غیرمعمولی کرپشن کی سزابھی غیرمعمولی ہونی چاہیے
پوری زندگی ریلوے سے منسلک ہونے کی بدولت لی اس محکمہ کی رگ رگ سے واقف تھا
لی زی جَن(Liu Zhijun)چین کی دوسری اہم ترین شخصیت تھی۔2003ء سے لے کر2011ء تک ریلوے کابے تاج بادشاہ۔ایک ایساانسان جس کے کارنامے چین توکیا، دنیاکے ہرکونے میں سراہے جاتے تھے۔چین میں ریلوے کے محکمہ کابجٹ،آرمی کے بعدسب سے زیادہ ہے۔ چرواہے کا بیٹا اور غربت میں آنکھ کھولنے والالی جَن جوانی ہی سے ریلوے سے منسلک ہوگیاتھا۔کلرک کے عہدے پر کام شروع کرنے والے عام سے آدمی کے متعلق کوئی بھی نہیں کہہ سکتاتھاکہ صرف تین دہائیوں میں لی جَن ملک توکیا، دنیا کے طاقتورترین لیڈروں میں سے ایک ہوگا۔1972ء سے ہی ملک کی ریلوے سے منسلک ہونے والاانسان بے ضرراور سادہ سا نظر آتا تھا۔
پوری زندگی ریلوے سے منسلک ہونے کی بدولت لی اس محکمہ کی رگ رگ سے واقف تھا۔ 2003 میں جب چینی ریلوے کاوزیربنایاگیاتومحکمہ کوئی بہت اچھی حالت میں نہیں تھا۔ٹریک بھی ہرجگہ موجودنہیں تھا۔سب سے پہلے لی نے صرف پانچ برس میں پورے ملک میں اضافی 7500میل کانیاٹریک بچھادیا۔رات دن کام کرتاتھا۔ مزدوروں اور اپنے عملہ کوبھی ہروقت کام میں مصروف رکھتاتھا۔ہرجگہ کہتا تھاکہ اگرکسی بھی ملک نے ترقی کرنی ہے تواسے ایک نسل مکمل طورپرقربان کرناپڑتی ہے۔کئی لوگ اسے پاگل کہتے تھے۔
اس جنونی آدمی نے چین میں ہائی اسپیڈریلوے کی سنگِ بنیادرکھی۔ڈھائی سوارب ڈالرسے دنیاکاسب مہیب اورطویل تیز رفتار ریلوے ٹرینوں کاجال بچھادیا۔جب کیمونسٹ پارٹی نے اسے تبت تک ریلوے لائن بچھانے کے متعلق پوچھاتوسب کاخیال تھاکہ لی کاجواب یہی ہوگا کہ اتنی بلندی پرریل لیجاناناممکن ہے۔مگراس نے یہ دشوار ترین کام کرنے کی حامی بھرلی۔آج بھی دنیا میں بلندترین مقام پرجانے والی ریل،لی کی نگرانی میں شروع ہوئی تھی۔ حدتویہ ہے کہ بارک اوباما امریکی صدرنے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ دنیامیں افراسٹرکچراوررفتارکے حساب سے امریکی بالادستی ختم ہوچکی ہے۔
یہ اعزازاب چین کے پاس ہے۔جب لی نے ساڑھے سات ہزارمیل ریلوے لائن بچھا کردرجنوں نئی ٹرینیں شروع کردیں،تواسے مرکزی حکومت نے ایک سوارب ڈالر مزید دیے۔ اب2020ء تک اسے دس ہزارکلومیٹرریلوے لائن مزیدبچھانی تھیں۔ برق رفتارٹرینوں نے چین کو تبدیل کرڈالا۔ اقتصادی، سماجی،فنی اورمعاشی نظام میں حددرجہ بہتری آگئی۔پوری دنیاسے لوگ چین کی تیزرفتارٹرینوں کودیکھنے اوران سے سیکھنے آتے تھے۔ لی جَن اس پورے نظام کاخالق تھا۔شہروں میں اس کی بلند قامت تصاویراورمجسمے لگے ہوئے تھے۔سب کویقین تھاکہ وہ اس بلندمقام سے مزیدبلندترمقام تک جائیگا۔ پولٹ بیوروتک اس کی رسائی بالکل سامنے نظرآرہی تھی۔چین میں اصل حکومت پولٹ بیوروکی ہوتی ہے۔
