صرف ایک گولی  آخری حصہ

سل جبری لام بندی کے خلاف تھا اور اس نے ان تمام افراد کی حمایت کی جو اس پر رضا مند نہ تھے۔

zahedahina@gmail.com

اب سے 100برس پہلے یورپ کی سر زمین پر جو خوفناک جنگ لڑی گئی، اس میں لاکھوں نوجوان کھیتوں، خندقوں اور میدانوں میں گولیوں اور توپ کے گولوں کا نشانہ بنے۔ یہ نوجوان جن کے ہنسنے کھیلنے اورکالجوں یونیورسٹیوں میں پڑھنے، موسیقی کی نئی دھنیں بنانے، مصوری کرنے اور محبت میں غرق ہونے کے دن تھے، وہ دور دراز کی زمینوں میں یوں سوئے کہ پھر کبھی نہ جاگے۔ان کی دل فگار مائیں، دل شکستہ باپ اور ہجرکی ماری محبوبائیں ان کے انتظار میں گرفتار رہیں،ایسا انتظار جس کا کبھی انت نہ ہوا ۔

یورپ میں درجنوں زبانیں بولی جاتی ہیں، ان میں ادب لکھا جاتا ہے۔اس وقت بھی بہت سے ادیب تھے جو قوم پرستی کے نام پر ہونے والے اس خون خرابے سے دہشت زدہ تھے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ یہ جنگ ایک کارِ لا حاصل ہے اور ان کی نوجوان نسل چند جرنیلوں اور سیاست دانوں کی ہوس ملک گیری کی بھینٹ چڑھ رہی ہے ۔ یورپ نے صدیوں چھوٹی بڑی لڑائیاں لڑی تھیں لیکن ان کی یونیورسٹیوں ، ان کے تہذیبی اور ثقافتی اداروں نے ایک دل رُبا اور دل آویز موسم کو جنم دیا تھا اور اب اسی حسن اور برنائی کو جسے وہ لازوال سمجھتے تھے ، جنگ کا دیوتا نگلنے کے لیے بیتابی سے بڑھتا چلا آرہا تھا ۔

وہ اپنے اپنے قلم سنبھال کر میدان میں اترے اور انھوں نے جنگ مخالف تحریروں کے ڈھیر لگادیے ۔ ہم اگر رومین رولاں کی امن پسندی کا جائزہ لیں اور اس کی عمر پر نظرکریں تو وہ پہلی جنگ عظیم کے وقوع پذیر ہونے کے وقت 48 برس کا تھا اور پیدائشی طور سے فرانسیسی تھا ۔ نفرت اور تشدد کی آگ بھڑک رہی تھی اور کوئی وقت جاتا تھا کہ وہ فرانس اور پھر سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں سمیٹ لے ۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی اس نے 1913ء میں Above the Battle لکھی ۔

یہ دراصل اس کے جنگ مخالف مضامین تھے جو سوئٹزرلینڈ میں شائع ہوئے تھے ۔ اس کے یہ خیالات جب مرتب ہوکر ایک مجموعے کی صورت میں سامنے آئے تو ایک طرف اس کے قامت میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف اس کی شدید مخالفت ہوئی اور یہ جنگ مخالف تحریریں چوک میں رکھ کر جلا دی گئیں اس کا کہنا تھا کہ میں جنگ کو ناپسند کرتا ہوں لیکن اس سے کہیں زیادہ ان لوگوں کو جو اس میں حصہ لیے بغیر اس کی تعریف و توصیف کرتے ہیں ۔ یہ بات بھی اسی نے کہی تھی کہ سچا ادیب اس قطب نما کی طرح ہے جو بدترین طوفان میں بھی ہمیں شمال کی سمت دکھاتا ہے ۔

یہاں ہمیں کارل اسپٹلرکو بھی یاد کرنا چاہیے جس نے پہلی جنگ عظیم کی مخالفت کی اور اپنے لوگوں کی دشمنی مول لی ۔ اس کا پہلا رزمیہ ''پرومی تھیس'' قلمی نام سے چھپا لیکن بعد میں وہ اس کے اصل نام سے شائع ہوا ۔ ''پرومی تھیس'' وہ یونانی اساطیری کردار ہے جو سچ اورانسانوں سے درد مندی رکھنے کے سبب تیس ہزار برس تک دو پہاڑیوں کے بیچ آہنی زنجیروں سے باندھ دیا جاتا ہے اور رب الارباب زیوس کے حکم پر ایک گدھ تمام دن اس کا کلیجہ نوچتا ہے ، پھر رات آتی ہے ، جس کے ساتھ ہی شبنم آسمانوں سے اترتی ہے اور اس کے زخموں کو بھردیتی ہے۔

