پی سی بی میں تبدیلی کا نقارہ

پرانے چہرے نیا نظام کس طرح لائیں گے؟

پرانے چہرے نیا نظام کس طرح لائیں گے؟۔ فوٹو: فائل

پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ کھیلوں کی تنظیموں میں بھی اکھاڑ پچھاڑ کا چلن عام رہا ہے، بہت کم ایسا ہوا ہوگا کہ نئے حکمران سپورٹس فیڈریشنز میں نئے عہدیداروں کو متعارف نہ کروائیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کی رخصتی کا نقارہ بھی بچ گیا تھا، انہوں نے نوشتۂ دیوار پڑھتے ہوئے بالآخر استعفیٰ دینے میں ہی عافیت جانی، بورڈ کی سربراہی احسان مانی کے سپرد ہوئی، انہوں نے پہلی ہی پریس کانفرنس میں شفافیت اور احتساب کا نعرہ بھی لگایا لیکن اس ضمن میں تاحال کوئی غیر معمولی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔

ابھی تک کا سب سے بڑا اقدام پی سی بی کی آمدن اور اخراجات کی تفصیل کو ویب سائٹ پر ڈالنا ہے، صفحات کے اس پلندے میں عوام کی دلچسپی کے لیے کوئی خاص وجوہات نہیں ہیں، اسی طرح کا ریکارڈ نجم سیٹھی کے دور میں بھی قائمہ کمیٹیوں اور آڈیٹر جنرل کے ایوانوں میں دھکے کھاتا رہا ہے لیکن برآمد کچھ نہیں ہوا، عوام کی دلچسپی تو اس بات میں ہے کہ اگر کسی نے کرکٹ سے حاصل ہونے والی کمائی کھیل کے فروغ کے بجائے کسی اور مقصد کے لیے استعمال کی ہے تو اس کا نام سامنے لایا جائے، اگر کسی نے مال کھایا ہے تو واپس لایا جائے۔

شفافیت پالیسی کے تحت ابھی تک سامنے والا سب سے بڑا انکشاف نجم سیٹھی کی شاہ خرچیاں ہیں، ذکر تو سابق چیئرمین شہر یار خان کے اخراجات اور لندن میں ہونے والے مہنگے ترین علاج کا بھی ہوا لیکن احسان مانی سے ان کی ملاقات کے بعد یہ معاملہ تو خاصا ٹھنڈا پڑ چکا ہے، دوسری جانب تفصیلات ویب سائٹ پر جاری کئے جانے کے بعد نجم سیٹھی نے قانونی محاذ کھول رکھا ہے۔

سابق چیئرمین دیگر تمام عہدے داروں کو چھوڑ کر صرف ان کے اخراجات کی تفصیلات جاری کئے جانے کو شہرت داغدار کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں، قانونی نوٹس پر پی سی بی کا جواب اور پھر نجم سیٹھی کا جوابی نوٹس عجیب سی صورتحال پیدا کئے ہوئے ہے، انہوں نے تو پی ایس ایل الاؤنس وصول کرنے والے 20 افراد کا بھی ذکر کردیا، یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ شفافیت کا دعویدار کرکٹ بورڈ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے دیگر افراد کے نام سامنے لانے سے کیوں گریزاں ہے، احتساب ہو تو بے لاگ ہونا چاہیے۔

زبانی جمع خرچ، میڈیا اور سوشل میڈیا پر تفصیلات جاری کرنے سے بورڈ کے نقصان کی تلافی تو نہیں ہو سکے گی، بہتر یہی ہے کہ لوگوں کو بدعنوان کہنے کی بجائے ثابت کیا جائے، اگر کسی نے غلط کیا ہے تو اس کو سزا ملے اور بے دریغ لٹایا جانے والا سرمایہ واپس لایا جائے بلکہ جو لوگ مال ہڑپ کر ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے ہیں، ان سے بھی جواب اور حساب مانگا جائے، فی الحال ایسا ہوتا نظر نہیں آتا، کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران احسان مانی نے کہہ دیا کہ بورڈ کے کسی ملازم نے کچھ غلط نہیں کیا، ایف آئی ایک ہی انکوائری میں یہ جو کچھ سامنے آنا تھا آچکا۔

