عمران خان کے دورے سے وابستہ عوامی توقعات
تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کے دورہ پشاور کا سب کو انتظار تھا کیونکہ عام انتخابات میں پشاور سمیت صوبہ بھر ۔۔۔
تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان کے دورہ پشاور کا سب کو انتظار تھا کیونکہ عام انتخابات میں پشاور سمیت صوبہ بھر کے لوگوں نے جس طریقہ سے عمران خان اور ان کی پارٹی پر اعتماد کا اظہار کیا اس کے بعد عوام کی توقعات بھی اتنی ہی زیادہ ہیں اور وہ اس وقت صوبہ کے حکمرانوں اور حکمران پارٹی کے سربراہ کی قربت بھی چاہتے ہیں۔
تاہم عمران خان اپنے دورہ پشاور کے دوران اقتدار کے ایوانوں تک ہی محدود رہے اور نہ تو انہوں نے چند قدموں کے فاصلے پر واقع ہسپتال کا دورہ کرتے ہوئے وہاں پر مردان اور پشاور بم دھماکے کے زخمیوں کی عیادت کرنا مناسب سمجھی اور نہ وہ اپنی پارٹی کے جاں بحق ہونے والے رکن فرید خان کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کے لیے ہنگو گئے جس کے باعث یقینی طور پر صوبہ کے لوگوں کو مایوسی ہوئی ہے، تاہم وہ اپنے دورہ کے دوران صوبہ کے حوالے سے بعض معاملات کو واضح کرگئے ہیں جن میں سب سے اہم ترقیاتی فنڈزکا استعمال ہے۔
جس کے بارے میں انہوں نے واضح کردیا ہے کہ یہ فنڈز بلدیاتی سطح پر منتخب ہونے والے نمائندے استعمال کریں گے ،کیونکہ ان فنڈز ہی کے حوالے سے اس وقت صوبائی حکومت کو اسمبلی میں ارکان کی جانب سے سب سے زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، جس کو اگرچہ وزیراعلیٰ نے یہ کہہ کر واضح کردیا ہے کہ مذکورہ فنڈز ارکان کو ڈائریکٹ نہیں ملیں گے اور ضلعی مشاورتی کمیٹیوں کی جانب سے ارسال کی جانے والی سکیموں ہی کے لیے ان فنڈز کا اجراء کیاجائے گا تاہم اصل کہانی بلدیاتی انتخابات کے بعد شروع ہوگی جب ایم پی ایز ان فنڈز سے محروم ہوجائیں گے ۔
عمران خان کا یہ کہنا بجا ہے کہ وزیراعظم دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی تشکیل دیں اور ہم ان کا ساتھ دیں گے، تاہم معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں ہے کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت کے چند ہی دن گزرنے کے بعد خیبرپختونخوا میں امن وامان کی جو صورت حال اچانک بنی ہے اس کی وجہ سے اب صوبائی حکومت کو بھی اس سلسلے میں غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے، اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے صوبائی حکومت آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد پر غور کررہی ہے جو گزشتہ حکومتوں میں بھی منعقد ہوتی رہی ہیں۔
گزشتہ حکومتیں آل پارٹیز کانفرنسوں کا انعقاد کرنے پر اس لیے مجبور تھیں کہ اس وقت جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا اسمبلی میں نمائندگی نہیں تھی اور ان دونوں پارٹیوں کو فیصلہ سازی اور مشاورت کے عمل میں شریک کرنے کے لیے اے پی سیز کا انعقاد ضروری تھا مگر اس وقت تقریباًتمام ہی بڑی پارٹیوں کی نمائندگی اسمبلیوں میں ہے اس لیے بجائے اس کے کہ صوبائی حکومت اسمبلی سے ہٹ کر کسی آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرے اور اس کے نام پر تمام پارٹیوں کو اکھٹا کرے ۔
