آخر کب تلک
ابھی ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی ساجد قریشی اور ان کے جواں سال بیٹے کاکفن بھی میلا نہیں ہوا تھا۔ ابھی مدرسہ۔۔۔
DALBANDIN:
ابھی ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی ساجد قریشی اور ان کے جواں سال بیٹے کاکفن بھی میلا نہیں ہوا تھا۔ ابھی مدرسہ عارف الحسینی میں بے گناہوں کے جابجا بکھرے خون کے چھنٹے بھی خشک نہ ہونے پائے تھے کہ شدت پسند عناصر نے ہفتہ اور اتوارکی درمیانی شب اسکردو میں غیر ملکی کوہ پیماؤں کوانتہائی دیدہ دلیری سے قتل کرکے پاکستان کی کمر میں ایک اور زہربجھا خنجرگھونپ دیا۔اپنی اس کارروائی سے انھوں نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں کسی بھی فرد، ادارے یا تنصیب کو نشانہ بناسکتے ہیں اور کوئی بھی ٹارگٹ ان کے لیے ناممکن نہیں ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان میں نسلی، لسانی اورفرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ،خود کش حملے اور بم دھماکے گزشتہ دو دہائیوں سے روزکا معمول بن چکے ہیں۔ معاملہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور مسالک کے درمیان تناؤ اور ان کی اجتماعی یا ٹارگٹ کلنگ تک محدود نہیں ہے،بلکہ غیر مسلم جو کل آبادی کے3 فیصد سے بھی کم ہیں اور جن کا اقتدار کی سیاست(Power Politics)سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، وہ بھی وقتاًفوقتاً کسی نہ کسی بہانے مختلف نوعیت کی پرتشددکارروائیوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں اورذرا سی بات پر ان کی بستیاں تاراج اور انھیں جینے کے آزادانہ حق سے محروم کردیا جاتا ہے۔
تسلسل کے ساتھ رونماء ہونے والے یہ پرتشدد اور سفاکانہ واقعات اور ان پر قابو پانے میں انتظامی اداروں کی ناکامی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ ادارے ان عناصر پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔بلکہ ریاست کی مختلف سطحوں پر پایا جانے والا کنفیوژن ٹھوس اور موثرکارروائی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اس حوالے سے پائے جانے والے ابہام نے رائے عامہ کومزید منقسم کر دیا ہے۔حالانکہ عوام کی اکثریت نے مئی 2013ء کے عام انتخابات میں بھاری تعداد میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے غیر جمہوری قوتوں کے منہ پر زور دار طمانچہ مارا ہے۔
لیکن نمایندہ سیاسی جماعتیں واضح پالیسی اختیار کرنے میں ہنوز ناکام ہیں۔وفاق اور پنجاب میں اقتدار میں آنے والی مسلم لیگ(ن) اس مسئلے پر گومگوکا شکار ہے۔تحریک انصاف جو متاثرہ صوبے خیبرپختونخواہ میں اقتدار میں آئی ہے اوردہشت گردی کے واقعات میں خود اپنے دو اراکین صوبائی اسمبلی گنواچکی ہے مگر اس کے باوجود شدت پسند عناصر سے مذاکرات کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ پیپلز پارٹی پچھلے پانچ برس اس مسئلے پر خاموشی اختیارکیے رہی اوراب جب کہ وہ صرف سندھ تک محدودہوچکی ہے،اس کی اس مسئلے کے حل میں دلچسپی مزید کم ہوئی ہے۔
ANPاس وقت سیاسی میدان سے باہر ہے۔لہٰذا صرف ایم کیو ایم رہ جاتی ہے،جس کا شہری سندھ میں مینڈیٹ مذہبی رواداری کے قائم رہنے سے مشروط ہے، اس لیے وہ اس مسئلے پر مسلسل آواز اٹھا رہی ہے اور اپنے اراکین اسمبلی اورکارکنوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے پر مجبور ہو رہی ہے۔
