یہ ہے 134 سال پرانی ’اصلی‘ ایمپریس مارکیٹ
ملکہ وکٹوریہ کے اقتدار کو 25 سال پورے ہونے پر اسے ’ایمپریس آف انڈیا‘ کے نام پر ایمپریس مارکیٹ کا نام دیا گیا
کراچی کی قدیم ایمپریس مارکیٹ، جس کے اندر اور اطراف میں گزشتہ پچاس سال کے دوران تجاوزات قائم ہوگئی تھیں اور اس کے اطراف بلدیہ عظمی کراچی کی مہربانیوں سے پرندہ مارکیٹ، کپڑا مارکیٹ، چائے کی پتی مارکیٹ اور خشک میوہ جات کے علاوہ نہ جانے کتنی ہی مارکیٹیں مارکیٹیں قائم ہوگئی تھیں اور جنہوں نے مل کر اس قدیم و عظیم مارکیٹ کا حسن مکمل گہنا دیا تھا، بالآخر چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب ثاقب نثار کی ہدایت پر اسے ان بدنما تجاوزات سے نجات حاصل ہوئی۔ پچاس سال تک یہاں سے خرچہ پانی وصولنے والی بلدیہ عظمی کراچی نے بھی بالآخر پولیس اور رینجرز کی موجودگی میں خود ہی بھاری مشینوں کی مدد سے ان تجاوزات کو مسمار کر ڈالا جس کے بعد ایک بار پھر ایمپریس مارکیٹ کی پرانی رونق لوٹ آئی؛ بلکہ تجاوزات ہٹنے سے وہ درجنوں درخت بھی نظر آنے لگے جو غالباً آج سے پچاس سال پہلے لگائے گئے تھے۔
ایمپریس مارکیٹ کب، کیسے اور کیوں بنی؟ اس کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں کہ 2 فروری 1839 کی صبح دو برطانوی بحری جہاز (میںویلز نامی جنگی جہاز اور ہنا نامی باربرادر جہاز) منوڑا کے ساحل سے صرف 800 گز دوری پر سمندر میں لنگرانداز ہوئے، جو دیکھتے ہی دیکھتے شہر (کراچی) کی طرف بڑھنا شروع ہوئے۔ قریب پہنچ کر ان جہازوں نے تالپوروں کے مضبوط قلعے پر گولے داغنا شروع کردیئے جس کے جواب میں قلعے سے بھی جہازوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ یہ سلسلہ لگ بھگ تین گھنٹے جاری رہا جس کے باعث نیلگوں آسمان پر دھوئیں کے بادل چھا گئے اور قلعے کے اندر اور اردگرد رہنے والے لوگوں کا سانس لینا بھی محال ہوگیا۔
ایسے میں قلعے سے امن کا سفید جھنڈا لہرایا گیا جسے دیکھ کر برطانوی جہازوں نے بھی گولہ باری روک دی۔ جنگ بندی کے بعد برطانوی بحریہ کے کمانڈر انچیف ایڈمرل سر فیڈرک لیوس، ریئر ایڈمرل جزل مٹ لینڈ اور مس ویلیٹ نے تالپور حکومت کے فوجی گورنر خیر محمد ثناء اللہ اور سول گورنر علی سیکھا سے مذاکرات شروع کیے۔ مذاکرات کئی گھنٹوں تک جاری رہے اور اس نتیجے پر ختم ہوئے کہ امور سلطنت کا نظام بدستور تالپور ہی چلاتے رہیں گے۔ کامیاب مذاکرات کے بعد 7 فروری 1839ء کو ویلزلی نامی بحری جہاز پر ملکہ وکٹوریہ کے چالیسویں رجمنٹ کے مسٹر جے ہوٹ اور شاہی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ پوٹاس نے اس معاہدے پر دستخط کیے اور توسیعی دستخط کے بعد اس وقت کے فوجی گورنر خیر محمد نے شہر کی کنجیاں برطانوی حکام کے حوالے کردیں۔
