نون لیگ کے اکابرین کی پر اسرار خاموشی
میاں نواز شریف اپنی قبل از وقت معزولی سے لے کر جیل جانے تک مبینہ خلائی مخلوق کے خلاف بہت کچھ بولتے رہے۔
ایک زمانہ تھا جب ہماری جیسی کمزور، مجبور اور لاچار قوموں کے حکمراں ملک وقوم کے کئی اہم معاملات اپنے غیر ملکی سر پرستوں اور آقاؤں کے ساتھ بالا ہی بالا طے کر لیا کرتے تھے اور لوگوں کو خبر بھی ہونے نہیں دی جاتی تھی ۔ انھیں پتہ بھی نہیں چلنے دیا جاتا تھا کہ اُن کی قسمت اورمستقبل کا سودا کس غیر ملکی طاقت کے ہاتھوں طے کردیا گیا ہے۔ اِسے بین الاقوامی سفارتی زبان میں''بیک ڈور چینل یا خاموش ڈپلومیسی'' کاخوبصورت نام دے کر اِس سارے مبہم اور مشکوک کام کو قانونی اور جائز بنا لیا جاتا تھا۔
ہماری سڑکیں، شاہراہیں، بندرگاہیں اور ہوائی اڈے سب کے سب اُن کے استعمال میں دے دی جاتی تھیں اور عوام الناس کے کانوں میں بھنک بھی پڑنے نہیں دی جاتی تھی۔ اُن دنوں ہمارا الیکٹرانک میڈیا اتنا وائبرنٹ بھی نہیں تھا، لہٰذا اِن سارے افعال قبیحہ کی کوئی خبر عوام تک پہنچ بھی نہیں پاتی تھی۔ اسٹرٹیجک پارٹنرکی حیثیت سے ہم اپنی وحدت وسالمیت کے تمام جملہ حقوق اِن عالمی طاقتوں کے سپرد کر دیا کرتے تھے اور لوگوں کو پتہ بھی نہیں چل پاتا تھا۔کئی سال تک یہی کچھ ہوتا رہا اور قوم کو اُس وقت ہوش آتا جب چڑیاں کھیت چگ چکی ہوتیں۔ اپنی چیزیں غیروں سے چھڑانے کا وقت آیا تواُس کا کریڈٹ بھی ہمارے حکمرانوں نے اپنے نام لکھوایا۔
خاموش ڈپلومیسی یا بیک ڈور چینل کا نسخہ اتنا مؤثر اورکار آمد تھا کہ ہم نے اِسے اپنے اندرونِ خانہ سیاسی معاملات میں بھی اِس کا استعمال شروع کردیا۔ پرویز مشرف دورکے آخری ایام میں بینظیر بھٹو اور خود پرویزمشرف کے مابین دبئی میں ہونے والاخفیہ سمجھوتہ جسے عرف عام میں این آر او کہا گیا وہ بھی ایسی ہی کسی خاموش ڈپلومیسی کا شاخسانہ تھا اور جس کے تحت آصف علی زرداری اپنے تمام سابقہ گناہوں سے اِس طرح پاک صاف کردیے گئے جیسے وہ انھوں نے کبھی کیے ہی نہ تھے۔ یہ این آر او معاہدے کی ہی کرامات تھیں کہ آصف زرداری جیسا شخص بعد ازاں اِس مملکت خدا داد کے سب سے مقدس اور محترم منصب پرفائز بھی ہوا اورپانچ سال تک اپنے خلاف کسی بھی عدالتی کارروائی سے مستثنیٰ بھی قرار پایا۔
ابھی دو سال پہلے کی بات ہے کہ یہی آصف زرداری اپنے خلاف بڑھتے ہوئے احتسابی شکنجے کو قریب آتا دیکھ کر اتنے مشتعل اور سیخ پا ہوئے کہ ایک شعلہ اگلتی اشتعال انگیز جذباتی تقریرکر ڈالی اور مقتدر قوتوں کو اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکیاں بھی دے ڈالیں۔ ہوش آیا تو فوراً ایک پڑوسی ملک کے راہ لی اور دس گیارہ ماہ کے لیے بالکل گم سم اور خاموش ہوگئے۔ وہ اُس وقت تک کچھ نہ بولے جب تک ایک نیا آرمی چیف منتخب نہیں کر لیا گیا ۔ پھر جب حالات ساز گار ہوتے دکھائی دینے لگے تو واپس آکر ایک بار پھر وطن عزیزکی آزاد فضاؤں میں دوستی اور مفاہمت کے جوہر دکھانے لگے۔ ی
