انتہا پسندی اورمتبادل بیانیہ کی جنگ
خورشید ندیم ہماری قومی صحافت میں نمایاں بلکہ نمایاں تر ہیں کہ خوب سوچ سمجھ کر قلم اٹھاتے ہیں
WELLINGTON, NEW ZEALAND:
پاکستان انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خلاف ایک بڑی جنگ سے نمٹنے کی کوششوں میں جڑا ہوا ہے۔ یہ جنگ کوئی معمولی جنگ نہیں بلکہ اس نے ہماری ریاست، حکومت اورمعاشرہ کو نہ صرف کمزور کیا ہے بلکہ قومی سلامتی کے سنگین نتائج پیدا کیے ہیں۔ ریاست کے اندر ریاست کی رٹ کا چیلنج ہونا اور جس کا مقصدطاقت کے زور پر اپنی سوچ، فکر اورنظریات کو مسلط کرنا ہو تو نمٹنا آسان نہیں ہوتا۔ بالخصوص جب دشمن خود آپ کے اپنے اندر ہو تو یہ لڑائی جیتنا اور زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔
انتہا پسندی اور دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے ہمارے ریاستی اداروں نے انتظامی بنیادوں پر جو بڑے اقدامات اٹھائے اس کے نتیجے میں دہشتگردی میں کافی حد تک کمی ہوئی ہے۔اب دہشتگرد بھی اس انداز میں منظم نہیں جیسی ماضی میں تھی۔ مگر اس کے باوجود انتہا پسندی کا مسئلہ آج بھی ہمارے سماج میں بدستور موجود ہے جو محض مذہبی بنیادوں پر ہی نہیں بلکہ سیاسی، سماجی، علاقائی اور لسانی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بیس نکات پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تو اس کا بنیادی نکتہ ایک متبادل بیانیہ کی تلاش اور لوگوں کی علمی اور فکری بنیادوں پر ایسی تربیت کا انتظام تھا جس کا مقصد انتہا پسندی سے نمٹنا تھا۔
متبادل بیانیہ کی جنگ یقینی طور پر محض فوج نے نہیں لڑنی بلکہ اس کا بڑا تعلق علمی اور فکری محاذ پر اہل دانش یا رائے عامہ بنانے والے اداروں یا افراد سے جڑا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے علمی اور فکری محاذ پر متبادل بیانیہ کے تناظر میں جو کام ہونا چاہیے تھا اس کی واضح طور پر ایک بڑا فقدان نظر آتا ہے۔ لیکن ملک کے معروف دانشور، صحافی، لکھاری، مصنف، اسکالر اور علمی و فکری محاذ پر بہت زیادہ سرگرم خورشید احمد ندیم بڑی محنت اور لگن کے ساتھ ایک متبادل بیانیہ کی تلاش کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
خورشید ندیم ملک کے ان سنجیدہ لکھاریوں میں سے ہیں جو انتہا پسندی اور دہشتگردی جیسے موضوعات کا سطحی تجزیہ کرنے کے بجائے بہت باریک بینی اور گہرائی سے ان محرکات کا تجزیہ کرتے ہیں جو اس مرض کو کمزور کرنے کے بجائے طاقت دینے کا سبب بن رہے ہیں۔ وہ عملی طور پر ایسے موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں جن کا براہ راست تعلق سماج، مذہب، ریاست اور حکمرانی کے نظام سے ہوتا ہے۔ خورشید ندیم کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنا مقدمہ جذباتیت کے بجائے دلیل اورمکالمہ کی بنیاد پر پیش کرتے ہیں اوربلاوجہ کی محاذ آرائی یا شخصی لڑائی میں الجھنے کے بجائے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ حال ہی میںخورشید ندیم کی تحریروں پر مشتمل ایک اہم کتاب ''متبادل بیانیہ" سماج، ریاست اور مذہب کے تناظر میں شایع ہوئی ہے۔ یہ کتاب دو حصوں پر ہے جس میں اول حصہ مذہب اور معاشرہ جب کہ دوسرا حصہ مذہب اور سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ خورشید ندیم معاملات کو سماج کی آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہے اور ان کے بقول سماج کی موثر شفافیت ہی معاشرے کے حقیقی حسن کو دوبالا کرتی ہے۔ بنیادی طور پر خورشید احمد ندیم رواداری پر مبنی معاشرے کے حامی ہیں اوراسی کو بنیاد بنا کر علمی اور فکری محاذ پر شعور کی بیداری کی مہم کے اہم سپاہی ہیں۔