فیصلہ سازی میں آخری اور بلند ترین مقام۔ جب ہرطرف لی جَن کی واہ واہ ہورہی تھی توایک جاپانی انجینئرنے اس سارے نظام کو ٹیکنیکل طریقے سے پرکھا۔اسکاتجزیہ پوری دنیا سے مختلف تھا۔بقول اسکے،لی جَن تمام تیز رفتار ٹرینوں کوپچیس فیصدتک خطرناک تیزرفتار سے چلوا رہاہے۔یعنی اگرایک ٹرین دوسوکلومیٹرفی گھنٹہ چلنے کی استطاعت رکھتی ہے تولی کے حکم پراسے دو سو پچاس کلو میٹرفی گھنٹہ چلوایاجارہاتھا۔اس انجینئرکی تحقیق کے مطابق لی جن نے اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے انسانی جانوں کو داؤپر لگادیاہے۔مگرکسی نے بھی اس جاپانی ماہرکی بات نہ سنی۔چینی حکومت نے اعلان کردیاکہ جاپانی ماہر کا تجزیہ تعصب پرمبنی ہے۔ پورے چین میں کسی کی جرات ہی نہیں تھی کہ لی جَن جیسے کامیاب ترین آدمی پرکسی قسم کی تنقیدکرتا۔
2003ء میں ریلوے کی وزارت میں،لی نے اپنے سگے بھائی لی زی زیانگ(Liu Zhixiange)کواہم عہدے پرمقررکردیا۔ اسے مرکزی حکومت کااعتمادحاصل تھا۔لہذاکسی نے بھی اس سے دریافت نہ کیاکہ اپنی ہی وزارت میں چھوٹے بھائی کوکیسے مقررکردیا۔ساری اہم فیصلہ سازی میں لی زی شامل ہوگیا۔ویسے ہمارے ملک میں دیکھا جائے تواپنے خاندان اورقریبی رشتہ داروں کواہم پوسٹوں پر تعینات کرواناایک روٹین ہے۔کوئی بھی اسے بُرانھیں سمجھتا۔ سماجی طورپراب یہ نکتہ طے ہوچکاہے کہ اگرخاندان کاایک فردکسی بھی بلندعہدے پرپہنچ گیا،توپورے گھرانے کے وارے نیارے ہوجائینگے۔ہماری توسیاسی جماعتیں تک خاندانی نظام کے تحت کام کرتی ہیں۔اگرکوئی مرکزی قائدفوت ہوجائے۔تواس کے بعدقیادت خاندان کے اندرہی رکھ لی جاتی ہے۔
عام سیاسی ورکرتصوربھی نہیں کرسکتاکہ اسے کبھی بھی پارٹی کی مرکزی قیادت حاصل کرنے کے لیے خاندان کے کسی فردپرترجیح دی جائے گی۔ہماری تمام جمہوری سیاسی جماعتیں دراصل خاندان اورصرف خاندان کے اردگردگھومتی ہیں۔ باقی سب سیاسی غلام ہیں۔جواپنے حصے کی فیس وصول کرتے ہیں اورہمارے جیسے غیرجمہوری ملک میں جعلی جمہوریت کی آبیاری کرتے رہتے ہیں۔مسلم لیگ ن کیااورپیپلزپارٹی کیا۔ اے این پی کیااورمولانافضل الرحمن کی چھوٹی سی جماعت کیا۔ تمام کی تمام خاندانوں کے اردگردگھومتی ہیں۔ شخصیات ان کی ان داتاہیں۔صرف جماعت اسلامی ایک واحدجماعت ہے جس میں قیادت کے لیے خاندان کی کوئی اہمیت نہیں۔ مگر جماعت اسلامی اب اپنی سیاسی آب وتاب کھوچکی ہے۔ بہرحال چین میں اسطرح کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔
تھوڑے عرصے کے بعدمرکزی حکومت کوخبرملی کہ لی جَن کابھائی بدترین کرپشن میں ملوث ہے۔ تحقیقات کے بعداسے فوری طور پر گرفتار کرلیا گیا۔ لی زیانگ سے پچاس ملین ڈالرکے اثاثے برآمد ہوئے۔عدالت نے اسے سزائے موت کی سزا سنائی۔مگراب یہ معاملہ رکنے والا نہیں تھا۔لی جَن کے متعلق بھی تحقیقات کاآغازکیاگیا۔معلوم ہواکہ اس نے محیرالعقول حدتک کرپشن کی ہے۔ٹھیکے داروں کا ایک مافیاپکڑاگیاجوٹھیکہ لے کراسے کمیشن پر دوسرے ٹھیکے داروں کو فروخت کردیتا تھا۔اس مافیا کا رابطہ لی جَن سے تھا۔یہ بھی معلوم ہواکہ وہ تقریباً پچاس کے قریب کمپنیوں سے بھاری رقم بطوررشوت وصول کرتارہاہے۔اس نے ہراُصول کی دھجیاں اُڑاکررکھ دیں۔اسی اثناء میں وان زوکے مقام پرٹرین کا بدترین حادثہ ہوا۔
چالیس لوگ مارے گئے اورایک سوبانوے شدیدزخمی ہوئے۔وزیراعظم چین خودموقعہ پرپہنچ گیا۔معلوم ہواکہ ڈیزائن سے لے کرکام کی تکمیل تک کوئی بھی چیزضابطے کے مطابق نہیں کی گئی۔ہرمرحلہ ادنیٰ درجے سے طے کیا گیا تھا۔مرکزی حکومت کے ایک محکمے نے مکمل تحقیقات کے بعدلی جَن کوذمے دارقراردیا۔لی کو گرفتار کرلیا گیااور2013ء میں اسے سزائے موت سنادی گئی۔ اس کی تصاویرپورے ملک کی ہرجگہ سے ہٹادی گئیں۔اب لی جَن کا نام ایک عبرت کا نشان بن چکاتھا۔اس کے تمام کارنامے، اس کی کرپشن کے سامنے مانندپڑگئے۔اس کے دوسوپچاس ملین ڈالرکے اثاثے حکومت نے ضبط کرلیے۔آج آپ چین کے کسی آدمی سے بات کریں۔لی جَن کانام اور اسکاانجام سنکروہ کانوں کوہاتھ لگائیگا۔
اس واقعہ کوآپ اپنے ملک کی کسی بھی حکومت کے تناظرمیں دیکھیے،پرکھیے۔بے لاگ تجزیہ کیجیے۔آپکو معلوم ہوگاکہ پاکستان میں تقریباًہربڑے لیڈرنے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں سے اپنا اوراپنے خاندان کامالیاتی مقدر سنوارا ہے۔صدرایوب کے زمانے سے یہ سب کچھ ویسے کا ویساہی چل رہاہے۔صدرایوب اپنے بیٹے گوہرایوب کو رہنمابناتے بناتے ہرچیزکھوبیٹھے۔ذوالفقارعلی بھٹوجیساذہین آدمی عوام کو طاقت کاسرچشمہ قرار دیتا رہا۔
