اخراجات زیادہ وسائل محدود
یہاں صرف دوسروں پر الزام اور تنقید مقصد بن کر رہ گیا ہے۔
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کا واحد ملک ہے جس کے وسائل محدود اور اخراجات زیادہ یعنی لا محدود ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی اس بات پر حیرت کا اظہارکیا ہے کہ مسلسل خسارے میں چلنے والی پی آئی اے کے سی ای او کی ماہانہ تنخواہ تقریباً 37 لاکھ روپے ہے۔ چیف جسٹس نے پنجاب میں بھی سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی طرف سے ٹاسک فورسز بنانے اور مرضی کے اعلیٰ افسروں کے نذر اور ان کی بھاری تنخواہوں اور مراعات پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔
پاکستان شاید وہ ملک بھی ہے جہاں صدر مملکت وزیراعظم، چیف جسٹس پاکستان اور آرمی چیف جسٹس سب سے بڑے ملکی عہدیدار ہیں ان کی بھی اتنی تنخواہیں نہیں ہیں جتنی حکومتی اداروں کے سربراہوں کی ہیں ۔ ملک میں کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں، ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز، اتنی بڑی بڑی سرکاری رہائش گاہوں میں رہتے ہیں جتنی بڑی رہائش عمارت برطانیہ سمیت متعدد ممالک کے وزرائے اعظم کو بھی میسر نہیں۔
پاکستان میں برطانیہ کی طرح بادشاہت تو نہیں مگر ملک کے صدر، وزیراعظم، گورنر اور وزرائے اعلیٰ سرکاری طور پر فراہم ہونے والے وسیع و عریض شاہی محلات جیسے گھروں میں رہتے ہیں۔ صدر مملکت سے لے کر ایک ڈپٹی کمشنر کے دفاتر اور گھروں میں سیکڑوں سے لے کر درجنوں ملازمین ان کی خدمت اور ان کے گھروں کے کاموں کے لیے تعینات ہیں جہاں صدر مملکت کی ایک سال کی اتنی تنخواہ نہیں بنتی ہوگی جتنی ان کی خدمت اور حفاظت پر مامور ملازمین کی اجتماعی طور پر ایک ہفتے کی بنتی ہوگی۔
ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر کے گھر و دفتر میں ان کی خدمت حفاظت، آمد و رفت کی سرکاری گاڑیوں پر ایک ماہ میں جو خرچہ آتا ہے اتنی ڈپٹی کمشنر کی ایک سال کی مجموعی تنخواہ بھی نہیں بنتی مگر ڈپٹی کمشنر سے صدر مملکت تک سب کے شاہانہ سرکاری اخراجات اس قدر ہیں کہ جس کے وہ حقدار نہیں ہیں۔ صدر مملکت، وزیراعظم، گورنر، وزرائے اعلیٰ اور وفاقی و صوبائی وزراء کے استعمال اور ضرورت کے لیے درجنوں سرکاری گاڑیاں مختص ہیں جن کی مرمت و پٹرول کے اخراجات کا کوئی شمار نہیں ۔ عہدوں سے فارغ ہوکر ان کی جانیں محفوظ اور گھریلو اخراجات محدود ہوجاتے ہیں اور سرکاری پروٹوکول ختم ہونے کے بعد انھیں اپنی حفاظت کے لیے اپنے ذاتی اخراجات سے سیکیورٹی گارڈ رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
وطن عزیز میں سیاست دان جب تک وزیر و مشیر یا حکمران نہ بن جائیں ان کی جانوں کو کوئی بھی خطرہ لاحق نہیں ہوتا اور حکومت میں آتے ہی انھیں اپنی حفاظت کے لیے اہلکاروں کی ضرورت پڑ جاتی ہے جو کہ ان کی ضرورت نہیں دکھاوا اور دوسروں پر رعب ڈالنے کے لیے سیکیورٹی کے جھرمٹ میں سفرکرنا فخر بن جاتا ہے۔ اس غریب ملک میں سرکاری عہدہ ملتے ہی اپنی ذاتی گاڑی گیراج میں محفوظ یا فروخت کر دی جاتی ہے اور سرکاری گاڑی ملنے کے بعد صرف ان کا ہی نہیں بلکہ ان کی فیملی اور اگر وزیر بننے سے زیادہ گاڑیاں کنٹرول میں آ جائیں تو وہ اپنے دوستوں اور پارٹی رہنماؤں کو بھی سرکاری گاڑی سفر کے لیے دینے سے گریز نہیں کرتے۔
صوبہ سندھ کی تازہ مثال موجود ہے جہاں پانچ ماہ گزر جانے کے بعد بھی سابق وزیر، مشیر، معاونین، خلوص اور ارکان اسمبلی استحقاق نہ ہونے کے باوجود سرکاری گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں اور حکومتی ہدایات کے باوجود واپس نہیں کر رہے۔ یہاں صرف دوسروں پر الزام اور تنقید مقصد بن کر رہ گیا ہے۔ سابق حکمرانوں پر الزام بادشاہت لگانے والے اپنے اقتدار میں آ کر خود بادشاہ بن گئے اور سادگی اور پروٹوکول نہ لینے کے دعویداروں کا یہ حال ہے کہ وزیراعظم کوئٹہ میں 19 گاڑیوں کا پروٹوکول میں دورہ کرتے ہیں۔
