ہائبرڈ جنگ سے نمٹنے کی ضرورت
ٹرمپ کے طرز سخن کو مجذوب کی بڑ نہ سمجھیں، پاک امریکا ابتر تعلقات میں پاکستانی موقف کی جیت کا امکان پیدا کریں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ قوم کو منفی و جارحانہ پروپیگنڈے سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے، ہمیں ''ہائبرڈجنگ'' کا سامنا ہے، دشمن ہمیں مذہبی، مسلکی، لسانی اورسماجی حوالے سے نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ انھوں نے اس پر ایک جامع قومی بیانیہ کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ اس سے قبل 25 اپریل2018 کو پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں خطاب کے موقع پر بھی انتباہ کرچکے تھے۔ ہائبرڈ وار در حقیقت غیر متعارف جنگی میکنزم کا ایک خفیہ ہتھیار ہے جسے دشمن قوتیں مخالف ریاستوں کو سیاسی، مذہبی اور نفسیاتی طو پر نقصان پہنچانے کے کثیر جیتی حربے استعمال کرتی اور نئی نسل کو فکری اور اخلاقی انتشار کا شکار کرتی ہیں، اس طرز جنگ کی میکانکیت اربن سیاق وسباق کا حوالہ رکھتی ہے جس میں دشمن اور حکومت و ریاست مخالف عناصر براہ راست جنگ کے بجائے پروپیگنڈہ، سائبر اٹیک، میڈیا میں جارحانہ اثرونفوذ سمیت کسی بھی ملک کی داخلی وعوامی بے چینی اور سیاسی محاذ آرائی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں۔
ہائبرڈ جنگ میں پاکستان کو اس لیے بھی خبردار رہنے کی بات کی گئی ہے کہ اسے اپنے جغرافیائی محل وقوع کی عالمی حیثیت نے ٹارگٹ پر رکھا ہے ، امریکی طرز عمل ، افغان جنگ، بھارتی ریشہ دوانیوں ، کنٹرول لائن پر جاری دباؤ ، کشمیر میں انسانی حقوق کی اندوہ ناک صورتحال سے عالمی ضمیر کی بے اعتنائی وہ چشم کشا اشاریے ہیں جو قومی یکجہتی کی ضرورت کو دو چند کرتے ہیں، ملک اس وقت تعمیر نو، اداروں کے استحکام ، جمہوری قوتوں میں افہام وتفہیم کے بجائے محاذ آرائی اور سماجی و انتظامی تطہیر کے امتحانی دورانیے سے گزر رہا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن میں اہم ایشوز پر ٹھنی ہوئی ہے، پارلیمنٹ اور سینیٹ میں بحث کسی طور قابل رشک اور پارلیمانی روایات و جمہوری تحمل کی آئینہ دار نہیں، دشنام طرازی اورذاتی حملوں کے باعث پارلیمنٹ کی تقدیس بھی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے ،ہائبرڈ جنگ در اصل اسی تناظر میں راہ پاتی ہے، وطن عزیز کے مختلف شعبوں میں کشیدگی، الزام تراشی ، اعصاب شکن کشمکش، نان ایشوز پر لاحاصل بحث و تکراراورفروعی اختلافات، گڈ گورننس سے اغماض برتنے کے رویے نے ملکی ترقی کے اہداف پس پشت ڈال دیے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ حکومت کے 100دن کے پروگرام میں مضمر کوئی خرابی اگر تعمیر و تبدیلی کی کوئی خوشخبری اور اطمینان بخش نوید لاتی ہے تو قوم کے لیے اس سے بڑی تسکین اور کیا ہوسکتی ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ کے شرکا سے جی ایچ کیو میں گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان کو 2دہائیوں سے مختلف خطرات کا سامنا رہا لیکن قوم اور فورسز نے بہادری اور کامیابی سے ان خطرات کا مقابلہ کیا اور موثر اندازسے شکست دی، اب ہماری ذمے داری اس حوالے سے مزید بڑھ گئی ہے کہ ہم اپنے لوگوں خصوصاً نوجوانوں کو پروپیگنڈے کے ذریعے کیے جانے والے اس'' نرم حملے'' کے بارے میں آگاہ رکھیں، اب ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم اٹھیں اور بے بہا قربانیوں کے بعد ملنے والے ترقی کے اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