بورڈ میں اب تک سب سے بڑی تبدیلی نئے چیئرمین کی تقرر اور ذاکر خان کو نئی ذمہ داری سونپنے کی ہی سامنے آئی ہے، نیشنل سٹیڈیم کا منصوبہ گزشتہ دور میں جاری تھا، اب بھی ہے، کپتان سرفراز احمد کی قیادت میں قومی ٹیم ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی تھی، اور اب بھی کر رہی ہے، ون ڈے میں غیر مستقل مزاجی اب بھی برقرار ہے، کرکٹرز کی پرفارمنس کے حوالے سے فی الحال نئے پاکستان کے نئے پی سی بی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا،بیشتر فیصلے اور ٹیموں کا انتخاب ماضی میں ہوچکا تھا لیکن اب تک ہونے والی پیش رفت میں مثبت پہلو کم اور تنازعات کا زیادہ نظر آنا تشویش کی بات ہے، محسن خان کو کرکٹ کمیٹی کا سربراہ بنانے، ارکان میں وسیم اکرم کو شامل کرنے کے بعد ہونے والی بیان بازی کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔

ماضی میں جذبات کی رو میں بہہ کر اگر محسن خان نے ہیڈ کوچ مکی آرتھر کے خلاف کوئی بیان دے بھی دیا تھا تو گڑھے مردے اکھاڑنے کی ضرورت نہیں تھی، بہرحال یہ باتیں میڈیا میں عام ہوئیں، وسیم اکرم کی وجہ سے جسٹس(ر) قیوم کی فکسنگ کیس پر رپورٹ بھی لوگوں کو پھر سے یاد آگئی،سابق پیسر کو کرکٹ کا بڑا تجربہ لیکن ان کی دیگر مصروفیات بھی کافی زیادہ ہیں، پی ایس ایل کی فرنچائز کراچی کنگز اور ٹی ٹین لیگ سے وابستہ وسیم اکرم ماضی میں بھی پی سی بی کے ساتھ پارٹ ٹائم کام کرتے ہوئے بھی زیادہ وقت نہیں دے سکے، اس بار ذمہ داریوں سے انصاف کر پائیں گے یا نہیں، ایک سوال نشان بہرحال موجود ہے۔


پی سی بی اور کرکٹ کمیٹی فی الحال ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ ڈومیسٹک کرکٹ کا سٹرکچر ہے، وزیر اعظم اور بورڈ کے چیف پیٹرن عمران خان ڈیپارٹمنٹس کی کرکٹ کے مخالف رہے ہیں، اس کو ختم کیا گیا تو سینکڑوں کرکٹرز کے روزگار کو خطرہ لاحق ہے، سالہا سال سے ڈومیسٹک کرکٹ کی حالت سدھارنے کے لیے ''سرگرم'' ہارون رشید کی فائلوں کا وزن کافی زیادہ ہو چکا لیکن کوئی ایک تجربہ بھی ایسا کامیاب ثابت نہیں ہوا کہ جس کو مستقل بنیادوں پر اپنایا جا سکے۔

تبدیلی سرکار کی جانب سے لائے جانے والے نئے چیئرمین احسان مانی اب بھی ہارون رشید کو بورڈ کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں، انہوں نے سابق ٹیسٹ کرکٹرز کی بے پناہ خدمات کا میڈیا کے سامنے اعتراف بھی کیا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرانی سوچ کو ہر بار نئے کپڑوں میں ملبوس کرکے لاحاصل تبدیلیاں کرنے والوں سے ایک بار پھر بہتر منصوبہ سازی کی امیدیں کس طرح وابستہ کی جاسکتی ہیں؟