پاکستان کے سیاسی معاملات میں بگاڑ کا بنیادی سبب یہ ہے کہ66برس گذرجانے کے باوجود ریاست کے منطقی جواز کامسئلہ ہنوز ابہام کا شکار ہے۔ حالانکہ گزشتہ صدی میں دنیاکے مختلف حصوں میں قومی آزادی کے لیے چلنے والی تحاریک کا مطالعہ کیا جائے تواندازہ ہوتا ہے کہ ان تحاریک کو مہمیزلگانے کے لیے حسب ضرورت کہیں مذہبی عقائد، کہیں نسلی ولسانی شناخت اورکہیں قومی تشخص کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ مگر جب یہ تحاریک کامیاب ہوجاتی ہیں اور ملک آزاد ہوجاتا ہے،تو پھر اس شناخت پرمزید اصرار کرنے کے بجائے وسیع البنیاد فلاحی ریاست قائم کرنے پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔
جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔دوسری عالمی جنگ کے بعد جب دنیا بھر میں قومی آزادی کی تحاریک نے زور پکڑنا شروع کیا، تومختلف خطوںمیں مختلف انداز میں آزادی کی تحاریک شروع ہوئیں۔آئیرلینڈ میں آزادی کی تحریک کا رنگ فرقہ وارانہ تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ برطانیہ کا اکثریتی مذہب پروٹسٹنٹ ہے، جب کہ آئیر لینڈ میں رومن کیتھولک عقائد کے ماننے والوں کی اکثریت ہے۔اس لیے آزادی کی تحریک کومہمیز لگانے کے لیے فرقہ وارانہ رنگ دیناآئرش لبریشن آرمی کی سیاسی ضرورت تھی۔اس کے برعکس جنوبی افریقہ میںسب سے بڑامسئلہ نسلی امتیازتھا۔
اس لیے وہاں آزادی کی جدوجہد کے لیے نسلی امتیاز کو بنیاد بنایا گیا۔ مگر آزادی کے بعد نیلسن منڈیلا نے سچائی کمیشن قائم کرکے ان مظالم کو تو دستاویزی شکل دی، جو گوری چمڑی والوں نے ایک صدی تک سیاہ فام عوام پر روا رکھے تھے، مگر کسی کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنانے کے بجائے عام معافی کا اعلان کرکے جمہوری اداروں کو استحکام دینے کی کوشش کی۔اس طرح جنوبی افریقہ میں جمہوریت کا نیا سورج طلوع ہوا، جس میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل تھے۔
برٹش انڈیا میں جب آزادی کی تحریک نے زور پکڑا،تو آل انڈیامسلم لیگ کی قیادت نے یہ محسوس کیاکہ آزادی کے بعدآزاد ہند پر ہندو اکثریت حاوی آجائے گی اور مسلمان دوسرے درجے کے شہری بن جائیں گے۔اسلیے اس نے مسلمانوں کی سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی آزادی کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا۔ اس مقصد کے لیے بطورحکمت عملی(Tactics) اسلام کو استعمال کیا۔حالانکہ مسلم لیگی قیادت ثقہ قسم کی دینی شخصیات کے بجائے جدید تعلیم یافتہ رہنماؤں پر مشتمل تھی اور اس تحریک میں تمام فرقوں اور مسالک کے مسلمان مساوی طورپر شریک تھے۔
لہٰذاقیام پاکستان کے بعد برٹش انڈیا کی تقسیم کے لیے استعمال کی جانے والیTactics کو پالیسی کی شکل دینے کے بجائے جمہوری معاشرتی اقدار کو فروغ دینے کی کوشش کرناچاہیے تھا،کیونکہ نئے ملک کی 97فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی،جہاں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔اس خواہش کا اظہار خود بابائے قوم نے 11اگست1947ء کو دستور ساز اسمبلی میں کی جانے والی اپنی پالیسی تقریر میں بھی کیا تھا۔مگر مسلم لیگی قیادت Tactics اورStrategy کے نازک سے فرق کو سمجھنے سے قاصر رہی۔یہی سبب ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جو نعرے بطورسیاسی Tacticsلگائے گئے تھے، انھیںریاست کی پالیسی Strategy کی شکل دینے کی کوشش کی گئی،جس کے نتیجے میں وہ بگاڑ پیدا ہوا،جو آج تک جاری ہے۔