خورشید ندیم ہماری قومی صحافت میں نمایاں بلکہ نمایاں تر ہیں کہ خوب سوچ سمجھ کر قلم اٹھاتے ہیں یا زبان کھولتے ہیں۔ بولنے سے زیادہ ان کا زور تولنے پر ہوتا ہے۔ کوئی ہلکا لفظ ان کی زبان سے ادا ہو پاتا ہے نہ قلم سے سرزد ہوتا ہے اور پاکستانی سیاست اور سماج کی نظریاتی الجھنوں اور فکری مغالطوں سے چھیڑ چھاڑ ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اگریہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ انھوں نے اسے اپنا فریضہ قرار دے لیا ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کے چیرمین ڈاکٹر ایاز کے بقول خورشید ندیم نے اپنی متفرق علمی و سماجی کاوشوں میں نظا م اقدار کی مرکزیت کو نمایاں کیا اور سماجی اصلاح میں مذہب کو ایک اہم عامل کے طور پر پیش کیا۔ یوں ان کی تحریروں میں مذہب ایک مثبت طاقت کے طور پر سامنے آیا۔ ڈاکٹر محمد خالد مسعود سابق ڈی جی ادارہ تحقیقات اسلامی کے بقول خورشید ندیم نے قومی بیانیہ کے الجھتے ہوئے مکالمے کو صراط مستقیم پر ڈالنے کی کوشش کی ہے اوران کی سب سے بڑی خوبی ان کی سماجی علوم سے دلچسپی ہے اور ان کی سب تصانیف میں سماجیات کا پہلو نمایاں رہتا ہے۔
اس کتاب میں لکھے گئے مضامین بنیادی طور پر انتہا پسندی اور دہشتگردی جیسے موضوعات سے نمٹنے اور معاشرے کو رواداری پر مبنی معاشرہ بنانے کے تناظر میں ایک قومی نصاب کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ جو متبادل بیانیہ کی جنگ ہے اس میں ہر فریق کا کیا کردار بنتا ہے اس کا تفصیلی ذکر آپ کو ان مضامین میں نمایاں نظر آئے گا۔ وہ سماج کا مطالعہ کرتے ہوئے کسی تعصب کا شکار نہیں ہوتے اوربہت گہرائی سے جاکر مسائل کا احاطہ یا تجزیہ کرکے قوم کو راستہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کے سامنے بنیادی مقصد ایک ایسے سماج کی تشکیل ہے جو سیاسی، سماجی اور مذہبی ہم اہنگی سے جڑا ہو اورجہاں سب فریق بغیر کسی تعصب کے ایک دوسرے کی سوچ، نظریات، فکر اور خیالات کو عزت دے سکیں۔ عملی طور پر خورشید ندیم مذہبی سوچ رکھتے ہیں اوراسی دائرہ میں بات کرتے ہیں۔مگر انتہا پسندی کے مقابلے میں اپنی بات پیش کرکے دوسروں کے خیالات کوبھی سنتے اور احترام دیتے ہیں ۔
خورشید ندیم بنیادی طور پر ملک میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی پاسداری کے قائل ہیں اورخاص طور پر ان لوگوں پر خوب تنقید کرتے ہیں جو مذہب کو سیاست میں بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔اس ملک میں انتہا پسندی کیسے پھیلی اورکس طرح سے انتہا پسندی پورے طبقہ کو اپنی لپیٹ میںلیتی ہے ان محرکات کا ذکر آپ کو مختلف مضامین میں نمایاں نظر آئے گا۔وہ بنیادی طور پر محض انتظامی بنیادوں پر اس دہشتگردی اورانتہا پسندی کے مقابلے کو مسئلہ کا حل نہیں سمجھتے۔میڈیا، ذرایع ابلاغ، سیاسی جماعتوں، سیاسی قیادت، مذہبی سیاست اورجماعتوں کا بھی خوب تجزیہ پیش کرتے ہیں۔