ڈاکوؤں نے ملیر سٹی کے سرکاری اسکول میں خواتین اساتذہ کو لوٹ لیا
ملیر سٹی میں 2 ڈاکوؤں نے اسکول کی ہیڈ مسٹریس سمیت 3 ٹیچرز سے زیورات لوٹ لیے۔
ملیر سٹی میں واقع سرکاری اسکول میں 2 ڈاکوؤں نے داخل ہو کر ہیڈ مسٹریس سمیت دیگر اسکول ٹیچرز کو یرغمال بنا کر بھاری مالیت کے طلائی زیورات لوٹ لیے۔
ملیرسٹی کے علاقے میں واقع گورمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول چھٹائی گراؤنڈ کمپس میں ہفتے کی صبح پونے نو بجے کے قریب 2 مسلح ڈاکوؤں نے داخل ہو کر اسکول کی ہیڈ مسٹریس شگفتہ تحسین اور دیگر 3 ٹیچرز آمنہ ، شازیہ حمید اور ناہیدکو یرغمال بنا کر ان سے طلائی زیورات لوٹ کر فرار ہوگئے۔
اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ دونوں ڈاکوؤں نے اپنی شناخت چھپانے کے لیے ہیلمٹ پہنے ہوئے تھے،اسکول کا چوکیدار بھی موجود نہیں تھا،ملیر سٹی تھانے میں جمع کرائی جانے والے درخواست کے مطابق ڈاکو 3 طلائی کڑے،طلائی چین اور 5 طلائی انگوٹھیاں اور بندے چھین کر فرار ہوئے ہیں جن کی مالیت 3 لاکھ روپے سے زائد بتائی جاتی ہے۔
اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں کی دیدا دلیری اور اطمینان سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں پولیس کا کوئی خوف نہیں تھا اور وہ آزادانہ لوٹ مار کے بعد فرار ہوگئے ، ڈاکوؤں کے اسکول میں گھس کر واردات کرنے کی اطلاع پر زیر تعلیم طالبات میں شدید خوف پھیل گیا،اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ واقعے کی اطلاع مددگار 15 پر دی گئی پولیس آئی اور روایتی پوچھ گچھ کر کے چلی گئی ،ملزمان کی گرفتاری کے لیے سنجیدہ کوششیں کی ہی نہیں گئیں۔
اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے مقدمہ درج کرانے کا کہا گیا ہے جس کے لیے محکمے کے افسران سے رابطہ کیا ہے جو پولیس سے رابطہ کر کے مزید قانونی کارروائی کرائیں گے ایک جانب تو ڈاکو اسکول میں گھس کر خواتین ٹیچر کو لوٹ رہے ہیں۔
دوسری جانب کراچی پولیس چیف کی جانب سے کارکردگی پر مشتمل رپورٹ جاری کی گئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ کراچی پولیس چیف ڈاکٹر امیر احمد شیخ کی ہدایت و منظم حکمت عملی پر پولیس کی جانب سے جرائم کے خاتمے کے لیے بھرپور کارروائیاں کی گئیں۔
ترجمان کی جانب سے جاری رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران شہر میں ضلعی سطح پر کی جانے والی پولیس کارروائیوں میں 13 پولیس مقابلے کیے اور اس دوران 4 ڈکیت پولیس کے ہاتھوں مارے گئے ، شہر بھر میں انٹیلیجنس اطلاعات پر چھاپہ مار کاروائیوں کے دوران پولیس نے 11 جرائم پیشہ گروہوں کا خاتمہ کیا اور 1692 ملزمان کو گرفتار کیا ، جن میں 4 قاتل ، 8 بھتہ خور ، 21 ڈکیت (بشمول اسٹریٹ کرمنلز) ، غیر قانونی اسلحہ میں ملوث 126 ملزمان ، 216 منشیات فروش اور دیگر جرائم میں ملوث 1042 ملزمان شامل ہیں۔
