تبلیغی جماعت کے حاجی عبدالوہاب ربّ تعالیٰ کے حضور پیش ہوگئے
جماعت کے عالمی امیر نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ تبلیغی سرگرمیوں کے لئے وقف کئے رکھا
مذہبی اعتبار سے برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس خطے میں انگریز کے قدم جمانے کی بڑی وجہ یہاں کے بادشاہوں کی اسلامی تعلیمات سے دوری کو قرار دیا جاتا ہے، تاہم اس مسئلہ میں شدت انگریز کے یہاں مستقل قیام نے پیدا کر دی، امت محمدیہؐ میں ایمان و یقین کی جو تھوڑی بہت رمق ابھی بھی باقی تھی، اسے مغربی تہذیب کا سیلاب بہا لے جانے پر تلا ہوا تھا۔ پھر اس مشن میں ہندوؤں نے بھی انگریز کا بھرپور ساتھ دیا۔
20 ویں صدی کے اوائل میں ''شدھی'' اور ''سنگھاٹن'' جیسی تحاریک شروع ہوئیں، جن کا مقصد ہندو ازم کو فروغ دینا تھا۔ دوسری طرف خود مسلمانوں کی صورتِ حال یہ تھی کہ اسلام سے دوری، اعمال و عقائد کے بگاڑ اور عقائد میں خرابیاں در آنے جیسی وجوہات نے ان کی اکثریت کو شرک و بدعت، جہالت اورگمراہی کے ''بحرظلمات'' میں ڈبویا ہوا تھا۔ ان حالات میں ایک حقیقی غلامِ محمدؐ جسے دنیا مولانا الیاس کاندھلویؒ کے نام سے جانتی ہے۔
کے سینے کو خدائے بزرگ و برتر کی جانب سے شرح صدر نصیب ہوا اور انہوں نے اصلاح امت کا بیڑہ اٹھایا اور خود گھر گھر جا کر یہ محنت شروع کی۔ مولانا الیاس کاندھلویؒ نے 1927ء میں دہلی کے علاقے نظام الدین میں تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی۔ 1941ء میں تبلیغی جماعت کا پہلا باقاعدہ سالانہ اجتماع ہوا، جس میں 25ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اللہ رب العزت نے مولانا الیاسؒ کے دعوت و تبلیغ کے کام کو شرف قبولیت عطا فرمایا اور ایک شخص سے شروع ہونے والی تحریک کی آواز آج اربوں انسانوں تک پہنچ چکی ہے۔ آج دنیا بھر کے تقریباً 215 ممالک میں باقاعدہ دعوت و تبلیغ کے مراکز قائم ہیں، جہاں سے کروڑوں افراد فیض یاب ہو رہے ہیں۔
مولانا الیاسؒ تبلیغی جماعت کے پہلے امیر مقرر ہوئے اور اپنے انتقال یعنی 1944ء تک بطور امیر خدمات سرانجام دیتے رہے، انہی دنوں مولانا الیاسؒ سے ایک تحصیلدار ملنے آیا، جو ان سے ملنے کے بعد پھر صرف انہی کا ہو کر رہ گیا۔ اس شخص نے حقیقی معنوں میں اسلام کی خدمت کی ٹھانی اور اس عظیم مشن کو پھر یوں سینے سے لگایا کہ اس کے بعد کوئی دنیاوی ضرورتیں اس کے آڑے آئیں نہ کوئی رشتہ اس کے پاؤں کی بیڑی بنا۔ جی ہاں! وہ ایک عام سا تحصیلدار مفکر اسلام اور عالمی داعی، حاجی عبدالوہاب صاحب تھے۔ حاجی عبدالوہاب یکم جنوری 1923ء (بعض اطلاعات کے مطابق 1922ء) کو متحدہ ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کے ضلع کرنال میں پیدا ہوئے، ان کا آبائی علاقہ سہارنپور، اتر پردیش ہے۔ راجپوتوں کی شاخ رانگڑ سے تعلق رکھنے والے حاجی صاحب کے والد حافظ عاشق حسین انجمن راجپوتان اسلام انڈیا کے جنرل سیکرٹری تھے، ان کے تین بھائی اور دو بہنیں تھیں۔
