ملک کی سالمیت کو خطرات
آئے دن کے دہشت گردی کے واقعات کا رونما ہونا بے شک باعث تشویش ہی نہیں بلکہ بے یقینی کی کیفیت کا باعث بھی ہے...
KHAR:
آئے دن کے دہشت گردی کے واقعات کا رونما ہونا بے شک باعث تشویش ہی نہیں بلکہ بے یقینی کی کیفیت کا باعث بھی ہے۔ ایسے واقعات ویسے تو ملک کے ہر صوبے میں ہو رہے ہیں۔ سوائے صوبہ پنجاب کے بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ بلوچستان ان دہشت گردی کے واقعات سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے ہیں۔ ماضی کے چند سالوں میں ان واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور یہ کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔
کیا انتظام کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے سب ہی بے بس و لاچار نظر آ رہے ہیں اور یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے جیسے اس ملک میں حکومتی رٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہے اور حکومت کی رٹ مجروح ہو رہی ہے۔ معلوم نہیں ان دہشت گردوں کا اصل ایجنڈا کیا ہے۔ ان کی کارروائیاں اب تو صرف دو صوبوں تک ہی محدود نہیں رہیں بلکہ دیگر دو صوبوں (بلوچستان اور سندھ) تک پھیل گئی ہیں۔ اب تو وفاق اور صوبوں میں نئی حکومتیں قائم ہو گئی ہیں بجز صوبہ سندھ کے جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت دوبارہ مسند اقتدار پر براجمان ہو گئی ہے۔
بہرحال ابھی تو سب ہی نے ٹیک آف لیا ہے اب دیکھنا ہے کہ ان کی پروازیں کیا رخ اختیار کرتی ہیں۔ اپنی منزل تک پہنچ سکتی ہیں اور اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرتی ہیں۔ اس کا صحیح اندازہ تو اسی وقت ہو گا جب یہ پروازیں لینڈ کریں گی اور جمہوری ٹرین پر سوار ہوں گی۔ خدا کا شکر ہے کہ جمہوریت کی ٹرین تباہی کے بعد دوبارہ ٹریک پر آ گئی ہے۔ بس اسے رفتار پکڑنا ہے۔ ابھی تو ابتدائے عشق ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ ویسے سب ہی جماعتوں اور لیڈران نے بڑے بڑے دعوے کیے اور یقین دہانیاں کرائی ہیں۔
کوئی کہتا ہے ملک کو ایشیا کا ٹائیگر بنا دیں گے تو کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ ملک نیا پاکستان بنا دیں گے۔ لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہم ملک کو دہشت گردوں سے پاک کر دیں گے۔ دہشت گردی کا خاتمہ کر دیں گے۔ ملک میں امن و امان قائم کر کے اسے خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن کر دیں گے۔ ابھی تو حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ مستقبل کے لیے منصوبے تیار کر رہے ہیں۔ مسائل بہت گھمبیر ہیں ان کو حل کرنے کی حکمت عملی تیار کر رہے ہیں۔ یہ ساری کارروائیاں ایک طرف لیکن دہشت گردی کے واقعات بھی سرگرمی سے جاری و ساری ہیں۔
نہ صرف جانی نقصان ہو رہا ہے بلکہ ساتھ ساتھ مالی و تعمیراتی نقصان بھی ہو رہا ہے۔ نہ صرف عوام کا قتل عام ہو رہا ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور عمارات کا بھی قتل ہو رہا ہے۔ جابجا بم دھماکے، خودکش حملے، میزائل اور راکٹوں سے حملے جاری و ساری ہیں۔ تمام سیکیورٹی ادارے حیران ہیں۔ دم بخود ہیں کہ کس طرح ان دہشت گردوں کو قابو کیا جائے اور کس طرح دہشت گردی کو ختم کیا جائے۔ کئی حلقوں سے صورت حال پر قابو پانے کے لیے فوج کو اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ ہو رہا ہے تو کہیں فوجی آپریشن کا مطالبہ ہو رہا ہے۔
