سرمایہ داری نظام اور خاندان… پہلا حصہ
برطانیہ میں خاندانی نظام کے پارہ پارہ ہو جانے میں سرمایہ داری نظام کا بنیادی کردار ہے۔ جس نے خواتین کو معاشی تحفظ۔۔۔
برطانیہ میں خاندانی نظام کے پارہ پارہ ہو جانے میں سرمایہ داری نظام کا بنیادی کردار ہے۔ جس نے خواتین کو معاشی تحفظ فراہم کیا ہے۔ دراصل یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سرمایہ ہی ہر رشتے کی بنیاد میں اہم کردار ادا کرتا ہے، جس کے نتیجے میں سماج ہو یا گھر ہر فرد کی وہی قدر رہ گئی ہے جو منڈی نے مقرر کی ہے، مگر اس حقیقت کا شعور بہت کم لوگوں کو ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے نتیجے میں جنم لینے والے واقعات کو سمجھنا ایسے لوگوں کے لیے مشکل ہوتا ہے جن کا سماجی سائنسز کا مطالعہ نہ ہو، وہ انسانی زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں کو ان سماجی و ثقافتی مفروضوں کی روشنی میں بیان کرتے ہیں جو بدلتے وقت کے ساتھ بدلتی ہوئی سماجی حالت کے سمجھنے میں ہر گز معاون نہیں ہوتے۔
برطانوی معاشرے کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ یہاں 1960ء تک مضبوط خاندانی نظام موجود تھا، مختلف فوٹو گراف، قومی اعداد و شمار اور اخبارات و رسائل کے ذریعے سے برطانوی معاشرے کی خاندانی رسم و رواج کا علم حاصل ہوتا ہے جس میں خواتین کی وہی حالت تھی جو ہمارے ممالک میں آج بھی ہے۔ جس کے تحت، نہ صرف مرد اور عورت کے مابین، بلکہ طبقات کے مابین بھی، سماجی نظام میں غیر مساوی طاقت کے تعلقات کو فروغ دیا جاتا تھا اور اس کے نتیجے میں صرف مردوں کو ہی یہ حقوق حاصل نہیں ہوتے کہ وہ اپنی طاقت کا استعمال عورتوں پر سماجی و قانونی تحفظ کے ساتھ کر سکیں، بلکہ سرمایہ دار طبقات اس طاقت کا استعمال مردوں پر بھی کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک، خصوصا برطانیہ جو ایک لبرل جمہوری ریاست ہے اور آزاد منڈی کی معیشت پر مبنی ہے، میں خواتین کو معاشی مراکز تک رسائی حاصل ہو چکی ہے جو یہاں کے سرمایہ داری نظام کے تحت سرمایہ داروں نے اپنے مفادات کے لیے ممکن بنائی، تا کہ مزدور کی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی جا سکے۔ اس کے لیے ہر بار دائیں بازو کی برطانوی حکومتیں پرائیویٹائزیشن کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں اور پالیسی سازی کے عمل میں ایسی پالیسیوں کی حمایت کی جاتی ہے جو سرمایہ داروں کا تحفظ یقینی بنائیں، فلاحی ریاست کے تحت ایسے ایسے قوانین بنائے گئے جنہوں نے خواتین کو مارکیٹ میں کام کرنے پر بھی مجبور کیا اور کام نہ کرنے کی صورت میں معاشی تحٖفظ بھی یقینی بنایا۔
اگرچہ اس میں خواتین کی اپنے سیاسی و قانونی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کا زیادہ کردار تھا، مگر سرمایہ داروں نے خواتین کے اس فعال کردار کو ان کے اپنے ہی شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں کے خلاف استعمال کرتے ہوئے خواتین کو زیادہ سے زیادہ ملازمت کے مواقعے فراہم کرنا شرع کر دیے، کیونکہ خواتین، مردوں کی نسبت کم تنخواہوں پر کام کرتی تھیں، اس لیے مزدور مردوں کی ہڑتال کی صورت میں ایک طرف تو سرمایہ داروں کو خواتین کی صورت متبادل مزدور اور ملازم آسانی سے دستیاب ہونے لگے، تو دوسری طرف کم تنخواہ بھی سرمایہ دار کے لیے نفع کا باعث بنی۔ اسی معاشی تحفظ نے دوسری طرف گھریلو تعلقات پر بھی فیصلہ کن اثرات مرتب کرنا شروع کر دیے۔
