راستہ کوئی مل ہی جائے گا
معمولاتِ زندگی میں خوش گوار تبدیلی سے مایوسی کو شکست دی جاسکتی ہے۔
ایک طرف ہم زندگی کے مختلف ادوار کے نشیب و فراز، حالات کی سختیوں، کٹھن مراحل کا سامنا کرتے ہیں تو دوسری جانب اسی کشاکش میں ہمارے خواب اور بعض خواہشات بھی ہمیں مشکلات اور تکلیف سے دوچار کرسکتی ہیں۔ بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی بے رنگ اور پھیکی ہے۔
کوئی راستہ نظر نہیں آتا اور ایسے میں ہم اپنے خیالات اور جذبات میں توازن برقرار نہ رکھ سکیں تو صورتِ حال بد سے بدتر ہوتی جاتی ہے اور ہماری شخصیت پر اس کے نہایت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ عدم توازن بھی تو زندگی کا ایک حصّہ ہے، مگر اس طرف فوری توجہ دینے اور مثبت سوچ اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے جس سے زندگی میں بتدریج بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ہم اپنے خیالات اور جذبات پر قابو رکھتے ہوئے زندگی کو متوازن رکھ سکتے ہیں اور حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے خوشیوں کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
جب ہم عملی زندگی میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے بھرپور کوشش کرتے ہیں تو اس میں کام یابی اور ناکامی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارا دل اور دماغ اس ناکامی کو قبول نہیں کر پاتا اور ہم ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ڈپریشن ہمارے ہاں ایک عام مسئلہ ہے اور گھروں میں رہنے والی عورتوں کی اکثریت اس کا شکار ہے۔ تاہم ان میں بیش تر اس بات سے آگاہ ہی نہیں کہ وہ کیسے ذہنی اور اعصابی تناؤ کے اس مسئلے سے نمٹ سکتی ہیں۔ یاد رکھیے خود آپ کو اپنا خیال رکھنا ہے۔ آپ جانتی ہیں کہ کیسے پُرسکون رہ سکتی ہیں۔ آپ سمجھتی ہیں کہ منفی سوچوں سے کیسے نجات ممکن ہے۔
یہ آپ ہی جانتی ہیں کہ پژمردگی، اداسی اور ذہنی تناؤ کی اصل وجہ کیا ہے۔ آپ کے ماں باپ، بہن بھائی یا شوہر آپ کا مسئلہ سن سکتے ہیں، حوصلہ دے سکتے ہیں اور آپ کی پریشانی دور کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرسکتے ہیں، مگر اس کیفیت سے خود آپ کو باہر نکلنا ہو گا۔ ڈپریشن ایک نفسیاتی مسئلہ ہے جو ہماری عدم توجہی کی وجہ سے پیچیدہ اور نہایت اذیت ناک ہو سکتا ہے۔
سب سے پہلے گھر سے بات شروع کرتے ہیں۔ گھر کا ماحول، آپ کے اہلِ خانہ بھی ذہنی دباؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشی مسائل اور زندگی کی ناہم واریاں، لوگوں کے رویّے بھی آپ پر برا اثر ڈال سکتے ہیں، مگر سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ آپ تنہا نہیں ہیں۔ یہ فقط آپ کا مسئلہ نہیں ہے۔ مسائل اور مشکلات کا سامنا آپ کی طرح سبھی کو ہے۔ یہ بھی دیکھیے کہ کئی لوگ آپ سے زیادہ مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم زندگی اور اپنے اردگرد بسنے والوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے الگ تھلگ رہنے لگیں۔ ہر وقت کسی سوچ میں گم رہیں اور اداسی کو خود پر طاری کر لیں؟ یہ غلط ہے۔ آپ سمجھ دار ہیں۔ ذرا سوچیں کتنی ہی خوشیاں آپ کی منتظر ہیں۔ کتنے ہی لمحے ہیں جو آپ کو مسرت سے ہم کنار کر سکتے ہیں۔ بس آپ کو ان کی طرف قدم بڑھانا ہے۔ زندگی کے حُسن کو محسوس کرنا ہے۔