کچھ یہی عالم کارل کا ہوا ، پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو اس نے یہ بات بہ اصرارکہی کہ سوئٹزرلینڈ جیسی جنت نظیر سرزمین کو جنگ کا ایندھن نہیں بننا چاہیے جہاں علم و دانش کی فراوانی ہے ۔ یہ کارل کی دانشوری اور استقلال تھا جس نے سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا کہ اسے اس خوں ریزی سے دامن بچانا چاہیے اور غیر جانبداری کا اعلان کردینا چاہیے ۔ سوئٹزرلینڈکی یہ غیر جانبداری آج 100برس بعد بھی اس کے کام آرہی ہے ۔

بہت پہلے کی بات ہے کراچی میں ایک فلم ''آل کوایٹ آن دی ویسٹرن فرنٹ '' سینما گھروں میں چلی تھی اور بہت پسند کی گئی تھی۔ یہ اس جنگ مخالف ناول پر مبنی فلم تھی جو ایرخ ریمارک نے لکھا تھا اور جس کی بہت پذیرائی ہوئی تھی ۔ یہ ناول اپنی اشاعت کے ڈیڑھ سال کے اندر پچیس لاکھ کی تعداد میں فروخت ہوا ۔ 22 زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا اور نازی جرمنی میں اس کے ڈھیر چوک پر رکھ کر جلائے گئے ۔


ایرخ نے جنگ میں حصہ لیا تھا اور اپنے ناول میں جنگ کے دوران جرمن فوجیوں کی ناقابل بیان جسمانی تھکن اور ذہنی اضمحلال کی نہایت باریک بینی سے عکاسی کی ہے ۔ اس نے بیان کیا ہے کہ یہ فوجی جب گھر واپس پہنچے تو شہری زندگی سے کٹے ہوئے اور بے گانگی کے سمندر میں غرق لوگ تھے ۔ یہ کہنے کو انسان تھے ، اس لیے کہ ان کا معدہ روٹی ، گوشت اور شراب کا طلبگار رہتا تھا ، پیاس ان کے حلقوم میں کانٹے اگاتی تھی لیکن انسانوں کے دکھ درد سے، ان کی جذباتی اور سماجی ضرورتوں سے انھیں کوئی علاقہ نہیں رہا تھا ۔ ایرخ کا یہ ناول ہمارے سامنے جنگ کا ایندھن بننے والے نوجوانوں کی دلدوز تصویر پیش کرتا ہے۔

اسی طرح ارنسٹ ہیمنگوے کا ناول ''وداع جنگ'' ہے جس نے ایک فوجی جوان اور فوجی نرس کے رومان کوکسی ایک فرد کا نہیں ، ساری نسل انسانی کا المیہ بنا دیا۔ اس ناول پر بننے والی فلم کا شمار اعلیٰ جنگ مخالف فلموں میں ہوتا ہے ۔ یہ فلم بھی کراچی میں کئی ہفتوں چلی تھی ۔ دیکھنے والے جب پکچر ہاؤس سے نکلتے تھے تو ان کے چہرے آنسوؤں سے نم ہوتے تھے ،یہ صرف لڑکیوں اور عورتوں کا ہی نہیں ، مردوں کا بھی یہی عالم ہوتا تھا ۔ یوں بھی جنگ کا پہلا نوالہ تو نوجوان بنتے ہیں جو کبھی قوم ، کبھی مذہب اور کبھی وطن کے نام پر محاذ جنگ کی طرف کھدیڑدیے جاتے ہیں ۔