آج خواتین کی آزادی کو خاندانی نظام کے بکھر جانے کا سبب ٹھہرانے والے مرد بھول گئے کہ یہ آزادی سرمایہ دار مردوں نے آزاد منڈی کو زندگی فراہم کرنے کے لیے دی تھی، مگر اس نظام کے اندر بسنے والے تمام افراد اس کے مثبت اور منفی نتائج بھگتنے پر مجبور ہیں اور سرمایہ دار بذاتِ خود مرد بھی ہیں جو خود بھی خواتین کی معاشی و سماجی کردار کی مضبوطی سے اس لیے اب نالاں ہیں کہ ان کی بیویاں اور بیٹیاں بھی اسی سماج کا حصہ ہیں، لہذا اب برطانیہ میں خاندانی نظام کے بکھر جانے سے پہلے کے وقت کو قدامت پرست اور روایت پسند استحصالی مرد گولڈن پیریڈ کے نام سے یاد کر کے آہیں بھرتے ہیں جب وہ اپنی بیویوں پر اپنی کمائی کا رعب جھاڑتے ہوئے ہر قسم کے جبر و تشدد کے باوجود گھریلو اور جسمانی خدمت لینا اپنا ازلی حق سمجھتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ آزاد منڈی کی معیشت نے ایسے مردوں کے ''حقوق'' پر بڑی بُری طرح سے ''ڈاکہ'' ڈالا ہے۔
ہمارے پاکستان کے لوگ خصوصاََ اس کا بری طرح شکار اس لیے ہوتے ہیں کہ ان کو پیدا ہوتے ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ عورت پائوں کی جوتی ہے، لہذا مرد بد کرداری کی جن حدوں کو بھی چُھو لے یہ اس کا پیدائشی ''مردانہ حق'' ہے۔ ہمارے ان مردوں کو حقوق کا سبق پڑھاتے ہوئے ہمارا سماج بھول جاتا ہے کہ یک طرفہ حقوق کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی فرائض کے بغیر، مگر پاکستان سے آنے والے مرد اپنے مردانہ حقوق کے اسی سبق کا رٹا لگاتے ہوئے جب برطانیہ پہنچتے ہیں تو برطانیہ کی خواتین کو بھی اسی طرح سے اپنے پائوں کی جوتی کے مترادف ٹریٹ کرنے کی ناکام کوشش میں تگ و دو کرنے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستانی نژاد برطانوی مگر اپنے انسان ہونے کا شعور رکھنے والی بیویاں جوتی ہی کی طرح ان پر برس پڑتی ہیں۔
اسی لیے بہت سے مرد آج بے گھر ہو کر در در کی بجائے گرل گرل کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور بہت سے مرد اس سرمایہ داری نظام میں ایسی طوائف کا کردار ادا کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں جس کو پرانے وقتوں میں نواب یا رئیس زادے اپنی تفریحِ طبع کے لیے اپنے پاس رکھ لیتے اور ان کو روزمرہ زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مالی معاونت کرتے اور ان کے بدلے میں ان سے اپنے لیے جنسی خدمات لیتے تھے، تب بھی سرمایہ ہی تھا جس نے عورت کو اس حیثیت پر رکھا ہوا تھا اب بھی سرمایہ ہی ہے جس نے مرد کی حیثیت بدل دی ہے، برطانیہ سمیت یہ حال مغربی معاشروں میں اکثر مردوں کا ہو چکا ہے۔ وہ آج اپنی امیر بیوی یا گرل فرینڈ کے لیے وہی کردار ادا کرنے پر مجبور ہیں جو نوابوں اور رئیس زادوں کے لیے طوائفیں ادا کیا کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے مرد شدید ذہنی کرب سے دوچار ہیں۔
