ایک آئینہ 

آج تک گھروں میں بیٹی کا پیدا ہونا ایک مسئلہ ہے تو پھر سوچیے کہ اب سے پون صدی پہلے ماؤں پرکیا قیامت گزرتی ہوگی۔

zahedahina@gmail.com

اس نوجوان نے اپنے استاد کی خواہش پر سالہا سال اپنی آنکھوں کا تیل جلایا اور ایک ایسا چراغ روشن کیا جو آنے والے دنوں میں بہت سے لوگوں کے راستے منورکرتا رہے گا۔ اس شخص کا نام داؤد عثمانی ہے، اردو اس کی مادری زبان نہیں لیکن اس نے ایک ایسے شخص اور اس کے خانوادے پر تحقیق کی اور ایک ایسی کتاب تخلیق کی جو آنے والے زمانوں میں جویائے علم افراد کو راستہ دکھائے گی۔ یہ علامہ راشد الخیری کا قصہ ہے جو 1868ء میں پیدا ہوئے۔

دلی شہرکے اشراف کا خاندان، لال قلعہ اور اس کی شان و شوکت بھولی بسری کہانی ہو چکی تھی لیکن راشد الخیری کا خاندان علمی اور ادبی روایات کا امین تھا اور اسی بناء پر شہر میں اعلیٰ مقام رکھتا تھا۔ علامہ راشد الخیری پر قلم اٹھانے سے پہلے داؤد عثمانی نے لکھا ہے کہ ''اردو ادب کے ذخیرے میں افراد کے ساتھ ساتھ بعض خاندانوں نے بھی قابلِ قدر اضافے کیے ہیں۔ میر انیس، الطاف حسین حالی، سجاد حیدر یلدرم اور محمد حسین آزاد کے علاوہ علامہ راشد الخیری کا خاندان اردو ادب میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔''

علامہ راشد الخیری مسلمان عورتوں کی تعلیم اور ان کی زندگی میں ایک بڑے انقلاب کے بانی تھے۔ انھوں نے اپنے اردگرد وہ مظلوم ومعصوم عورتیں دیکھی تھیں جنھیں ان کے جائز حقوق سے محروم رکھا گیا اور دنیا کا ہر ستم ان پر روا رکھا گیا۔ یہ ایک ایسی آفت تھی جس میں تقریباً ہر خاندان مبتلا تھا۔ لطف کی بات یہ تھی کہ مسلمان عورتوں پر یہ مظالم، مذہب کے نام پر ہوتے تھے اور مردوں میں کسی کو فرصت نہ تھی کہ اس بارے میں انصاف سے کام لے۔

رہ گئیں عورتیں وہ حرف شناس بھی نہ تھیں، انھیں اپنے حقوق اور فرائض سے بھلا کیسے آگاہی ہوتی۔ ایسے میں لاہور کے مولوی ممتاز علی اور دلی کے راشد الخیری اپنی لڑکیوں اور عورتوں کی تعلیم پر کمر بستہ ہوئے۔ مولوی ممتاز علی نے لاہور سے ''جوہر نسواں'' کا اجراء کیا اور راشد الخیری نے 1908ء میں رسالہ ''عصمت'' جاری کیا۔ ایک ایسا رسالہ جو ایک صدی تک شایع ہوتا رہا اور جس نے عورتوں کی کئی نسلوں کی ذہنی اور علمی تربیت کی۔

آج جہاں اس بات پر بحث کی جاتی ہے کہ اردوکا پہلا افسانہ علامہ راشد الخیری نے 1903ء میں تحریرکیا تھا۔ وہیں یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ اب تک کی تحقیق کے مطابق کسی خاتون افسانہ نگار کا پہلا افسانہ ''قفس کی چڑیا'' 1915ء میں رسالہ ''عصمت'' میں شایع ہوا جسے عباسی بیگم نے تحریر کیا تھا۔ یہ سہرا بھی علامہ صاحب کے سر بندھا ہے کہ کسی خاتون کا لکھا ہوا پہلا افسانہ انھوں نے ''عصمت'' میں شایع کیا۔