اس کے فوراً بعد برطانوی فوج شہر میں داخل ہوگئی جس نے سب سے پہلا کام تالپور انتظامیہ کے کارندوں سے اسلحہ چھین کر انہیں غیر مسلح کرنے کا کیا؛ اور شہر میں آزادانہ پھرنے لگی۔ فوج کی بڑی کمک آجانے کے بعد ان کی رہائش کا مسئلہ درپیش ہوا جسے دیکھتے ہوئے انگریز انتظامیہ نے (موجودہ سول اسپتال کی جگہ) چٹیل میدان میں خیمہ نما بستیاں قائم کرنے کا حکم دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک نیا شہر وجود میں آگیا۔ تمام فوجیں ان خیمہ بستیوں میں آباد ہوگئیں۔ بڑی تعداد میں فوجیوں کے آجانے کے بعد انہیں قریب کے علاقوں میں خرید و فروخت کی سہولت مہیا کرنے کی غرض سے انگریز انتظامیہ نے ایک تاجر، سیٹھ ناومل ہوت کو ہدایت دی کہ وہ فوری طور پر فوجیوں کو خورد و نوش اور دیگر ضروریاتِ زندگی مہیا کرنے کےلیے (موجودہ صدر کے علاقے میں) دکانیں قائم کے۔ انگریز سرکار کی ہدایت پر ناومل ہوت نے اس علاقے میں پہلے پہل دو دکانیں قائم کیں۔ جب دونوں دکانوں کے کاروبار چمک گئے تو دوسرے تاجروں نے بھی ہمت پکڑتے ہوئے صدر کے علاقے میں دکانیں کھولنا شروع کردیں۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے ایک بازار قائم ہوگیا جسے ''کیمپ بازار'' کہا جانے لگا۔ دور دراز کے لوگ بھی خریداری کےلیے یہاں کا رخ کرنے لگے۔ انگریز انتظامیہ نے کیمپ بازار کی مقبولیت دیکھتے ہوئے صدر میں ایک عظیم الشان مارکیٹ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ مارکیٹ ڈیزائن کرنے کی ذمہ داری معروف آرکٹیکٹ اور سول انجینئر، مسٹر اسٹریچن کو سونپ دی، جبکہ ساتھ ہی ساتھ اس مجوزہ مارکیٹ کےلیے جگہ تلاش کرنا بھی شرع کردی۔
بالآخر انگریز سرکار کی نگاہِ انتخاب ایک ایسے میدان پر پڑی جہاں 1857 کی جنگِ آزادی میں برطانوی تسلط کے خلاف بغاوت میں حصہ لینے والے، 21 ویں رجمنٹ کے مقامی سپاہیوں کو (جن میں ہندو اور مسلمان، دونوں ہی شامل تھے) سرکار کے خلاف نعرہ آزادی بلند کرنے کے جرم کی پاداش میں توپوں کے سامنے باندھ کر ان کے جسموں کے چیتھڑے اُڑا دیئے گئے تھے۔ اس خالی میدان کو ''ایمپریس مارکیٹ'' کی تعمیر کےلیے منتخب کرلیا گیا۔ اس دوران جیمس اسٹریچن نقشہ تیار کرچکے تھے جو 1866 میں بمبئی میں تعمیر ہونے والے ''الفسٹن کالج'' اور اس وقت بمبئی کی سب سے بڑی مارکیٹ ''کرافورڈ'' سے مشابہ تھا۔
10 نومبر 1884 کو اس وقت کے گورنر جیمس فرگوسن نے ایمپریس مارکیٹ کا سنگ بنیاد رکھا اور ان ہی کی نگرانی میں تعمیر کا کام شروع کردیا گیا۔ تعمیراتی کام کا ٹھیکہ اس وقت کے تین معروف کنٹریکٹرز مسٹر جے ایس ایٹ فلیڈ، ولی محمد جیون اور دلیو کھیوو کو سونپا گیا جنہوں نے دن رات محنت سے ایک لاکھ پچپن ہزار روپے کی مالیت سے لگ بھگ چار سال میں مارکیٹ کی تعمیر مکمل کرلی۔ اس کے فوری بعد 21 مارچ 1889 کو ایمپریس مارکیٹ میں ایک رنگارنگ تقریب منعقد ہوئی جس میں اس وقت کے کمشنر پرچرڈ نے فیتہ کاٹ کر مارکیٹ کا افتتاح کردیا۔