ابھی حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں دو بڑے سانحات رو پذیر ہوئے جن میں ایک قائد اعظمؒ کی زیارت والی رہائش گا پر حملہ ہوا۔ عمارت کو بم سے اڑا دیا گیا۔ دوسرا بولان میڈیکل کمپلیکس کی بس پر حملہ ہوا جس میں 15 طالبات جاں بحق ہو گئیں اور 18 زخمی ہوئیں ان میں بھی بتایا جاتا ہے کہ بعض کی حالت تشویشناک ہے اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ مزید ہلاکتیں نہ ہوں۔ کس قدر افسوس ناک اور دل سوز سانحات ہوئے کہ پوری قوم شرمندہ ہے کہ بانی پاکستان کی رہائش گاہ کو بھی نہ بخشا گیا۔ قومی پرچم کا بھی احترام نہ کیا گیا۔ کیسے سنگدل ہیں یہ ''دہشت گرد''۔
سب سے پہلے تو بلوچستان حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے تھا پھر وفاقی حکومت کا بھی ردعمل سامنے آنا چاہیے تھا۔ لیکن شاید یہ خبر صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کی نظر سے اوجھل رہی اس لیے آج دو، چار روز کے بعد بھی کہیں سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ حالانکہ ہمارے وفاقی وزیر داخلہ بلوچستان گئے تھے، قائد اعظمؒ کی رہائش پر حملے کا احوال جاننے کے لیے، معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی بے خبر ہیں مذکورہ بالا خبر سے۔ یوں تو ماضی میں بھی بلوچستان صوبے سے ایسی آوازیں کئی بار بلند ہو چکی ہیں لیکن شاید سب ہی بے خبر ہیں یا دانستہ نظر انداز کر دیتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
تو بات ہو رہی تھی دہشت گردوں کے حملوں کی اور دہشت گردی کے واقعات کی۔ سمجھ نہیں آتا کہ آخر یہ دہشت گرد اتنے طاقت ور کیسے ہو گئے کہ انھوں نے ریاست کے اندر ریاست قائم کی ہوئی ہے۔ اصل ریاست کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ نہ صوبے اور نہ ہی وفاق کو خاطر میں لا رہے ہیں بس تباہی پھیلانا ان کا ایجنڈا اور سوچ کا محور بن گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ اگر یہی صورت حال برقرار رہی اور اسی رفتار سے بڑھتی رہے گی تو کیا ملکی سالمیت کو خطرات لاحق نہیں ہوں گے؟ ملکی سلامتی پر آنچ نہیں آئے گی؟ دہشت گردوں نے کہاں یہ باتیں سنی ہوں گی اور اگر سنی بھی ہوں گی تو ان کے لیے اس کی اہمیت کہاں تھی وہ تو بس اپنے مطلب کی، اپنی مرضی کی شریعت اور شرعی نظام لانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے تو وہ اس جمہوری نظام، جمہوری حکومت، جمہوری آئین قانون کو ''کفر'' قرار دیتے رہے۔
جب ایسی سوچ کے حامل افراد ہوں گے تو ان کی نظر میں کہاں بے گناہ عوام، کہاں جمہوری ادارے، کہاں قانون نافذ کرنے والے قدر رکھتے ہیں۔ جب ان کی نظر میں یہ سب ناجائز ہے تو پھر ان سے بہتری کی توقع عبث ہے۔ تباہ کاری ان کا مقصد اور منصوبہ ہے تو پھر یہ دہشت گرد اسی طرح ملک کو دہشت گردی کی آماجگاہ بنائے رکھیں گے۔ تعلیم حاصل کرنے کی سزا قتل و غارت گری سے دینا، کہاں کا اسلام ہے، کہاں کی شریعت ہے، کیسا شرعی نظام ہے؟