کیوں ناں یہ کام اسمبلی ہی میں کیاجائے جو عوام کا منتخب ادارہ ہے اور جس میں موجود ہر رکن کے پیچھے عوام کی قوت اور طاقت موجود ہے اس لیے صوبائی حکومت دہشت گردی کی روک تھام کے لیے جو بھی پالیسی اپنانا چاہتی ہے وہ ان اراکین اسمبلی سے ایوان میں مشاورت کرتے ہوئے ہی اپنائے اور اس کا اعلان اسمبلی کے فورم پر کیاجائے تو اس کا زیادہ اور فوری طور پر اثر بھی ہوگا کیونکہ کوئی بھی غیر منتخب فورم بہرکیف ایک منتخب فورم کا مقابلہ نہیں کرسکتااور پھر وہ بھی اس صورت میں کہ خود صوبائی حکومت کے عہدیدار اسمبلی کو ''جرگہ''کانام دیتے ہوں جس سے اس فورم کی اہمیت میں مزید کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے ۔
صوبائی حکومت کو ایک جانب امن وامان کی صورت حال کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اس سلسلے میں حکومت کو ٹھوس اور جامع پالیسی اپنانا پڑے گی تو دوسری جانب اس مرتبہ اپوزیشن جماعتیں بھی فرینڈلی اپوزیشن کرنے کے موڈ میں نہیں بلکہ وہ حقیقی اور اصلی اپوزیشن بن کر دکھانے کے چکر میں ہیں کیونکہ اپوزیشن میں بیٹھی چاروں جماعتیں ،تحریک انصاف ہی کے ہاتھوں زخم خوردہ ہیں اور یہی درد مشترکہ ان جماعتوں کو نہ صرف قریب لے آیا ہے بلکہ اس نے انھیں اس بات پر مجبور بھی کردیا ہے کہ وہ حکومت کو اصل اپوزیشن بن کر دکھائیں جس کی ایک جھلک انہوں نے سپیکر صوبائی اسمبلی کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ کرتے ہوئے دکھائی ہے حالانکہ سپیکر کے خلاف واک آؤٹ شاذونادر ہی ہوا کرتا ہے۔
تاہم صوبائی اسمبلی میں چاروں اپوزیشن جماعتوں نے ابتدائی دنوں ہی میں ایسا کرکے دکھا دیا ہے اور اگر صوبائی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر جو بدستور تحریک انصاف کی صوبائی صدارت سنبھالے ہوئے ہیں اگر انہوں نے پارٹی صدارت نہ چھوڑی تو انھیں اپوزیشن کی جانب سے مزید ایسے ہی اقدامات کی توقع کرنی چاہیے جس کے ساتھ ہی اپوزیشن حکومت کو بھی ٹف ٹائم دینے کیلئے پوری تیاری کیے ہوئے ہے جن میں سب سے اہم اراکین اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز کا معاملہ ہے۔
جس پر اپوزیشن جماعتیں عدالت جانے کے لیے تیار بیٹھی ہوئی ہیں اور اگر حکومت نے اس بارے میں کوئی واضح پالیسی نہ اپنائی تو پھر شاید یہ معاملہ عدالت ہی میں طے ہو کیونکہ اپوزیشن جماعتیں اس معاملہ میں کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، تاہم اپوزیشن کی سطح پر اس تمام گرما گرمی کے باوجود صورت حال یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر سردار مہتاب احمد خان صوبائی اسمبلی کو وقت نہیں دے پا رہے جن کی بطور گورنر تقرری کے معاملات زیر غور ہیں جس کے باعث یقینی طور پر اپوزیشن کو نقصان ہورہا ہے جبکہ ان کے ساتھ ہی جے یو آئی کے پارلیمانی لیڈر مولانا لطف الرحمٰن بھی اسمبلی آنے میں تکلف سے کام لے رہے ہیں جس کے باعث اپوزیشن اپنا اصل رنگ نہیں جما پارہی ۔