اس عالمی مبلغ نے اسلامیہ کالج لاہور سے گریجوایشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انگریز دور میں بحیثیت تحصیلدار عملی زندگی کا آغاز کیا، جو زیادہ نہ چلی سکی، کیوں کہ آپ کے سینے میں بھی وہی ابال اٹھنے لگے تھے، جس کے باعث کبھی مولانا الیاسؒ ہر وقت بے چین رہتے تھے۔ تبلیغی جماعت میں باقاعدہ شمولیت سے قبل حاجی عبدالوہاب نے ختم نبوتؐ کے لئے کام کرنے والی جماعت مجلس احرار اسلام کے سرگرم کارکن کے طور پر بھی کام کیا جبکہ تقسیم ہند کے بعد وہ بورے والا میں مجلس کے امیر بھی رہے۔
ان کے آباؤ اجداد نے ہجرت کے بعد ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والا کے گاؤں 331 ٹوپیاں والا میں رہائش اختیار کی۔ یہ گاؤں معروف ولی اللہ حاجی شیر دیوان کی خانقاہ سے صرف 5 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں ان کا آبائی گھر اور کچھ اراضی آج بھی موجود ہے۔
مولانا الیاس کاندھلویؒ کے انتقال کے بعد مولانا یوسف کاندھلویؒ 1965 اور پھر مولانا انعام الحسن کاندھلویؒ 1995ء تک امیر تبلیغی جماعت رہے۔ مولانا انعام الحسن کاندھلوی کے انتقال کے تقریباً 2 ماہ بعد حاجی عبدالوہاب 10 جون 1995ء کو تبلیغی جماعت کے امیر مقرر ہوئے اور 18 نومبر 2018ء (بوقت انتقال) تک بااحسن طریق یہ ذمہ داری نبھاتے رہے، انہوں نے اللہ پر توکل کا ایسا پختہ یقین اپنے دل میں پیدا کیا کہ جس کی روشنی سے کروڑوں دل روشن ہوئے، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں مسلمان ان کو اپنا ''بڑا'' مانتے ہیں۔
2014ء میں جب حکومت پاکستان اورتحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کی بات چلی تو امن کمیٹی کے لئے مولانا سمیع الحق اور ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ حاجی عبدالوہاب کا نام بھی لیا گیا۔ اسی طرح 2009-10 میں شائع ہونے والے ایک جریدے میں دنیا کے 500 بااثر ترین مسلمانوں کی فہرست پیش کی گئی، جس میں حاجی عبدالوہاب، رینکنگ میں 10ویں نمبر پر دکھائے گئے ہیں۔ اس جریدے کو رائل اسلامک سٹرٹیجیک سٹڈیز سنٹر اردن نے پرنس الولید بن طلال سنٹر برائے مسلم کرسچیئن ہم آہنگی (امریکا) کے تعاون سے مرتب کیا ہے۔
حاجی عبدالوھاب نے ساری زندگی حقوق اللہ میں کمی آنے دی نہ حقوق العباد کو پس پشت ڈالا۔ یہ بات زبان زد عام ہے کہ ان کے دل میں اکرام مسلم، خدمت اور انکساری کا یہ عالم تھا کہ جب تک ان کے جسم میں توانائی رہی وہ رائیونڈ تبلیغی مرکز کے واش روم تک خود اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے رہے۔ تبلیغی جماعت کے اصولوں کے مطابق اپنا مال، وقت اور جان لگانے کے ساتھ دوسروں پر بھی ان کو خرچ کرنا ان کے لئے بہت بڑی سعادت تھی۔ شدید بیماریوں کا شکار بننے تک وہ روزانہ صبح کے وقت 4،4 گھنٹے تک مسلسل بیان کرتے تھے، جس کے باعث ان کا گلا بیٹھ گیا اور ڈاکٹرز کے مطابق ہر وقت بولنے کی وجہ سے ان کے گلے کی رگیں دب گئی تھیں، جنہیں آپریشن کے ذریعے درست کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ پھر مکمل طور پر اس مرض سے نجات حاصل نہ کر سکے۔