اس پیغام میں بھی کئی پہلو اس قابل ہیں کہ جن پر منتخب نمایندے، اسٹیک ہولڈر، سول سوسائٹی اور ملک کے جید علما و مشائخ ، مورخین ، جامعات کے پروفیسرز ، سیاسی مبصرین ، تجزیہ کاراور ادیب و شعرا قوم کو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے لائحہ عمل کی تیاری میں مدد دے سکتے ہیں مگر بنیادی ضرورت اس لفظ ہائبرڈ کی اصطلاحی روح کے مطابق دشمن کے پروپیگنڈے کو غیر موثر کرنے کے لیے نئی نسل کو فکری فورم او سیاست دانوں کو مفاہمانہ اور قومی مفادات کے وسیع تر تناظر میں گریٹر مکالمہ پر اتفاق رائے کی بھی ضرورت ہے، بادی ا لنظر میں حکومت اور حزب اختلاف کی توانائی نان ایشوز پر ضایع ہورہی ہے اور خطے کودرپیش خطرات پر کسی کی توجہ نہیں۔
واضح رہے پاکستان مخالف قوتیں پوری شدت سے اس بات کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں کہ ہائبرڈ وارکا رخ گھناؤنے پروپیگنڈے کی شکل میں ملک میں موڑ دیا جائے اور اس کی تکمیل وہ سوشل میڈیا کے ذریعہ کرنے پر کاربند ہیں، دشمن لبرل ازم اور شدت پسندی ، بین المذاہب رواداری اور اسلام وجمہوریت کے مابین لایعنی ابہام و تشکیک پیدا کرنے کے لیے ادبی تنگ نظری سے مدد لینے کی سازشوں میں ملوث ہے۔
این جی اوز پر سرکاری قدغن اور ان پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت بھی ہائبرڈ وار کی کامیابی کے اہم تقاضے ہیں، میڈیا کو اس قومی جنگ میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے قوم میں فکری یکجہتی پیدا کرنے کے لیے آخری حد تک جانا چاہیے، آج قوم ملکی استحکام ، معاشی ترقی ، کرپشن و غربت کے خاتمہ اور جمہوری نظام کے تحت انصاف ، مساوات اور بنیادی انسانی ضرورتوں سے بہر مند ہونے کی خواہاں ہے، حکمراں امنڈتے خطرات کا ادراک کریں۔
ٹرمپ کے طرز سخن کو مجذوب کی بڑ نہ سمجھیں، پاک امریکا ابتر تعلقات میں پاکستانی موقف کی جیت کا امکان پیدا کریں، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، سیاسی اتفاق رائے اور عوامی معاشی آسودگی اور داخلی امن کے قیام کی منزل مل گئی تو ہائبرڈ وار سے قوم خود نمٹ لے گی، خطے میں سونامیوں کی گڑگڑاہٹیں ہیں، پارلیمان میں تضحیک آمیز تقاریر مناسب نہیں ۔اب ضرورت خارجی و داخلی چیلنجوں سے نمٹنے کی ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ اس سے قبل 25 اپریل2018 کو پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں خطاب کے موقع پر بھی انتباہ کرچکے تھے۔ ہائبرڈ وار در حقیقت غیر متعارف جنگی میکنزم کا ایک خفیہ ہتھیار ہے جسے دشمن قوتیں مخالف ریاستوں کو سیاسی، مذہبی اور نفسیاتی طو پر نقصان پہنچانے کے کثیر جیتی حربے استعمال کرتی اور نئی نسل کو فکری اور اخلاقی انتشار کا شکار کرتی ہیں، اس طرز جنگ کی میکانکیت اربن سیاق وسباق کا حوالہ رکھتی ہے جس میں دشمن اور حکومت و ریاست مخالف عناصر براہ راست جنگ کے بجائے پروپیگنڈہ، سائبر اٹیک، میڈیا میں جارحانہ اثرونفوذ سمیت کسی بھی ملک کی داخلی وعوامی بے چینی اور سیاسی محاذ آرائی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں۔
ہائبرڈ جنگ میں پاکستان کو اس لیے بھی خبردار رہنے کی بات کی گئی ہے کہ اسے اپنے جغرافیائی محل وقوع کی عالمی حیثیت نے ٹارگٹ پر رکھا ہے ، امریکی طرز عمل ، افغان جنگ، بھارتی ریشہ دوانیوں ، کنٹرول لائن پر جاری دباؤ ، کشمیر میں انسانی حقوق کی اندوہ ناک صورتحال سے عالمی ضمیر کی بے اعتنائی وہ چشم کشا اشاریے ہیں جو قومی یکجہتی کی ضرورت کو دو چند کرتے ہیں، ملک اس وقت تعمیر نو، اداروں کے استحکام ، جمہوری قوتوں میں افہام وتفہیم کے بجائے محاذ آرائی اور سماجی و انتظامی تطہیر کے امتحانی دورانیے سے گزر رہا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن میں اہم ایشوز پر ٹھنی ہوئی ہے، پارلیمنٹ اور سینیٹ میں بحث کسی طور قابل رشک اور پارلیمانی