نظام تعلیم اور نصاب تعلیم بھی توجہ کے طلبگار ہیں
مسئلہ یہ ہے کہ اب ہمارے اساتذہ صرف تنخواہ کےلیے پڑھاتے ہیں، جبکہ طلبہ صرف اِس لیے پڑھتے ہیں کہ وہ فیس ادا کرتے ہیں
ملکی منظر نامے پر نگاہ دوڑائیں، تو اِس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وطن عزیز میں حکمرانوں کی ترجیحات میں تو نظام تعلیم شامل ہی نہیں رہا۔ ابتدائی تعلیمی درسگاہوں سے لے کر جامعات تک کے طالبعلموں کو جو معیاری سہولیات فراہم کرنی چاہئیں، اِن کا فقدان ہے؛ جو دُنیا کی ترقی پذیر ممالک کو حاصل ہیں۔
تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ کسی بھی قوم کی اپنی زبان ذریعہ تعلیم ہو تو وہ قوم ترقی کے مدارج طے کرتی ہیں اور منازل کا حصول آسان ہوجاتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا راز اِس کے تعلیمی نظام میں پنہاں ہوتا ہے۔ فروغ تعلیم کے ذریعے ہی افراد عِلم و آگہی کی دولت سے آشنا ہوسکتے ہیں۔
وطن عزیز کو روز اوّل سے ہی تعلیمی مسائل کا سامنا ہے، مگر آج تک اِن مسائل کو حل کرنے کےلیے سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں، بلکہ دن بہ دن مزید اس میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔ اِس طبقاتی تعلیمی نظام نے معاشرے کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا ہے، جو آگے چل کر درجنوں طبقاتی نظام میں منقسم ہوجاتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور اقوام اپنی قومی زبان میں سائنسی عُلوم و فنون میں تعلیم و تدریس کرتے ہیں۔ چین، رُوس، جرمنی، فرانس کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح اِن ممالک نے اپنی قومی زبان کو فوقیت دی اور ترقی کی دوڑ میں ہم سے آگے نکل گئے۔ لیکن پاکستان نے اپنی قومی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کےلیے تجربات میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر دیا۔ جبکہ ہمارے بعد آزادی کی نعمت سے فیض یاب ہونے والے ممالک نے اپنی قومی زبان کو تعلیم کا ذریعہ بنایا اور ہم سے زیادہ ترقی یافتہ بن گئے۔
دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے جو ہم پیچھے رہ گئے اِس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی قومی زبان کو ترجیح نہیں دی۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مختلف ادوار میں اصلاحات کے نام پر کیے جانے والے اقدامات کے باوجود ملک کے نظام تعلیم میں ابھی تک کوئی بہتری نہیں آسکی ہے۔ ہم آج شرح خواندگی کے اعتبار سے دوسرے ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔ ایک دور تھا جب عربی، فارسی اور اردو کو ترجیح دی جاتی تھی، اِنہی زبانوں کی بدولت ہم شِبلی نعمانی، سَر سید احمد خان، علامہ اقبال جیسی اشخاص کے عِلم سے فیض یاب ہوئے ہیں۔ اِس کے بعد ہم نے عَربی کو ختم کیا، پھر فارسی، اب اردو زبان کو وہ اہمیت حاصل نہیں جو انگریزی زبان کو حاصل ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ ہمارا دوہرا نظام تعلیم ہے جو اردو مِیڈیم اور انگریزی مِیڈیم میں بٹا ہوا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا نظام تعلیم ترقی کرے اور ہم اس میں بہتری کے خواہاں ہیں، تو سب سے پہلے پرائمری سطح کی تعلیم یکساں طور پر دی جائے۔ کیونکہ آٹھ دس سال کی عمر بچوں کی نشونما اور سیکھنے کی ہوتی ہے، جس سے ان کی شخصیت پر مثبت تاثر پڑتا ہے۔ گزشتہ چند سال پہلے تک کتابوں، تقریروں اور مباحثوں کے ذریعے ہی نسل نو کی تخلیقی صلاحیتوں میں نِکھار پیدا کیا جاتا تھا، لیکن اب تعلیمی اداروں میں ایسے پُروگرامز کم ہی منعقد کیے جاتے ہیں۔
ایک ٹی وی چینل نے اِس روایت کو دوباره قائم کرنے کی کوشش تو کی ہے، لیکن باقی دیگر چینلز نے وہی روایتی مارننگ شو والا انداز اپنایا ہوا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کی خامی یہ ہے کہ اِس میں استاد صرف تنخواہ کےلیے پڑھاتا ہے، جبکہ طلبہ صرف اِس لیے پڑھتے ہیں کہ وہ فیس ادا کرتے ہیں۔ ہمارے نظام تعلیم میں موجود تاجرانہ سوچ کی وجہ سے اساتذہ کا احترام ختم ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا نوجوان عِلمی میدان میں مسلسل ناکامی سے دوچار ہے۔
