانی کرنے کی؟ وہ کیوں مجبور ہوئے یا کیے گئے؟ وہ کیا مضمرات تھے جو اس ساری صورت حال کی وجہ بنے۔ یہ ایک طویل اور بحث طلب مسئلہ ہے۔ تقسیم کے بعد ہی سے ہندوئوں سے، عیسائیوں سے، سکھوں سے ہمارے برادرانہ تعلقات رہے ہیں، اچھی خاصی دوستی ہے، آپس میں ملنا جلنا ہے، جب ٹی وی اور ذرایع ابلاغ کے دیگر ذرایع کے ذریعے یہ اندوہناک خبر سنی تو دل دہل کر رہ گیا۔ بہت ہی افسوس ہوا کہ ہمارے لوگ کیوں ہم سے دور ہورہے ہیں اور کوئی انھیں روکنے والا نہیں؟
من حیث القوم ہم لوگ اس قدر ڈھیٹ اور بے باک ہوچکے ہیں، مذہب تو رہا ایک طرف، انسانیت ہی کو بھلا بیٹھے ہیں۔ ہم غیر مسلم اقلیتوں پر ہونے والے ظلم و بربریت پر نوحہ کناں تو کجا ان کی مقدس مذہبی مقامات کو نذرِ آتش کیے دے رہے ہیں اور ذرا بھی ندامت و شرمساری نہیں بلکہ انسانوں کے بھیس میں بھیڑیے ہیں، خونخوار جانور بھی جب شکار کرتے ہیں، جب ان کو بھوک لگے۔ اگر ان کو بھوک نہ لگ رہی ہو تو آپ ان کے پاس سے بھی گزر جائیں تو آپ کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ یعنی انسانیت کا درس جانوروں سے سیکھا جائے، کیا معراج ہوگئی ہے انسانیت کی، صرف کفِ افسوس ملیے۔
اندرونِ سندھ ہندوئوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے، ان میں عمر کوٹ، ضلع بدین، شہداد پور، میرپور ماتھیلو، میرپورخاص، ضلع تھرپارکر قابلِ ذکر ہیں۔ جیکب آباد میں ہندو برادری کی تعداد ذرا زیادہ ہے۔ بھارت میں مسلمان بھی اقلیت میں ہیں، ان کے ساتھ بھی بھارتی حکومت کا سلوک کوئی خاص اچھا نہیں ہے، لیکن اِتنا برا بھی نہیں ہے کہ ان کو وہاں سے پاکستان کی طرف نقل مکانی کرنی پڑے۔
بھارتی فلم انڈسٹری پر پچھلے کئی برسوں سے خانز کا راج ہے اور اس سے پہلے بھی کئی مسلمان اداکار، موسیقار، گیت کار، ادیب، صحافی، محقق، کالم نگار، ماہرِ تعلیم چھائے ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ تقسیمِ برصغیر کے بعد منتقلی ہندو و مسلمان سے قائم ہے جو آدھے بھارت میں مقیم ہیں اور اِتنی ہی تعداد غیر مسلم اقلیتوں کی پاکستان میں موجود ہے۔ سرحدیں تقسیم ہوتی ہیں لوگ نہیں جو زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کررہے ہیں، ان میں سول انتظامیہ ہو یا عدلیہ، بیورو کریسی ہو یا سماجی فلاحی تنظیموں کے سربراہان ہوں۔ جو بھارت میں مقیم ہیں چاہے وہ مسلمان ہی ہوں وہ بھارتی شہری ہیں اور جو پاکستان میں رہ گئے وہ چاہے ہندو ہوں یا پارسی وہ پاکستانی ہی ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کو اعلیٰ سول اعزازات راج پتی بھون سے بھی نوازا گیا ہے۔
اسی طرح پاکستان میں ہندوئوں کو بھی اعلیٰ سول اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ اس معاملے میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ بھارت میں بھارتی جنتا پارٹی (BJP) کے سربراہ بال ٹھاکرے نہایت متعصب اور کٹّر ہندو واقع ہوئے ہیں۔ وہ کوئی کسر روا نہیں رکھتے پاکستان کو بدنام کرنے میں لیکن ان کے اس طرح کے بیانات و مظالم سے وہاں کے مسلمان ہجرت کرنے پر تو مجبور نہیں ہوتے۔
یہاں ہماری سول حکومت، ہیومن رائٹس کمیشن، اعلیٰ انتظامی امور کے نگراں کا کیا کام ہے، وہ کیا کررہے ہیں؟ ہندو برادری کے لوگ واہگہ کے راستے بھارت داخل ہوگئے، کسی کے پاس مکمل سفری دستاویزات تھے تو کسی کے پاس نہیں۔ بھارت جانے والے دو خاندانوں کے پاس این او سی (NOC) موجود تھا، باقی تمام حضرات اس سے مبّرا تھے۔ ڈاکٹر نند اور ڈاکٹر رادھا کشن کے پاس (NOC) تھا۔ سبب پوچھا گیا تو ان میں سے ایک شخص نے کہا یہاں ہمارے لوگ اغوا ہورہے ہیں، ان کو قتل کیا جارہا ہے، یہی صورت حال کیا مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہے۔ ہماری لڑکیاں محفوظ نہیں ہیں۔