اس غلط فیصلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ تمام مذہبی جماعتیں جو 13اگست 1947ء تک قیام پاکستان کی مخالف رہی تھیں، پاکستانیت کی چیمپئن بن کر سامنے آگئیں اور پاکستان اسلام کا قلعہ،پاکستان مثالی اسلامی ریاست اور پوری دنیامیں اسلام کی سربلندی پاکستان کی ذمے داری جیسے جذباتی نعروں نے ایسا نظریاتی کنفیوژن پیدا کیا،جس نے اندرون اور بیرون ملک پاکستان کو نئی مشکلات میں مبتلاکردیا۔ساتھ ہی آئین سازی میں تاخیر اور فوجی آمریتوں نے جمہوریت کے مستقبل کو مخدوش بنادیا۔
اس صورتحال کا فائدہ بھی غیر جمہوری قوتوں کو پہنچا اور وہ ریاستی پالیسی سازی پر حاوی آگئیں۔سقوط ڈھاکہ کے بعد1973ء کا آئین جمہوری قوتوں کی فتح تھا، لیکن بعض ترامیم کے ذریعے اس کا حلیہ بگاڑنے کی بھی ایک سے زائد مرتبہ کوشش کی گئیں۔سرد جنگ کے دوران یہ حکمت عملی جیسے تیسے چلتی رہی، مگر اب جب کہ دنیاکے رجحانات بالکل تبدیل ہوچکے ہیں،اس لیے اس پالیسی کو جاری رکھنا ممکن نہیںرہا ہے۔لہٰذا پاکستان پر اندرونی اور بیرونی سطح پرشدید دباؤ ہے کہ وہ اپنی بنیادی Strategyکو تبدیل کرے اور ایک مہذب اور شائستہ ملک کے طورپر اپناعالمی تشخص قائم کرائے ۔
پے درپے ہونے والے پرتشدد واقعات اور شدت پسند عناصر کی سرگرمیاں اس بات کی متقاضی ہیں کہ پاکستان کوشدت پسندی اور شدت پسند عناصر کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے چند باتیں ہمیں ہمیشہ ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔اول،پاکستان کی تحریک جدید تعلیم یافتہ رہنماؤں کی قیادت میں چلی،جس میں برصغیر میں تمام مسالک اور فرقوں کے مسلمان مساوی طور پر شریک تھے،اس لیے اس ملک پر کسی ایک مسلک،فرقہ یا فقہہ کی بالادستی کبھی قائم نہیں ہوسکتی۔
دوئم، پاکستان کا آئین پاکستان کے جغرافیائی اور سیاسی وجود کا ضامن ہے۔اس میں پارلیمانی اصولوں کے مطابق ترامیم تو ممکن ہیں، لیکن غیر جمہوری طریقوں سے تبدیلیوں کی گنجائش نہیں ہے۔سوئم،پاکستان اکثریتی مسلم ملک ہے، جہاں97فیصد آبادی مسلمان ہے، اس لیے ''اسلام خطرے میں ہے '' جیسے نعرے سوائے عوام کودھوکہ دینے کے اور کچھ نہیں ہیں،جن سے اب گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ چہارم، ہم نے پوری دنیا میں اسلام پھیلانے کا ٹھیکہ نہیں لیاہے،اس لیے ہمیں صرف اپنے معاملات کودرست کرنے اور عوام کی حالت بہتربنانے پر توجہ دیناچاہیے۔
پنجم،افغانستان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کریں اور وہاںعوام کی منتخب کردہ حکومت کو بلاتامل قبول کرنا چاہیے اور کسی غیر جمہوری گروہ کو مسلط کرنے کی پالیسی سے گریز کرناہوگا۔ششم،جو عناصر پاکستان کے وجود اس کے نظام حکمرانی اور آئین کو تسلیم نہیں کرتے ان سے مذاکرات کا کوئی جواز نہیں ہے۔آخر کب تک شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپاکرحقیقت سے انکار کرتے رہیں گے۔لہٰذا ان عناصرکے خلاف سخت کارروائی کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔اس کے علاوہ ماضی کے دھندلکوںمیں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بجائے آج کی دنیا کے حقائق کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار کرناہوگا،کیونکہ اس ملک کی بقاء اب اسی میں مضمر ہے۔