اب ایک طرف اساتذہ کِلاس میں لیکچر دے کر اپنی جان چھڑانے کو ترجیح دیتے ہیں، تو دوسری طرف طالب علم بھی سیکھنے کے متحمل نہیں، بس نصاب کو رٹ رٹا کر امتحان پاس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نوجوانوں کی اکثریت پڑھنا ہی نہیں چاہتی، بلکہ ہمارے نظام تعلیم نے ان کو یہ عادت ڈال دی ہے کہ وہ برسوں پرانے نوٹس کی فوٹو کاپی کرواکر اپنا فرض پورا کردیتے ہیں۔ محنت کرنے کی بجائے ان کو تمام لیکچرز نوٹس کی صورت میں بیٹھے بیٹھائے مِل جاتے ہیں۔ نظام تعلیم کی بہتری اور طلبہ کے وسیع تر مفاد کےلیے ضروری ہے کہ اساتذہ کرام کو جدید طریقہ ہائے تدریس سے روشناس کرانے کےلیے خصوصی تربیت دی جائے، تاکہ وہ طلبہ کو اپنی زبان کے ساتھ ساتھ دوسرے مضامین میں بھی مہارت حاصل کرکے اپنا معاون کردار ادا کر سکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ کسی بھی قوم کی اپنی زبان ذریعہ تعلیم ہو تو وہ قوم ترقی کے مدارج طے کرتی ہیں اور منازل کا حصول آسان ہوجاتا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا راز اِس کے تعلیمی نظام میں پنہاں ہوتا ہے۔ فروغ تعلیم کے ذریعے ہی افراد عِلم و آگہی کی دولت سے آشنا ہوسکتے ہیں۔
وطن عزیز کو روز اوّل سے ہی تعلیمی مسائل کا سامنا ہے، مگر آج تک اِن مسائل کو حل کرنے کےلیے سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں، بلکہ دن بہ دن مزید اس میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔ اِس طبقاتی تعلیمی نظام نے معاشرے کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا ہے، جو آگے چل کر درجنوں طبقاتی نظام میں منقسم ہوجاتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور اقوام اپنی قومی زبان میں سائنسی عُلوم و فنون میں تعلیم و تدریس کرتے ہیں۔ چین، رُوس، جرمنی، فرانس کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح اِن ممالک نے اپنی قومی زبان کو فوقیت دی اور ترقی کی دوڑ میں ہم سے آگے نکل گئے۔ لیکن پاکستان نے اپنی قومی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کےلیے تجربات میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر دیا۔ جبکہ ہمارے بعد آزادی کی نعمت سے فیض یاب ہونے والے ممالک نے اپنی قومی زبان کو تعلیم کا ذریعہ بنایا اور ہم سے زیادہ ترقی یافتہ بن گئے۔
دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے جو ہم پیچھے رہ گئے اِس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی قومی زبان کو ترجیح نہیں دی۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مختلف ادوار میں اصلاحات کے نام پر کیے جانے والے اقدامات کے باوجود ملک کے نظام تعلیم میں ابھی تک کوئی بہتری نہیں آسکی ہے۔ ہم آج شرح خواندگی کے اعتبار سے دوسرے ممالک سے بہت پیچھے ہیں۔ ایک دور تھا جب عربی، فارسی اور اردو کو ترجیح دی جاتی تھی، اِنہی زبانوں کی بدولت ہم شِبلی نعمانی، سَر سید احمد خان، علامہ اقبال جیسی اشخاص کے عِلم سے فیض یاب ہوئے ہیں۔ اِس کے بعد ہم نے عَربی کو ختم کیا، پھر فارسی، اب اردو زبان کو وہ اہمیت حاصل نہیں جو انگریزی زبان کو حاصل ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ ہمارا دوہرا نظام تعلیم ہے جو اردو مِیڈیم اور انگریزی مِیڈیم میں بٹا ہوا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا نظام تعلیم ترقی کرے اور ہم اس میں بہتری کے خواہاں ہیں، تو سب سے پہلے پرائمری سطح کی تعلیم یکساں طور پر دی جائے۔ کیونکہ آٹھ دس سال کی عمر بچوں کی نشونما اور سیکھنے کی ہوتی ہے، جس سے ان کی شخصیت پر مثبت تاثر پڑتا ہے۔ گزشتہ چند سال پہلے تک کتابوں، تقریروں اور مباحثوں کے ذریعے ہی نسل نو کی تخلیقی صلاحیتوں میں نِکھار پیدا کیا جاتا تھا، لیکن اب تعلیمی اداروں میں ایسے پُروگرامز کم ہی منعقد کیے جاتے ہیں۔
ایک ٹی وی چینل نے اِس روایت کو دوباره قائم کرنے کی کوشش تو کی ہے، لیکن باقی دیگر چینلز نے وہی روایتی مارننگ شو والا انداز اپنایا ہوا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کی خامی یہ ہے کہ اِس میں استاد صرف تنخواہ کےلیے پڑھاتا ہے، جبکہ طلبہ صرف اِس لیے پڑھتے ہیں کہ وہ فیس ادا کرتے ہیں۔ ہمارے نظام تعلیم میں موجود تاجرانہ سوچ کی وجہ سے اساتذہ کا احترام ختم ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا نوجوان عِلمی میدان میں مسلسل ناکامی سے دوچار ہے۔
اب ایک طرف اساتذہ کِلاس میں لیکچر دے کر اپنی جان چھڑانے کو ترجیح دیتے ہیں، تو دوسری طرف طالب علم بھی سیکھنے کے متحمل نہیں، بس نصاب کو رٹ رٹا کر امتحان پاس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نوجوانوں کی اکثریت پڑھنا ہی نہیں چاہتی، بلکہ ہمارے نظام تعلیم نے ان کو یہ عادت ڈال دی ہے کہ وہ برسوں پرانے نوٹس کی فوٹو کاپی کرواکر اپنا فرض پورا کردیتے ہیں۔ محنت کرنے کی بجائے ان کو تمام لیکچرز نوٹس کی صورت میں بیٹھے بیٹھائے مِل جاتے ہیں۔ نظام تعلیم کی بہتری اور طلبہ کے وسیع تر مفاد کےلیے ضروری ہے کہ اساتذہ کرام کو جدید طریقہ ہائے تدریس سے روشناس کرانے کےلیے خصوصی تربیت دی جائے، تاکہ وہ طلبہ کو اپنی زبان کے ساتھ ساتھ دوسرے مضامین میں بھی مہارت حاصل کرکے اپنا معاون کردار ادا کر سکیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