مگر پارٹی قیادت اپنی اہلیہ کے سپردکردی۔موجودہ سیاسی قیادت کے متعلق توبات کرناہی وقت کاضیاع ہے۔یہ تواپنی اولاکے سوا کسی اورطرف دیکھنے کے عمل کوہی گناہ سمجھتے ہیں۔ایک ایساگناہ جوان سے کبھی بھی سرزدنہیں ہوا۔عجیب بات ہے کہ جنھیں ہم فوجی ڈکٹیٹر قراردیتے ہیں۔طالع آزماگردانتے ہیں۔غاصب کہتے ہیں۔جیسے ضیاء الحق،پرویزمشرف۔ان میں سے کسی نے بھی اپنی اولادکوعوامی سطح پرآگے لانے کی کوشش نہیں کی۔ان کے خلاف ہروقت بات ہوتی رہتی ہے۔مگرکوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جنرل ضیاء الحق نے اپنے بیٹے اعجازالحق کوکبھی ملک کا وزیراعظم یاصدربنانے کے متعلق سوچابھی ہو۔پرویز مشرف میں ہزارخرابیاں ہوںگی مگراس کے بیٹے کانام تک کوئی نہیں جانتا۔یہ عجیب ساتضادہے کہ جمہوری لوگ اپنے خاندان سے باہرنہیں نکلتے۔
ہمارے بدقسمت ملک میں،ترقیاتی منصوبوں کوذاتی منفعت اورذاتی تشہیرکاسب سے بڑاذریعہ بنادیا گیا ہے۔ تمام منصوبے ہمارے جیسے لوگوں کے ٹیکس کے پیسوں اور قرضوں سے بنائے جاتے ہیں۔مگرپروپیگنڈاایسے کیاجاتا ہے کہ جیسے یہ سب کارنامے قوم کے اوپرایک احسان کے طوپرسرانجام دیے گئے ہیں۔گزشتہ دس برسوں میں تویہ ادنیٰ ترین کام اس زوروشورسے جاری رہاکہ کسی کومعمولی شرم کا احساس تک نہیںتھا۔ بسوں، گاڑیوں، پُلوں، کھمبوں، بلڈنگوں یعنی ہرجگہ سیاسی قیادت کی خوبصورت تصاویر آویزاں کی گئی تھیں۔
مسکراتے ہوئے قائدین، تصویروں میں لوگوں کو دیکھ رہے ہوتے تھے۔شائدان کی جہالت، بدنصیبی اورکج مقدری ان کے لبوں پرمسکراہٹ بکھیرتی تھی۔ مگراصل ہدف،وہ کمیشن اوررشوت کاپیسہ تھا،جواب آہستہ آہستہ لوگوں کے علم میں آرہاہے۔لی جَن نے توصرف دو سو پچاس ملین ڈالرکے غیرقانونی اثاثے بنائے تھے۔ان محترمین نے توملک سے پندرہ سے بیس ارب ڈالرچوری کیے ہیں۔ ملک برباد ہو چکا ہے۔ ان لوگوں نے ہمارااور ہماری اولاد کا مقدرآسیب زدہ کر دیا ہے، غیرمعمولی کرپشن کی سزابھی غیرمعمولی ہونی چاہیے۔کم ازکم عوامی جمہوریہ چین جیسی!
پوری زندگی ریلوے سے منسلک ہونے کی بدولت لی اس محکمہ کی رگ رگ سے واقف تھا۔ 2003 میں جب چینی ریلوے کاوزیربنایاگیاتومحکمہ کوئی بہت اچھی حالت میں نہیں تھا۔ٹریک بھی ہرجگہ موجودنہیں تھا۔سب سے پہلے لی نے صرف پانچ برس میں پورے ملک میں اضافی 7500میل کانیاٹریک بچھادیا۔رات دن کام کرتاتھا۔ مزدوروں اور اپنے عملہ کوبھی ہروقت کام میں مصروف رکھتاتھا۔ہرجگہ کہتا تھاکہ اگرکسی بھی ملک نے ترقی کرنی ہے تواسے ایک نسل مکمل طورپرقربان کرناپڑتی ہے۔کئی لوگ اسے پاگل کہتے تھے۔