ابھی ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی ساجد قریشی اور ان کے جواں سال بیٹے کاکفن بھی میلا نہیں ہوا تھا۔ ابھی مدرسہ عارف الحسینی میں بے گناہوں کے جابجا بکھرے خون کے چھنٹے بھی خشک نہ ہونے پائے تھے کہ شدت پسند عناصر نے ہفتہ اور اتوارکی درمیانی شب اسکردو میں غیر ملکی کوہ پیماؤں کوانتہائی دیدہ دلیری سے قتل کرکے پاکستان کی کمر میں ایک اور زہربجھا خنجرگھونپ دیا۔اپنی اس کارروائی سے انھوں نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں کسی بھی فرد، ادارے یا تنصیب کو نشانہ بناسکتے ہیں اور کوئی بھی ٹارگٹ ان کے لیے ناممکن نہیں ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان میں نسلی، لسانی اورفرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ،خود کش حملے اور بم دھماکے گزشتہ دو دہائیوں سے روزکا معمول بن چکے ہیں۔ معاملہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور مسالک کے درمیان تناؤ اور ان کی اجتماعی یا ٹارگٹ کلنگ تک محدود نہیں ہے،بلکہ غیر مسلم جو کل آبادی کے3 فیصد سے بھی کم ہیں اور جن کا اقتدار کی سیاست(Power Politics)سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، وہ بھی وقتاًفوقتاً کسی نہ کسی بہانے مختلف نوعیت کی پرتشددکارروائیوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں اورذرا سی بات پر ان کی بستیاں تاراج اور انھیں جینے کے آزادانہ حق سے محروم کردیا جاتا ہے۔
تسلسل کے ساتھ رونماء ہونے والے یہ پرتشدد اور سفاکانہ واقعات اور ان پر قابو پانے میں انتظامی اداروں کی ناکامی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ ادارے ان عناصر پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔بلکہ ریاست کی مختلف سطحوں پر پایا جانے والا کنفیوژن ٹھوس اور موثرکارروائی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اس حوالے سے پائے جانے والے ابہام نے رائے عامہ کومزید منقسم کر دیا ہے۔حالانکہ عوام کی اکثریت نے مئی 2013ء کے عام انتخابات میں بھاری تعداد میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے غیر جمہوری قوتوں کے منہ پر زور دار طمانچہ مارا ہے۔
لیکن نمایندہ سیاسی جماعتیں واضح پالیسی اختیار کرنے میں ہنوز ناکام ہیں۔وفاق اور پنجاب میں اقتدار میں آنے والی مسلم لیگ(ن) اس مسئلے پر گومگوکا شکار ہے۔تحریک انصاف جو متاثرہ صوبے خیبرپختونخواہ میں اقتدار میں آئی ہے اوردہشت گردی کے واقعات میں خود اپنے دو اراکین صوبائی اسمبلی گنواچکی ہے مگر اس کے باوجود شدت پسند عناصر سے مذاکرات کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔ پیپلز پارٹی پچھلے پانچ برس اس مسئلے پر خاموشی اختیارکیے رہی اوراب جب کہ وہ صرف سندھ تک محدودہوچکی ہے،اس کی اس مسئلے کے حل میں دلچسپی مزید کم ہوئی ہے۔
ANPاس وقت سیاسی میدان سے باہر ہے۔لہٰذا صرف ایم کیو ایم رہ جاتی ہے،جس کا شہری سندھ میں مینڈیٹ مذہبی رواداری کے قائم رہنے سے مشروط ہے، اس لیے وہ اس مسئلے پر مسلسل آواز اٹھا رہی ہے اور اپنے اراکین اسمبلی اورکارکنوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے پر مجبور ہو رہی ہے۔