اگرچہ برطانیہ میں طلاق کی شرح میں اضافے کے بہت سے سبب ہیں، مگر معاشی زنجیروں سے خواتین کی آزادی اور قانونی تحفظ کا اس میں بنیادی کردار ہے۔ اس لیے برطانیہ کے سماجی، معاشی اور سیاسی نظاموں سے نالاں ہو کر بہت سے ترقی پذیر ممالک سے آئے ہوئے مرد اپنے اپنے بوسیدہ معاشروں کا رخ کرتے ہیں جہاں ان کو مرکزی حیثیت حاصل تھی جہاں وہ اپنی طاقت کا جائز اور ناجائز استعمال کر سکتے تھے، کیونکہ وہاں کی خواتین اپنی حق تلفی کا ادراک رکھتے ہوئے بھی اپنے لیے کچھ کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتیں، اس لیے ان کو اپنے من پسند راستوں پر چلانا مردوں کے لیے آسان ہے، مگر جیسے ہی وہ پاکستانی خواتین برطانیہ یا کسی دوسرے مغربی معاشرے میں پہنچتی ہیں تو سماج کی مادی حالت جس سے وہ عملی سطح پر جا بجا دو چار ہوتی ہیں ان کے شعور کی سطح کو بلند کر دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کو اپنے انسانی، سماجی، سیاسی، قانونی حقوق کی آگہی بہت جلد ہو جاتی ہے۔
اب برطانوی نژاد تو پہلے ہی باشعور ہیں اور دوسرے ممالک سے آنے والی خواتین کو بھی یہ سماج باشعور بناتا ہے ہر طرح کا تحفظ فراہم کرتا ہے ایسے میں مردوں کے لیے ان پر جبر کرنا اور اپنے کردار کی خامیوں سمیت ان سے اپنی بات منوانا آسان نہیں رہا۔ یہ سرمایہ داری نظام اور برطانیہ کا قانون ہے جس نے خواتین کو مضبوطی بخشی ہے اگر اسی قسم کا قانون ترقی پذیر ممالک میں بھی رائج کر دیا جائے اور اس پر عمل بھی یقینی بنا دیا جائے تو اس بات کے خاصے امکان روشن ہونگے کہ خاندانی نظام کا وہاں بھی شیرازہ بکھر جائے، کیونکہ قانونی و معاشی تحفظ کی عدم موجودگی نے پاکستان میں خواتین کی حیثیت انتہائی کمزور ہے۔ اول تو خواتین کو ان کے انسانی حقوق سے آگاہ ہی نہیں کیا جاتا، بلکہ اس بات کو ہر سطح پر ممکن بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنے انسانی، سماجی، معاشی اور سیاسی حقوق سے لاعلم ہی رہیں جس طرح مردوں کو صرف ان کے مردانہ حقوق کا سبق پڑھایا جاتا ہے اسی طرح خواتین کو ان کے فرائض نہ صرف یاد کرائے جاتے ہیں ، بلکہ ان کی ادائیگی کو مذہبی و اخلاقی اور سماجی و ثقافتی رسم و رواج کے ذریعے یقینی بنایا جاتا ہے۔ (جاری ہے)
برطانوی معاشرے کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ یہاں 1960ء تک مضبوط خاندانی نظام موجود تھا، مختلف فوٹو گراف، قومی اعداد و شمار اور اخبارات و رسائل کے ذریعے سے برطانوی معاشرے کی خاندانی رسم و رواج کا علم حاصل ہوتا ہے جس میں خواتین کی وہی حالت تھی جو ہمارے ممالک میں آج بھی ہے۔ جس کے تحت، نہ صرف مرد اور عورت کے مابین، بلکہ طبقات کے مابین بھی، سماجی نظام میں غیر مساوی طاقت کے تعلقات کو فروغ دیا جاتا تھا اور اس کے نتیجے میں صرف مردوں کو ہی یہ حقوق حاصل نہیں ہوتے کہ وہ اپنی طاقت کا استعمال عورتوں پر سماجی و قانونی تحفظ کے ساتھ کر سکیں، بلکہ سرمایہ دار طبقات اس طاقت کا استعمال مردوں پر بھی کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک، خصوصا برطانیہ جو ایک لبرل جمہوری ریاست ہے اور آزاد منڈی کی معیشت پر مبنی ہے، میں خواتین کو معاشی مراکز تک رسائی حاصل ہو چکی ہے جو یہاں کے سرمایہ داری نظام کے تحت سرمایہ داروں نے اپنے مفادات کے لیے ممکن بنائی، تا کہ مزدور کی جدوجہد کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی جا سکے۔ اس کے لیے ہر بار دائیں بازو کی برطانوی حکومتیں پرائیویٹائزیشن کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں اور پالیسی سازی کے عمل میں ایسی پالیسیوں کی حمایت کی جاتی ہے جو سرمایہ داروں کا تحفظ یقینی بنائیں، فلاحی ریاست کے تحت ایسے ایسے قوانین بنائے گئے جنہوں نے خواتین کو مارکیٹ میں کام کرنے پر بھی مجبور کیا اور کام نہ کرنے کی صورت میں معاشی تحٖفظ بھی یقینی بنایا۔
اگرچہ اس میں خواتین کی اپنے سیاسی و قانونی حقوق کے حصول کے لیے جدوجہد کا زیادہ کردار تھا، مگر سرمایہ داروں نے خواتین کے اس فعال کردار کو ان کے اپنے ہی شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں کے خلاف استعمال کرتے ہوئے خواتین کو زیادہ سے زیادہ ملازمت کے مواقعے فراہم کرنا شرع کر دیے، کیونکہ خواتین، مردوں کی نسبت کم تنخواہوں پر کام کرتی تھیں، اس لیے مزدور مردوں کی ہڑتال کی صورت میں ایک طرف تو سرمایہ داروں کو خواتین کی صورت متبادل مزدور اور ملازم آسانی سے دستیاب ہونے لگے، تو دوسری طرف کم تنخواہ بھی سرمایہ دار کے لیے نفع کا باعث بنی۔ اسی معاشی تحفظ نے دوسری طرف گھریلو تعلقات پر بھی فیصلہ کن اثرات مرتب کرنا شروع کر دیے۔
آج خواتین کی آزادی کو خاندانی نظام کے بکھر جانے کا سبب ٹھہرانے والے مرد بھول گئے کہ یہ آزادی سرمایہ دار مردوں نے آزاد منڈی کو زندگی فراہم کرنے کے لیے دی تھی، مگر اس نظام کے اندر بسنے والے تمام افراد اس کے مثبت اور منفی نتائج بھگتنے پر مجبور ہیں اور سرمایہ دار بذاتِ خود مرد بھی ہیں جو خود بھی خواتین کی معاشی و سماجی کردار کی مضبوطی سے اس لیے اب نالاں ہیں کہ ان کی بیویاں اور بیٹیاں بھی اسی سماج کا حصہ ہیں، لہذا اب برطانیہ میں خاندانی نظام کے بکھر جانے سے پہلے کے وقت کو قدامت پرست اور روایت پسند استحصالی مرد گولڈن پیریڈ کے نام سے یاد کر کے آہیں بھرتے ہیں جب وہ اپنی بیویوں پر اپنی کمائی کا رعب جھاڑتے ہوئے ہر قسم کے جبر و تشدد کے باوجود گھریلو اور جسمانی خدمت لینا اپنا ازلی حق سمجھتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ آزاد منڈی کی معیشت نے ایسے مردوں کے ''حقوق'' پر بڑی بُری طرح سے ''ڈاکہ'' ڈالا ہے۔
ہمارے پاکستان کے لوگ خصوصاََ اس کا بری طرح شکار اس لیے ہوتے ہیں کہ ان کو پیدا ہوتے ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ عورت پائوں کی جوتی ہے، لہذا مرد بد کرداری کی جن حدوں کو بھی چُھو لے یہ اس کا پیدائشی ''مردانہ حق'' ہے۔ ہمارے ان مردوں کو حقوق کا سبق پڑھاتے ہوئے ہمارا سماج بھول جاتا ہے کہ یک طرفہ حقوق کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی فرائض کے بغیر، مگر پاکستان سے آنے والے مرد اپنے مردانہ حقوق کے اسی سبق کا رٹا لگاتے ہوئے جب برطانیہ پہنچتے ہیں تو برطانیہ کی خواتین کو بھی اسی طرح سے اپنے پائوں کی جوتی کے مترادف ٹریٹ کرنے کی ناکام کوشش میں تگ و دو کرنے لگتے ہیں، جس کے نتیجے میں پاکستانی نژاد برطانوی مگر اپنے انسان ہونے کا شعور رکھنے والی بیویاں جوتی ہی کی طرح ان پر برس پڑتی ہیں۔