چونکہ اس سال ملکہ وکٹوریہ کے اقتدار کی پچیسویں سالگرہ (سلور جوبلی) منائی جارہی تھی اور ملکہ وکٹوریہ کا ایک لقب ''ایمپریس آف انڈیا'' بھی تھا، اس لیے ملکہ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کےلیے اس مارکیٹ کا نام ''ایمپریس مارکیٹ'' رکھ دیا گیا۔ یہ مارکیٹ جو اپنی ابتداء سے کراچی کی پہچان بنی، یورپی طرز تعمیر کا اعلیٰ شاہکار ہے۔ کراچی کی کئی دوسری دیگر تاریخی عمارات کی طرح اسے بھی سرخ جودھ پوری سے مربع کی شکل میں تعمیر کیا گیا۔
مارکیٹ کو نمایاں مقام دینے کےلیے اس میں 140 فٹ اونچا ٹاور بنایا گیا جس کے بالائی حصے میں، چاروں طرف گھڑیال نصب کیے گئے۔ یہ گھڑیال ہر گھنٹے کے بعد جلترنگ کے انداز میں بج کر قریب و دور رہنے والوں لوگوں کو گزرتے وقت کا پتا دیتے۔ مارکیٹ کے اندر چاروں اطراف میں 280 اسٹالز کی جگہ بنائی گئی تھی جبکہ عین مارکیٹ کے بیچوں بیچ 130 فٹ لمبا اور 100 فٹ چوڑا صحن بنایا گیا تھا۔ دکانداروں کو رہائشی سہولیات فراہم کرنے کےلیے مارکیٹ کی چاروں سمتوں میں چھیالیس چھیالیس فٹ کی چار گیلریاں قائم کی گئی تھیں جہاں دن بھر کے تھکے ماندے دکاندار اور ان کے ملازمین آرام کیا کرتے تھے۔
مارکیٹ کے 280 اسٹالوں پر ضروریات زندگی سے متعلق تمام لوازمات کی فروخت کی جاتی تھی اور مارکیٹ کی انتظامیہ، مارکیٹ کی صفائی ستھرائی کے علاوہ قیمتوں کے کنٹرول اور معیاری مصنوعات کی باقاعدہ چانچ پڑتال کیا کرتی تھی۔ غیر معیاری اشیاء فروخت کرنے اور اضافی قیمتوں کی وصولیابی کرنے والے دکانداروں کو بھاری جرمانے کے علاوہ قید کی سزا بھی سنائی جاتی تھی۔ مارکیٹ انتظامیہ، مارکیٹ کے اندرونی حصے کے علاوہ مارکیٹ کے باہر بھی صفائی ستھرائی کی ذمہ دار تھی؛ اور اپنے اس فرض کی بجا آوری کرتے ہوئے وہ ایمپریس مارکیٹ کے چاروں اطراف سے گزرنے والی، کم و بیش 130 فٹ چوڑی سڑکوں کو روزانہ صبح اور شام کے اوقات میں دھویا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں کسی بھی بیل گاڑی، تانگے یا دیگر گاڑیوں کو مارکیٹ کے قریب کھڑا ہونے نہیں دیا جاتا۔
مارکیٹ کی صفائی ستھرائی، قیمتوں اور معیاری اشیاء کی خرید و فروخت کے باعث جلد ہی ایمپریس مارکیٹ کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوگئی لہٰذا خریداری کےلیے دور دراز سے لوگوں نے آنا شرع کردیا۔ مگر یہاں مقامی لوگوں (مسلمانوں اور ہندوؤں) کو داخلے کی اجازت نہیں تھی؛ اس مارکیٹ میں صرف اور صرف برطانوی فوج کے افسران، اہلکار اور ان کی بیگمات ہی خریداری کرسکتی تھیں۔ اس امتیازی سلوک پر مقامی لوگوں نے شدید احتجاج شروع کردیا جس کے نتیجے میں کچھ عرصے بعد مارکیٹ کو مقامی افراد کےلیے بھی کھول دیا گیا۔ تاہم ان پر یہ پابندی عائد کی گئی کہ وہ خریداری کرنے کے فوراً بعد مارکیٹ سے چلے جایا کریں گے۔ انگریزوں کے دور حکومت میں مارکیٹ کا انتظام بحسن و خوبی چلایا جارہا تھا جبکہ ناپ تول، نرخ، معیاری اشیاء کی فراہمی سے متعلق قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروایا جارہا تھا۔