عموماً شادی کے بعد لڑکیاں نئے ماحول میں ایڈجسٹ نہیں ہو پاتیں اور اکثر سسرالیوں کے رویے، منفی برتاؤ اور روک ٹوک کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ یقیناً ایک مشکل اور کڑا مرحلہ ہے، لیکن کیا مسلسل کڑھنے اور ذہنی دباؤ کے ساتھ زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو یہ ایک مثبت علامت ہے۔ اب آپ کو سوچنا ہے کہ اس سے کس طرح باہر نکلا جاسکتا ہے۔ شوہر یا ساس اور نند کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے اور بعض عادات کی وجہ سے جھگڑے جنم لیتے ہیں۔
ممکن ہے کہ آپ میں کوئی کمی ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے نئے ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش ہی نہ کی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے سسرالی آپ کی عادات سے ناخوش ہوں۔ اس طرف بھی توجہ دیں، کیوں کہ ذہنی دباؤ جب اعصاب پر حاوی ہو جائے تو غوروفکر اور مسئلے کو مل بیٹھ کر سلجھانے اور دوسروں کی باتوں کو مثبت انداز سے سوچنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کے مسائل، روک ٹوک اور بے جا پابندیاں یقیناً آپ کے لیے بڑا مسئلہ ہوں گی، مگر احساسِ کمتری سے باہر نکلیں اور اس کا حل سوچیں تو کام یابی آپ کا ہاتھ ضرور تھامے گی اور یہ بھی دیکھیں کہ آپ کہاں غلط ہیں۔
عام مشاہدہ ہے کہ ڈپریشن کی وجہ سے جینے کی امنگ دم توڑنے لگتی ہے اورسب کچھ بے معنی سا لگتا ہے۔ مایوسی انتہا کو پہنچ جاتی ہے اور زندگی میں خالی پن محسوس ہونے لگتا ہے۔ نیند روٹھ جاتی ہے اور ایک مرحلہ وہ آتا ہے جب آپ خواب آور ادویہ کے استعمال کی عادی ہو جاتی ہیں، مگر ایسی نوبت ہی کیوں آئے؟ اس کا کوئی اور حل کیوں نہ ڈھونڈیں۔
ڈپریشن کی ایک بڑی وجہ مالی مسائل بھی ہیں،کم آمدنی میں گزارا کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور ایسے میں عورت ان مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ وہ فکرمند رہتی ہے اور سوچوں کی یلغار اسے ڈپریشن کی طرف لے جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مثبت سوچ اپنائے تو کوئی اچھا اور بہتر حل نکل سکتا ہو، لیکن وہ ایسا نہیں کرتی۔ آپ اپنا طرزِ فکر بدلیں اور کوئی تدبیر کریں تو حالات بہتری کی طرف جاسکتے ہیں۔ یاد رکھیے اگر آپ ایسی کیفیات کا سامنا کر رہی ہیں تو اپنے کسی قریبی عزیز یا سہیلی سے دل کی بات کریں۔ اس سے اپنے جذبات اور احساسات شیئر کریں اور مدد چاہیں۔ خود کو خول میں بند یا تنہا کرلینا کسی طرح درست نہیں۔
