ٹیکس وصولیاں بڑھانے کیلیے 3 نئے منصوبے شروع کرنیکا فیصلہ
پہلے منصوبے کے تحت درآمدی ٹیکس فراڈکی پیشگی نشاندہی کے لیے زمینی و فضائی و سمندری گیٹ ویزپرسسٹم نصب کیے جائیں گے
فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے ڈیوٹی و ٹیکس چوری کے لیے درآمدی سطح پر ہونے والے ٹیکس فراڈ کی روک تھام کا پیشگی نظام متعارف کرانے اور انکم ٹیکس و سیلز ٹیکس دہندگان کو آڈٹ کے لیے منتخب کرنے کے لیے جدید پی اے ماڈل سمیت نئے ٹیکس دہندگان کی نشاندہی کے لیے بڑے ڈیٹا پروجیکٹ پر مشتمل 3 نئے منصوبے شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویز کے مطابق ایف بی آر کے ذیلی ادارے پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (پرال) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے گزشتہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں چیف ایگزیکٹو آفیسر پرال کی جانب سے جامع پریزنٹیشن دی گئی ہے جس میں ٹیکس نیٹ بڑھانے اور ریونیو لیکیج روکنے کے لیے آٹومیشن کے فروغ بارے تفصیلی بریفنگ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (پرال) کی جانب سے 3 نئے پروجیکٹ شروع کیے جارہے ہیں جس میں درآمدی سطح پر ہونے والے ٹیکس فراڈ کی پیشگی نشاندہی کا سسٹم تیار کیا جارہا ہے، یہ کمپیوٹرائزڈ سسٹم ملک بھر کے تمام زمینی و فضائی و سمندری گیٹ ویز و سرحدی کلیئرنگ اسٹیشنز پر نصب کیے جائیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کمپیوٹرائزڈ ماڈیولز تمام بندر گارہوں اور کسٹمز اسٹیشن پر نصب ہوں گے جہاں آنے والی درآمدی کنسائنمنٹس کی اس نظام کے ذریعے نشاندہی ہوگی جس میں مس ڈیکلریشن کے خدشات ہوں گے۔ دستاویز میں مزید بتایا گیا ہے کہ اس کے علاوہ انکم ٹیکس کے نان کارپوریٹ ٹیکس دہندگان اور اسی طرح سیلز ٹیکس دہندگان کو آڈٹ کے لیے منتخب کرنے سے متعلق بھی ایک جدید نوعیت کا پی اے ماڈل متعارف کرایا جارہا ہے۔
اس نظام کے ذریعے انکم ٹیکس میں نان کارپوریٹ ٹیکس دہندگان اور اسی طرح سیلز ٹیکس دہندگان کا آڈٹ کے لیے انتخاب ہوا کرے گا جبکہ تیسرا بڑا منصوبہ تھرڈ پارٹی ڈیٹا بینک کا متعارف کرایا جارہا ہے اس منصوبے کے تحت ایف بی آر کے ڈیٹا کو نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، پراپرٹی ریکارڈ اوع موٹر وہیل رجسٹریشن اتھارٹیز کے ساتھ ساتھ ٹیلی کام کمپنیوں کے ود ہولڈنگ ڈیٹا کے ساتھ منسلک کیا جائے گا۔
اس بارے میں ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈیٹا بینک کا قیام قانونی تقاضا ہے جسے گزشتہ 11 سال سے پورا نہیں کیا جارہا ہے اور اس پر وفاقی ٹیکس محتسب کی جانب سے بھی نوٹس لیا جاچکا ہے۔
ذرائع کا کہناہے کہ ایف بی آر ایکٹ 2007 کے سیکشن 14 کے تحت ڈیٹا بینک قائم کرنا لازمی تھا مگر 11 سال گزرنے کے باوجود ایف بی آر کی جانب سے یہ ڈیٹا بینک قائم نہیں کیا جارہا۔ مذکورہ منصوبے کے لیے عالمی بینک مالی معاونت فراہم کرے گا اور اس پرڈیڑھ کروڑ ڈالر کے لگ بھگ لاگت آئے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عالمی بینک کے تعان سے قائم کیے جانے والے اس ڈیٹا ویئر ہاؤس کیلیے تمام یوٹیلٹی کمپنیوں، اداروں، موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹیز، ایئر لائنز، بینکوں، نادرا، ایکسائز ڈپارٹمنٹ و دیگر وفاقی و صوبائی اداروں سے ڈیٹا حاصل کیا جائے گا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی طرف سے ورکنگ مکمل کی جاچکی ہے اور عالمی بینک کے ذریعے ڈی ایف آئی ڈی کی طرف سے پاکستان کو ملنے والی ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی امداد سے جدید نوعیت کا ڈیٹا ویئر ہاؤس قائم کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ ایف بی آر اور اس کے فیلڈ فارمشنز میں جدید نوعیت کے حامل کمپیوٹر آلات و مشینری نصب کی جائے گی جس کا بنیادی مقصد آٹومیشن کو فروغ دینا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ صوبائی رجسٹرار سمیت پراپرٹی کی خریدوفروخت سے متعلقہ اداروں کو اس قانونی طور پر پابند کیا جائے گا کہ صوبوں میں جو بھی جائیداد کی خریدوفروخت ہو خواہ ان جائیدادوں کی رجسٹریاں ہوں یا انتقال ہو اس کی ایک کاپی لازمی طور پر ایف بی آر کو بھجوائی جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ اقدام کا بنیادی مقصد ملکی معشیت کو دستاویزی (ڈاکومنٹڈ) بنانا ہے۔
ایف بی آر کے مذکورہ افسر نے بتایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح بڑھانے کیلیے ایک جامع مضبوط ڈیٹا بینک قائم کرنے جارہا ہے اور اس ڈیٹا بینک کیلیے مختلف ذرائع سے ڈیٹا اکھٹا کررہا ہے اور یہ اقدام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہوگا تاہم اس بارے میں چاروں صوبوں کو بھی آن بورڈ لیا جائے گا اور اس ڈیٹا بینک اور ڈیٹا ویئر ہاؤس کے قیام سے صوبوں کے وسائل بھی بڑھیں گے اور صوبے بھی اس ڈیٹا بینک سے استفادہ اٹھا کر اپنے ریونیو کو بڑھا سکیں گے۔
ذرائع نے بتایا کہ تمام صوبائی رجسٹرار اور دیگر متعلقہ ادارے اس بات کے پابند ہوں گے کہ جو بھی پراپرٹی کی خریدوفروخت ہوگی اس کی تفصیلات اور رجسٹری کی ایک کاپی ایف بی آر کو بھجوائی جائے گی اور اس ڈیٹا کی مدد سے ایف بی آر کو ٹیکس سے باہر لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور لوگوں کی آمدنی و اخراجات کی تفصیلات کے حصول میں مدد ملے گی۔
مذکورہ تمام اداروں سے ڈیٹا حاصل کرکے ڈیٹا ویئر ہاوس میں اپ ڈیٹ کیا جائے گا اور اس ڈیٹا ویئر ہاؤس کی بنیاد پر جدید نوعیت کا سافٹ ویئر تیار کیا جائے گا جس سافٹ ویئر کی مدد سے قابل ٹیکس آمدنی رکھنے کے باوجود ٹیکس نہ دینے والے اور اپنی مطلوبہ صلاحیت و آمدنی کے مطابق ٹیکس نہ دینے والوں کا سْراغ لگا کر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور ٹیکس و واجبات وصول کیے جائیں گے۔
''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویز کے مطابق ایف بی آر کے ذیلی ادارے پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (پرال) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے گزشتہ ہفتے ہونے والے اجلاس میں چیف ایگزیکٹو آفیسر پرال کی جانب سے جامع پریزنٹیشن دی گئی ہے جس میں ٹیکس نیٹ بڑھانے اور ریونیو لیکیج روکنے کے لیے آٹومیشن کے فروغ بارے تفصیلی بریفنگ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (پرال) کی جانب سے 3 نئے پروجیکٹ شروع کیے جارہے ہیں جس میں درآمدی سطح پر ہونے والے ٹیکس فراڈ کی پیشگی نشاندہی کا سسٹم تیار کیا جارہا ہے، یہ کمپیوٹرائزڈ سسٹم ملک بھر کے تمام زمینی و فضائی و سمندری گیٹ ویز و سرحدی کلیئرنگ اسٹیشنز پر نصب کیے جائیں گے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کمپیوٹرائزڈ ماڈیولز تمام بندر گارہوں اور کسٹمز اسٹیشن پر نصب ہوں گے جہاں آنے والی درآمدی کنسائنمنٹس کی اس نظام کے ذریعے نشاندہی ہوگی جس میں مس ڈیکلریشن کے خدشات ہوں گے۔ دستاویز میں مزید بتایا گیا ہے کہ اس کے علاوہ انکم ٹیکس کے نان کارپوریٹ ٹیکس دہندگان اور اسی طرح سیلز ٹیکس دہندگان کو آڈٹ کے لیے منتخب کرنے سے متعلق بھی ایک جدید نوعیت کا پی اے ماڈل متعارف کرایا جارہا ہے۔