پاکستان کے سیاسی معاملات میں بگاڑ کا بنیادی سبب یہ ہے کہ66برس گذرجانے کے باوجود ریاست کے منطقی جواز کامسئلہ ہنوز ابہام کا شکار ہے۔ حالانکہ گزشتہ صدی میں دنیاکے مختلف حصوں میں قومی آزادی کے لیے چلنے والی تحاریک کا مطالعہ کیا جائے تواندازہ ہوتا ہے کہ ان تحاریک کو مہمیزلگانے کے لیے حسب ضرورت کہیں مذہبی عقائد، کہیں نسلی ولسانی شناخت اورکہیں قومی تشخص کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ مگر جب یہ تحاریک کامیاب ہوجاتی ہیں اور ملک آزاد ہوجاتا ہے،تو پھر اس شناخت پرمزید اصرار کرنے کے بجائے وسیع البنیاد فلاحی ریاست قائم کرنے پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔
جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔دوسری عالمی جنگ کے بعد جب دنیا بھر میں قومی آزادی کی تحاریک نے زور پکڑنا شروع کیا، تومختلف خطوںمیں مختلف انداز میں آزادی کی تحاریک شروع ہوئیں۔آئیرلینڈ میں آزادی کی تحریک کا رنگ فرقہ وارانہ تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ برطانیہ کا اکثریتی مذہب پروٹسٹنٹ ہے، جب کہ آئیر لینڈ میں رومن کیتھولک عقائد کے ماننے والوں کی اکثریت ہے۔اس لیے آزادی کی تحریک کومہمیز لگانے کے لیے فرقہ وارانہ رنگ دیناآئرش لبریشن آرمی کی سیاسی ضرورت تھی۔اس کے برعکس جنوبی افریقہ میںسب سے بڑامسئلہ نسلی امتیازتھا۔
اس لیے وہاں آزادی کی جدوجہد کے لیے نسلی امتیاز کو بنیاد بنایا گیا۔ مگر آزادی کے بعد نیلسن منڈیلا نے سچائی کمیشن قائم کرکے ان مظالم کو تو دستاویزی شکل دی، جو گوری چمڑی والوں نے ایک صدی تک سیاہ فام عوام پر روا رکھے تھے، مگر کسی کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنانے کے بجائے عام معافی کا اعلان کرکے جمہوری اداروں کو استحکام دینے کی کوشش کی۔اس طرح جنوبی افریقہ میں جمہوریت کا نیا سورج طلوع ہوا، جس میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل تھے۔
برٹش انڈیا میں جب آزادی کی تحریک نے زور پکڑا،تو آل انڈیامسلم لیگ کی قیادت نے یہ محسوس کیاکہ آزادی کے بعدآزاد ہند پر ہندو اکثریت حاوی آجائے گی اور مسلمان دوسرے درجے کے شہری بن جائیں گے۔اسلیے اس نے مسلمانوں کی سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی آزادی کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا۔ اس مقصد کے لیے بطورحکمت عملی(Tactics) اسلام کو استعمال کیا۔حالانکہ مسلم لیگی قیادت ثقہ قسم کی دینی شخصیات کے بجائے جدید تعلیم یافتہ رہنماؤں پر مشتمل تھی اور اس تحریک میں تمام فرقوں اور مسالک کے مسلمان مساوی طورپر شریک تھے۔
لہٰذاقیام پاکستان کے بعد برٹش انڈیا کی تقسیم کے لیے استعمال کی جانے والیTactics کو پالیسی کی شکل دینے کے بجائے جمہوری معاشرتی اقدار کو فروغ دینے کی کوشش کرناچاہیے تھا،کیونکہ نئے ملک کی 97فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی،جہاں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔اس خواہش کا اظہار خود بابائے قوم نے 11اگست1947ء کو دستور ساز اسمبلی میں کی جانے والی اپنی پالیسی تقریر میں بھی کیا تھا۔مگر مسلم لیگی قیادت Tactics اورStrategy کے نازک سے فرق کو سمجھنے سے قاصر رہی۔یہی سبب ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جو نعرے بطورسیاسی Tacticsلگائے گئے تھے، انھیںریاست کی پالیسی Strategy کی شکل دینے کی کوشش کی گئی،جس کے نتیجے میں وہ بگاڑ پیدا ہوا،جو آج تک جاری ہے۔