گھر کا سخت ماحول، بے جا پابندیاں اور والدین میں جھگڑے بچوں کی شخصیت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ وہ بھی آپ کی طرح ڈپریشن کا شکار ہوسکتے ہیں۔ شوہر کی بیوی پر بے جا تنقید اور بیوی کا شوہر پر بلاوجہ طنز بھی فیملی میں ذہنی تناؤ اور دوریوں کا سبب بنتا ہے۔ بچیاں اپنی ماؤں کے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ وہ انہیں جلتا کڑھتا اور فکر میں ڈوبا ہوا دیکھتی ہیں تو وہ بھی ڈسٹرب ہوتی ہیں اور اپنے دل و دماغ پر بوجھ محسوس کرتی ہیں جو انہیں بھی ڈپریشن کی طرف لے جاتا ہے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ خواتین کی اکثریت لگی بندھی زندگی گزارتی ہے۔ روزمرہ کے کام اور ٹیلی ویژن کے سامنے چینل بدلنا ہی ان کی زندگی بن جاتی ہے۔ یاد رکھیے معمولات کی یکسانیت بھی زندگی میں اداسی بھر دیتی ہے۔ یہ بھی پریشانی کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ کیوں نہ زندگی میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں سے خوشیاں کشید کی جائیں اور ڈپریشن کو شکست دی جائے۔ آپ کو روزمرہ کاموں سے چند لمحات اپنے لیے نکالنے ہیں۔ اپنے آپ کو سنوارنے یا کچھ بھی ایسا کرنے میں وقت صَرف کرنا ہے جس سے آپ کو خوشی مل سکے۔
اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں بلکہ جب چاہیں اپنے کمرے کی کھڑکی سے اندر آتی دھوپ کو محسوس کرسکتی ہیں۔ صبح کچن میں جانے سے پہلے آسمان کو دیکھیں۔ رات کا کھانا ڈائننگ ٹیبل پر سجانے کے بجائے چھت پر دستر خوان بچھا کر کھائیں۔ گھر والوں کی مدد سے یہ آپ سب بہت آسانی سے کر سکتی ہیں۔ ٹھنڈی ہوا اور کھلا آسمان آپ کے لیے تبدیلی کا سبب بنے گا۔ یہ ایک نیا احساس ہو گا جو آپ کو ذہنی تناؤ سے کسی حد تک ضرور دور لے جائے گا۔ ناشتے کی تیاری کے لیے باورچی خانے میں جانے سے پہلے ایک نظر آئینے میں اپنا آپ دیکھیں۔ ابھی آپ کے پاس کچھ وقت ہے تو کیوں نہ آج صبح ہی صبح بالوں کا اسٹائل تبدیل کرلیں۔ گملے یا کیاری میں اگر تازہ پھول مل جائے تو اپنے بالوں میں سجا لیں۔ یہ تبدیلی آپ کو خوشی دے سکتی ہے۔
اسے آپ ہی نہیں گھر کے دیگر افراد بھی محسوس کریں گے اور آپ کو ذہنی دباؤ سے نکلنے کا موقع ملے گا۔ اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی باتیں اور معمول سے ہٹ کر کام کرنا آپ میں مثبت تبدیلی کا سبب بنے گا۔ اگر آپ مستقل مزاجی سے اس طرح آگے بڑھتی رہیں تو ڈپیریشن بہت جلد آپ کا پیچھا چھوڑ دے گا اور اس کے بعد آپ اپنے مسائل حل کرنے کے قابل بھی ہوجائیں گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر خواتین بے سبب پریشان رہتی ہیں اور چھوٹے سے مسئلے کو بھی بڑا بنا لیتی ہیں۔ کسی سے مشورہ کرنے اور اپنے دل کی بات بتانے کے بجائے خود ہی نتائج بھی اخذ کر لیتی ہیں اور یہ سب ان کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔ ہم سب سے زندگی میں کہیں نہ کہیں غلطی ہوتی ہے جس کے بعد ہمیں پریشانیوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا، لیکن اس پر کڑھنے کے بجائے مزید غلطیوں سے بچنے کی کوشش کریں تو بہتر ہو گا۔
یہ ضروری نہیں کہ کسی خاص موقع پر ہی آپ کوئی کیک بنائیں۔ اگر آپ کو روٹین سے ہٹ کر کام کرنے سے خوشی ملتی ہے تو ضروری نہیں کہ کسی کی برتھ ڈے کا انتظار کریں بلکہ آج کیک بنا لیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ آپ کو کسی تقریب میں نہیں جانا اور نہ ہی کوئی مہمان آپ کے ہاں آرہا ہے، مگر شوخ رنگ کا کوئی منہگا ڈریس آج کچھ دیر کے لیے پہن لیں گی تو کیا ہو جائے گا۔ خود کو یقین دلائیں کہ آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔
اکثر لڑکیاں خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں رہتی ہیں۔ رومانس پر مبنی کہانیوں اور ٹیلی ویژن ڈراموں کا کچے اور ناپختہ ذہنوں پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے۔ وہ حقیقت کا سامنا کرنے سے گھبرانے لگتی ہیں اور جب ان کا آئیڈیل نہیں ملتا تو وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ماؤں کو چاہیے کہ وہ ان پر خصوصی توجہ دیں اور افسردگی اور مایوسی کی علامات دیکھیں تو انہیں بالکل نظر انداز نہ کریں۔ یہ مت سوچیں کہ کچھ دن بعد وہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گی بل کہ ان سے بات کریں اور ان کے دل کی بات سن کر مسئلے کا حل نکالیں۔
زندگی کے یہ سارے مسائل حل نہیں ہوسکتے، لیکن ہم کوشش کر کے ان کا دباؤ کم اور ان کے بوجھ سے بڑی حد تک باہر نکل سکتے ہیں۔ صبح یا شام کے اوقات میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ چہل قدمی کے لیے نکلیں اور کھلی فضا میں کچھ وقت گزاریں۔ اپنے بیڈ روم کی چادر اور پردے خود تبدیل کریں۔ اگر آپ شادی شدہ اور بچوں کی ماں ہیں تو سر پرائز دینے کی عادت ڈالیں۔
بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور خریدیں جسے دیکھ کر وہ کِھل اٹھیں۔ ماں باپ کی طرح آپ اپنے ساس، سسر کے ساتھ چند لمحے ضرور بیٹھیں۔ ان سے اپنی پریشانی بانٹیں اس طرح ان کے دل میں آپ کی عزت اور آپ سے ہم دردی بڑھ جائے گی۔ یاد رکھیے، ڈپریشن صرف اسی صورت آپ کا پیچھا چھوڑ سکتا ہے جب آپ خود کو اس سے دور رکھیں گی۔
کوئی راستہ نظر نہیں آتا اور ایسے میں ہم اپنے خیالات اور جذبات میں توازن برقرار نہ رکھ سکیں تو صورتِ حال بد سے بدتر ہوتی جاتی ہے اور ہماری شخصیت پر اس کے نہایت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ عدم توازن بھی تو زندگی کا ایک حصّہ ہے، مگر اس طرف فوری توجہ دینے اور مثبت سوچ اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے جس سے زندگی میں بتدریج بہتری لائی جاسکتی ہے۔ ہم اپنے خیالات اور جذبات پر قابو رکھتے ہوئے زندگی کو متوازن رکھ سکتے ہیں اور حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے خوشیوں کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
جب ہم عملی زندگی میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے بھرپور کوشش کرتے ہیں تو اس میں کام یابی اور ناکامی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارا دل اور دماغ اس ناکامی کو قبول نہیں کر پاتا اور ہم ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ڈپریشن ہمارے ہاں ایک عام مسئلہ ہے اور گھروں میں رہنے والی عورتوں کی اکثریت اس کا شکار ہے۔ تاہم ان میں بیش تر اس بات سے آگاہ ہی نہیں کہ وہ کیسے ذہنی اور اعصابی تناؤ کے اس مسئلے سے نمٹ سکتی ہیں۔ یاد رکھیے خود آپ کو اپنا خیال رکھنا ہے۔ آپ جانتی ہیں کہ کیسے پُرسکون رہ سکتی ہیں۔ آپ سمجھتی ہیں کہ منفی سوچوں سے کیسے نجات ممکن ہے۔