بعدازں وقت گزرنے کے ساتھ انہیں گلے کے ساتھ دل کئے امراض نے آ لیا۔ گزشتہ تقریباً 8 برس سے وہ شدید علالت کا شکار تھے، پچھلے دنوں بھی انہیں طبعیت زیادہ بگڑنے پر لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں داخل کروایا گیا، جہاں وہ کئی روز وینٹی لیٹر پر رہے، تاہم کروڑوں انسانوں کو ''اللہ سے سب کچھ ہونے اور غیراللہ سے کچھ نہ ہونے کا یقین'' کا درس پڑھانے والے امیر عالمی تبلیغی جماعت حاجی عبدالوہاب گزشتہ روز اسی کے پاس چلے گئے، جس نے عمر بھر کے لئے ان کی ڈیوٹی اس کے بھٹکے ہوئے بندوں کو راہ راست پر لانے کی بھر پور سعی کرنے پر لگائی تھی ۔ حاجی عبدالوہاب آج اس دنیا فانی میں نہیں رہے، لیکن وہ جس مشن کو لے کر چل رہے تھے، وہ پہلے بھی موجود تھا، ان کی زندگی میں بھی چلتا رہا اور ان کے جانے کے بعد بھی باقی رہے گا، کیوں کہ یہ مشن کسی فرقے یا مسلک کا نہیں بلکہ اسلام کی سربلندی و سرفرازی کا ہے۔
امیر تبلیغی جماعت نے ساری زندگی توڑنے نہیں بلکہ جوڑنے پر زور دیا: وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری
عالمی امیر تبلیغی جماعت حاجی عبدالوہاب کی وفات پر وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حاجی صاحب کا انتقال نہ صرف پاکستان کے مسلمانوں بلکہ پورے عالم اسلام کے لئے ایک المیہ ہے، یہ اتنا بڑا دکھ اور صدمہ ہے، جسے برداشت کرنا شائد ممکن نہیں، لیکن ہم ایسا کرنے کی کوشش کریں گے کیوں کہ موت برحق اور اس پر صبر لازم ہے۔
ان کی وفات کی وجہ سے پیدا ہونے والا خلا تو کبھی پُر نہیں ہو سکتا، تاہم امیر تبلیغی جماعت کا مشن ان کے پسماندگان اور پوری امت انشاء اللہ جاری رکھے گی۔ مجھے ان سے ملاقات کا شرف تو حاصل نہیں ہو سکا، تاہم ان کے خطبات سے متعدد بار مستفید ہو چکا ہوں۔
وفاقی وزیر نور الحق قادری نے کہا کہ حاجی صاحب نے عمر بھر جو کام کیا یعنی اتحاد امت اور دعوت و تبلیغ، بلاشبہ اس پر بحیثیت مسلمان کوئی دو رائے نہیں۔ اس کام کی ضرورت تو روز اول سے محسوس کی گئی، لیکن آج یہ اتحاد امت ناگزیر بن چکا ہے۔ حاجی صاحب نے بحیثیت امتی ساری زندگی توڑنے کے بجائے جوڑنے پر زور دے کر حقیقی معنوں میں امتِ محمدیہؐ سے وفاداری کا ثبوت دیا۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں پھیلے مسلمان ان کی کاوشوں کو سراہتے ہیں، جنہیں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان بھی ان کی نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی خدمات کی معترف ہے، جنہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لئے حکومتی سطح پر جلد ضرور کچھ کیا جائے گا۔
حاجی صاحب نے مرتے دم تک خود کو عظیم مقصد کے لئے وقف رکھا: قائمقام امیر جماعت اسلامی حافظ محمد ادریس
اگرچہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق ان دنوں ایک غیر ملکی دورہ پر ہیں تاہم جب انہیں حاجی عبدالوہاب صاحب کے انتقال کی خبر پہنچی تو انہوں نے اس پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے قوم کو اس مشکل گھڑی میں حاجی صاحب کی تعلیمات کے مطابق صبر و استقلال کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔ سراج الحق کی ملک میں عدم موجودگی کے باعث قائم مقام امیر جماعت اسلامی حافظ محمد ادریس نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حاجی عبدالوہاب ایک عظیم، بے لوث، فرقہ واریت سے بالاتر اور باہمت شخصیت کا نام تھا۔