نئی نسل میں جس انداز سے انتہا پسندی بڑھ رہی ہے اس کا بھی تجزیہ شامل ہے اوربالخصوص تعلیم، علمی اداروں اور طلبہ کی سیاسی اور غیر سیاسی سرگرمیوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔اسی طرح اس کتاب میں آپ کو ریاست اورحکومت کی جانب سے عملا انتہا پسندی اور دہشتگردی سے نمٹنے کے اقدامات کا بھی پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے کہ ہم اس جنگ میں کہاں کھڑے ہیں اور آگے اس جنگ میں ہمیں کیا کچھ کرنا ہے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ خورشید احمد ندیم معاملات کو محض سیاسی تنہائی یا اس مسئلہ کی سنگینی کو صرف مذہبی نکتہ نگاہ سے نہیں دیکھتے بلکہ ان کا فہم اور تدبر اس مسئلہ کو سیاسی، سماجی، علمی و فکری مسائل سمیت ریاست اورحکمرانی کے جڑے مسائل سے جوڑ کر مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ محض لکھاری ہی نہیں بلکہ عملی طور پر فکری محاذ پر سرگرم ادارہ تعلیم و تحقیق کے سربراہ ہیں۔ اس ادارہ کے تحت وہ ملک کے مختلف حصوں میں فکری مباحث کو فروغ دے کر سب کو بیٹھنے، سوچنے اور مسائل کے حل میں آگے بڑھنے کی طرف راغب کرتے ہیں۔وہ مکالمہ کے حامی ہیں اور مکالمہ کی مدد سے ہی مسائل کا حل تلاش کرنے پر زور دیتے ہیں۔
خورشید احمد ندیم کی کتاب "متبادل بیانیہ" ایک ایسے وقت میں موضوع بحث بن رہی ہے جب ہم سب انتہا پسندی اور دہشتگردی سے نمٹنے کا علاج تلاش کررہے ہیں۔اگر اس متبادل بیانیہ کی بحث کو آگے بڑھانا ہے تو مصنف کی یہ کتاب جو عملی طور پر نصاب کا درجہ رکھتی ہے ایک کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔کیونکہ اس فکری اور علمی جنگ کے لیے ہمیں خود بھی فکری محاذ پر اپنی تعلیم و تربیت کا بھی بندوبست کرنا چاہیے، یہ کتاب اس فکر میں معاون کا کردار ادا کرکے ہمیں ایک مہذہب اور رواداری پر مبنی معاشرہ کو بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔
پاکستان انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خلاف ایک بڑی جنگ سے نمٹنے کی کوششوں میں جڑا ہوا ہے۔ یہ جنگ کوئی معمولی جنگ نہیں بلکہ اس نے ہماری ریاست، حکومت اورمعاشرہ کو نہ صرف کمزور کیا ہے بلکہ قومی سلامتی کے سنگین نتائج پیدا کیے ہیں۔ ریاست کے اندر ریاست کی رٹ کا چیلنج ہونا اور جس کا مقصدطاقت کے زور پر اپنی سوچ، فکر اورنظریات کو مسلط کرنا ہو تو نمٹنا آسان نہیں ہوتا۔ بالخصوص جب دشمن خود آپ کے اپنے اندر ہو تو یہ لڑائی جیتنا اور زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔
انتہا پسندی اور دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے ہمارے ریاستی اداروں نے انتظامی بنیادوں پر جو بڑے اقدامات اٹھائے اس کے نتیجے میں دہشتگردی میں کافی حد تک کمی ہوئی ہے۔اب دہشتگرد بھی اس انداز میں منظم نہیں جیسی ماضی میں تھی۔ مگر اس کے باوجود انتہا پسندی کا مسئلہ آج بھی ہمارے سماج میں بدستور موجود ہے جو محض مذہبی بنیادوں پر ہی نہیں بلکہ سیاسی، سماجی، علاقائی اور لسانی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر بھی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بیس نکات پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تو اس کا بنیادی نکتہ ایک متبادل بیانیہ کی تلاش اور لوگوں کی علمی اور فکری بنیادوں پر ایسی تربیت کا انتظام تھا جس کا مقصد انتہا پسندی سے نمٹنا تھا۔