چیئرمین بورڈ کا کہنا ہے کہ ریجنز کو مضبوط اور خودمختار بنائیں گے، نئے سسٹم کے لیے ڈیپارٹمنٹس سے بھی مشاورت کریں گے، یہ بھی خیال رکھیں گے کہ کھلاڑیوں کی نوکریاں نہ جائیں، انہوں نے ڈومیسٹک کرکٹ کا پاکستانی ماڈل متعارف کروانے کا عندیہ دیا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈیپارٹمنٹس کی ٹیمیں نہ رہیں تو کھلاڑیوں کی نوکریاں کس طرح بچیں گی، ریجنز کے پاس اتنا سرمایہ کہاں سے آئے گا کہ وہ پلیئرز کو مالی طور پر آسودہ رکھ سکیں، پاکستان کا سسٹم تو ایسا ہے کہ یہاں کلبز کے ووٹ بھی بکتے ہیں، سفارشی کھلاڑیوں کو زون اور ریجنل ٹیموں میں شامل کروانے کے لیے سودے بازی کی جاتی ہے، ایماندار عہدے داروں کے بغیر مضبوط اور خودمختار ریجنز میں کیا گل کھلائے جائیں گے، اپنے مفاد کے لئے میرٹ کی خلاف ورزیاں کرنے والوں کے احتساب کا کیا طریقہ کار ہو گا،ان سب پہلوؤں کے بارے میں سوچنے اور ہوم ورک کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

یہاں تو حال یہ ہے کہ انڈر15کرکٹ میں شاندار کارکردگی دکھانے والا ایک بچہ اس لئے آسٹریلیا جانے والی جونیئر ٹیم میں شامل نہ ہو سکا کہ وہ ایک رکشہ ڈرائیور کا بیٹا تھا، احسان مانی چاہتے ہیں کہ ریجنز نہ صرف کہ اپنی کرکٹ بلکہ اپنے مقامی سٹیڈیمز کے انتظامات بھی سنبھالیں، جہاں عہدیدار کلب کرکٹ میں من مانی سے باز نہ آئیں، وہاں وینیوز کی دیکھ بھال کے معاملے میں شفافیت کہاں سے آئے گی، احسان مانی کی سوچ اور نیت میں خرابی نہیں بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے دائیں بائیں کئی افراد ایسے ہیں جو ہر چیئرمین کے ویژن کو بڑی جلد سمجھ جاتے اور اس پر عمل کی یقین دہانی کرانے میں بھی کامیاب ہوتے ہیں، آخر تک تبدیلی کوئی نہیں آتی، چیئرمینتبدیل ہو جاتا ہے اور ان کی ہمدردیاں اور ویژن بھی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کرکٹ کو مکمل اوور ہالنگ کی ضرورت ہے لیکن ماضی میں کھیل کا کچھ نہ سنوارنے کے باوجود تنخواہیںکھری کرنے والوں سے انقلابی فیصلوں کی توقع فضول ہوگی،احسان مانی پی سی بی کے لیے منیجنگ ڈائریکٹر کا تقرر کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں، امیدوار سابق چیئرمینوں کی باقیات میں سے ہوا تو تبدیلی کی امیدیں نہیں کی جاسکتیں۔

دوسری طرف آسٹریلیا کیخلاف دوسرے ٹیسٹ میں سرفراز احمد اور فخرزمان کی عمدہ شراکت کی بدولت کم بیک کرتے ہوئے میچ اور سیریز اپنے نام کرنے والی پاکستان ٹیم نیوزی لینڈ کیخلاف شاندار بولنگ کرتے ہوئے پہلے روز ہی حاوی نظر آرہی تھی، میزبان اوپنرز کی جلد رخصتی کے بعد امید تھی کہ گرین کیپس اچھا مجموعہ ترتیب دیتے ہوئے حریف کو دباؤ میں لے آئیں گے لیکن ہوم کنڈیشنز میں بھی بیٹنگ توقعات پر پورا نہیں اترسکی،برتری زیادہ نہ ہونے کے بعد اب بولرز کی ذمہ داری مزید بڑھ گئی، کیویز کو کم سے کم ٹوٹل تک محدود رکھنا انتہائی ضروری ہے، چوتھی اننگز پاکستان کو کھیلنا اور ہدف کا تعاقب کرنا ہے جو کسی بھی ٹیسٹ میچ میں آسان نہیں ہوتا، کنڈیشنز ایشیائی ہوں تو بیٹسمینوں کی مشکلات اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔

 
Load Next Story