جس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے خود کو وقف کیا، وہ جوانی سے لے کر مرتے دم تک اسے نبھاتے رہے۔ ان کی اپنی حقیقی اولاد نہیں، لیکن ان کی روحانی اولاد دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ حاجی صاحب ایک رانگڑ تھے اور رانگڑوں کے بارے میں یہ عمومی بات ہے کہ وہ بہت سخت مزاج ہوتے ہیں، لیکن یہ اللہ کے بندے اتنے عاجز، حلیم اور نرم تھے کہ جو انہیں نہ جانتا ہو، وہ محفل میں بیٹھے انہیں پیچان ہی نہیں سکتا تھا۔ بیماری کے باوجود وہ ایک انچ بھی اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ایک بار سراج الحق صاحب، عبدالمالک صاحب اور مجھ پر مشتمل جماعت اسلامی کا ایک وفد ان سے ملاقات کے لئے ان کے پاس حاضر ہوا تو ہمیں بتایا گیا کہ ان کی طبعیت نہایت ناساز ہے، وہ بات نہیں کر سکتے، ہم نے صرف سلام کرنے کی درخواست کی تو ہمیں چند لمحوں کے لئے حاجی صاحب سے ملوایا گیا، لیکن ہم جیسے ہی ان کے پاس جا کر بیٹھے وہ پھر اپنے کام میں جت گئے، وہی امت کا غم اور دعوت و تبلیغ کی باتیں۔
نہایت ضعف اور بیماری کی حالت میں بھی انہوں نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ ہم سے ملاقات کی۔ حاجی صاحب نے ہم سے کہا کہ آپ کا کام بہت اچھا ہے، اس میں لگے رہیں۔ حاجی صاحب کی اس گفتگو کی وجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی بھی فرقہ واریت اور مسلکی گنجلکوں سے ماورا ہو کر چلتی ہے، جیسا کہ تبلیغی جماعت کا بھی مشن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا مودودیؒ، بانیء تبلغی جماعت مولانا الیاسؒ کے ساتھ کسی زمانے میں باقاعدہ وقت گزار چکے ہیں۔
امیر تبلیغی جماعت حاجی عبدالوہاب نے بھرپور طریقے سے اپنا کام سرانجام دیا: مفتی راغب نعیمی
عالمی امیر تبلیغی جماعت حاجی عبدالوہاب کی وفات کے حوالے سے ''ایکسپریس'' کے رابط کرنے پر معروف مذہبی رہنما مفتی راغب نعیمی کا کہنا تھا کہ امیر تبلیغی جماعت سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور بغیر کسی شخص سے ملے برتے یا جانیں، اس کے متعلق بات کرنا مناسب عمل نہیں، لہذا میں ان کی شخصیت کے بارے میں تو کوئی بات نہیں کر سکتا، تاہم یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ انہوں نے جس کام کے لئے خود کو وقف کیا، اسے نہایت ایمان داری، خلوص اور محنت کے ساتھ کیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جب کوئی بھی شخص اللہ تعالی کے کام کے لئے خود کو وقف کرتا ہے تو پھر لازماً اللہ تعالی بھی اس کی مدد فرماتا ہے اور جس کی خدائے بزرگ و برتر مدد فرمائے تو کامیابی اس سے دور نہیں رہ سکتی۔
مفتی راغب نعیمی کا مزید کہنا تھا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ''اس کے راستے کی طرف بلائو'' تو جو کوئی بھی یہ کام کرتا ہے وہ صیحح معنوں میں اللہ کا حکم بجا لاتا ہے۔ دعوت و تبلیغ وہ کام ہے، جو ہر مکتبہ فکر کے اندر موجود ہے، لیکن اس کام کو کرنے کا طریقہ ہر ایک کا مختلف ہے، تاہم دعوت و تبلیغ کے ہر انداز میں یہ ضروری ہے کہ وہ دانش مندی، حکمت، اکرام اور بغیر لڑائی جھگڑے کے کیا جائے۔ تبلیغی جماعت کا انداز دعوت و تبلیغ یعنی جیسے وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلتے ہیں اور محبت سے تبلیغ کرتے ہیں، ایک قابل تقلید انداز ہے، میرے خیال میں دوسروں کو بھی ایسا ہی اچھا انداز تبلیغ اپنانا چاہیے۔