اپوزیشن جماعتیں صرف اسمبلی کے اندر ایک دوسرے کے قریب نہیں آئیں بلکہ اسمبلی سے باہر بھی یہ جماعتیں ایک دوسرے کے قریب آرہی ہیں اور ضمنی انتخابات میں چاروں اپوزیشن جماعتیں مشترکہ امیدوار میدان میں اتارنے کے لیے مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ دوسری جانب تحریک انصاف اور اس کے ساتھ شریک اقتدار دیگر جماعتیں بھی مشترکہ امیدوار ہی میدان میں اتاریں گی جن کا مقابلہ اسی صورت میں کیا جاسکتا کہ اگر اپوزیشن جماعتیں بھی اپنے مشترکہ امیدوار میدان میں اتاریں، اپوزیشن کی جانب سے مشترکہ امیدوار میدان میں اتارنے کے لیے جمعیت علماء اسلام اور اے این پی کو قربانی دینی پڑے گی کیونکہ قومی وصوبائی اسمبلی کی جن نشستوں پر ضمنی انتخابات منعقد ہونے جارہے ہیں ان میں وہ نشستیں شامل ہیں جو یا تو جے یو آئی اور اے این پی نے جیت کر چھوڑی ہیں یا پھر ان نشستوں پر ان دونوں جماعتوں کے امیدوار رنر اپ آئے تھے اور ماضی میں مشترکہ امیدوار میدان میں اتارنے کے سلسلے میں جو فارمولے بنتے آئے ہیں۔
ان میں ترتیب یہی رہی ہے کہ جو پارٹی جو نشست خالی کرتی ہے وہ اسی کے حصہ میں آتی ہے اور اگر کسی دوسری پارٹی کی جانب سے مذکورہ نشست خالی کی گئی ہو تو پھر دیگر جماعتیں رنر اپ کو مذکورہ نشست دیتی ہیں،اس فارمولے کے تحت یہ نشستیں یا تو جے یو آئی کے حصہ میں آتی ہیں یا پھر اے این پی کے، تاہم دونوں جماعتوں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ وہ مسلم لیگ(ن)اور پیپلزپارٹی کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے انھیں بھی ایک ،ایک نشست دیں اور اگر یہی فارمولا حقیقی معنوں میں نافذ کیا گیا تو اس سے یقینا اپوزیشن کو مزید تقویت ملے گی ۔
تاہم عمران خان اپنے دورہ پشاور کے دوران اقتدار کے ایوانوں تک ہی محدود رہے اور نہ تو انہوں نے چند قدموں کے فاصلے پر واقع ہسپتال کا دورہ کرتے ہوئے وہاں پر مردان اور پشاور بم دھماکے کے زخمیوں کی عیادت کرنا مناسب سمجھی اور نہ وہ اپنی پارٹی کے جاں بحق ہونے والے رکن فرید خان کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کے لیے ہنگو گئے جس کے باعث یقینی طور پر صوبہ کے لوگوں کو مایوسی ہوئی ہے، تاہم وہ اپنے دورہ کے دوران صوبہ کے حوالے سے بعض معاملات کو واضح کرگئے ہیں جن میں سب سے اہم ترقیاتی فنڈزکا استعمال ہے۔
جس کے بارے میں انہوں نے واضح کردیا ہے کہ یہ فنڈز بلدیاتی سطح پر منتخب ہونے والے نمائندے استعمال کریں گے ،کیونکہ ان فنڈز ہی کے حوالے سے اس وقت صوبائی حکومت کو اسمبلی میں ارکان کی جانب سے سب سے زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، جس کو اگرچہ وزیراعلیٰ نے یہ کہہ کر واضح کردیا ہے کہ مذکورہ فنڈز ارکان کو ڈائریکٹ نہیں ملیں گے اور ضلعی مشاورتی کمیٹیوں کی جانب سے ارسال کی جانے والی سکیموں ہی کے لیے ان فنڈز کا اجراء کیاجائے گا تاہم اصل کہانی بلدیاتی انتخابات کے بعد شروع ہوگی جب ایم پی ایز ان فنڈز سے محروم ہوجائیں گے ۔