پولیس کی خصوصی مہم کے دوران شہر کے مختلف اضلاع سے ایک ہفتہ کے دوران 248 مفرور اور 27 مطلوب اشتہاری ملزمان بھی گرفتار کیے گئے ، پولیس کارروائیوں میں گرفتار ملزمان کے قبضے 138 پستول و ریوالور، 8 رائفلز، 1 ایس ایم جی اور ایک دستی بم سمیت مجموعی طور پر کل 147 ہتھیار برآمد کیے گئے۔
دریں اثنا 10 نومبر سے 17 نومبر تک شہر کے مختلف علاقوں میں ڈاکوؤں نے لوٹ مار کے دوران مزاحمت پر فائرنگ اور ٹی ٹی کے بٹ مار کر بزرگ شہری اور پولیس اہلکار سمیت 9 شہریوں کو زخمی کر دیا جس میں 10 نومبر کو ڈیفنس کے علاقے فیز ٹو میں 2 افراد منیب اور سیکیورٹی گارڈ سعید ، 12 نومبر کو سعید آباد کے علاقے میں ڈکیتی مزاحمت پر 2 افراد سعید اور نسیم کو جبکہ کھوکھرا پار کے علاقے میں پولیس اہلکار عرفان کو لوٹ مار کے دوران مزاحمت پر فائرنگ کر کے زخمی کر دیا۔
13 نومبر کو ماڈل کالونی ٹیلی فون ایکسچینج کے قریب ڈاکوؤں نے لوٹ مار کے دوران بزرگ شہری 60 سالہ ممتاز اور بوٹ بیسن کے علاقے میں وکیل زاہد حسین کو ٹی ٹی کے بٹ مار کر لہولہان کر دیا جبکہ سائٹ بی میں ڈاکوؤں نے فائرنگ کر کے جاوید کو زخمی کر دیا ، 15 نومبر کو میمن گوٹھ کے علاقے میں ڈاکوؤں نے لوٹ مار کے دوران مزاحمت پر جمیل نامی شہری کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا۔
شہر میں جاری ڈاکو راج کے دوران شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی پولیس چیف کی جانب سے اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں پر قابو پانے کے لیے تشکیل دی جانے والی اسٹریٹ واچ فورس کی موجودگی کے باوجود ڈاکوؤں کی دیدا دلیری سے لوٹ مار کی وارداتیں کرنا حیران کن ہے اب تک مذکورہ فورس کی جانب سے وہ نتائج سامنے نہیں آ سکے جس کی ان سے امیدیں وابستہ تھیں۔
ملیرسٹی کے علاقے میں واقع گورمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول چھٹائی گراؤنڈ کمپس میں ہفتے کی صبح پونے نو بجے کے قریب 2 مسلح ڈاکوؤں نے داخل ہو کر اسکول کی ہیڈ مسٹریس شگفتہ تحسین اور دیگر 3 ٹیچرز آمنہ ، شازیہ حمید اور ناہیدکو یرغمال بنا کر ان سے طلائی زیورات لوٹ کر فرار ہوگئے۔
اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ دونوں ڈاکوؤں نے اپنی شناخت چھپانے کے لیے ہیلمٹ پہنے ہوئے تھے،اسکول کا چوکیدار بھی موجود نہیں تھا،ملیر سٹی تھانے میں جمع کرائی جانے والے درخواست کے مطابق ڈاکو 3 طلائی کڑے،طلائی چین اور 5 طلائی انگوٹھیاں اور بندے چھین کر فرار ہوئے ہیں جن کی مالیت 3 لاکھ روپے سے زائد بتائی جاتی ہے۔
اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں کی دیدا دلیری اور اطمینان سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں پولیس کا کوئی خوف نہیں تھا اور وہ آزادانہ لوٹ مار کے بعد فرار ہوگئے ، ڈاکوؤں کے اسکول میں گھس کر واردات کرنے کی اطلاع پر زیر تعلیم طالبات میں شدید خوف پھیل گیا،اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ واقعے کی اطلاع مددگار 15 پر دی گئی پولیس آئی اور روایتی پوچھ گچھ کر کے چلی گئی ،ملزمان کی گرفتاری کے لیے سنجیدہ کوششیں کی ہی نہیں گئیں۔
اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے مقدمہ درج کرانے کا کہا گیا ہے جس کے لیے محکمے کے افسران سے رابطہ کیا ہے جو پولیس سے رابطہ کر کے مزید قانونی کارروائی کرائیں گے ایک جانب تو ڈاکو اسکول میں گھس کر خواتین ٹیچر کو لوٹ رہے ہیں۔
دوسری جانب کراچی پولیس چیف کی جانب سے کارکردگی پر مشتمل رپورٹ جاری کی گئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ کراچی پولیس چیف ڈاکٹر امیر احمد شیخ کی ہدایت و منظم حکمت عملی پر پولیس کی جانب سے جرائم کے خاتمے کے لیے بھرپور کارروائیاں کی گئیں۔
ترجمان کی جانب سے جاری رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران شہر میں ضلعی سطح پر کی جانے والی پولیس کارروائیوں میں 13 پولیس مقابلے کیے اور اس دوران 4 ڈکیت پولیس کے ہاتھوں مارے گئے ، شہر بھر میں انٹیلیجنس اطلاعات پر چھاپہ مار کاروائیوں کے دوران پولیس نے 11 جرائم پیشہ گروہوں کا خاتمہ کیا اور 1692 ملزمان کو گرفتار کیا ، جن میں 4 قاتل ، 8 بھتہ خور ، 21 ڈکیت (بشمول اسٹریٹ کرمنلز) ، غیر قانونی اسلحہ میں ملوث 126 ملزمان ، 216 منشیات فروش اور دیگر جرائم میں ملوث 1042 ملزمان شامل ہیں۔
پولیس کی خصوصی مہم کے دوران شہر کے مختلف اضلاع سے ایک ہفتہ کے دوران 248 مفرور اور 27 مطلوب اشتہاری ملزمان بھی گرفتار کیے گئے ، پولیس کارروائیوں میں گرفتار ملزمان کے قبضے 138 پستول و ریوالور، 8 رائفلز، 1 ایس ایم جی اور ایک دستی بم سمیت مجموعی طور پر کل 147 ہتھیار برآمد کیے گئے۔
دریں اثنا 10 نومبر سے 17 نومبر تک شہر کے مختلف علاقوں میں ڈاکوؤں نے لوٹ مار کے دوران مزاحمت پر فائرنگ اور ٹی ٹی کے بٹ مار کر بزرگ شہری اور پولیس اہلکار سمیت 9 شہریوں کو زخمی کر دیا جس میں 10 نومبر کو ڈیفنس کے علاقے فیز ٹو میں 2 افراد منیب اور سیکیورٹی گارڈ سعید ، 12 نومبر کو سعید آباد کے علاقے میں ڈکیتی مزاحمت پر 2 افراد سعید اور نسیم کو جبکہ کھوکھرا پار کے علاقے میں پولیس اہلکار عرفان کو لوٹ مار کے دوران مزاحمت پر فائرنگ کر کے زخمی کر دیا۔
13 نومبر کو ماڈل کالونی ٹیلی فون ایکسچینج کے قریب ڈاکوؤں نے لوٹ مار کے دوران بزرگ شہری 60 سالہ ممتاز اور بوٹ بیسن کے علاقے میں وکیل زاہد حسین کو ٹی ٹی کے بٹ مار کر لہولہان کر دیا جبکہ سائٹ بی میں ڈاکوؤں نے فائرنگ کر کے جاوید کو زخمی کر دیا ، 15 نومبر کو میمن گوٹھ کے علاقے میں ڈاکوؤں نے لوٹ مار کے دوران مزاحمت پر جمیل نامی شہری کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا۔
شہر میں جاری ڈاکو راج کے دوران شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ کراچی پولیس چیف کی جانب سے اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں پر قابو پانے کے لیے تشکیل دی جانے والی اسٹریٹ واچ فورس کی موجودگی کے باوجود ڈاکوؤں کی دیدا دلیری سے لوٹ مار کی وارداتیں کرنا حیران کن ہے اب تک مذکورہ فورس کی جانب سے وہ نتائج سامنے نہیں آ سکے جس کی ان سے امیدیں وابستہ تھیں۔