علامہ صاحب کو لڑکیوں کے مسائل سے اتنی دلچسپی تھی کہ انھوں نے ان کے ابتر حالات پر افسانے، مضامین اور ناول لکھے۔ کسی زمانے میں ان کے لکھے ہوئے ناول ''صبح زندگی، شام زندگی اور ''شب زندگی'' ہر پڑھے لکھے گھرانے میں موجود ہوتے اور لوگوں کو زندگی کی اونچ نیچ سے آگاہ کرتے۔ کیا عورتیں اور کیا مرد جس کا بھی دل گداختہ ہوتا وہ زار زار روتا۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف درد ناک تحریریں لکھتے تھے۔ مزاح لکھنے پر آتے تو ''نانی عشو'' جیسی تحریر لکھتے جس میں ''نانی'' کا نقشہ یوں کھینچتے :

''نانی عشوکی عمر ساٹھ برس سے کم نہ تھی مگر سرخ لباس ان کا جزوِ بدن تھا۔ مسّی کی دھڑی، پان کا لاکھا، پور پور مہندی، الغاروں تیل اور دُنبالہ دارکاجل، اُن کا ایمان، اُس پر جھانجن اور پازیب کی جھنکار، اُن کی رفتار کا ڈھنڈورا ! پڑھنے لکھنے کو تو شاید ان کی سات پشت میں بھی کسی نے الف کے نام بے نہ سنی ہوگی۔''

علامہ نے تاریخی، رومانی اور اصلاحی ناول لکھے۔ مختلف موضوعات پر مضامین کے ڈھیر لگا دیے۔ اس کے ساتھ ہی بیٹے کی تربیت جاری رکھی اور جب دنیا سے رخصت ہوئے تو ''عصمت'' اور اس سے متعلق معاملات کو بیٹے رازق الخیری کے سپرد کر گئے۔

آج تک گھروں میں بیٹی کا پیدا ہونا ایک مسئلہ ہے تو پھر سوچیے کہ اب سے پون صدی پہلے ماؤں پرکیا قیامت گزرتی ہوگی، لکھتے ہیں:


''ظالم باپ موود حسن کو جب پتہ چلا کہ اس کے گھر میں لڑکی پیدا ہوئی ہے تو یہ یقینا ایک بلا تھی، ایک مصیبت تھی، ایک آفت تھی، غصے کے مارے چہرہ سرخ، آنکھیں لال، بدن میں لرزہ اور ہاتھ پاؤں میں رعشہ تھا۔ منہ سے کف اور آنکھ سے آنسو جاری ہوگئے۔ ٹہلتا اور سانپ کی طرح سر پٹختا رہا۔ کئی دفعہ قصد کیا کہ لڑکی کو اٹھا کر زمین پر دے پٹکے یا گلا گھونٹ دے مگر جانتا تھا کہ خبر چھپنے والی اور بات دبنے والی نہیں۔ سزا یقینی اور نتیجہ ظاہر۔''

داؤد عثمانی نے علامہ راشد الخیری کی علمی اور ادبی خدمات کا احاطہ 282 صفحات میں کیا ہے۔ اس کے بعد کے صفحات میں مولانا رازق الخیری اور ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کی علمی و ادبی خدمات کا ذکرکیا ہے۔ مولانا رازق الخیری کی ادبی حیثیت کا بھی تعین ہو چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب 1932ء میں اردوکے مشہور ادیب منشی پریم چند سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ''عصمت'' بک ڈپو کے لیے اپنی کوئی کتاب اشاعت کے لیے عنایت کریں اور اس کی شرائط سے بھی آگاہ کریں تو جواب میں منشی 10 جون 1932ء کو ان کے نام خط میں لکھتے ہیں :