عمران خان کا یہ کہنا بجا ہے کہ وزیراعظم دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی تشکیل دیں اور ہم ان کا ساتھ دیں گے، تاہم معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں ہے کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت کے چند ہی دن گزرنے کے بعد خیبرپختونخوا میں امن وامان کی جو صورت حال اچانک بنی ہے اس کی وجہ سے اب صوبائی حکومت کو بھی اس سلسلے میں غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے، اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے صوبائی حکومت آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد پر غور کررہی ہے جو گزشتہ حکومتوں میں بھی منعقد ہوتی رہی ہیں۔
گزشتہ حکومتیں آل پارٹیز کانفرنسوں کا انعقاد کرنے پر اس لیے مجبور تھیں کہ اس وقت جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا اسمبلی میں نمائندگی نہیں تھی اور ان دونوں پارٹیوں کو فیصلہ سازی اور مشاورت کے عمل میں شریک کرنے کے لیے اے پی سیز کا انعقاد ضروری تھا مگر اس وقت تقریباًتمام ہی بڑی پارٹیوں کی نمائندگی اسمبلیوں میں ہے اس لیے بجائے اس کے کہ صوبائی حکومت اسمبلی سے ہٹ کر کسی آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرے اور اس کے نام پر تمام پارٹیوں کو اکھٹا کرے ۔
کیوں ناں یہ کام اسمبلی ہی میں کیاجائے جو عوام کا منتخب ادارہ ہے اور جس میں موجود ہر رکن کے پیچھے عوام کی قوت اور طاقت موجود ہے اس لیے صوبائی حکومت دہشت گردی کی روک تھام کے لیے جو بھی پالیسی اپنانا چاہتی ہے وہ ان اراکین اسمبلی سے ایوان میں مشاورت کرتے ہوئے ہی اپنائے اور اس کا اعلان اسمبلی کے فورم پر کیاجائے تو اس کا زیادہ اور فوری طور پر اثر بھی ہوگا کیونکہ کوئی بھی غیر منتخب فورم بہرکیف ایک منتخب فورم کا مقابلہ نہیں کرسکتااور پھر وہ بھی اس صورت میں کہ خود صوبائی حکومت کے عہدیدار اسمبلی کو ''جرگہ''کانام دیتے ہوں جس سے اس فورم کی اہمیت میں مزید کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے ۔
صوبائی حکومت کو ایک جانب امن وامان کی صورت حال کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اس سلسلے میں حکومت کو ٹھوس اور جامع پالیسی اپنانا پڑے گی تو دوسری جانب اس مرتبہ اپوزیشن جماعتیں بھی فرینڈلی اپوزیشن کرنے کے موڈ میں نہیں بلکہ وہ حقیقی اور اصلی اپوزیشن بن کر دکھانے کے چکر میں ہیں کیونکہ اپوزیشن میں بیٹھی چاروں جماعتیں ،تحریک انصاف ہی کے ہاتھوں زخم خوردہ ہیں اور یہی درد مشترکہ ان جماعتوں کو نہ صرف قریب لے آیا ہے بلکہ اس نے انھیں اس بات پر مجبور بھی کردیا ہے کہ وہ حکومت کو اصل اپوزیشن بن کر دکھائیں جس کی ایک جھلک انہوں نے سپیکر صوبائی اسمبلی کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ کرتے ہوئے دکھائی ہے حالانکہ سپیکر کے خلاف واک آؤٹ شاذونادر ہی ہوا کرتا ہے۔