مگر جیسے ہی انگریز یہاں سے رخصت ہوئے تو ایمپریس مارکیٹ کے معاملات بگڑنا شرع ہوگئے؛ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ بھی ایک ایسی ہی مارکیٹ بن گئی جہاں ناپ تول میں ڈنڈی مارنے کو ایمان سمجھانے لگا اور خریداروں سے مصنوعات کے نرخ سے بڑھ کر اضافی نرخ کی وصولیابی عام ہوگئی۔ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق، صفائی ستھرائی کا نظام بھی درہم برہم ہو کر رہ گیا جس کے باعث ماضی میں ایمانداری اور معیار کی مثال قائم کرنے والی اس مارکیٹ میں 280 کی جگہ 700 دکانیں قائم کردی گئیں؛ نیز وہ صحن جو کبھی 130 فٹ لمبا اور 100 چوڑا تھا، اس میں بھی ہر طرف مزید پکی دکانیں قائم کردی گئیں، جن کے اطراف میں پختہ گلیوں کی اندرونی جگہ کو لوگ بیت الخلاء کے طور پر استعمال کرنے لگے۔
مارکیٹ کی 46 فٹ کی وہ چار گیلریاں جن میں پچھلے وقتوں میں دکانوں پر کام کرنے والے ملازمین کو رہائشی سہولت دی جارہی تھی، ان میں سے ایک گیلری میں کے ایم سی کا دفتر، ایک میں گوشت کی کچھ دکانیں اور مزید گیلریوں میں کیفے فرید اور اور پیراڈائز اسٹور بنا دیئے گئے۔
وہ گھڑیال جن کی جلترنگ آوازوں سے ماضی کے مقامی لوگ سوتے، جاگتے اور وقت کا حساب رکھتے تھے، بلدیہ عظمی کی نااہلی کے سبب نہ صرف عرصہ دراز سے بند ہیں بلکہ ان کے پینڈولم ٹوٹ کر ایمپریس مارکیٹ کے پہلے فلور پر گرچکے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ نشہ کرنے والوں نے اس گھنٹہ گھر ہی کو اپنا مسکن بنالیا تھا۔ مگر اب بلدیہ عظمی کراچی نے مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ ساری جگہ نہ صرف خالی کرالی ہے بلکہ صفائی ستھرائی کے بعد ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے لوگوں کو ایک بار پھر ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے کا موقع ملے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ایمپریس مارکیٹ کب، کیسے اور کیوں بنی؟ اس کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں کہ 2 فروری 1839 کی صبح دو برطانوی بحری جہاز (میںویلز نامی جنگی جہاز اور ہنا نامی باربرادر جہاز) منوڑا کے ساحل سے صرف 800 گز دوری پر سمندر میں لنگرانداز ہوئے، جو دیکھتے ہی دیکھتے شہر (کراچی) کی طرف بڑھنا شروع ہوئے۔ قریب پہنچ کر ان جہازوں نے تالپوروں کے مضبوط قلعے پر گولے داغنا شروع کردیئے جس کے جواب میں قلعے سے بھی جہازوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ یہ سلسلہ لگ بھگ تین گھنٹے جاری رہا جس کے باعث نیلگوں آسمان پر دھوئیں کے بادل چھا گئے اور قلعے کے اندر اور اردگرد رہنے والے لوگوں کا سانس لینا بھی محال ہوگیا۔