اس غلط فیصلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ تمام مذہبی جماعتیں جو 13اگست 1947ء تک قیام پاکستان کی مخالف رہی تھیں، پاکستانیت کی چیمپئن بن کر سامنے آگئیں اور پاکستان اسلام کا قلعہ،پاکستان مثالی اسلامی ریاست اور پوری دنیامیں اسلام کی سربلندی پاکستان کی ذمے داری جیسے جذباتی نعروں نے ایسا نظریاتی کنفیوژن پیدا کیا،جس نے اندرون اور بیرون ملک پاکستان کو نئی مشکلات میں مبتلاکردیا۔ساتھ ہی آئین سازی میں تاخیر اور فوجی آمریتوں نے جمہوریت کے مستقبل کو مخدوش بنادیا۔
اس صورتحال کا فائدہ بھی غیر جمہوری قوتوں کو پہنچا اور وہ ریاستی پالیسی سازی پر حاوی آگئیں۔سقوط ڈھاکہ کے بعد1973ء کا آئین جمہوری قوتوں کی فتح تھا، لیکن بعض ترامیم کے ذریعے اس کا حلیہ بگاڑنے کی بھی ایک سے زائد مرتبہ کوشش کی گئیں۔سرد جنگ کے دوران یہ حکمت عملی جیسے تیسے چلتی رہی، مگر اب جب کہ دنیاکے رجحانات بالکل تبدیل ہوچکے ہیں،اس لیے اس پالیسی کو جاری رکھنا ممکن نہیںرہا ہے۔لہٰذا پاکستان پر اندرونی اور بیرونی سطح پرشدید دباؤ ہے کہ وہ اپنی بنیادی Strategyکو تبدیل کرے اور ایک مہذب اور شائستہ ملک کے طورپر اپناعالمی تشخص قائم کرائے ۔
پے درپے ہونے والے پرتشدد واقعات اور شدت پسند عناصر کی سرگرمیاں اس بات کی متقاضی ہیں کہ پاکستان کوشدت پسندی اور شدت پسند عناصر کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے چند باتیں ہمیں ہمیشہ ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔اول،پاکستان کی تحریک جدید تعلیم یافتہ رہنماؤں کی قیادت میں چلی،جس میں برصغیر میں تمام مسالک اور فرقوں کے مسلمان مساوی طور پر شریک تھے،اس لیے اس ملک پر کسی ایک مسلک،فرقہ یا فقہہ کی بالادستی کبھی قائم نہیں ہوسکتی۔
دوئم، پاکستان کا آئین پاکستان کے جغرافیائی اور سیاسی وجود کا ضامن ہے۔اس میں پارلیمانی اصولوں کے مطابق ترامیم تو ممکن ہیں، لیکن غیر جمہوری طریقوں سے تبدیلیوں کی گنجائش نہیں ہے۔سوئم،پاکستان اکثریتی مسلم ملک ہے، جہاں97فیصد آبادی مسلمان ہے، اس لیے ''اسلام خطرے میں ہے '' جیسے نعرے سوائے عوام کودھوکہ دینے کے اور کچھ نہیں ہیں،جن سے اب گریز کرنے کی ضرورت ہے۔ چہارم، ہم نے پوری دنیا میں اسلام پھیلانے کا ٹھیکہ نہیں لیاہے،اس لیے ہمیں صرف اپنے معاملات کودرست کرنے اور عوام کی حالت بہتربنانے پر توجہ دیناچاہیے۔
پنجم،افغانستان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کریں اور وہاںعوام کی منتخب کردہ حکومت کو بلاتامل قبول کرنا چاہیے اور کسی غیر جمہوری گروہ کو مسلط کرنے کی پالیسی سے گریز کرناہوگا۔ششم،جو عناصر پاکستان کے وجود اس کے نظام حکمرانی اور آئین کو تسلیم نہیں کرتے ان سے مذاکرات کا کوئی جواز نہیں ہے۔آخر کب تک شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپاکرحقیقت سے انکار کرتے رہیں گے۔لہٰذا ان عناصرکے خلاف سخت کارروائی کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔اس کے علاوہ ماضی کے دھندلکوںمیں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بجائے آج کی دنیا کے حقائق کا سامنا کرنے کے لیے خود کو تیار کرناہوگا،کیونکہ اس ملک کی بقاء اب اسی میں مضمر ہے۔