تاہم صوبائی اسمبلی میں چاروں اپوزیشن جماعتوں نے ابتدائی دنوں ہی میں ایسا کرکے دکھا دیا ہے اور اگر صوبائی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر جو بدستور تحریک انصاف کی صوبائی صدارت سنبھالے ہوئے ہیں اگر انہوں نے پارٹی صدارت نہ چھوڑی تو انھیں اپوزیشن کی جانب سے مزید ایسے ہی اقدامات کی توقع کرنی چاہیے جس کے ساتھ ہی اپوزیشن حکومت کو بھی ٹف ٹائم دینے کیلئے پوری تیاری کیے ہوئے ہے جن میں سب سے اہم اراکین اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز کا معاملہ ہے۔
جس پر اپوزیشن جماعتیں عدالت جانے کے لیے تیار بیٹھی ہوئی ہیں اور اگر حکومت نے اس بارے میں کوئی واضح پالیسی نہ اپنائی تو پھر شاید یہ معاملہ عدالت ہی میں طے ہو کیونکہ اپوزیشن جماعتیں اس معاملہ میں کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، تاہم اپوزیشن کی سطح پر اس تمام گرما گرمی کے باوجود صورت حال یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر سردار مہتاب احمد خان صوبائی اسمبلی کو وقت نہیں دے پا رہے جن کی بطور گورنر تقرری کے معاملات زیر غور ہیں جس کے باعث یقینی طور پر اپوزیشن کو نقصان ہورہا ہے جبکہ ان کے ساتھ ہی جے یو آئی کے پارلیمانی لیڈر مولانا لطف الرحمٰن بھی اسمبلی آنے میں تکلف سے کام لے رہے ہیں جس کے باعث اپوزیشن اپنا اصل رنگ نہیں جما پارہی ۔
اپوزیشن جماعتیں صرف اسمبلی کے اندر ایک دوسرے کے قریب نہیں آئیں بلکہ اسمبلی سے باہر بھی یہ جماعتیں ایک دوسرے کے قریب آرہی ہیں اور ضمنی انتخابات میں چاروں اپوزیشن جماعتیں مشترکہ امیدوار میدان میں اتارنے کے لیے مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں کیونکہ دوسری جانب تحریک انصاف اور اس کے ساتھ شریک اقتدار دیگر جماعتیں بھی مشترکہ امیدوار ہی میدان میں اتاریں گی جن کا مقابلہ اسی صورت میں کیا جاسکتا کہ اگر اپوزیشن جماعتیں بھی اپنے مشترکہ امیدوار میدان میں اتاریں، اپوزیشن کی جانب سے مشترکہ امیدوار میدان میں اتارنے کے لیے جمعیت علماء اسلام اور اے این پی کو قربانی دینی پڑے گی کیونکہ قومی وصوبائی اسمبلی کی جن نشستوں پر ضمنی انتخابات منعقد ہونے جارہے ہیں ان میں وہ نشستیں شامل ہیں جو یا تو جے یو آئی اور اے این پی نے جیت کر چھوڑی ہیں یا پھر ان نشستوں پر ان دونوں جماعتوں کے امیدوار رنر اپ آئے تھے اور ماضی میں مشترکہ امیدوار میدان میں اتارنے کے سلسلے میں جو فارمولے بنتے آئے ہیں۔
ان میں ترتیب یہی رہی ہے کہ جو پارٹی جو نشست خالی کرتی ہے وہ اسی کے حصہ میں آتی ہے اور اگر کسی دوسری پارٹی کی جانب سے مذکورہ نشست خالی کی گئی ہو تو پھر دیگر جماعتیں رنر اپ کو مذکورہ نشست دیتی ہیں،اس فارمولے کے تحت یہ نشستیں یا تو جے یو آئی کے حصہ میں آتی ہیں یا پھر اے این پی کے، تاہم دونوں جماعتوں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ وہ مسلم لیگ(ن)اور پیپلزپارٹی کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے انھیں بھی ایک ،ایک نشست دیں اور اگر یہی فارمولا حقیقی معنوں میں نافذ کیا گیا تو اس سے یقینا اپوزیشن کو مزید تقویت ملے گی ۔