''رہی بات شرائط کی تو اس کے متعلق مجھے اس میں کیا عذر ہو سکتا ہے کہ دفتر عصمت سے میری کوئی کتاب شایع ہو۔ میں تو اسے اپنے لیے باعثِ فخر سمجھوں گا۔''

ڈاکٹر داؤد عثمانی نے اپنی سالہا سال کی تحقیق کے بعد بجا طور پر لکھا ہے کہ

''خواتین میں شدید تعلیمی پس ماندگی کے باوجود اس رسالے نے لکھنے والی خواتین کی ایک بڑی جماعت پیدا کی، ایسی ادبی روایت کی بنیاد ڈالی جس میں روا داری، شرافتِ نفس، مذہب، اخلاق اور احساسِ توازن کے ضابطوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ معاشرتی اصلاح کی کوشش کی۔ خاندان اور خصوصاً مشترکہ خاندان ہمارے معاشرے کی بنیاد ہے ۔ اس سے متعلق تمام مسائل پر قلم اٹھایا گیا۔ ہماری عورتوں کا بڑا طبقہ متوسط، مفلوک الحال، نیم خواندہ یا جاہل ہے جو پردے والے گھروں یا نیم تاریک محلوں میں رہتا ہے۔ خاندان،کنبہ، ساس بہو کے جھگڑے لڑائیاں، خاندانی چپقلش، بیماریاں، چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور بڑے بڑے غم ہی ان کی زندگی ہے۔ ان کے مسائل کو حل کرنے اور ادب کا حصہ بنانے میں ڈپٹی نذیر احمد اور راشد الخیری اور ان کے رسالے نے بھرپورکردار ادا کیا اور تحریک نسواں کو بڑی اہمیت دی ۔''

علامہ راشد الخیری، مولانا رازق الخیری، خاتون اکرم، آمنہ نازلی اور ان کے بعد صادق الخیری میدان میں آتے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف اپنے باپ دادا کے کام کو آگے بڑھایا، اس کے ساتھ ہی نئی وضع کے افسانے لکھے۔ یہ بھی وہی تھے جنہوں نے زریں تاج قرۃ العین طاہرہ کا افسانۂ غم لکھا۔

''عصمت'' کا آغاز 1908ء میں ہوا تھا، اب تیسری پشت میں جسٹس حاذق الخیری، صفورا خیری اور ان کے شریک حیات نیاز الدین احمد اپنی صحت کی خرابی کے باوجود اسے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ خانوادہ اپنے علم و فضل اور ادب کی آبیاری کے لیے برصغیر کی تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ یہ داؤد عثمانی کی محنت کا ثمر ہے کہ انھوں نے خاندان کے ہر فرد کی تخلیقی صلاحیتوں کا احاطہ کیا ہے۔ داؤد عثمانی، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی مرحوم اور ان کی بیگم بلقیس کشفی کے بھی جاں نثار ہیں۔

کشفی صاحب کی ہدایت پر ہی انھوں نے علامہ راشد الخیری اور ان کے خانوادے کی ادبی کہ خدمات کو ضبط تحریر میں لانے کا بیڑا اٹھایا تھا، وہ اس میں کامیاب ہوئے۔ یہ ان کی جاں فشانی کا ثمر ہے ایک ایسا شخص جس کی مادری زبان اردو نہ تھی اس نے اردو ادب کی ایک ادبی اور تہذیبی شخصیت اور اس کے خانوادے کو صفحوں پر زندہ کردیا۔ اردو والے جو دوسروں کی شکایت کرتے نہیں تھکتے، ان کے لیے یہ کتاب ایک ایسا آئینہ ہے جس میں وہ اپنے آپ کو دیکھیں اور توفیق ہو تو شرما جائیں۔

چلتے چلتے یہ بھی لکھ دوں کہ اسے انجمن ترقی اردو نے شایع کیا اور اس کی اشاعت میں معاونت اکادمی ادیباتِ پاکستان نے کی ہے۔
Load Next Story