بدبختو! ہوش کے ناخن لو۔ مسلمان ہونے کے ناتے سوچو۔ اس ملک کے باسی ہونے کے ناتے عمل کرو۔ تم کسی غیر ملک کے باشندے ہو اور نہ یہاں جو تم نے دہشت گردی مچائی ہے وہ تمہارے لیے کوئی غیر ملک نہیں ہے۔ بس ختم کرو، بہت ہو گئی دہشت گردی۔ انسانیت سوز حرکتیں بند کرو، انسانیت کا احترام کرو، انسانوں کا قتل عام نہ کرو، انسانوں (وہ بھی بیگناہوں) کا قتل عام تمہیں جنت میں نہیں لے جائے گا بلکہ تم سیدھے دوزخ کا ایندھن بنو گے۔ دوزخ تمہارا ٹھکانہ ہو گا۔ کیونکہ معصوم بچوں کو ورغلاتے ہو کہ بم دھماکے اور خودکش حملے کر کے وہ جنت میں جائیں گے۔
معصوم جو کہ کل جوان ہو کر ملک کے سپاہی بنیں گے ان کی زندگیاں تم بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے ذریعے ختم کر رہے ہو۔ ذرا سوچو! تم معصوموں اور نوجوانوں کی پرورش نہیں نسل کشی کر رہے ہو۔ ہوش میں آ جاؤ، اپنی روش ترک کرو، راہ راست پر آ جاؤ، جہالت کا دور ختم ہو چکا، جہالت کام نہیں آئے گی خود بھی علم سے آگاہی حاصل کرو اور اپنی آل اولاد اور آنے والی نسل کو بھی علم سے آراستہ کرو۔
علم ہی انسان کو انسان بناتا ہے، جاہل گمراہی کی طرف جاتا ہے، درندگی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور انسانیت کی عظمت بیان کروں۔ ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ میں بھینس کے آگے بین بجا رہا ہوں۔ خدارا! سنبھل جاؤ، انسانیت کے دائرے میں آ جاؤ، درندگی کی راہ چھوڑ دو،۔ ملک و قوم کی خدمت میں اپنی جنگی صلاحیتوں کو بروئے کار لاؤ۔ اللہ نے ہی تمہیں یہ جنگجوانہ طاقت عطا فرمائی، اسی طاقت کے ذریعے ملک و قوم کا دفاع کرو، ملک و قوم کو تباہ نہ کرو۔ ملکی سلامتی کو خطرے میں نہ ڈالو، ملکی سلامتی و بقا کے لیے سوچو۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو (آمین)
آئے دن کے دہشت گردی کے واقعات کا رونما ہونا بے شک باعث تشویش ہی نہیں بلکہ بے یقینی کی کیفیت کا باعث بھی ہے۔ ایسے واقعات ویسے تو ملک کے ہر صوبے میں ہو رہے ہیں۔ سوائے صوبہ پنجاب کے بالخصوص صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ بلوچستان ان دہشت گردی کے واقعات سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے ہیں۔ ماضی کے چند سالوں میں ان واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور یہ کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔
کیا انتظام کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے سب ہی بے بس و لاچار نظر آ رہے ہیں اور یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے جیسے اس ملک میں حکومتی رٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہے اور حکومت کی رٹ مجروح ہو رہی ہے۔ معلوم نہیں ان دہشت گردوں کا اصل ایجنڈا کیا ہے۔ ان کی کارروائیاں اب تو صرف دو صوبوں تک ہی محدود نہیں رہیں بلکہ دیگر دو صوبوں (بلوچستان اور سندھ) تک پھیل گئی ہیں۔ اب تو وفاق اور صوبوں میں نئی حکومتیں قائم ہو گئی ہیں بجز صوبہ سندھ کے جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت دوبارہ مسند اقتدار پر براجمان ہو گئی ہے۔
