شام میں عسکریت پسندوں کے آخری ٹھکانے پر سرکاری فوج کا قبضہ
سرکاری فورسز نے دمشق اور سویدا کے صوبوں کے درمیان تولول الصفا کے علاقے پر قبضہ کیا ہے
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق شام میں بشار الاسد کی فورسز نے سخت لڑائی کے بعد، جو کئی مہینے جاری رہی، عسکریت پسند اسلامی اسٹیٹ (آئی ایس) کے آخری مضبوط ٹھکانے پر قبضہ کر لیا ہے جب کہ ملک کے مشرقی علاقے میں آئی ایس کے ایک اور ٹھکانے پر بھی امریکی قیادت میں بمبار طیاروں کی مدد سے قبضہ کر لیا گیا ہے جس میں پچاس کے لگ بھگ افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع دی گئی ہے، جو زیادہ تر سویلین تھے۔
سرکاری فورسز نے دمشق اور سویدا کے صوبوں کے درمیان تولول الصفا کے علاقے پر قبضہ کیا ہے جب کہ آئی ایس کے جنگجو یہ علاقہ چھوڑ کر بدیہ کے صحرا کی طرف نکل گئے ہیں، اس کا اعلان برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والی ایک شامی تنظیم نے کیا ہے۔ سرکاری فوجیں اس علاقے پر گزشتہ جولائی سے دروز اقلیتی آبادی پر آئی ایس کے خونریز حملے کے بعد سے شدید لڑائی میں مصرف تھیں۔ دروز عوام نے بھی آئی ایس کا مقابلہ کیا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے' داعش کے جنگجوؤں کے اپنے مضبوط مورچوں سے انخلا کے پیچھے سرکاری افواج کے ساتھ مک مکا بھی ہو سکتا ہے یعنی خفیہ طور پر کچھ لو کچھ دو کے اصول پر وہ لوگ وہاں سے جانے پر آمادہ ہو گئے ہوں۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ شامی فورسز نے تولول الصفا کے علاقے میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور اب اس علاقے کی باریک بینی سے چھان بین ہو رہی ہے تا کہ باقی ماندہ عسکریت پسندوں کو بھی وہاں سے نکالا جا سکے۔ شام میں خانہ جنگی 2011ء میں شروع ہوئی تھی جس میں ایک اندازے کے مطابق 3 لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جب کہ لاکھوں بے گھر ہوگئے ہیں۔
ابھی اس جنگ کے خاتمے کے آثار نظر نہیں آ رہے البتہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ بشار حکومت مضبوطی کے ساتھ باغیوں کا مقابلہ کر رہی ہے اور اسے بتدریج عالمی حمایت بھی حاصل ہوتی جا رہی ہے کیونکہ باغی فورسز کے مظالم نے ترقی پسند ممالک کی حکومتوں اور عوام کو باغیوں سے متنفر کر دیا ہے' بہرحال اس جنگ نے لاکھوں افراد کو متاثر کیا ہے۔ شام کا انفرااسٹرکچر تباہ ہو گیا ہے' اب اس ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں برسوں لگ جائیں گے اور وہ بھی اس شرط پر کہ وہاں جنگ کا خاتمہ ہو جائے۔ اگر جنگ بند نہیں ہوتی تو پھر تباہی و بربادی کا کھیل کئی برس مزید جاری رہے گا اور اس کے بعد کہیں جا کر تعمیر و ترقی کے سفر کا آغاز ہو گا۔
سرکاری فورسز نے دمشق اور سویدا کے صوبوں کے درمیان تولول الصفا کے علاقے پر قبضہ کیا ہے جب کہ آئی ایس کے جنگجو یہ علاقہ چھوڑ کر بدیہ کے صحرا کی طرف نکل گئے ہیں، اس کا اعلان برطانیہ میں قائم انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والی ایک شامی تنظیم نے کیا ہے۔ سرکاری فوجیں اس علاقے پر گزشتہ جولائی سے دروز اقلیتی آبادی پر آئی ایس کے خونریز حملے کے بعد سے شدید لڑائی میں مصرف تھیں۔ دروز عوام نے بھی آئی ایس کا مقابلہ کیا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے' داعش کے جنگجوؤں کے اپنے مضبوط مورچوں سے انخلا کے پیچھے سرکاری افواج کے ساتھ مک مکا بھی ہو سکتا ہے یعنی خفیہ طور پر کچھ لو کچھ دو کے اصول پر وہ لوگ وہاں سے جانے پر آمادہ ہو گئے ہوں۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ شامی فورسز نے تولول الصفا کے علاقے میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور اب اس علاقے کی باریک بینی سے چھان بین ہو رہی ہے تا کہ باقی ماندہ عسکریت پسندوں کو بھی وہاں سے نکالا جا سکے۔ شام میں خانہ جنگی 2011ء میں شروع ہوئی تھی جس میں ایک اندازے کے مطابق 3 لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جب کہ لاکھوں بے گھر ہوگئے ہیں۔
ابھی اس جنگ کے خاتمے کے آثار نظر نہیں آ رہے البتہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ بشار حکومت مضبوطی کے ساتھ باغیوں کا مقابلہ کر رہی ہے اور اسے بتدریج عالمی حمایت بھی حاصل ہوتی جا رہی ہے کیونکہ باغی فورسز کے مظالم نے ترقی پسند ممالک کی حکومتوں اور عوام کو باغیوں سے متنفر کر دیا ہے' بہرحال اس جنگ نے لاکھوں افراد کو متاثر کیا ہے۔ شام کا انفرااسٹرکچر تباہ ہو گیا ہے' اب اس ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں برسوں لگ جائیں گے اور وہ بھی اس شرط پر کہ وہاں جنگ کا خاتمہ ہو جائے۔ اگر جنگ بند نہیں ہوتی تو پھر تباہی و بربادی کا کھیل کئی برس مزید جاری رہے گا اور اس کے بعد کہیں جا کر تعمیر و ترقی کے سفر کا آغاز ہو گا۔