ہ خاموش ڈپلومیسی کا نتیجہ تھا کہ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کوگرانے اور سینیٹ میں اُن کی اکثریت قائم نہ ہونے دینے کی کوششوں میں زرداری کو کھلی چھٹی دے دی گئی اور عدلیہ سمیت کسی نے انھیں نہیں روکا۔ ہارس ٹریڈنگ کے بد نام زمانہ کاروبارکو ایک بار پھر جمہوریت کا حسن سمجھ کر نہ صرف برداشت کیا گیا بلکہ در پردہ اُس کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی۔ زرداری صاحب کو آج بھی اِن تمام کاموں کی اُس وقت تک کھلی چھٹی اور اجازت ہے جبتک وہ مسلم لیگ (ن) کو آگے بڑھنے سے روکتے رہیںگے۔ یہی وجہ ہے کہ معاملہ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کا ہو یا پھر قومی اسمبلی کے اسپیکرکے انتخاب کا ایک مضبوط اپوزیشن کوکمزور ترین بنانے میں زرداری صاحب ایک مہرے کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔
میاں نواز شریف اپنی قبل از وقت معزولی سے لے کر جیل جانے تک مبینہ خلائی مخلوق کے خلاف بہت کچھ بولتے رہے۔ جی ٹی روڈ سے لے کر اڈیالہ جیل تک اُن کا سفر بہت پرجوش اور ولولہ انگیز تھا۔ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اس دفعہ ہار ماننے والے نہیں۔ انھیں چوہدری نثار اور خود میاں شہباز شریف نے بہت سمجھایا لیکن وہ اپنے اِن ناصحوں سے بھی خفا ہوگئے، مگر اب اُن کی سوچ میں کچھ تبدیلی دکھائی دینے لگی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں اڈیالہ سے رہائی نے اُن کا انداز فکر ہی بدل ڈالا ہے۔ وہ بیگم کلثوم نوازکی ناگہانی وفات کے صدمے کو لے کر ایسے چپ ہوئے کہ کچھ بولتے ہی نہیں۔ عدالتوں میں پیشیوں کے موقعے پر بھی صحافیوں کے سوالوں کا وہ کوئی ٹھوس جواب دینے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ خاموش ڈپلومیسی کی افایت کے قائل ہوچکے ہیں۔ وہ نہ صرف بذات خود خاموش ہوچکے ہیں بلکہ اپنی صاحبزادی کو بھی چپ رہنے پر قائل کر چکے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ انھوں نے اپنی پارٹی کے تمام جوشیلے ساتھیوں کو بھی فی الحال کچھ عرصے کے لیے خاموش رہنے کا مشورہ دے ڈالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دانیال عزیز، طلال چوہدری، پرویز رشید، خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق بھی اپنی عادت کے برخلاف خاموش رہنے پر مجبور ہیں۔ اِن سب کی یہ خاموشی کسی ممکنہ طوفان کا پیش خیمہ ہرگز نہیں ہے بلکہ حالات اور وقت کے تحت یا کسی مصلحت کی وجہ سے جبراً اختیارکردہ معلوم ہوتی ہے، وہ اگر ایسا نہ کرتے تو شاید کسی مقدس ادارے کی توہین کے جرم میں ایک ایک کرکے سبھی جیل یاترا پر مجبور ہو جاتے۔ اب نہ ''ووٹ کو عزت دو'' کی باتیں ہو رہی ہیں اور نہ جمہوریت کو بچانے کی قسمیں ہیں۔
