شناختی کارڈ ہولڈر کیلیے ٹیکس گوشوارے لازمی کیے جائیں
ٹیکس کلچرکوفروغ دینا ہوگا، زرعی ٹیکس ناقابل عمل ہے، چیئرمین ٹیکس ٹریبونل ان لینڈ ریونیو
وفاقی حکومت تمام شناختی کارڈر ہولڈرز کیلیے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے لازمی قرار دے، اس اقدام سے ٹیکس گزاروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوگا۔
ٹیکس ٹریبونل ان لینڈ ریونیو کے چیئرمین جاوید مسعود طاہر بھٹی نے بتایا کہ ملک میں صرف 26 لاکھ ٹیکس گزار ہیں جن کی تعداد بڑھانے کیلیے ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینا ہوگا، زراعت پر انکم ٹیکس قابل عمل نہیں کیونکہ کاروباری افراد کے لیے انکم ٹیکس گوشوارے داخل کرانے مشکل ہیں تو کسان گوشوارے کیسے داخل کرا سکتے ہیں، کسانوں سے زرعی اجناس کی فروخت پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کر کے ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے، اس اقدام سے زرعی شعبہ ٹیکس نیٹ میں شامل ہو جائے گا اور ایف بی آر کے ریونیو میں بھی اضافہ ہو گا۔
ایک سوال کے جواب میں چیئرمین ٹیکس ٹریبونل نے بتایا کہ سیلز ٹیکس ریفنڈز کو مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ کر دیا جائے جس سے کاروباری افراد کو بروقت ریفنڈز ملیں گے اور بوگس ریفنڈز کا خاتمہ ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ پوری دنیا میں ٹیکس گزاروں کو عزت دی جاتی ہے، حکومت اگر ٹیکس گزاروں کو خصوصی مراعات دے اور زیادہ ٹیکس گزاروں کو تعریفی اسناد دی جائیں تو ٹیکس گزاروں کی حوصلہ افزائی ہوگی، نئے ٹیکس گزار پیدا ہوں گے جس سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ٹیکس ٹریبونل کے تمام دفاتر کو کمپیوٹرائز کیا جا رہا ہے جس کا آغاز تجرباتی بنیادوں پر کراچی سے کر دیا ہے، تمام ملازمین کی حاضری الیکٹرانک سسٹم کے ذریعے لگتی ہے، ملازمین کو ای میل کے ذریعے سرکاری پیغامات سے آگاہ کیا جاتا ہے تاکہ کارکردگی بہتر بنائی جا سکے۔
جاوید مسعود طاہر بھٹی نے بتایا اس وقت ٹیکس ٹریبونل میں 12ہزار کے قریب ٹیکس مقدمات زیر سماعت ہیں، تمام ممبران کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ ٹیکس مقدمات کی تیزی سے سماعت کریں تاکہ ٹیکس گزاروں کے کیس جلد از جلد نمٹائے جا سکیں، سابق حکومت کے دور میں سات ماہ تک ٹیکس ٹریبونل میں ممبران کی تعیناتی نہ ہونے کی وجہ سے ٹیکس مقدمات میں اضافہ ہوا لیکن اب تمام ممبران کی تقرری سے ٹیکس گزاروں کے مقدمات تیزی سے نمٹائے جا رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں چیئرمین ٹیکس ٹریبونل نے بتایا کہ سالانہ رولز کمیٹی کا اجلاس اس سال اکتوبر یا نومبر میں متوقع ہے جس میں تمام ممبران کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
ٹیکس ٹریبونل ان لینڈ ریونیو کے چیئرمین جاوید مسعود طاہر بھٹی نے بتایا کہ ملک میں صرف 26 لاکھ ٹیکس گزار ہیں جن کی تعداد بڑھانے کیلیے ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینا ہوگا، زراعت پر انکم ٹیکس قابل عمل نہیں کیونکہ کاروباری افراد کے لیے انکم ٹیکس گوشوارے داخل کرانے مشکل ہیں تو کسان گوشوارے کیسے داخل کرا سکتے ہیں، کسانوں سے زرعی اجناس کی فروخت پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کر کے ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے، اس اقدام سے زرعی شعبہ ٹیکس نیٹ میں شامل ہو جائے گا اور ایف بی آر کے ریونیو میں بھی اضافہ ہو گا۔
ایک سوال کے جواب میں چیئرمین ٹیکس ٹریبونل نے بتایا کہ سیلز ٹیکس ریفنڈز کو مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ کر دیا جائے جس سے کاروباری افراد کو بروقت ریفنڈز ملیں گے اور بوگس ریفنڈز کا خاتمہ ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ پوری دنیا میں ٹیکس گزاروں کو عزت دی جاتی ہے، حکومت اگر ٹیکس گزاروں کو خصوصی مراعات دے اور زیادہ ٹیکس گزاروں کو تعریفی اسناد دی جائیں تو ٹیکس گزاروں کی حوصلہ افزائی ہوگی، نئے ٹیکس گزار پیدا ہوں گے جس سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ٹیکس ٹریبونل کے تمام دفاتر کو کمپیوٹرائز کیا جا رہا ہے جس کا آغاز تجرباتی بنیادوں پر کراچی سے کر دیا ہے، تمام ملازمین کی حاضری الیکٹرانک سسٹم کے ذریعے لگتی ہے، ملازمین کو ای میل کے ذریعے سرکاری پیغامات سے آگاہ کیا جاتا ہے تاکہ کارکردگی بہتر بنائی جا سکے۔
جاوید مسعود طاہر بھٹی نے بتایا اس وقت ٹیکس ٹریبونل میں 12ہزار کے قریب ٹیکس مقدمات زیر سماعت ہیں، تمام ممبران کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ ٹیکس مقدمات کی تیزی سے سماعت کریں تاکہ ٹیکس گزاروں کے کیس جلد از جلد نمٹائے جا سکیں، سابق حکومت کے دور میں سات ماہ تک ٹیکس ٹریبونل میں ممبران کی تعیناتی نہ ہونے کی وجہ سے ٹیکس مقدمات میں اضافہ ہوا لیکن اب تمام ممبران کی تقرری سے ٹیکس گزاروں کے مقدمات تیزی سے نمٹائے جا رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں چیئرمین ٹیکس ٹریبونل نے بتایا کہ سالانہ رولز کمیٹی کا اجلاس اس سال اکتوبر یا نومبر میں متوقع ہے جس میں تمام ممبران کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