ہماری تاجر برادری سخت اذیت میں ہے۔ سبب وہی ہے بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی اور امن و امان کی ناقص صورتِ حال۔ حکومتِ وقت نے اس سلسلے میں تین رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ اس کمیٹی میں وفاقی وزیر مولا بخش چانڈیو، سینیٹر ہری رام، لعل چند این اے شامل ہیں۔ اس سلسلے میں صدارتی ترجمان فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری نے متعلقہ حکام سے ہندوئوں کی بھارت نقل مکانی پر فوری رپورٹ طلب کرلی ہے اور انھوں نے ہندو برادری کو تحفظ فراہم کرنے کی فوراً ہدایت جاری کی ہے۔
لیکن یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ پاکستانی ہندوئوں نے بھارت نہ جانے پر احتجاج کیوں کیا۔ کیوں امیگریشن حکام کے خلاف نعرے بازی کی۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے کو کہا گیا ہے کہ مکمل سفری دستاویزات کے حامل ہندو شہریوں کو ضروری جانچ پڑتال کے بعد بھارت یاترا کی اجازت دے دی جائے اور سیاسی وجوہ کے حامل ہندو شہریوں کو ترکِ وطن کی اجازت نہ دی جائے۔ یہ بلاشبہ اچھا اقدام ہے اور حکومت اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے۔ بعض ہندوئوں نے کہا ہے کہ وہ بھارت اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کے لیے جارہے ہیں، ان کو اجازت دی جائے، ان کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے، وہ واپس ہی آئیں گے۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔
انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے، اس کا فروغ عام ہونا چاہیے۔ آدم سے انسان بننے کے عمل میں زیادہ محنت درکار ہوتی ہے۔ فروغِ انسانیت ہوگا تو امن کی فاختائیں اپنی اپنی چونچوں میں زیتون کی ڈالیاں اِدھر ادھر لیے گھومتی پھرتی رہیں گی۔ جنوبی افریقہ میں گوروں کا کالوں کے ساتھ کس قدر بھیانک کردار رہا ہے، لاکھوں کالوں کو غلام بنا کر لایا گیا۔ ان کو مارا گیا، ان کی نسل کشی کی گئی، انھی میں سے ایک نیلسن منڈیلا اٹھے اور اپنی قوم سے کہا کہ آپ صبر و ہمت سے رہیں اور ملکی استحکام کو مزید خراب نہ کریں اور ہتھیار نہ اٹھائیں، انسانیت کا فروغ جاری رکھیں، امن و امان قائم کریں۔
ان کو 21 سال جیل کاٹنی پڑی اور آج سے بارہ سال پہلے ان کو امن کا نوبل پرائز ملا اور جنھوں نے لاکھوں کالوں کو مارا، ان کا نام بھی کوئی نہیں جانتا، کیونکہ باطل کبھی حق پر حاوی نہیں ہوسکتا، واقعۂ کربلا اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ جب تیروں کی نوک پر معصومین کے لاشے تھے اور زبان پر صرف کلمۂ حق تھا۔
پچھلے دنوں صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اقلیتوں کی نشستوں میں 4 سیٹوں کا اضافہ کیا ہے جو ایک خوش آیند قدم ہے، لیکن اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بھی حکومتی اور نیم سرکاری سطح پر کام ہونا چاہیے۔ اگر آپ بحیثیت مسلمان کسی کو بھی دکھ پہنچانے کے دار پر ہیں تو آپ اﷲ تعالیٰ اور رسولِ خداؐ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔ حدیثِ نبویؐ ہے کہ اگر آپ کو کوئی یہودی، عیسائی اپنی شراب امانتاً رکھوائے تو آپ اس کی حفاظت اس طرح کریں جس طرح اپنے سرکے کی۔