صدر مملکت کی فیملی کی شاپنگ میں چار سرکاری گاڑیاں ساتھ ہوتی ہیں اور گورنر سندھ اور وفاقی وزرا تھر کے دورے پر جاتے ہیں تو شہر بند کر دیا جاتا ہے اور گاڑیوں کی لمبی قطاروں میں دورہ مکمل ہوتا ہے۔ ہر حکومت اپنوں کو نوازنا اپنی ترجیحات میں شامل ضرور رکھتی ہے جہاں اب وفاق ہی نہیں پنجاب سے بھی زیادہ وزیر سندھ حکومت کا حصہ ہیں اور وفاق کی تقلید میں سندھ میں وزیروں کی بھرتی مکمل نہیں ہو رہی۔
نیب اور ایف آئی اے اب سابق حکومتوں میں رہنے والوں کی غیر قانونی تقرریوں پر ایکشن میں ہے کہ انھوں نے خلاف ضابطہ من مانی تقرریاں کر کے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا تھا اور جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو یہ ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے اور اب نئی حکومت کی خوشنودی کے لیے سابق حکمرانوں کے اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات کا سورج تیزی سے چمک رہا ہے۔
سندھ میں کالجوں سے رابطوں کے لیے کبھی کوآرڈینیٹر کا عہدہ ہی نہیں ہوتا تھا، مگر اب کسی خاص بندے کو نواز نے کے لیے یہ نیا عہدہ تخلیق کیا گیا ہے۔ سندھ میں نوازے گئے ڈی آئی جیز کی بھرمار ہے، محکمے میں ایس پیز کی قلت ہو گئی ہے۔ ماضی میں ہر صوبے میں یہی ہوا مگر غریب ملک میں ہونے والے شاہی اخراجات روکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور اب نئے پاکستان میں بھی اپنوں کو مختلف طریقوں سے نوازنا نہ صرف جاری ہے بلکہ ضرورت بنا ہوا ہے۔
جنوبی ایشیا کے غریب ملک پاکستان میں یہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی وجہ قوم کی بد قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے جسے قائد اعظم، شہید ملت اور سردار عبدالرب نشتر جیسے حکمران نہیں ملے، جو سرکاری خزانے کو امانت سمجھ کر استعمال کرتے تھے اور سرکاری رقم دوستوں اور عزیزوں پر توکیا خود اپنے اوپر پر خرچ کرنا غلط، غیر قانونی سمجھتے تھے۔
پاکستان شاید وہ ملک بھی ہے جہاں صدر مملکت وزیراعظم، چیف جسٹس پاکستان اور آرمی چیف جسٹس سب سے بڑے ملکی عہدیدار ہیں ان کی بھی اتنی تنخواہیں نہیں ہیں جتنی حکومتی اداروں کے سربراہوں کی ہیں ۔ ملک میں کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں، ڈی آئی جیز اور ایس ایس پیز، اتنی بڑی بڑی سرکاری رہائش گاہوں میں رہتے ہیں جتنی بڑی رہائش عمارت برطانیہ سمیت متعدد ممالک کے وزرائے اعظم کو بھی میسر نہیں۔
پاکستان میں برطانیہ کی طرح بادشاہت تو نہیں مگر ملک کے صدر، وزیراعظم، گورنر اور وزرائے اعلیٰ سرکاری طور پر فراہم ہونے والے وسیع و عریض شاہی محلات جیسے گھروں میں رہتے ہیں۔ صدر مملکت سے لے کر ایک ڈپٹی کمشنر کے دفاتر اور گھروں میں سیکڑوں سے لے کر درجنوں ملازمین ان کی خدمت اور ان کے گھروں کے کاموں کے لیے تعینات ہیں جہاں صدر مملکت کی ایک سال کی اتنی تنخواہ نہیں بنتی ہوگی جتنی ان کی خدمت اور حفاظت پر مامور ملازمین کی اجتماعی طور پر ایک ہفتے کی بنتی ہوگی۔
ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر کے گھر و دفتر میں ان کی خدمت حفاظت، آمد و رفت کی سرکاری گاڑیوں پر ایک ماہ میں جو خرچہ آتا ہے اتنی ڈپٹی کمشنر کی ایک سال کی مجموعی تنخواہ بھی نہیں بنتی مگر ڈپٹی کمشنر سے صدر مملکت تک سب کے شاہانہ سرکاری اخراجات اس قدر ہیں کہ جس کے وہ حقدار نہیں ہیں۔ صدر مملکت، وزیراعظم، گورنر، وزرائے اعلیٰ اور وفاقی و صوبائی وزراء کے استعمال اور ضرورت کے لیے درجنوں سرکاری گاڑیاں مختص ہیں جن کی مرمت و پٹرول کے اخراجات کا کوئی شمار نہیں ۔ عہدوں سے فارغ ہوکر ان کی جانیں محفوظ اور گھریلو اخراجات محدود ہوجاتے ہیں اور سرکاری پروٹوکول ختم ہونے کے بعد انھیں اپنی حفاظت کے لیے اپنے ذاتی اخراجات سے سیکیورٹی گارڈ رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