وزیراعظم عمران خان، وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری اور وزیر ریل اور مواصلات شیخ رشید، میاں نواز شریف اور اُن کے رفقاء کی اِس خاموشی سے خاصے مضطرب دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ مقتدر حلقے اُن کی اِس خاموشی سے متاثر ہوکر پس پردہ کہیں کوئی سمجھوتہ نہ کر لیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی این آر او کے نہ کیے جانے کا بار بار نہ تذکرہ کرکے نہ صرف اپنے آپ کو بھی ہمت و دلاسہ دیتے رہتے ہیں بلکہ در پردہ بالواسطہ طور پر خفیہ طاقتوں کو بھی اپنی پریشانی اور بے چینی سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔
میاں صاحب کی اِس پر اسرار خاموشی کے پیچھے حکمت ودانائی کے وہی رازچھپے ہوئے ہیں جن کا ادارک اگر انھیں پہلے ہو جاتا تو معاملات اِس نہج پر نہیں پہنچتے اور ممکن ہے وہ آج تک نہ صرف برسر اقتدار رہتے۔ بھرپور طاقت کی حامل مقتدر قوتوں سے ٹکرا کر انھوں نے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے پورے خاندان سمیت پارٹی کے کئی پرخلوص جاں نثاروں کو بھی انتہائی مشکل میں ڈال دیا۔ ایسا کرکے میاں صاحب نے اپنے سابقہ گناہوں کاکفارہ تو ضرور ادا کر دیا لیکن اِس جرأت رندانہ کی سزا وہ اور اُن کے ساتھی نجانے کب تک بھگتتے رہیں گے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ آیا وہ کب تک غالب قوتوں کے سامنے اپنے اِسی غیر متزلزل فولادی عزم اور ہمت و حوصلے کے ساتھ ڈٹے رہتے ہیں یا پھرجاں بخشی کے لیے اندرون خانہ بیک ڈور چینل کے ذریعے کسی خفیہ سمجھوتے پر راضی ہو جاتے ہیں۔
ہماری سڑکیں، شاہراہیں، بندرگاہیں اور ہوائی اڈے سب کے سب اُن کے استعمال میں دے دی جاتی تھیں اور عوام الناس کے کانوں میں بھنک بھی پڑنے نہیں دی جاتی تھی۔ اُن دنوں ہمارا الیکٹرانک میڈیا اتنا وائبرنٹ بھی نہیں تھا، لہٰذا اِن سارے افعال قبیحہ کی کوئی خبر عوام تک پہنچ بھی نہیں پاتی تھی۔ اسٹرٹیجک پارٹنرکی حیثیت سے ہم اپنی وحدت وسالمیت کے تمام جملہ حقوق اِن عالمی طاقتوں کے سپرد کر دیا کرتے تھے اور لوگوں کو پتہ بھی نہیں چل پاتا تھا۔کئی سال تک یہی کچھ ہوتا رہا اور قوم کو اُس وقت ہوش آتا جب چڑیاں کھیت چگ چکی ہوتیں۔ اپنی چیزیں غیروں سے چھڑانے کا وقت آیا تواُس کا کریڈٹ بھی ہمارے حکمرانوں نے اپنے نام لکھوایا۔
خاموش ڈپلومیسی یا بیک ڈور چینل کا نسخہ اتنا مؤثر اورکار آمد تھا کہ ہم نے اِسے اپنے اندرونِ خانہ سیاسی معاملات میں بھی اِس کا استعمال شروع کردیا۔ پرویز مشرف دورکے آخری ایام میں بینظیر بھٹو اور خود پرویزمشرف کے مابین دبئی میں ہونے والاخفیہ سمجھوتہ جسے عرف عام میں این آر او کہا گیا وہ بھی ایسی ہی کسی خاموش ڈپلومیسی کا شاخسانہ تھا اور جس کے تحت آصف علی زرداری اپنے تمام سابقہ گناہوں سے اِس طرح پاک صاف کردیے گئے جیسے وہ انھوں نے کبھی کیے ہی نہ تھے۔ یہ این آر او معاہدے کی ہی کرامات تھیں کہ آصف زرداری جیسا شخص بعد ازاں اِس مملکت خدا داد کے سب سے مقدس اور محترم منصب پرفائز بھی ہوا اورپانچ سال تک اپنے خلاف کسی بھی عدالتی کارروائی سے مستثنیٰ بھی قرار پایا۔