یہ آپ ہی جانتی ہیں کہ پژمردگی، اداسی اور ذہنی تناؤ کی اصل وجہ کیا ہے۔ آپ کے ماں باپ، بہن بھائی یا شوہر آپ کا مسئلہ سن سکتے ہیں، حوصلہ دے سکتے ہیں اور آپ کی پریشانی دور کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرسکتے ہیں، مگر اس کیفیت سے خود آپ کو باہر نکلنا ہو گا۔ ڈپریشن ایک نفسیاتی مسئلہ ہے جو ہماری عدم توجہی کی وجہ سے پیچیدہ اور نہایت اذیت ناک ہو سکتا ہے۔
سب سے پہلے گھر سے بات شروع کرتے ہیں۔ گھر کا ماحول، آپ کے اہلِ خانہ بھی ذہنی دباؤ کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشی مسائل اور زندگی کی ناہم واریاں، لوگوں کے رویّے بھی آپ پر برا اثر ڈال سکتے ہیں، مگر سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ آپ تنہا نہیں ہیں۔ یہ فقط آپ کا مسئلہ نہیں ہے۔ مسائل اور مشکلات کا سامنا آپ کی طرح سبھی کو ہے۔ یہ بھی دیکھیے کہ کئی لوگ آپ سے زیادہ مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم زندگی اور اپنے اردگرد بسنے والوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے الگ تھلگ رہنے لگیں۔ ہر وقت کسی سوچ میں گم رہیں اور اداسی کو خود پر طاری کر لیں؟ یہ غلط ہے۔ آپ سمجھ دار ہیں۔ ذرا سوچیں کتنی ہی خوشیاں آپ کی منتظر ہیں۔ کتنے ہی لمحے ہیں جو آپ کو مسرت سے ہم کنار کر سکتے ہیں۔ بس آپ کو ان کی طرف قدم بڑھانا ہے۔ زندگی کے حُسن کو محسوس کرنا ہے۔
عموماً شادی کے بعد لڑکیاں نئے ماحول میں ایڈجسٹ نہیں ہو پاتیں اور اکثر سسرالیوں کے رویے، منفی برتاؤ اور روک ٹوک کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یہ یقیناً ایک مشکل اور کڑا مرحلہ ہے، لیکن کیا مسلسل کڑھنے اور ذہنی دباؤ کے ساتھ زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو یہ ایک مثبت علامت ہے۔ اب آپ کو سوچنا ہے کہ اس سے کس طرح باہر نکلا جاسکتا ہے۔ شوہر یا ساس اور نند کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی نہ ہونے اور بعض عادات کی وجہ سے جھگڑے جنم لیتے ہیں۔
ممکن ہے کہ آپ میں کوئی کمی ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے نئے ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش ہی نہ کی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے سسرالی آپ کی عادات سے ناخوش ہوں۔ اس طرف بھی توجہ دیں، کیوں کہ ذہنی دباؤ جب اعصاب پر حاوی ہو جائے تو غوروفکر اور مسئلے کو مل بیٹھ کر سلجھانے اور دوسروں کی باتوں کو مثبت انداز سے سوچنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کے مسائل، روک ٹوک اور بے جا پابندیاں یقیناً آپ کے لیے بڑا مسئلہ ہوں گی، مگر احساسِ کمتری سے باہر نکلیں اور اس کا حل سوچیں تو کام یابی آپ کا ہاتھ ضرور تھامے گی اور یہ بھی دیکھیں کہ آپ کہاں غلط ہیں۔
عام مشاہدہ ہے کہ ڈپریشن کی وجہ سے جینے کی امنگ دم توڑنے لگتی ہے اورسب کچھ بے معنی سا لگتا ہے۔ مایوسی انتہا کو پہنچ جاتی ہے اور زندگی میں خالی پن محسوس ہونے لگتا ہے۔ نیند روٹھ جاتی ہے اور ایک مرحلہ وہ آتا ہے جب آپ خواب آور ادویہ کے استعمال کی عادی ہو جاتی ہیں، مگر ایسی نوبت ہی کیوں آئے؟ اس کا کوئی اور حل کیوں نہ ڈھونڈیں۔