ایسے میں قلعے سے امن کا سفید جھنڈا لہرایا گیا جسے دیکھ کر برطانوی جہازوں نے بھی گولہ باری روک دی۔ جنگ بندی کے بعد برطانوی بحریہ کے کمانڈر انچیف ایڈمرل سر فیڈرک لیوس، ریئر ایڈمرل جزل مٹ لینڈ اور مس ویلیٹ نے تالپور حکومت کے فوجی گورنر خیر محمد ثناء اللہ اور سول گورنر علی سیکھا سے مذاکرات شروع کیے۔ مذاکرات کئی گھنٹوں تک جاری رہے اور اس نتیجے پر ختم ہوئے کہ امور سلطنت کا نظام بدستور تالپور ہی چلاتے رہیں گے۔ کامیاب مذاکرات کے بعد 7 فروری 1839ء کو ویلزلی نامی بحری جہاز پر ملکہ وکٹوریہ کے چالیسویں رجمنٹ کے مسٹر جے ہوٹ اور شاہی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ پوٹاس نے اس معاہدے پر دستخط کیے اور توسیعی دستخط کے بعد اس وقت کے فوجی گورنر خیر محمد نے شہر کی کنجیاں برطانوی حکام کے حوالے کردیں۔
اس کے فوراً بعد برطانوی فوج شہر میں داخل ہوگئی جس نے سب سے پہلا کام تالپور انتظامیہ کے کارندوں سے اسلحہ چھین کر انہیں غیر مسلح کرنے کا کیا؛ اور شہر میں آزادانہ پھرنے لگی۔ فوج کی بڑی کمک آجانے کے بعد ان کی رہائش کا مسئلہ درپیش ہوا جسے دیکھتے ہوئے انگریز انتظامیہ نے (موجودہ سول اسپتال کی جگہ) چٹیل میدان میں خیمہ نما بستیاں قائم کرنے کا حکم دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک نیا شہر وجود میں آگیا۔ تمام فوجیں ان خیمہ بستیوں میں آباد ہوگئیں۔ بڑی تعداد میں فوجیوں کے آجانے کے بعد انہیں قریب کے علاقوں میں خرید و فروخت کی سہولت مہیا کرنے کی غرض سے انگریز انتظامیہ نے ایک تاجر، سیٹھ ناومل ہوت کو ہدایت دی کہ وہ فوری طور پر فوجیوں کو خورد و نوش اور دیگر ضروریاتِ زندگی مہیا کرنے کےلیے (موجودہ صدر کے علاقے میں) دکانیں قائم کے۔ انگریز سرکار کی ہدایت پر ناومل ہوت نے اس علاقے میں پہلے پہل دو دکانیں قائم کیں۔ جب دونوں دکانوں کے کاروبار چمک گئے تو دوسرے تاجروں نے بھی ہمت پکڑتے ہوئے صدر کے علاقے میں دکانیں کھولنا شروع کردیں۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے ایک بازار قائم ہوگیا جسے ''کیمپ بازار'' کہا جانے لگا۔ دور دراز کے لوگ بھی خریداری کےلیے یہاں کا رخ کرنے لگے۔ انگریز انتظامیہ نے کیمپ بازار کی مقبولیت دیکھتے ہوئے صدر میں ایک عظیم الشان مارکیٹ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور یہ مارکیٹ ڈیزائن کرنے کی ذمہ داری معروف آرکٹیکٹ اور سول انجینئر، مسٹر اسٹریچن کو سونپ دی، جبکہ ساتھ ہی ساتھ اس مجوزہ مارکیٹ کےلیے جگہ تلاش کرنا بھی شرع کردی۔
بالآخر انگریز سرکار کی نگاہِ انتخاب ایک ایسے میدان پر پڑی جہاں 1857 کی جنگِ آزادی میں برطانوی تسلط کے خلاف بغاوت میں حصہ لینے والے، 21 ویں رجمنٹ کے مقامی سپاہیوں کو (جن میں ہندو اور مسلمان، دونوں ہی شامل تھے) سرکار کے خلاف نعرہ آزادی بلند کرنے کے جرم کی پاداش میں توپوں کے سامنے باندھ کر ان کے جسموں کے چیتھڑے اُڑا دیئے گئے تھے۔ اس خالی میدان کو ''ایمپریس مارکیٹ'' کی تعمیر کےلیے منتخب کرلیا گیا۔ اس دوران جیمس اسٹریچن نقشہ تیار کرچکے تھے جو 1866 میں بمبئی میں تعمیر ہونے والے ''الفسٹن کالج'' اور اس وقت بمبئی کی سب سے بڑی مارکیٹ ''کرافورڈ'' سے مشابہ تھا۔