بہرحال ابھی تو سب ہی نے ٹیک آف لیا ہے اب دیکھنا ہے کہ ان کی پروازیں کیا رخ اختیار کرتی ہیں۔ اپنی منزل تک پہنچ سکتی ہیں اور اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرتی ہیں۔ اس کا صحیح اندازہ تو اسی وقت ہو گا جب یہ پروازیں لینڈ کریں گی اور جمہوری ٹرین پر سوار ہوں گی۔ خدا کا شکر ہے کہ جمہوریت کی ٹرین تباہی کے بعد دوبارہ ٹریک پر آ گئی ہے۔ بس اسے رفتار پکڑنا ہے۔ ابھی تو ابتدائے عشق ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ ویسے سب ہی جماعتوں اور لیڈران نے بڑے بڑے دعوے کیے اور یقین دہانیاں کرائی ہیں۔
کوئی کہتا ہے ملک کو ایشیا کا ٹائیگر بنا دیں گے تو کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ ملک نیا پاکستان بنا دیں گے۔ لیکن کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہم ملک کو دہشت گردوں سے پاک کر دیں گے۔ دہشت گردی کا خاتمہ کر دیں گے۔ ملک میں امن و امان قائم کر کے اسے خوشحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن کر دیں گے۔ ابھی تو حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ مستقبل کے لیے منصوبے تیار کر رہے ہیں۔ مسائل بہت گھمبیر ہیں ان کو حل کرنے کی حکمت عملی تیار کر رہے ہیں۔ یہ ساری کارروائیاں ایک طرف لیکن دہشت گردی کے واقعات بھی سرگرمی سے جاری و ساری ہیں۔
نہ صرف جانی نقصان ہو رہا ہے بلکہ ساتھ ساتھ مالی و تعمیراتی نقصان بھی ہو رہا ہے۔ نہ صرف عوام کا قتل عام ہو رہا ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور عمارات کا بھی قتل ہو رہا ہے۔ جابجا بم دھماکے، خودکش حملے، میزائل اور راکٹوں سے حملے جاری و ساری ہیں۔ تمام سیکیورٹی ادارے حیران ہیں۔ دم بخود ہیں کہ کس طرح ان دہشت گردوں کو قابو کیا جائے اور کس طرح دہشت گردی کو ختم کیا جائے۔ کئی حلقوں سے صورت حال پر قابو پانے کے لیے فوج کو اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ ہو رہا ہے تو کہیں فوجی آپریشن کا مطالبہ ہو رہا ہے۔
ابھی حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں دو بڑے سانحات رو پذیر ہوئے جن میں ایک قائد اعظمؒ کی زیارت والی رہائش گا پر حملہ ہوا۔ عمارت کو بم سے اڑا دیا گیا۔ دوسرا بولان میڈیکل کمپلیکس کی بس پر حملہ ہوا جس میں 15 طالبات جاں بحق ہو گئیں اور 18 زخمی ہوئیں ان میں بھی بتایا جاتا ہے کہ بعض کی حالت تشویشناک ہے اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ مزید ہلاکتیں نہ ہوں۔ کس قدر افسوس ناک اور دل سوز سانحات ہوئے کہ پوری قوم شرمندہ ہے کہ بانی پاکستان کی رہائش گاہ کو بھی نہ بخشا گیا۔ قومی پرچم کا بھی احترام نہ کیا گیا۔ کیسے سنگدل ہیں یہ ''دہشت گرد''۔
سب سے پہلے تو بلوچستان حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے تھا پھر وفاقی حکومت کا بھی ردعمل سامنے آنا چاہیے تھا۔ لیکن شاید یہ خبر صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کی نظر سے اوجھل رہی اس لیے آج دو، چار روز کے بعد بھی کہیں سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ حالانکہ ہمارے وفاقی وزیر داخلہ بلوچستان گئے تھے، قائد اعظمؒ کی رہائش پر حملے کا احوال جاننے کے لیے، معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی بے خبر ہیں مذکورہ بالا خبر سے۔ یوں تو ماضی میں بھی بلوچستان صوبے سے ایسی آوازیں کئی بار بلند ہو چکی ہیں لیکن شاید سب ہی بے خبر ہیں یا دانستہ نظر انداز کر دیتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