20 ویں صدی کے اوائل میں ''شدھی'' اور ''سنگھاٹن'' جیسی تحاریک شروع ہوئیں، جن کا مقصد ہندو ازم کو فروغ دینا تھا۔ دوسری طرف خود مسلمانوں کی صورتِ حال یہ تھی کہ اسلام سے دوری، اعمال و عقائد کے بگاڑ اور عقائد میں خرابیاں در آنے جیسی وجوہات نے ان کی اکثریت کو شرک و بدعت، جہالت اورگمراہی کے ''بحرظلمات'' میں ڈبویا ہوا تھا۔ ان حالات میں ایک حقیقی غلامِ محمدؐ جسے دنیا مولانا الیاس کاندھلویؒ کے نام سے جانتی ہے۔
کے سینے کو خدائے بزرگ و برتر کی جانب سے شرح صدر نصیب ہوا اور انہوں نے اصلاح امت کا بیڑہ اٹھایا اور خود گھر گھر جا کر یہ محنت شروع کی۔ مولانا الیاس کاندھلویؒ نے 1927ء میں دہلی کے علاقے نظام الدین میں تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی۔ 1941ء میں تبلیغی جماعت کا پہلا باقاعدہ سالانہ اجتماع ہوا، جس میں 25ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی۔ اللہ رب العزت نے مولانا الیاسؒ کے دعوت و تبلیغ کے کام کو شرف قبولیت عطا فرمایا اور ایک شخص سے شروع ہونے والی تحریک کی آواز آج اربوں انسانوں تک پہنچ چکی ہے۔ آج دنیا بھر کے تقریباً 215 ممالک میں باقاعدہ دعوت و تبلیغ کے مراکز قائم ہیں، جہاں سے کروڑوں افراد فیض یاب ہو رہے ہیں۔
مولانا الیاسؒ تبلیغی جماعت کے پہلے امیر مقرر ہوئے اور اپنے انتقال یعنی 1944ء تک بطور امیر خدمات سرانجام دیتے رہے، انہی دنوں مولانا الیاسؒ سے ایک تحصیلدار ملنے آیا، جو ان سے ملنے کے بعد پھر صرف انہی کا ہو کر رہ گیا۔ اس شخص نے حقیقی معنوں میں اسلام کی خدمت کی ٹھانی اور اس عظیم مشن کو پھر یوں سینے سے لگایا کہ اس کے بعد کوئی دنیاوی ضرورتیں اس کے آڑے آئیں نہ کوئی رشتہ اس کے پاؤں کی بیڑی بنا۔ جی ہاں! وہ ایک عام سا تحصیلدار مفکر اسلام اور عالمی داعی، حاجی عبدالوہاب صاحب تھے۔ حاجی عبدالوہاب یکم جنوری 1923ء (بعض اطلاعات کے مطابق 1922ء) کو متحدہ ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کے ضلع کرنال میں پیدا ہوئے، ان کا آبائی علاقہ سہارنپور، اتر پردیش ہے۔ راجپوتوں کی شاخ رانگڑ سے تعلق رکھنے والے حاجی صاحب کے والد حافظ عاشق حسین انجمن راجپوتان اسلام انڈیا کے جنرل سیکرٹری تھے، ان کے تین بھائی اور دو بہنیں تھیں۔
اس عالمی مبلغ نے اسلامیہ کالج لاہور سے گریجوایشن کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انگریز دور میں بحیثیت تحصیلدار عملی زندگی کا آغاز کیا، جو زیادہ نہ چلی سکی، کیوں کہ آپ کے سینے میں بھی وہی ابال اٹھنے لگے تھے، جس کے باعث کبھی مولانا الیاسؒ ہر وقت بے چین رہتے تھے۔ تبلیغی جماعت میں باقاعدہ شمولیت سے قبل حاجی عبدالوہاب نے ختم نبوتؐ کے لئے کام کرنے والی جماعت مجلس احرار اسلام کے سرگرم کارکن کے طور پر بھی کام کیا جبکہ تقسیم ہند کے بعد وہ بورے والا میں مجلس کے امیر بھی رہے۔