روایات و جمہوری تحمل کی آئینہ دار نہیں، دشنام طرازی اورذاتی حملوں کے باعث پارلیمنٹ کی تقدیس بھی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے ،ہائبرڈ جنگ در اصل اسی تناظر میں راہ پاتی ہے، وطن عزیز کے مختلف شعبوں میں کشیدگی، الزام تراشی ، اعصاب شکن کشمکش، نان ایشوز پر لاحاصل بحث و تکراراورفروعی اختلافات، گڈ گورننس سے اغماض برتنے کے رویے نے ملکی ترقی کے اہداف پس پشت ڈال دیے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ حکومت کے 100دن کے پروگرام میں مضمر کوئی خرابی اگر تعمیر و تبدیلی کی کوئی خوشخبری اور اطمینان بخش نوید لاتی ہے تو قوم کے لیے اس سے بڑی تسکین اور کیا ہوسکتی ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ کے شرکا سے جی ایچ کیو میں گفتگو کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان کو 2دہائیوں سے مختلف خطرات کا سامنا رہا لیکن قوم اور فورسز نے بہادری اور کامیابی سے ان خطرات کا مقابلہ کیا اور موثر اندازسے شکست دی، اب ہماری ذمے داری اس حوالے سے مزید بڑھ گئی ہے کہ ہم اپنے لوگوں خصوصاً نوجوانوں کو پروپیگنڈے کے ذریعے کیے جانے والے اس'' نرم حملے'' کے بارے میں آگاہ رکھیں، اب ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم اٹھیں اور بے بہا قربانیوں کے بعد ملنے والے ترقی کے اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔
اس پیغام میں بھی کئی پہلو اس قابل ہیں کہ جن پر منتخب نمایندے، اسٹیک ہولڈر، سول سوسائٹی اور ملک کے جید علما و مشائخ ، مورخین ، جامعات کے پروفیسرز ، سیاسی مبصرین ، تجزیہ کاراور ادیب و شعرا قوم کو درپیش چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے لائحہ عمل کی تیاری میں مدد دے سکتے ہیں مگر بنیادی ضرورت اس لفظ ہائبرڈ کی اصطلاحی روح کے مطابق دشمن کے پروپیگنڈے کو غیر موثر کرنے کے لیے نئی نسل کو فکری فورم او سیاست دانوں کو مفاہمانہ اور قومی مفادات کے وسیع تر تناظر میں گریٹر مکالمہ پر اتفاق رائے کی بھی ضرورت ہے، بادی ا لنظر میں حکومت اور حزب اختلاف کی توانائی نان ایشوز پر ضایع ہورہی ہے اور خطے کودرپیش خطرات پر کسی کی توجہ نہیں۔
واضح رہے پاکستان مخالف قوتیں پوری شدت سے اس بات کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں کہ ہائبرڈ وارکا رخ گھناؤنے پروپیگنڈے کی شکل میں ملک میں موڑ دیا جائے اور اس کی تکمیل وہ سوشل میڈیا کے ذریعہ کرنے پر کاربند ہیں، دشمن لبرل ازم اور شدت پسندی ، بین المذاہب رواداری اور اسلام وجمہوریت کے مابین لایعنی ابہام و تشکیک پیدا کرنے کے لیے ادبی تنگ نظری سے مدد لینے کی سازشوں میں ملوث ہے۔
این جی اوز پر سرکاری قدغن اور ان پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت بھی ہائبرڈ وار کی کامیابی کے اہم تقاضے ہیں، میڈیا کو اس قومی جنگ میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے قوم میں فکری یکجہتی پیدا کرنے کے لیے آخری حد تک جانا چاہیے، آج قوم ملکی استحکام ، معاشی ترقی ، کرپشن و غربت کے خاتمہ اور جمہوری نظام کے تحت انصاف ، مساوات اور بنیادی انسانی ضرورتوں سے بہر مند ہونے کی خواہاں ہے، حکمراں امنڈتے خطرات کا ادراک کریں۔
ٹرمپ کے طرز سخن کو مجذوب کی بڑ نہ سمجھیں، پاک امریکا ابتر تعلقات میں پاکستانی موقف کی جیت کا امکان پیدا کریں، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، سیاسی اتفاق رائے اور عوامی معاشی آسودگی اور داخلی امن کے قیام کی منزل مل گئی تو ہائبرڈ وار سے قوم خود نمٹ لے گی، خطے میں سونامیوں کی گڑگڑاہٹیں ہیں، پارلیمان میں تضحیک آمیز تقاریر مناسب نہیں ۔اب ضرورت خارجی و داخلی چیلنجوں سے نمٹنے کی ہے۔