وطن عزیز میں سیاست دان جب تک وزیر و مشیر یا حکمران نہ بن جائیں ان کی جانوں کو کوئی بھی خطرہ لاحق نہیں ہوتا اور حکومت میں آتے ہی انھیں اپنی حفاظت کے لیے اہلکاروں کی ضرورت پڑ جاتی ہے جو کہ ان کی ضرورت نہیں دکھاوا اور دوسروں پر رعب ڈالنے کے لیے سیکیورٹی کے جھرمٹ میں سفرکرنا فخر بن جاتا ہے۔ اس غریب ملک میں سرکاری عہدہ ملتے ہی اپنی ذاتی گاڑی گیراج میں محفوظ یا فروخت کر دی جاتی ہے اور سرکاری گاڑی ملنے کے بعد صرف ان کا ہی نہیں بلکہ ان کی فیملی اور اگر وزیر بننے سے زیادہ گاڑیاں کنٹرول میں آ جائیں تو وہ اپنے دوستوں اور پارٹی رہنماؤں کو بھی سرکاری گاڑی سفر کے لیے دینے سے گریز نہیں کرتے۔
صوبہ سندھ کی تازہ مثال موجود ہے جہاں پانچ ماہ گزر جانے کے بعد بھی سابق وزیر، مشیر، معاونین، خلوص اور ارکان اسمبلی استحقاق نہ ہونے کے باوجود سرکاری گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں اور حکومتی ہدایات کے باوجود واپس نہیں کر رہے۔ یہاں صرف دوسروں پر الزام اور تنقید مقصد بن کر رہ گیا ہے۔ سابق حکمرانوں پر الزام بادشاہت لگانے والے اپنے اقتدار میں آ کر خود بادشاہ بن گئے اور سادگی اور پروٹوکول نہ لینے کے دعویداروں کا یہ حال ہے کہ وزیراعظم کوئٹہ میں 19 گاڑیوں کا پروٹوکول میں دورہ کرتے ہیں۔
صدر مملکت کی فیملی کی شاپنگ میں چار سرکاری گاڑیاں ساتھ ہوتی ہیں اور گورنر سندھ اور وفاقی وزرا تھر کے دورے پر جاتے ہیں تو شہر بند کر دیا جاتا ہے اور گاڑیوں کی لمبی قطاروں میں دورہ مکمل ہوتا ہے۔ ہر حکومت اپنوں کو نوازنا اپنی ترجیحات میں شامل ضرور رکھتی ہے جہاں اب وفاق ہی نہیں پنجاب سے بھی زیادہ وزیر سندھ حکومت کا حصہ ہیں اور وفاق کی تقلید میں سندھ میں وزیروں کی بھرتی مکمل نہیں ہو رہی۔
نیب اور ایف آئی اے اب سابق حکومتوں میں رہنے والوں کی غیر قانونی تقرریوں پر ایکشن میں ہے کہ انھوں نے خلاف ضابطہ من مانی تقرریاں کر کے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا تھا اور جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو یہ ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے اور اب نئی حکومت کی خوشنودی کے لیے سابق حکمرانوں کے اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات کا سورج تیزی سے چمک رہا ہے۔
سندھ میں کالجوں سے رابطوں کے لیے کبھی کوآرڈینیٹر کا عہدہ ہی نہیں ہوتا تھا، مگر اب کسی خاص بندے کو نواز نے کے لیے یہ نیا عہدہ تخلیق کیا گیا ہے۔ سندھ میں نوازے گئے ڈی آئی جیز کی بھرمار ہے، محکمے میں ایس پیز کی قلت ہو گئی ہے۔ ماضی میں ہر صوبے میں یہی ہوا مگر غریب ملک میں ہونے والے شاہی اخراجات روکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور اب نئے پاکستان میں بھی اپنوں کو مختلف طریقوں سے نوازنا نہ صرف جاری ہے بلکہ ضرورت بنا ہوا ہے۔
جنوبی ایشیا کے غریب ملک پاکستان میں یہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی وجہ قوم کی بد قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے جسے قائد اعظم، شہید ملت اور سردار عبدالرب نشتر جیسے حکمران نہیں ملے، جو سرکاری خزانے کو امانت سمجھ کر استعمال کرتے تھے اور سرکاری رقم دوستوں اور عزیزوں پر توکیا خود اپنے اوپر پر خرچ کرنا غلط، غیر قانونی سمجھتے تھے۔