اس جنونی آدمی نے چین میں ہائی اسپیڈریلوے کی سنگِ بنیادرکھی۔ڈھائی سوارب ڈالرسے دنیاکاسب مہیب اورطویل تیز رفتار ریلوے ٹرینوں کاجال بچھادیا۔جب کیمونسٹ پارٹی نے اسے تبت تک ریلوے لائن بچھانے کے متعلق پوچھاتوسب کاخیال تھاکہ لی کاجواب یہی ہوگا کہ اتنی بلندی پرریل لیجاناناممکن ہے۔مگراس نے یہ دشوار ترین کام کرنے کی حامی بھرلی۔آج بھی دنیا میں بلندترین مقام پرجانے والی ریل،لی کی نگرانی میں شروع ہوئی تھی۔ حدتویہ ہے کہ بارک اوباما امریکی صدرنے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ دنیامیں افراسٹرکچراوررفتارکے حساب سے امریکی بالادستی ختم ہوچکی ہے۔
یہ اعزازاب چین کے پاس ہے۔جب لی نے ساڑھے سات ہزارمیل ریلوے لائن بچھا کردرجنوں نئی ٹرینیں شروع کردیں،تواسے مرکزی حکومت نے ایک سوارب ڈالر مزید دیے۔ اب2020ء تک اسے دس ہزارکلومیٹرریلوے لائن مزیدبچھانی تھیں۔ برق رفتارٹرینوں نے چین کو تبدیل کرڈالا۔ اقتصادی، سماجی،فنی اورمعاشی نظام میں حددرجہ بہتری آگئی۔پوری دنیاسے لوگ چین کی تیزرفتارٹرینوں کودیکھنے اوران سے سیکھنے آتے تھے۔ لی جَن اس پورے نظام کاخالق تھا۔شہروں میں اس کی بلند قامت تصاویراورمجسمے لگے ہوئے تھے۔سب کویقین تھاکہ وہ اس بلندمقام سے مزیدبلندترمقام تک جائیگا۔ پولٹ بیوروتک اس کی رسائی بالکل سامنے نظرآرہی تھی۔چین میں اصل حکومت پولٹ بیوروکی ہوتی ہے۔
فیصلہ سازی میں آخری اور بلند ترین مقام۔ جب ہرطرف لی جَن کی واہ واہ ہورہی تھی توایک جاپانی انجینئرنے اس سارے نظام کو ٹیکنیکل طریقے سے پرکھا۔اسکاتجزیہ پوری دنیا سے مختلف تھا۔بقول اسکے،لی جَن تمام تیز رفتار ٹرینوں کوپچیس فیصدتک خطرناک تیزرفتار سے چلوا رہاہے۔یعنی اگرایک ٹرین دوسوکلومیٹرفی گھنٹہ چلنے کی استطاعت رکھتی ہے تولی کے حکم پراسے دو سو پچاس کلو میٹرفی گھنٹہ چلوایاجارہاتھا۔اس انجینئرکی تحقیق کے مطابق لی جن نے اپنی ناک اونچی رکھنے کے لیے انسانی جانوں کو داؤپر لگادیاہے۔مگرکسی نے بھی اس جاپانی ماہرکی بات نہ سنی۔چینی حکومت نے اعلان کردیاکہ جاپانی ماہر کا تجزیہ تعصب پرمبنی ہے۔ پورے چین میں کسی کی جرات ہی نہیں تھی کہ لی جَن جیسے کامیاب ترین آدمی پرکسی قسم کی تنقیدکرتا۔
2003ء میں ریلوے کی وزارت میں،لی نے اپنے سگے بھائی لی زی زیانگ(Liu Zhixiange)کواہم عہدے پرمقررکردیا۔ اسے مرکزی حکومت کااعتمادحاصل تھا۔لہذاکسی نے بھی اس سے دریافت نہ کیاکہ اپنی ہی وزارت میں چھوٹے بھائی کوکیسے مقررکردیا۔ساری اہم فیصلہ سازی میں لی زی شامل ہوگیا۔ویسے ہمارے ملک میں دیکھا جائے تواپنے خاندان اورقریبی رشتہ داروں کواہم پوسٹوں پر تعینات کرواناایک روٹین ہے۔کوئی بھی اسے بُرانھیں سمجھتا۔ سماجی طورپراب یہ نکتہ طے ہوچکاہے کہ اگرخاندان کاایک فردکسی بھی بلندعہدے پرپہنچ گیا،توپورے گھرانے کے وارے نیارے ہوجائینگے۔ہماری توسیاسی جماعتیں تک خاندانی نظام کے تحت کام کرتی ہیں۔اگرکوئی مرکزی قائدفوت ہوجائے۔تواس کے بعدقیادت خاندان کے اندرہی رکھ لی جاتی ہے۔