ڈپریشن کی ایک بڑی وجہ مالی مسائل بھی ہیں،کم آمدنی میں گزارا کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور ایسے میں عورت ان مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ وہ فکرمند رہتی ہے اور سوچوں کی یلغار اسے ڈپریشن کی طرف لے جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مثبت سوچ اپنائے تو کوئی اچھا اور بہتر حل نکل سکتا ہو، لیکن وہ ایسا نہیں کرتی۔ آپ اپنا طرزِ فکر بدلیں اور کوئی تدبیر کریں تو حالات بہتری کی طرف جاسکتے ہیں۔ یاد رکھیے اگر آپ ایسی کیفیات کا سامنا کر رہی ہیں تو اپنے کسی قریبی عزیز یا سہیلی سے دل کی بات کریں۔ اس سے اپنے جذبات اور احساسات شیئر کریں اور مدد چاہیں۔ خود کو خول میں بند یا تنہا کرلینا کسی طرح درست نہیں۔
گھر کا سخت ماحول، بے جا پابندیاں اور والدین میں جھگڑے بچوں کی شخصیت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ وہ بھی آپ کی طرح ڈپریشن کا شکار ہوسکتے ہیں۔ شوہر کی بیوی پر بے جا تنقید اور بیوی کا شوہر پر بلاوجہ طنز بھی فیملی میں ذہنی تناؤ اور دوریوں کا سبب بنتا ہے۔ بچیاں اپنی ماؤں کے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ وہ انہیں جلتا کڑھتا اور فکر میں ڈوبا ہوا دیکھتی ہیں تو وہ بھی ڈسٹرب ہوتی ہیں اور اپنے دل و دماغ پر بوجھ محسوس کرتی ہیں جو انہیں بھی ڈپریشن کی طرف لے جاتا ہے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ خواتین کی اکثریت لگی بندھی زندگی گزارتی ہے۔ روزمرہ کے کام اور ٹیلی ویژن کے سامنے چینل بدلنا ہی ان کی زندگی بن جاتی ہے۔ یاد رکھیے معمولات کی یکسانیت بھی زندگی میں اداسی بھر دیتی ہے۔ یہ بھی پریشانی کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔ کیوں نہ زندگی میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں سے خوشیاں کشید کی جائیں اور ڈپریشن کو شکست دی جائے۔ آپ کو روزمرہ کاموں سے چند لمحات اپنے لیے نکالنے ہیں۔ اپنے آپ کو سنوارنے یا کچھ بھی ایسا کرنے میں وقت صَرف کرنا ہے جس سے آپ کو خوشی مل سکے۔
اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں بلکہ جب چاہیں اپنے کمرے کی کھڑکی سے اندر آتی دھوپ کو محسوس کرسکتی ہیں۔ صبح کچن میں جانے سے پہلے آسمان کو دیکھیں۔ رات کا کھانا ڈائننگ ٹیبل پر سجانے کے بجائے چھت پر دستر خوان بچھا کر کھائیں۔ گھر والوں کی مدد سے یہ آپ سب بہت آسانی سے کر سکتی ہیں۔ ٹھنڈی ہوا اور کھلا آسمان آپ کے لیے تبدیلی کا سبب بنے گا۔ یہ ایک نیا احساس ہو گا جو آپ کو ذہنی تناؤ سے کسی حد تک ضرور دور لے جائے گا۔ ناشتے کی تیاری کے لیے باورچی خانے میں جانے سے پہلے ایک نظر آئینے میں اپنا آپ دیکھیں۔ ابھی آپ کے پاس کچھ وقت ہے تو کیوں نہ آج صبح ہی صبح بالوں کا اسٹائل تبدیل کرلیں۔ گملے یا کیاری میں اگر تازہ پھول مل جائے تو اپنے بالوں میں سجا لیں۔ یہ تبدیلی آپ کو خوشی دے سکتی ہے۔