10 نومبر 1884 کو اس وقت کے گورنر جیمس فرگوسن نے ایمپریس مارکیٹ کا سنگ بنیاد رکھا اور ان ہی کی نگرانی میں تعمیر کا کام شروع کردیا گیا۔ تعمیراتی کام کا ٹھیکہ اس وقت کے تین معروف کنٹریکٹرز مسٹر جے ایس ایٹ فلیڈ، ولی محمد جیون اور دلیو کھیوو کو سونپا گیا جنہوں نے دن رات محنت سے ایک لاکھ پچپن ہزار روپے کی مالیت سے لگ بھگ چار سال میں مارکیٹ کی تعمیر مکمل کرلی۔ اس کے فوری بعد 21 مارچ 1889 کو ایمپریس مارکیٹ میں ایک رنگارنگ تقریب منعقد ہوئی جس میں اس وقت کے کمشنر پرچرڈ نے فیتہ کاٹ کر مارکیٹ کا افتتاح کردیا۔
چونکہ اس سال ملکہ وکٹوریہ کے اقتدار کی پچیسویں سالگرہ (سلور جوبلی) منائی جارہی تھی اور ملکہ وکٹوریہ کا ایک لقب ''ایمپریس آف انڈیا'' بھی تھا، اس لیے ملکہ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کےلیے اس مارکیٹ کا نام ''ایمپریس مارکیٹ'' رکھ دیا گیا۔ یہ مارکیٹ جو اپنی ابتداء سے کراچی کی پہچان بنی، یورپی طرز تعمیر کا اعلیٰ شاہکار ہے۔ کراچی کی کئی دوسری دیگر تاریخی عمارات کی طرح اسے بھی سرخ جودھ پوری سے مربع کی شکل میں تعمیر کیا گیا۔
مارکیٹ کو نمایاں مقام دینے کےلیے اس میں 140 فٹ اونچا ٹاور بنایا گیا جس کے بالائی حصے میں، چاروں طرف گھڑیال نصب کیے گئے۔ یہ گھڑیال ہر گھنٹے کے بعد جلترنگ کے انداز میں بج کر قریب و دور رہنے والوں لوگوں کو گزرتے وقت کا پتا دیتے۔ مارکیٹ کے اندر چاروں اطراف میں 280 اسٹالز کی جگہ بنائی گئی تھی جبکہ عین مارکیٹ کے بیچوں بیچ 130 فٹ لمبا اور 100 فٹ چوڑا صحن بنایا گیا تھا۔ دکانداروں کو رہائشی سہولیات فراہم کرنے کےلیے مارکیٹ کی چاروں سمتوں میں چھیالیس چھیالیس فٹ کی چار گیلریاں قائم کی گئی تھیں جہاں دن بھر کے تھکے ماندے دکاندار اور ان کے ملازمین آرام کیا کرتے تھے۔
مارکیٹ کے 280 اسٹالوں پر ضروریات زندگی سے متعلق تمام لوازمات کی فروخت کی جاتی تھی اور مارکیٹ کی انتظامیہ، مارکیٹ کی صفائی ستھرائی کے علاوہ قیمتوں کے کنٹرول اور معیاری مصنوعات کی باقاعدہ چانچ پڑتال کیا کرتی تھی۔ غیر معیاری اشیاء فروخت کرنے اور اضافی قیمتوں کی وصولیابی کرنے والے دکانداروں کو بھاری جرمانے کے علاوہ قید کی سزا بھی سنائی جاتی تھی۔ مارکیٹ انتظامیہ، مارکیٹ کے اندرونی حصے کے علاوہ مارکیٹ کے باہر بھی صفائی ستھرائی کی ذمہ دار تھی؛ اور اپنے اس فرض کی بجا آوری کرتے ہوئے وہ ایمپریس مارکیٹ کے چاروں اطراف سے گزرنے والی، کم و بیش 130 فٹ چوڑی سڑکوں کو روزانہ صبح اور شام کے اوقات میں دھویا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں کسی بھی بیل گاڑی، تانگے یا دیگر گاڑیوں کو مارکیٹ کے قریب کھڑا ہونے نہیں دیا جاتا۔