ان کے آباؤ اجداد نے ہجرت کے بعد ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والا کے گاؤں 331 ٹوپیاں والا میں رہائش اختیار کی۔ یہ گاؤں معروف ولی اللہ حاجی شیر دیوان کی خانقاہ سے صرف 5 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جہاں ان کا آبائی گھر اور کچھ اراضی آج بھی موجود ہے۔
مولانا الیاس کاندھلویؒ کے انتقال کے بعد مولانا یوسف کاندھلویؒ 1965 اور پھر مولانا انعام الحسن کاندھلویؒ 1995ء تک امیر تبلیغی جماعت رہے۔ مولانا انعام الحسن کاندھلوی کے انتقال کے تقریباً 2 ماہ بعد حاجی عبدالوہاب 10 جون 1995ء کو تبلیغی جماعت کے امیر مقرر ہوئے اور 18 نومبر 2018ء (بوقت انتقال) تک بااحسن طریق یہ ذمہ داری نبھاتے رہے، انہوں نے اللہ پر توکل کا ایسا پختہ یقین اپنے دل میں پیدا کیا کہ جس کی روشنی سے کروڑوں دل روشن ہوئے، یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے کروڑوں مسلمان ان کو اپنا ''بڑا'' مانتے ہیں۔
2014ء میں جب حکومت پاکستان اورتحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کی بات چلی تو امن کمیٹی کے لئے مولانا سمیع الحق اور ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ حاجی عبدالوہاب کا نام بھی لیا گیا۔ اسی طرح 2009-10 میں شائع ہونے والے ایک جریدے میں دنیا کے 500 بااثر ترین مسلمانوں کی فہرست پیش کی گئی، جس میں حاجی عبدالوہاب، رینکنگ میں 10ویں نمبر پر دکھائے گئے ہیں۔ اس جریدے کو رائل اسلامک سٹرٹیجیک سٹڈیز سنٹر اردن نے پرنس الولید بن طلال سنٹر برائے مسلم کرسچیئن ہم آہنگی (امریکا) کے تعاون سے مرتب کیا ہے۔
حاجی عبدالوھاب نے ساری زندگی حقوق اللہ میں کمی آنے دی نہ حقوق العباد کو پس پشت ڈالا۔ یہ بات زبان زد عام ہے کہ ان کے دل میں اکرام مسلم، خدمت اور انکساری کا یہ عالم تھا کہ جب تک ان کے جسم میں توانائی رہی وہ رائیونڈ تبلیغی مرکز کے واش روم تک خود اپنے ہاتھوں سے صاف کرتے رہے۔ تبلیغی جماعت کے اصولوں کے مطابق اپنا مال، وقت اور جان لگانے کے ساتھ دوسروں پر بھی ان کو خرچ کرنا ان کے لئے بہت بڑی سعادت تھی۔ شدید بیماریوں کا شکار بننے تک وہ روزانہ صبح کے وقت 4،4 گھنٹے تک مسلسل بیان کرتے تھے، جس کے باعث ان کا گلا بیٹھ گیا اور ڈاکٹرز کے مطابق ہر وقت بولنے کی وجہ سے ان کے گلے کی رگیں دب گئی تھیں، جنہیں آپریشن کے ذریعے درست کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ پھر مکمل طور پر اس مرض سے نجات حاصل نہ کر سکے۔
بعدازں وقت گزرنے کے ساتھ انہیں گلے کے ساتھ دل کئے امراض نے آ لیا۔ گزشتہ تقریباً 8 برس سے وہ شدید علالت کا شکار تھے، پچھلے دنوں بھی انہیں طبعیت زیادہ بگڑنے پر لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں داخل کروایا گیا، جہاں وہ کئی روز وینٹی لیٹر پر رہے، تاہم کروڑوں انسانوں کو ''اللہ سے سب کچھ ہونے اور غیراللہ سے کچھ نہ ہونے کا یقین'' کا درس پڑھانے والے امیر عالمی تبلیغی جماعت حاجی عبدالوہاب گزشتہ روز اسی کے پاس چلے گئے، جس نے عمر بھر کے لئے ان کی ڈیوٹی اس کے بھٹکے ہوئے بندوں کو راہ راست پر لانے کی بھر پور سعی کرنے پر لگائی تھی ۔ حاجی عبدالوہاب آج اس دنیا فانی میں نہیں رہے، لیکن وہ جس مشن کو لے کر چل رہے تھے، وہ پہلے بھی موجود تھا، ان کی زندگی میں بھی چلتا رہا اور ان کے جانے کے بعد بھی باقی رہے گا، کیوں کہ یہ مشن کسی فرقے یا مسلک کا نہیں بلکہ اسلام کی سربلندی و سرفرازی کا ہے۔