اس نظام کے ذریعے انکم ٹیکس میں نان کارپوریٹ ٹیکس دہندگان اور اسی طرح سیلز ٹیکس دہندگان کا آڈٹ کے لیے انتخاب ہوا کرے گا جبکہ تیسرا بڑا منصوبہ تھرڈ پارٹی ڈیٹا بینک کا متعارف کرایا جارہا ہے اس منصوبے کے تحت ایف بی آر کے ڈیٹا کو نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، پراپرٹی ریکارڈ اوع موٹر وہیل رجسٹریشن اتھارٹیز کے ساتھ ساتھ ٹیلی کام کمپنیوں کے ود ہولڈنگ ڈیٹا کے ساتھ منسلک کیا جائے گا۔
اس بارے میں ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈیٹا بینک کا قیام قانونی تقاضا ہے جسے گزشتہ 11 سال سے پورا نہیں کیا جارہا ہے اور اس پر وفاقی ٹیکس محتسب کی جانب سے بھی نوٹس لیا جاچکا ہے۔
ذرائع کا کہناہے کہ ایف بی آر ایکٹ 2007 کے سیکشن 14 کے تحت ڈیٹا بینک قائم کرنا لازمی تھا مگر 11 سال گزرنے کے باوجود ایف بی آر کی جانب سے یہ ڈیٹا بینک قائم نہیں کیا جارہا۔ مذکورہ منصوبے کے لیے عالمی بینک مالی معاونت فراہم کرے گا اور اس پرڈیڑھ کروڑ ڈالر کے لگ بھگ لاگت آئے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عالمی بینک کے تعان سے قائم کیے جانے والے اس ڈیٹا ویئر ہاؤس کیلیے تمام یوٹیلٹی کمپنیوں، اداروں، موٹر وہیکل رجسٹریشن اتھارٹیز، ایئر لائنز، بینکوں، نادرا، ایکسائز ڈپارٹمنٹ و دیگر وفاقی و صوبائی اداروں سے ڈیٹا حاصل کیا جائے گا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی طرف سے ورکنگ مکمل کی جاچکی ہے اور عالمی بینک کے ذریعے ڈی ایف آئی ڈی کی طرف سے پاکستان کو ملنے والی ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی امداد سے جدید نوعیت کا ڈیٹا ویئر ہاؤس قائم کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ ایف بی آر اور اس کے فیلڈ فارمشنز میں جدید نوعیت کے حامل کمپیوٹر آلات و مشینری نصب کی جائے گی جس کا بنیادی مقصد آٹومیشن کو فروغ دینا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ صوبائی رجسٹرار سمیت پراپرٹی کی خریدوفروخت سے متعلقہ اداروں کو اس قانونی طور پر پابند کیا جائے گا کہ صوبوں میں جو بھی جائیداد کی خریدوفروخت ہو خواہ ان جائیدادوں کی رجسٹریاں ہوں یا انتقال ہو اس کی ایک کاپی لازمی طور پر ایف بی آر کو بھجوائی جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ اقدام کا بنیادی مقصد ملکی معشیت کو دستاویزی (ڈاکومنٹڈ) بنانا ہے۔
ایف بی آر کے مذکورہ افسر نے بتایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح بڑھانے کیلیے ایک جامع مضبوط ڈیٹا بینک قائم کرنے جارہا ہے اور اس ڈیٹا بینک کیلیے مختلف ذرائع سے ڈیٹا اکھٹا کررہا ہے اور یہ اقدام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہوگا تاہم اس بارے میں چاروں صوبوں کو بھی آن بورڈ لیا جائے گا اور اس ڈیٹا بینک اور ڈیٹا ویئر ہاؤس کے قیام سے صوبوں کے وسائل بھی بڑھیں گے اور صوبے بھی اس ڈیٹا بینک سے استفادہ اٹھا کر اپنے ریونیو کو بڑھا سکیں گے۔
ذرائع نے بتایا کہ تمام صوبائی رجسٹرار اور دیگر متعلقہ ادارے اس بات کے پابند ہوں گے کہ جو بھی پراپرٹی کی خریدوفروخت ہوگی اس کی تفصیلات اور رجسٹری کی ایک کاپی ایف بی آر کو بھجوائی جائے گی اور اس ڈیٹا کی مدد سے ایف بی آر کو ٹیکس سے باہر لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور لوگوں کی آمدنی و اخراجات کی تفصیلات کے حصول میں مدد ملے گی۔
مذکورہ تمام اداروں سے ڈیٹا حاصل کرکے ڈیٹا ویئر ہاوس میں اپ ڈیٹ کیا جائے گا اور اس ڈیٹا ویئر ہاؤس کی بنیاد پر جدید نوعیت کا سافٹ ویئر تیار کیا جائے گا جس سافٹ ویئر کی مدد سے قابل ٹیکس آمدنی رکھنے کے باوجود ٹیکس نہ دینے والے اور اپنی مطلوبہ صلاحیت و آمدنی کے مطابق ٹیکس نہ دینے والوں کا سْراغ لگا کر ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور ٹیکس و واجبات وصول کیے جائیں گے۔