جنگ کی مخالفت میںسارتر اور سولزے نتسن اور دوسرے بہت سے ادیبوں نے تحریریں لکھیں ۔ کہانیاں ، ناول ، شعر کہے لیکن ایک شخص ہے جو امن پسندی میں شاید سب سے بڑھا ہوا تھا ۔ وہ انیسویں صدی میں پیدا ہوا اور بیسویں صدی میں جب تک زندہ رہا جنگ مخالف تحریکوں کا سرخیل بن کر جیا ۔ برطانوی اشرافیہ میں پیدا ہونے والا ایک ایسا نوجوان جو نواب ابن نواب تھا ۔ اس کا دادا برطانیہ عظمیٰ کا دو مرتبہ وزیراعظم رہ چکا تھا ، وہ نوجوان 1872ء میں پیدا ہوا ، اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں پڑھا ،کیمبرج بھیجا گیا اور بس یہیں سے گڑ بڑ شروع ہوگئی ۔ وہ منطق ، فلسفے اور ریاضی کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوا ۔ان ہی دنوں یورپ میں جنگ عظیم کا قرنا پھونکا گیا تو وہ نوجوان تڑپ گیا۔ اس کا نام برٹرینڈرسل تھا۔

اس کے شعور اور ضمیر نے اس سے سوالات کیے تو وہ جو اپنے سے کم عمر نوجوانوں کو فوج میں جبری بھرتی کے چنگل میں پھڑپھڑاتا ہوا دیکھ رہا تھا، اس نے اس ظالمانہ قانون کے خلاف اعلان جنگ کردیا ۔ وہ عنفوانِ شباب سے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے رہا تھا لیکن لیبر یا کنزرویٹو پارٹی کا رکن نہیں تھا ۔ اس کی سیاست عورتوں کو ووٹ کا حق ملنے سے متعلق تھی ۔ ایک بڑی جنگ کے آثار سب ہی کو نظر آرہے تھے ۔ رسل نے ایک جنگ مخالف پٹیشن تیار کی جس پر کیمبرج کے 60طالبعلموں کے دستخط تھے ۔ یہ پٹیشن 3اگست 1914 کو روزنامہ ''گارجین'' میں شایع ہوئی ۔ اسی شام برطانوی وزیر خارجہ نے دارالعوام کی حمایت سے جنگ میں شامل ہونے کا اعلان کردیا ۔

سل جبری لام بندی کے خلاف تھا اور اس نے ان تمام افراد کی حمایت کی جو اس پر رضا مند نہ تھے کہ انھیں جنگ کے جہنم میں زبردستی دھکیلا جائے ۔ اس کے جنگ مخالف پمفلٹوں پر جرمانہ عائد ہوا اور جون 1916 میں اسے 100پونڈ ادا کرنے پڑے ۔ وہ ٹرینٹی کالج کی ملازمت سے نکال دیا گیا ، اسے پاسپورٹ جاری کرنے سے انکار کیا گیا کیونکہ وہ امریکا جاکر ہارورڈ میں جنگ مخالف لکچر دینا چاہتا تھا ۔ اس کے فلیٹ پر اسکاٹ لینڈ یارڈ نے بارہا چھاپے مارے ، تلاشی لی تاکہ اس کے خلاف ملک دشمن سرگرمیوں کے ثبوت مل سکیں ۔ 1918ء میں اسے 6مہینے کے لیے جیل بھیج دیا گیا ۔ اس پر پابندی تھی کہ جیل میں اسے کتابیں یا اخبار مہیا نہیں کیے جائیں گے۔

رسل کی جنگ مخالفت تا عمر برقرار رہی ۔ اس نے ویتنام کی جنگ کے خلاف مظاہرے کیے ۔ ٹریبونل بنائے، ساری دنیا کے سامنے ویتنامیوں پر ہونے والے مظالم کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ۔ 1961ء میں اسے جوہری ہتھیاروں کی مخالفت پر جیل بھیجا گیا اور جب وہ 89 برس کا تھا تب بھی اسے ''غداری'' کے الزام میں برکسٹن جیل میں سات دن کی سزا کاٹنی پڑی لیکن اس کی خراب صحت سے خوفزدہ ہوکر حکومت نے اسے رہا کردیا ۔

پہلی جنگ عظیم پر 100برس گزر چکے ، سرب نوجوان کی چلائی ہوئی وہ گولی بھلا دی گئی جس نے کروڑوں انسانوں کو خاک وخون میں نہلادیا اور 20 سے زیادہ یورپی قوموں کو تہس نہیں کردیا لیکن ان ادیبوں اور دانشوروں کے نام آج ہی نہیں بلکہ ہمیشہ آب زر سے لکھے جائیں گے جو ہوا کے مخالف چلتے ہیں ، ''غدار'' کے طعنے سنتے ہیں ، جیل جاتے ہیں لیکن اپنے ضمیرکی آواز سے سرتابی نہیں کرتے ۔
Load Next Story