امیر تبلیغی جماعت نے ساری زندگی توڑنے نہیں بلکہ جوڑنے پر زور دیا: وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری
عالمی امیر تبلیغی جماعت حاجی عبدالوہاب کی وفات پر وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے ''ایکسپریس'' سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حاجی صاحب کا انتقال نہ صرف پاکستان کے مسلمانوں بلکہ پورے عالم اسلام کے لئے ایک المیہ ہے، یہ اتنا بڑا دکھ اور صدمہ ہے، جسے برداشت کرنا شائد ممکن نہیں، لیکن ہم ایسا کرنے کی کوشش کریں گے کیوں کہ موت برحق اور اس پر صبر لازم ہے۔
ان کی وفات کی وجہ سے پیدا ہونے والا خلا تو کبھی پُر نہیں ہو سکتا، تاہم امیر تبلیغی جماعت کا مشن ان کے پسماندگان اور پوری امت انشاء اللہ جاری رکھے گی۔ مجھے ان سے ملاقات کا شرف تو حاصل نہیں ہو سکا، تاہم ان کے خطبات سے متعدد بار مستفید ہو چکا ہوں۔
وفاقی وزیر نور الحق قادری نے کہا کہ حاجی صاحب نے عمر بھر جو کام کیا یعنی اتحاد امت اور دعوت و تبلیغ، بلاشبہ اس پر بحیثیت مسلمان کوئی دو رائے نہیں۔ اس کام کی ضرورت تو روز اول سے محسوس کی گئی، لیکن آج یہ اتحاد امت ناگزیر بن چکا ہے۔ حاجی صاحب نے بحیثیت امتی ساری زندگی توڑنے کے بجائے جوڑنے پر زور دے کر حقیقی معنوں میں امتِ محمدیہؐ سے وفاداری کا ثبوت دیا۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں پھیلے مسلمان ان کی کاوشوں کو سراہتے ہیں، جنہیں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان بھی ان کی نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی خدمات کی معترف ہے، جنہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لئے حکومتی سطح پر جلد ضرور کچھ کیا جائے گا۔
حاجی صاحب نے مرتے دم تک خود کو عظیم مقصد کے لئے وقف رکھا: قائمقام امیر جماعت اسلامی حافظ محمد ادریس
اگرچہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق ان دنوں ایک غیر ملکی دورہ پر ہیں تاہم جب انہیں حاجی عبدالوہاب صاحب کے انتقال کی خبر پہنچی تو انہوں نے اس پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے قوم کو اس مشکل گھڑی میں حاجی صاحب کی تعلیمات کے مطابق صبر و استقلال کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔ سراج الحق کی ملک میں عدم موجودگی کے باعث قائم مقام امیر جماعت اسلامی حافظ محمد ادریس نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حاجی عبدالوہاب ایک عظیم، بے لوث، فرقہ واریت سے بالاتر اور باہمت شخصیت کا نام تھا۔
