امن کے لیے متفقہ لائحہ عمل کی ضرورت

ملک کے سب سے بڑے اور اہم تجارتی و صنعتی شہر کراچی اور صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں جمعہ المبارک کو...

ملک کے سب سے بڑے اور اہم تجارتی و صنعتی شہر کراچی اور صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں جمعہ المبارک کو ایک مرتبہ پھر بربریت اور درندگی کا کھیل کھیلا گیا اور دونوں شہر آگ و خون میں نہا گئے۔ کراچی میں جمعے کی نماز پڑھ کر گھر واپس جاتے ہوئے ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی ساجد قریشی اور ان کے جواں سال بیٹے وقاص قریشی کو پہلے سے گھات میں بیٹھے دہشت گردوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کر کے قتل کر دیا۔ ساجد قریشی ایم کیو ایم کے سینئر ترین رہنماؤں میں سے تھے وہ 1987سے متحدہ کے پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمیوں میں فعال رہے۔

ساجد قریشی اور ان کے صاحبزادے کے قتل کی ذمے داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے۔ ادھر پشاور میں مدرسہ عارف الحسینی کی مسجد میں نماز جمعہ کے خطبے کے دوران تین نوجوان شدت پسندوں نے پہلے مسجد کے باہر موجود گارڈ کو نشانہ بنایا پھر مسجد کے اندر داخل ہو کر فائرنگ کی جب کہ ایک نوجوان نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس کے نتیجے میں 15 نمازی شہید اور 30 سے زائد زخمی ہو گئے ان دو وارداتوں سے تین چار روز قبل مردان میں ایک نماز جنازہ کی ادائیگی کے دوران بھی خودکش بمبار نے اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔

جس کے نتیجے میں نماز جنازہ میں شریک پی ٹی آئی کے رہنما ایم پی اے عمران مہمند سمیت 30 افراد شہید ہو گئے تھے۔ اسی طرح بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں گزشتہ ہفتے ہونے والی دہشت گردی کی تین بڑی وارداتوں نے اہل وطن کو ہلا کے رکھ دیا تھا اور پوری قوم رنج و الم کی کیفیت میں ڈوبی رہی۔ شدت پسند عناصر نے بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ ''زیارت ریزیڈنسی'' کو نشانہ بنایا۔ لکڑیوں سے بنی بانی پاکستان کی اس تاریخی آرام گاہ پر حملہ درحقیقت ''نظریہ پاکستان'' پر حملہ ہے یہ حصول پاکستان کی لازوال تاریخی جدوجہد اور لاکھوں شہداء کی قربانیوں پر حملہ ہے یہی وجہ ہے کہ ملک کے سب ہی قابل حلقوں کی جانب سے زیارت ریزیڈنسی کو تباہ کرنے کی شدید مذمت کی گئی بلوچ لبریشن آرمی نے اس حملے کی ذمے داری قبول کر کے اپنے اصل عزائم کو گویا بے نقاب کر دیا ہے۔

لڑکیوں کی تعلیم کے دشمن شدت پسندوں نے سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی طالبات کی بس پر حملہ کیا جو ایک خودکش خاتون بمبار نے کیا پھر بولان میڈیکل کمپلیکس میں جہاں زخمیوں کو طبی امداد دی جا رہی تھی وہاں بھی دہشت گردوں نے ہلہ بول دیا اور کئی گھنٹے تک سیکیورٹی اہلکاروں اور شدت پسندوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا۔ اس سانحے میں ڈپٹی کمشنر کوئٹہ، 14 طالبات، چارسیکیورٹی اہلکار اور چار نرسوں سمیت تقریباً 30 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ وہ طالبات جو ملک کے روشن مستقبل کی امید تھیں انھیں شہید کر کے قوم کے مستقبل پر کاری ضرب لگائی گئی ہے اور اس افسوسناک واقعے کی ذمے داری ایک کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے، دہشت گردی کے مسلسل واقعات نے سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔


کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں ہونے والے دہشت گردی کے مذکورہ پے درپے واقعات نے پوری قوم کو رنجیدہ اور فکر و اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔ معصوم اور بے گناہ لوگوں کا بے دردی سے قتل کر دینا انتہائی بہیمانہ طرز عمل اور شقی القلبی کا مظہر ہے۔ مہذب دنیا کا کوئی بھی قانون، معاشرہ اور مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مخصوص لوگوں کا کوئی گروہ اپنے خود ساختہ نظریات منوانے اور دوسروں کو جبری طور پر اس کا پابند بنانے کے لیے طاقت کے ذریعے خوف و ہراس کی فضا پیدا کرے اور اس پر مستزاد انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے بے گناہ و معصوم لوگوں پر جبر و تشدد کرے اور وحشیانہ و سفاکانہ طریقے سے انھیں موت کے گھاٹ اتار دے۔

ہمارا پیارا دین اسلام تو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے لیکن افسوس کہ وطن عزیز میں اسلام ہی کے نام پر شدت پسند طالبان نامی مختلف گروپوں اور دیگر انتہا پسند تنظیموں نے گزشتہ ایک دہائی سے اپنے مخصوص ''اسلامی نظریات'' کو بندوق کی طاقت سے منوانے کے لیے جبر و تشدد، وحشت و بربریت، قتل و غارت گری، دہشت گردی اور آگ و خون کا جو خوفناک کھیل شروع کر رکھا ہے اس نے نہ صرف عوام کا سکھ چین چھین لیا ہے بلکہ ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ کیونکہ ملک کے اعلیٰ ترین سیکیورٹی ادارے سے لے کر ہر ادارہ دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ الطاف حسین نے اقوام متحدہ سے بجا طور پر مطالبہ کیا وہ طالبان کو دنیا کا بزدل ترین گروہ قرار دے۔

شدت پسند عناصر ملک کی اعتدال پسند قوتوں کو بطور خاص نشانہ بنا رہے ہیں۔ ملک کی مقبول سیاسی جماعتیں پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی جیسی لبرل سوچ اور نظریات کی حامل سیاسی جماعتیں ان کے نشانے پر ہیں۔ 11 مئی کے انتخابات سے قبل طالبان گروپ نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ مذکورہ جماعتوں کی انتخابی ریلیوں اور جلسوں کو نشانہ بنائیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ یہ جماعتیں اپنی انتخابی مہم کھل کر چلانے سے قاصر رہیں نتیجتاً پی پی پی اور اے این پی کو بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اگرچہ ایم کیو ایم نے عوامی حمایت سے اپنی روایتی نشستیں جیت لیں لیکن شدت پسند عناصر نے کراچی کی نمایندہ جماعت ایم کیو ایم کے کارکنوں اور رہنماؤں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

گزشتہ ایک ماہ کے دوران ایم کیو ایم کے کئی کارکن اغواء اور لاپتہ ہو گئے اور متعدد کو قتل کر دیا گیا ایم پی اے ساجد قریشی اور ان کے صاحبزادے کا قتل اسی سلسلے کی کڑی ہے جس پر ایم کیو ایم کا سراپا احتجاج ہونا ناقابل فہم نہیں رابطہ کمیٹی نے اس قتل و غارت کو مہاجروں کی نسل کشی سے تعبیر کرتے ہوئے پوری دنیا میں احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ صوبائی و وفاقی حکومت کو کراچی کے سنگین اور تشویشناک حالات کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔ توقع یہ کی جا رہی تھی کہ میاں نواز شریف کی حکومت آنے کے بعد صورت حال بہتر ہو گی ملک میں امن و امان قائم ہو گا کیونکہ میاں صاحب طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں ان سے مذاکرات کے حامی ہیں اسی طالبان نے انھیں انتخابی مہم کے دوران ''فری ہینڈ'' دے دیا تھا اور میاں صاحب برسر اقتدار آ گئے لیکن ایک ماہ گزرنے کے باوجود امن و امان کی صورت حال مزید خراب ہو گئی ہے۔

شر پسند عناصر کی تخریبی کارروائیوں میں تیزی آتی جا رہی ہے حکومت طالبان گروپوں سے مذاکرات میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں کر رہی۔ نانگا پربت بیس کیمپ پر دہشت گردی کی سفاکانہ کارروائی ہوئی۔ ادھر قطر میں امریکا افغان طالبان مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امن کے قیام، دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑنے اور ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن و سیکیورٹی اداروں کو متحد ہو کر متفقہ لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔
Load Next Story