متبادل بیانیہ کی جنگ یقینی طور پر محض فوج نے نہیں لڑنی بلکہ اس کا بڑا تعلق علمی اور فکری محاذ پر اہل دانش یا رائے عامہ بنانے والے اداروں یا افراد سے جڑا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے علمی اور فکری محاذ پر متبادل بیانیہ کے تناظر میں جو کام ہونا چاہیے تھا اس کی واضح طور پر ایک بڑا فقدان نظر آتا ہے۔ لیکن ملک کے معروف دانشور، صحافی، لکھاری، مصنف، اسکالر اور علمی و فکری محاذ پر بہت زیادہ سرگرم خورشید احمد ندیم بڑی محنت اور لگن کے ساتھ ایک متبادل بیانیہ کی تلاش کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
خورشید ندیم ملک کے ان سنجیدہ لکھاریوں میں سے ہیں جو انتہا پسندی اور دہشتگردی جیسے موضوعات کا سطحی تجزیہ کرنے کے بجائے بہت باریک بینی اور گہرائی سے ان محرکات کا تجزیہ کرتے ہیں جو اس مرض کو کمزور کرنے کے بجائے طاقت دینے کا سبب بن رہے ہیں۔ وہ عملی طور پر ایسے موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں جن کا براہ راست تعلق سماج، مذہب، ریاست اور حکمرانی کے نظام سے ہوتا ہے۔ خورشید ندیم کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنا مقدمہ جذباتیت کے بجائے دلیل اورمکالمہ کی بنیاد پر پیش کرتے ہیں اوربلاوجہ کی محاذ آرائی یا شخصی لڑائی میں الجھنے کے بجائے آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ حال ہی میںخورشید ندیم کی تحریروں پر مشتمل ایک اہم کتاب ''متبادل بیانیہ" سماج، ریاست اور مذہب کے تناظر میں شایع ہوئی ہے۔ یہ کتاب دو حصوں پر ہے جس میں اول حصہ مذہب اور معاشرہ جب کہ دوسرا حصہ مذہب اور سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ خورشید ندیم معاملات کو سماج کی آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہے اور ان کے بقول سماج کی موثر شفافیت ہی معاشرے کے حقیقی حسن کو دوبالا کرتی ہے۔ بنیادی طور پر خورشید احمد ندیم رواداری پر مبنی معاشرے کے حامی ہیں اوراسی کو بنیاد بنا کر علمی اور فکری محاذ پر شعور کی بیداری کی مہم کے اہم سپاہی ہیں۔
خورشید ندیم ہماری قومی صحافت میں نمایاں بلکہ نمایاں تر ہیں کہ خوب سوچ سمجھ کر قلم اٹھاتے ہیں یا زبان کھولتے ہیں۔ بولنے سے زیادہ ان کا زور تولنے پر ہوتا ہے۔ کوئی ہلکا لفظ ان کی زبان سے ادا ہو پاتا ہے نہ قلم سے سرزد ہوتا ہے اور پاکستانی سیاست اور سماج کی نظریاتی الجھنوں اور فکری مغالطوں سے چھیڑ چھاڑ ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اگریہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ انھوں نے اسے اپنا فریضہ قرار دے لیا ہے۔اسلامی نظریاتی کونسل کے چیرمین ڈاکٹر ایاز کے بقول خورشید ندیم نے اپنی متفرق علمی و سماجی کاوشوں میں نظا م اقدار کی مرکزیت کو نمایاں کیا اور سماجی اصلاح میں مذہب کو ایک اہم عامل کے طور پر پیش کیا۔ یوں ان کی تحریروں میں مذہب ایک مثبت طاقت کے طور پر سامنے آیا۔ ڈاکٹر محمد خالد مسعود سابق ڈی جی ادارہ تحقیقات اسلامی کے بقول خورشید ندیم نے قومی بیانیہ کے الجھتے ہوئے مکالمے کو صراط مستقیم پر ڈالنے کی کوشش کی ہے اوران کی سب سے بڑی خوبی ان کی سماجی علوم سے دلچسپی ہے اور ان کی سب تصانیف میں سماجیات کا پہلو نمایاں رہتا ہے۔