جس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے خود کو وقف کیا، وہ جوانی سے لے کر مرتے دم تک اسے نبھاتے رہے۔ ان کی اپنی حقیقی اولاد نہیں، لیکن ان کی روحانی اولاد دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے۔ حاجی صاحب ایک رانگڑ تھے اور رانگڑوں کے بارے میں یہ عمومی بات ہے کہ وہ بہت سخت مزاج ہوتے ہیں، لیکن یہ اللہ کے بندے اتنے عاجز، حلیم اور نرم تھے کہ جو انہیں نہ جانتا ہو، وہ محفل میں بیٹھے انہیں پیچان ہی نہیں سکتا تھا۔ بیماری کے باوجود وہ ایک انچ بھی اپنے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ ایک بار سراج الحق صاحب، عبدالمالک صاحب اور مجھ پر مشتمل جماعت اسلامی کا ایک وفد ان سے ملاقات کے لئے ان کے پاس حاضر ہوا تو ہمیں بتایا گیا کہ ان کی طبعیت نہایت ناساز ہے، وہ بات نہیں کر سکتے، ہم نے صرف سلام کرنے کی درخواست کی تو ہمیں چند لمحوں کے لئے حاجی صاحب سے ملوایا گیا، لیکن ہم جیسے ہی ان کے پاس جا کر بیٹھے وہ پھر اپنے کام میں جت گئے، وہی امت کا غم اور دعوت و تبلیغ کی باتیں۔
نہایت ضعف اور بیماری کی حالت میں بھی انہوں نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ ہم سے ملاقات کی۔ حاجی صاحب نے ہم سے کہا کہ آپ کا کام بہت اچھا ہے، اس میں لگے رہیں۔ حاجی صاحب کی اس گفتگو کی وجہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی بھی فرقہ واریت اور مسلکی گنجلکوں سے ماورا ہو کر چلتی ہے، جیسا کہ تبلیغی جماعت کا بھی مشن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مولانا مودودیؒ، بانیء تبلغی جماعت مولانا الیاسؒ کے ساتھ کسی زمانے میں باقاعدہ وقت گزار چکے ہیں۔
امیر تبلیغی جماعت حاجی عبدالوہاب نے بھرپور طریقے سے اپنا کام سرانجام دیا: مفتی راغب نعیمی
عالمی امیر تبلیغی جماعت حاجی عبدالوہاب کی وفات کے حوالے سے ''ایکسپریس'' کے رابط کرنے پر معروف مذہبی رہنما مفتی راغب نعیمی کا کہنا تھا کہ امیر تبلیغی جماعت سے میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور بغیر کسی شخص سے ملے برتے یا جانیں، اس کے متعلق بات کرنا مناسب عمل نہیں، لہذا میں ان کی شخصیت کے بارے میں تو کوئی بات نہیں کر سکتا، تاہم یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ انہوں نے جس کام کے لئے خود کو وقف کیا، اسے نہایت ایمان داری، خلوص اور محنت کے ساتھ کیا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جب کوئی بھی شخص اللہ تعالی کے کام کے لئے خود کو وقف کرتا ہے تو پھر لازماً اللہ تعالی بھی اس کی مدد فرماتا ہے اور جس کی خدائے بزرگ و برتر مدد فرمائے تو کامیابی اس سے دور نہیں رہ سکتی۔
مفتی راغب نعیمی کا مزید کہنا تھا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ''اس کے راستے کی طرف بلائو'' تو جو کوئی بھی یہ کام کرتا ہے وہ صیحح معنوں میں اللہ کا حکم بجا لاتا ہے۔ دعوت و تبلیغ وہ کام ہے، جو ہر مکتبہ فکر کے اندر موجود ہے، لیکن اس کام کو کرنے کا طریقہ ہر ایک کا مختلف ہے، تاہم دعوت و تبلیغ کے ہر انداز میں یہ ضروری ہے کہ وہ دانش مندی، حکمت، اکرام اور بغیر لڑائی جھگڑے کے کیا جائے۔ تبلیغی جماعت کا انداز دعوت و تبلیغ یعنی جیسے وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلتے ہیں اور محبت سے تبلیغ کرتے ہیں، ایک قابل تقلید انداز ہے، میرے خیال میں دوسروں کو بھی ایسا ہی اچھا انداز تبلیغ اپنانا چاہیے۔