مارکیٹ کی صفائی ستھرائی، قیمتوں اور معیاری اشیاء کی خرید و فروخت کے باعث جلد ہی ایمپریس مارکیٹ کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوگئی لہٰذا خریداری کےلیے دور دراز سے لوگوں نے آنا شرع کردیا۔ مگر یہاں مقامی لوگوں (مسلمانوں اور ہندوؤں) کو داخلے کی اجازت نہیں تھی؛ اس مارکیٹ میں صرف اور صرف برطانوی فوج کے افسران، اہلکار اور ان کی بیگمات ہی خریداری کرسکتی تھیں۔ اس امتیازی سلوک پر مقامی لوگوں نے شدید احتجاج شروع کردیا جس کے نتیجے میں کچھ عرصے بعد مارکیٹ کو مقامی افراد کےلیے بھی کھول دیا گیا۔ تاہم ان پر یہ پابندی عائد کی گئی کہ وہ خریداری کرنے کے فوراً بعد مارکیٹ سے چلے جایا کریں گے۔ انگریزوں کے دور حکومت میں مارکیٹ کا انتظام بحسن و خوبی چلایا جارہا تھا جبکہ ناپ تول، نرخ، معیاری اشیاء کی فراہمی سے متعلق قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروایا جارہا تھا۔
مگر جیسے ہی انگریز یہاں سے رخصت ہوئے تو ایمپریس مارکیٹ کے معاملات بگڑنا شرع ہوگئے؛ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ بھی ایک ایسی ہی مارکیٹ بن گئی جہاں ناپ تول میں ڈنڈی مارنے کو ایمان سمجھانے لگا اور خریداروں سے مصنوعات کے نرخ سے بڑھ کر اضافی نرخ کی وصولیابی عام ہوگئی۔ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق، صفائی ستھرائی کا نظام بھی درہم برہم ہو کر رہ گیا جس کے باعث ماضی میں ایمانداری اور معیار کی مثال قائم کرنے والی اس مارکیٹ میں 280 کی جگہ 700 دکانیں قائم کردی گئیں؛ نیز وہ صحن جو کبھی 130 فٹ لمبا اور 100 چوڑا تھا، اس میں بھی ہر طرف مزید پکی دکانیں قائم کردی گئیں، جن کے اطراف میں پختہ گلیوں کی اندرونی جگہ کو لوگ بیت الخلاء کے طور پر استعمال کرنے لگے۔
مارکیٹ کی 46 فٹ کی وہ چار گیلریاں جن میں پچھلے وقتوں میں دکانوں پر کام کرنے والے ملازمین کو رہائشی سہولت دی جارہی تھی، ان میں سے ایک گیلری میں کے ایم سی کا دفتر، ایک میں گوشت کی کچھ دکانیں اور مزید گیلریوں میں کیفے فرید اور اور پیراڈائز اسٹور بنا دیئے گئے۔
وہ گھڑیال جن کی جلترنگ آوازوں سے ماضی کے مقامی لوگ سوتے، جاگتے اور وقت کا حساب رکھتے تھے، بلدیہ عظمی کی نااہلی کے سبب نہ صرف عرصہ دراز سے بند ہیں بلکہ ان کے پینڈولم ٹوٹ کر ایمپریس مارکیٹ کے پہلے فلور پر گرچکے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ نشہ کرنے والوں نے اس گھنٹہ گھر ہی کو اپنا مسکن بنالیا تھا۔ مگر اب بلدیہ عظمی کراچی نے مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ ساری جگہ نہ صرف خالی کرالی ہے بلکہ صفائی ستھرائی کے بعد ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے لوگوں کو ایک بار پھر ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے کا موقع ملے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