تو بات ہو رہی تھی دہشت گردوں کے حملوں کی اور دہشت گردی کے واقعات کی۔ سمجھ نہیں آتا کہ آخر یہ دہشت گرد اتنے طاقت ور کیسے ہو گئے کہ انھوں نے ریاست کے اندر ریاست قائم کی ہوئی ہے۔ اصل ریاست کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ نہ صوبے اور نہ ہی وفاق کو خاطر میں لا رہے ہیں بس تباہی پھیلانا ان کا ایجنڈا اور سوچ کا محور بن گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ اگر یہی صورت حال برقرار رہی اور اسی رفتار سے بڑھتی رہے گی تو کیا ملکی سالمیت کو خطرات لاحق نہیں ہوں گے؟ ملکی سلامتی پر آنچ نہیں آئے گی؟ دہشت گردوں نے کہاں یہ باتیں سنی ہوں گی اور اگر سنی بھی ہوں گی تو ان کے لیے اس کی اہمیت کہاں تھی وہ تو بس اپنے مطلب کی، اپنی مرضی کی شریعت اور شرعی نظام لانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے تو وہ اس جمہوری نظام، جمہوری حکومت، جمہوری آئین قانون کو ''کفر'' قرار دیتے رہے۔
جب ایسی سوچ کے حامل افراد ہوں گے تو ان کی نظر میں کہاں بے گناہ عوام، کہاں جمہوری ادارے، کہاں قانون نافذ کرنے والے قدر رکھتے ہیں۔ جب ان کی نظر میں یہ سب ناجائز ہے تو پھر ان سے بہتری کی توقع عبث ہے۔ تباہ کاری ان کا مقصد اور منصوبہ ہے تو پھر یہ دہشت گرد اسی طرح ملک کو دہشت گردی کی آماجگاہ بنائے رکھیں گے۔ تعلیم حاصل کرنے کی سزا قتل و غارت گری سے دینا، کہاں کا اسلام ہے، کہاں کی شریعت ہے، کیسا شرعی نظام ہے؟
بدبختو! ہوش کے ناخن لو۔ مسلمان ہونے کے ناتے سوچو۔ اس ملک کے باسی ہونے کے ناتے عمل کرو۔ تم کسی غیر ملک کے باشندے ہو اور نہ یہاں جو تم نے دہشت گردی مچائی ہے وہ تمہارے لیے کوئی غیر ملک نہیں ہے۔ بس ختم کرو، بہت ہو گئی دہشت گردی۔ انسانیت سوز حرکتیں بند کرو، انسانیت کا احترام کرو، انسانوں کا قتل عام نہ کرو، انسانوں (وہ بھی بیگناہوں) کا قتل عام تمہیں جنت میں نہیں لے جائے گا بلکہ تم سیدھے دوزخ کا ایندھن بنو گے۔ دوزخ تمہارا ٹھکانہ ہو گا۔ کیونکہ معصوم بچوں کو ورغلاتے ہو کہ بم دھماکے اور خودکش حملے کر کے وہ جنت میں جائیں گے۔
معصوم جو کہ کل جوان ہو کر ملک کے سپاہی بنیں گے ان کی زندگیاں تم بم دھماکوں اور خودکش حملوں کے ذریعے ختم کر رہے ہو۔ ذرا سوچو! تم معصوموں اور نوجوانوں کی پرورش نہیں نسل کشی کر رہے ہو۔ ہوش میں آ جاؤ، اپنی روش ترک کرو، راہ راست پر آ جاؤ، جہالت کا دور ختم ہو چکا، جہالت کام نہیں آئے گی خود بھی علم سے آگاہی حاصل کرو اور اپنی آل اولاد اور آنے والی نسل کو بھی علم سے آراستہ کرو۔
علم ہی انسان کو انسان بناتا ہے، جاہل گمراہی کی طرف جاتا ہے، درندگی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور انسانیت کی عظمت بیان کروں۔ ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ میں بھینس کے آگے بین بجا رہا ہوں۔ خدارا! سنبھل جاؤ، انسانیت کے دائرے میں آ جاؤ، درندگی کی راہ چھوڑ دو،۔ ملک و قوم کی خدمت میں اپنی جنگی صلاحیتوں کو بروئے کار لاؤ۔ اللہ نے ہی تمہیں یہ جنگجوانہ طاقت عطا فرمائی، اسی طاقت کے ذریعے ملک و قوم کا دفاع کرو، ملک و قوم کو تباہ نہ کرو۔ ملکی سلامتی کو خطرے میں نہ ڈالو، ملکی سلامتی و بقا کے لیے سوچو۔ خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو (آمین)