اسے آپ ہی نہیں گھر کے دیگر افراد بھی محسوس کریں گے اور آپ کو ذہنی دباؤ سے نکلنے کا موقع ملے گا۔ اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی باتیں اور معمول سے ہٹ کر کام کرنا آپ میں مثبت تبدیلی کا سبب بنے گا۔ اگر آپ مستقل مزاجی سے اس طرح آگے بڑھتی رہیں تو ڈپیریشن بہت جلد آپ کا پیچھا چھوڑ دے گا اور اس کے بعد آپ اپنے مسائل حل کرنے کے قابل بھی ہوجائیں گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر خواتین بے سبب پریشان رہتی ہیں اور چھوٹے سے مسئلے کو بھی بڑا بنا لیتی ہیں۔ کسی سے مشورہ کرنے اور اپنے دل کی بات بتانے کے بجائے خود ہی نتائج بھی اخذ کر لیتی ہیں اور یہ سب ان کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔ ہم سب سے زندگی میں کہیں نہ کہیں غلطی ہوتی ہے جس کے بعد ہمیں پریشانیوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا، لیکن اس پر کڑھنے کے بجائے مزید غلطیوں سے بچنے کی کوشش کریں تو بہتر ہو گا۔
یہ ضروری نہیں کہ کسی خاص موقع پر ہی آپ کوئی کیک بنائیں۔ اگر آپ کو روٹین سے ہٹ کر کام کرنے سے خوشی ملتی ہے تو ضروری نہیں کہ کسی کی برتھ ڈے کا انتظار کریں بلکہ آج کیک بنا لیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ آپ کو کسی تقریب میں نہیں جانا اور نہ ہی کوئی مہمان آپ کے ہاں آرہا ہے، مگر شوخ رنگ کا کوئی منہگا ڈریس آج کچھ دیر کے لیے پہن لیں گی تو کیا ہو جائے گا۔ خود کو یقین دلائیں کہ آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔
اکثر لڑکیاں خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں رہتی ہیں۔ رومانس پر مبنی کہانیوں اور ٹیلی ویژن ڈراموں کا کچے اور ناپختہ ذہنوں پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے۔ وہ حقیقت کا سامنا کرنے سے گھبرانے لگتی ہیں اور جب ان کا آئیڈیل نہیں ملتا تو وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ماؤں کو چاہیے کہ وہ ان پر خصوصی توجہ دیں اور افسردگی اور مایوسی کی علامات دیکھیں تو انہیں بالکل نظر انداز نہ کریں۔ یہ مت سوچیں کہ کچھ دن بعد وہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گی بل کہ ان سے بات کریں اور ان کے دل کی بات سن کر مسئلے کا حل نکالیں۔
زندگی کے یہ سارے مسائل حل نہیں ہوسکتے، لیکن ہم کوشش کر کے ان کا دباؤ کم اور ان کے بوجھ سے بڑی حد تک باہر نکل سکتے ہیں۔ صبح یا شام کے اوقات میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ چہل قدمی کے لیے نکلیں اور کھلی فضا میں کچھ وقت گزاریں۔ اپنے بیڈ روم کی چادر اور پردے خود تبدیل کریں۔ اگر آپ شادی شدہ اور بچوں کی ماں ہیں تو سر پرائز دینے کی عادت ڈالیں۔
بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور خریدیں جسے دیکھ کر وہ کِھل اٹھیں۔ ماں باپ کی طرح آپ اپنے ساس، سسر کے ساتھ چند لمحے ضرور بیٹھیں۔ ان سے اپنی پریشانی بانٹیں اس طرح ان کے دل میں آپ کی عزت اور آپ سے ہم دردی بڑھ جائے گی۔ یاد رکھیے، ڈپریشن صرف اسی صورت آپ کا پیچھا چھوڑ سکتا ہے جب آپ خود کو اس سے دور رکھیں گی۔