عام سیاسی ورکرتصوربھی نہیں کرسکتاکہ اسے کبھی بھی پارٹی کی مرکزی قیادت حاصل کرنے کے لیے خاندان کے کسی فردپرترجیح دی جائے گی۔ہماری تمام جمہوری سیاسی جماعتیں دراصل خاندان اورصرف خاندان کے اردگردگھومتی ہیں۔ باقی سب سیاسی غلام ہیں۔جواپنے حصے کی فیس وصول کرتے ہیں اورہمارے جیسے غیرجمہوری ملک میں جعلی جمہوریت کی آبیاری کرتے رہتے ہیں۔مسلم لیگ ن کیااورپیپلزپارٹی کیا۔ اے این پی کیااورمولانافضل الرحمن کی چھوٹی سی جماعت کیا۔ تمام کی تمام خاندانوں کے اردگردگھومتی ہیں۔ شخصیات ان کی ان داتاہیں۔صرف جماعت اسلامی ایک واحدجماعت ہے جس میں قیادت کے لیے خاندان کی کوئی اہمیت نہیں۔ مگر جماعت اسلامی اب اپنی سیاسی آب وتاب کھوچکی ہے۔ بہرحال چین میں اسطرح کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔
تھوڑے عرصے کے بعدمرکزی حکومت کوخبرملی کہ لی جَن کابھائی بدترین کرپشن میں ملوث ہے۔ تحقیقات کے بعداسے فوری طور پر گرفتار کرلیا گیا۔ لی زیانگ سے پچاس ملین ڈالرکے اثاثے برآمد ہوئے۔عدالت نے اسے سزائے موت کی سزا سنائی۔مگراب یہ معاملہ رکنے والا نہیں تھا۔لی جَن کے متعلق بھی تحقیقات کاآغازکیاگیا۔معلوم ہواکہ اس نے محیرالعقول حدتک کرپشن کی ہے۔ٹھیکے داروں کا ایک مافیاپکڑاگیاجوٹھیکہ لے کراسے کمیشن پر دوسرے ٹھیکے داروں کو فروخت کردیتا تھا۔اس مافیا کا رابطہ لی جَن سے تھا۔یہ بھی معلوم ہواکہ وہ تقریباً پچاس کے قریب کمپنیوں سے بھاری رقم بطوررشوت وصول کرتارہاہے۔اس نے ہراُصول کی دھجیاں اُڑاکررکھ دیں۔اسی اثناء میں وان زوکے مقام پرٹرین کا بدترین حادثہ ہوا۔
چالیس لوگ مارے گئے اورایک سوبانوے شدیدزخمی ہوئے۔وزیراعظم چین خودموقعہ پرپہنچ گیا۔معلوم ہواکہ ڈیزائن سے لے کرکام کی تکمیل تک کوئی بھی چیزضابطے کے مطابق نہیں کی گئی۔ہرمرحلہ ادنیٰ درجے سے طے کیا گیا تھا۔مرکزی حکومت کے ایک محکمے نے مکمل تحقیقات کے بعدلی جَن کوذمے دارقراردیا۔لی کو گرفتار کرلیا گیااور2013ء میں اسے سزائے موت سنادی گئی۔ اس کی تصاویرپورے ملک کی ہرجگہ سے ہٹادی گئیں۔اب لی جَن کا نام ایک عبرت کا نشان بن چکاتھا۔اس کے تمام کارنامے، اس کی کرپشن کے سامنے مانندپڑگئے۔اس کے دوسوپچاس ملین ڈالرکے اثاثے حکومت نے ضبط کرلیے۔آج آپ چین کے کسی آدمی سے بات کریں۔لی جَن کانام اور اسکاانجام سنکروہ کانوں کوہاتھ لگائیگا۔