اسی لیے بہت سے مرد آج بے گھر ہو کر در در کی بجائے گرل گرل کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور بہت سے مرد اس سرمایہ داری نظام میں ایسی طوائف کا کردار ادا کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں جس کو پرانے وقتوں میں نواب یا رئیس زادے اپنی تفریحِ طبع کے لیے اپنے پاس رکھ لیتے اور ان کو روزمرہ زندگی کی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مالی معاونت کرتے اور ان کے بدلے میں ان سے اپنے لیے جنسی خدمات لیتے تھے، تب بھی سرمایہ ہی تھا جس نے عورت کو اس حیثیت پر رکھا ہوا تھا اب بھی سرمایہ ہی ہے جس نے مرد کی حیثیت بدل دی ہے، برطانیہ سمیت یہ حال مغربی معاشروں میں اکثر مردوں کا ہو چکا ہے۔ وہ آج اپنی امیر بیوی یا گرل فرینڈ کے لیے وہی کردار ادا کرنے پر مجبور ہیں جو نوابوں اور رئیس زادوں کے لیے طوائفیں ادا کیا کرتی تھیں۔ یہی وجہ ہے مرد شدید ذہنی کرب سے دوچار ہیں۔
اگرچہ برطانیہ میں طلاق کی شرح میں اضافے کے بہت سے سبب ہیں، مگر معاشی زنجیروں سے خواتین کی آزادی اور قانونی تحفظ کا اس میں بنیادی کردار ہے۔ اس لیے برطانیہ کے سماجی، معاشی اور سیاسی نظاموں سے نالاں ہو کر بہت سے ترقی پذیر ممالک سے آئے ہوئے مرد اپنے اپنے بوسیدہ معاشروں کا رخ کرتے ہیں جہاں ان کو مرکزی حیثیت حاصل تھی جہاں وہ اپنی طاقت کا جائز اور ناجائز استعمال کر سکتے تھے، کیونکہ وہاں کی خواتین اپنی حق تلفی کا ادراک رکھتے ہوئے بھی اپنے لیے کچھ کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتیں، اس لیے ان کو اپنے من پسند راستوں پر چلانا مردوں کے لیے آسان ہے، مگر جیسے ہی وہ پاکستانی خواتین برطانیہ یا کسی دوسرے مغربی معاشرے میں پہنچتی ہیں تو سماج کی مادی حالت جس سے وہ عملی سطح پر جا بجا دو چار ہوتی ہیں ان کے شعور کی سطح کو بلند کر دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کو اپنے انسانی، سماجی، سیاسی، قانونی حقوق کی آگہی بہت جلد ہو جاتی ہے۔
اب برطانوی نژاد تو پہلے ہی باشعور ہیں اور دوسرے ممالک سے آنے والی خواتین کو بھی یہ سماج باشعور بناتا ہے ہر طرح کا تحفظ فراہم کرتا ہے ایسے میں مردوں کے لیے ان پر جبر کرنا اور اپنے کردار کی خامیوں سمیت ان سے اپنی بات منوانا آسان نہیں رہا۔ یہ سرمایہ داری نظام اور برطانیہ کا قانون ہے جس نے خواتین کو مضبوطی بخشی ہے اگر اسی قسم کا قانون ترقی پذیر ممالک میں بھی رائج کر دیا جائے اور اس پر عمل بھی یقینی بنا دیا جائے تو اس بات کے خاصے امکان روشن ہونگے کہ خاندانی نظام کا وہاں بھی شیرازہ بکھر جائے، کیونکہ قانونی و معاشی تحفظ کی عدم موجودگی نے پاکستان میں خواتین کی حیثیت انتہائی کمزور ہے۔ اول تو خواتین کو ان کے انسانی حقوق سے آگاہ ہی نہیں کیا جاتا، بلکہ اس بات کو ہر سطح پر ممکن بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنے انسانی، سماجی، معاشی اور سیاسی حقوق سے لاعلم ہی رہیں جس طرح مردوں کو صرف ان کے مردانہ حقوق کا سبق پڑھایا جاتا ہے اسی طرح خواتین کو ان کے فرائض نہ صرف یاد کرائے جاتے ہیں ، بلکہ ان کی ادائیگی کو مذہبی و اخلاقی اور سماجی و ثقافتی رسم و رواج کے ذریعے یقینی بنایا جاتا ہے۔ (جاری ہے)