اس کتاب میں لکھے گئے مضامین بنیادی طور پر انتہا پسندی اور دہشتگردی جیسے موضوعات سے نمٹنے اور معاشرے کو رواداری پر مبنی معاشرہ بنانے کے تناظر میں ایک قومی نصاب کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ جو متبادل بیانیہ کی جنگ ہے اس میں ہر فریق کا کیا کردار بنتا ہے اس کا تفصیلی ذکر آپ کو ان مضامین میں نمایاں نظر آئے گا۔ وہ سماج کا مطالعہ کرتے ہوئے کسی تعصب کا شکار نہیں ہوتے اوربہت گہرائی سے جاکر مسائل کا احاطہ یا تجزیہ کرکے قوم کو راستہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کے سامنے بنیادی مقصد ایک ایسے سماج کی تشکیل ہے جو سیاسی، سماجی اور مذہبی ہم اہنگی سے جڑا ہو اورجہاں سب فریق بغیر کسی تعصب کے ایک دوسرے کی سوچ، نظریات، فکر اور خیالات کو عزت دے سکیں۔ عملی طور پر خورشید ندیم مذہبی سوچ رکھتے ہیں اوراسی دائرہ میں بات کرتے ہیں۔مگر انتہا پسندی کے مقابلے میں اپنی بات پیش کرکے دوسروں کے خیالات کوبھی سنتے اور احترام دیتے ہیں ۔
خورشید ندیم بنیادی طور پر ملک میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی پاسداری کے قائل ہیں اورخاص طور پر ان لوگوں پر خوب تنقید کرتے ہیں جو مذہب کو سیاست میں بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔اس ملک میں انتہا پسندی کیسے پھیلی اورکس طرح سے انتہا پسندی پورے طبقہ کو اپنی لپیٹ میںلیتی ہے ان محرکات کا ذکر آپ کو مختلف مضامین میں نمایاں نظر آئے گا۔وہ بنیادی طور پر محض انتظامی بنیادوں پر اس دہشتگردی اورانتہا پسندی کے مقابلے کو مسئلہ کا حل نہیں سمجھتے۔میڈیا، ذرایع ابلاغ، سیاسی جماعتوں، سیاسی قیادت، مذہبی سیاست اورجماعتوں کا بھی خوب تجزیہ پیش کرتے ہیں۔نئی نسل میں جس انداز سے انتہا پسندی بڑھ رہی ہے اس کا بھی تجزیہ شامل ہے اوربالخصوص تعلیم، علمی اداروں اور طلبہ کی سیاسی اور غیر سیاسی سرگرمیوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔اسی طرح اس کتاب میں آپ کو ریاست اورحکومت کی جانب سے عملا انتہا پسندی اور دہشتگردی سے نمٹنے کے اقدامات کا بھی پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے کہ ہم اس جنگ میں کہاں کھڑے ہیں اور آگے اس جنگ میں ہمیں کیا کچھ کرنا ہے۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ خورشید احمد ندیم معاملات کو محض سیاسی تنہائی یا اس مسئلہ کی سنگینی کو صرف مذہبی نکتہ نگاہ سے نہیں دیکھتے بلکہ ان کا فہم اور تدبر اس مسئلہ کو سیاسی، سماجی، علمی و فکری مسائل سمیت ریاست اورحکمرانی کے جڑے مسائل سے جوڑ کر مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ محض لکھاری ہی نہیں بلکہ عملی طور پر فکری محاذ پر سرگرم ادارہ تعلیم و تحقیق کے سربراہ ہیں۔ اس ادارہ کے تحت وہ ملک کے مختلف حصوں میں فکری مباحث کو فروغ دے کر سب کو بیٹھنے، سوچنے اور مسائل کے حل میں آگے بڑھنے کی طرف راغب کرتے ہیں۔وہ مکالمہ کے حامی ہیں اور مکالمہ کی مدد سے ہی مسائل کا حل تلاش کرنے پر زور دیتے ہیں۔
خورشید احمد ندیم کی کتاب "متبادل بیانیہ" ایک ایسے وقت میں موضوع بحث بن رہی ہے جب ہم سب انتہا پسندی اور دہشتگردی سے نمٹنے کا علاج تلاش کررہے ہیں۔اگر اس متبادل بیانیہ کی بحث کو آگے بڑھانا ہے تو مصنف کی یہ کتاب جو عملی طور پر نصاب کا درجہ رکھتی ہے ایک کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔کیونکہ اس فکری اور علمی جنگ کے لیے ہمیں خود بھی فکری محاذ پر اپنی تعلیم و تربیت کا بھی بندوبست کرنا چاہیے، یہ کتاب اس فکر میں معاون کا کردار ادا کرکے ہمیں ایک مہذہب اور رواداری پر مبنی معاشرہ کو بنانے میں مدد دے سکتی ہے۔