اس واقعہ کوآپ اپنے ملک کی کسی بھی حکومت کے تناظرمیں دیکھیے،پرکھیے۔بے لاگ تجزیہ کیجیے۔آپکو معلوم ہوگاکہ پاکستان میں تقریباًہربڑے لیڈرنے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں سے اپنا اوراپنے خاندان کامالیاتی مقدر سنوارا ہے۔صدرایوب کے زمانے سے یہ سب کچھ ویسے کا ویساہی چل رہاہے۔صدرایوب اپنے بیٹے گوہرایوب کو رہنمابناتے بناتے ہرچیزکھوبیٹھے۔ذوالفقارعلی بھٹوجیساذہین آدمی عوام کو طاقت کاسرچشمہ قرار دیتا رہا۔
مگر پارٹی قیادت اپنی اہلیہ کے سپردکردی۔موجودہ سیاسی قیادت کے متعلق توبات کرناہی وقت کاضیاع ہے۔یہ تواپنی اولاکے سوا کسی اورطرف دیکھنے کے عمل کوہی گناہ سمجھتے ہیں۔ایک ایساگناہ جوان سے کبھی بھی سرزدنہیں ہوا۔عجیب بات ہے کہ جنھیں ہم فوجی ڈکٹیٹر قراردیتے ہیں۔طالع آزماگردانتے ہیں۔غاصب کہتے ہیں۔جیسے ضیاء الحق،پرویزمشرف۔ان میں سے کسی نے بھی اپنی اولادکوعوامی سطح پرآگے لانے کی کوشش نہیں کی۔ان کے خلاف ہروقت بات ہوتی رہتی ہے۔مگرکوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جنرل ضیاء الحق نے اپنے بیٹے اعجازالحق کوکبھی ملک کا وزیراعظم یاصدربنانے کے متعلق سوچابھی ہو۔پرویز مشرف میں ہزارخرابیاں ہوںگی مگراس کے بیٹے کانام تک کوئی نہیں جانتا۔یہ عجیب ساتضادہے کہ جمہوری لوگ اپنے خاندان سے باہرنہیں نکلتے۔
ہمارے بدقسمت ملک میں،ترقیاتی منصوبوں کوذاتی منفعت اورذاتی تشہیرکاسب سے بڑاذریعہ بنادیا گیا ہے۔ تمام منصوبے ہمارے جیسے لوگوں کے ٹیکس کے پیسوں اور قرضوں سے بنائے جاتے ہیں۔مگرپروپیگنڈاایسے کیاجاتا ہے کہ جیسے یہ سب کارنامے قوم کے اوپرایک احسان کے طوپرسرانجام دیے گئے ہیں۔گزشتہ دس برسوں میں تویہ ادنیٰ ترین کام اس زوروشورسے جاری رہاکہ کسی کومعمولی شرم کا احساس تک نہیںتھا۔ بسوں، گاڑیوں، پُلوں، کھمبوں، بلڈنگوں یعنی ہرجگہ سیاسی قیادت کی خوبصورت تصاویر آویزاں کی گئی تھیں۔
مسکراتے ہوئے قائدین، تصویروں میں لوگوں کو دیکھ رہے ہوتے تھے۔شائدان کی جہالت، بدنصیبی اورکج مقدری ان کے لبوں پرمسکراہٹ بکھیرتی تھی۔ مگراصل ہدف،وہ کمیشن اوررشوت کاپیسہ تھا،جواب آہستہ آہستہ لوگوں کے علم میں آرہاہے۔لی جَن نے توصرف دو سو پچاس ملین ڈالرکے غیرقانونی اثاثے بنائے تھے۔ان محترمین نے توملک سے پندرہ سے بیس ارب ڈالرچوری کیے ہیں۔ ملک برباد ہو چکا ہے۔ ان لوگوں نے ہمارااور ہماری اولاد کا مقدرآسیب زدہ کر دیا ہے، غیرمعمولی کرپشن کی سزابھی غیرمعمولی ہونی چاہیے۔کم ازکم عوامی جمہوریہ چین جیسی!