ابھی دو سال پہلے کی بات ہے کہ یہی آصف زرداری اپنے خلاف بڑھتے ہوئے احتسابی شکنجے کو قریب آتا دیکھ کر اتنے مشتعل اور سیخ پا ہوئے کہ ایک شعلہ اگلتی اشتعال انگیز جذباتی تقریرکر ڈالی اور مقتدر قوتوں کو اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکیاں بھی دے ڈالیں۔ ہوش آیا تو فوراً ایک پڑوسی ملک کے راہ لی اور دس گیارہ ماہ کے لیے بالکل گم سم اور خاموش ہوگئے۔ وہ اُس وقت تک کچھ نہ بولے جب تک ایک نیا آرمی چیف منتخب نہیں کر لیا گیا ۔ پھر جب حالات ساز گار ہوتے دکھائی دینے لگے تو واپس آکر ایک بار پھر وطن عزیزکی آزاد فضاؤں میں دوستی اور مفاہمت کے جوہر دکھانے لگے۔ ی
ہ خاموش ڈپلومیسی کا نتیجہ تھا کہ بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کوگرانے اور سینیٹ میں اُن کی اکثریت قائم نہ ہونے دینے کی کوششوں میں زرداری کو کھلی چھٹی دے دی گئی اور عدلیہ سمیت کسی نے انھیں نہیں روکا۔ ہارس ٹریڈنگ کے بد نام زمانہ کاروبارکو ایک بار پھر جمہوریت کا حسن سمجھ کر نہ صرف برداشت کیا گیا بلکہ در پردہ اُس کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی۔ زرداری صاحب کو آج بھی اِن تمام کاموں کی اُس وقت تک کھلی چھٹی اور اجازت ہے جبتک وہ مسلم لیگ (ن) کو آگے بڑھنے سے روکتے رہیںگے۔ یہی وجہ ہے کہ معاملہ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کا ہو یا پھر قومی اسمبلی کے اسپیکرکے انتخاب کا ایک مضبوط اپوزیشن کوکمزور ترین بنانے میں زرداری صاحب ایک مہرے کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔
میاں نواز شریف اپنی قبل از وقت معزولی سے لے کر جیل جانے تک مبینہ خلائی مخلوق کے خلاف بہت کچھ بولتے رہے۔ جی ٹی روڈ سے لے کر اڈیالہ جیل تک اُن کا سفر بہت پرجوش اور ولولہ انگیز تھا۔ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اس دفعہ ہار ماننے والے نہیں۔ انھیں چوہدری نثار اور خود میاں شہباز شریف نے بہت سمجھایا لیکن وہ اپنے اِن ناصحوں سے بھی خفا ہوگئے، مگر اب اُن کی سوچ میں کچھ تبدیلی دکھائی دینے لگی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں اڈیالہ سے رہائی نے اُن کا انداز فکر ہی بدل ڈالا ہے۔ وہ بیگم کلثوم نوازکی ناگہانی وفات کے صدمے کو لے کر ایسے چپ ہوئے کہ کچھ بولتے ہی نہیں۔ عدالتوں میں پیشیوں کے موقعے پر بھی صحافیوں کے سوالوں کا وہ کوئی ٹھوس جواب دینے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ خاموش ڈپلومیسی کی افایت کے قائل ہوچکے ہیں۔ وہ نہ صرف بذات خود خاموش ہوچکے ہیں بلکہ اپنی صاحبزادی کو بھی چپ رہنے پر قائل کر چکے ہیں۔
ساتھ ہی ساتھ انھوں نے اپنی پارٹی کے تمام جوشیلے ساتھیوں کو بھی فی الحال کچھ عرصے کے لیے خاموش رہنے کا مشورہ دے ڈالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دانیال عزیز، طلال چوہدری، پرویز رشید، خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق بھی اپنی عادت کے برخلاف خاموش رہنے پر مجبور ہیں۔ اِن سب کی یہ خاموشی کسی ممکنہ طوفان کا پیش خیمہ ہرگز نہیں ہے بلکہ حالات اور وقت کے تحت یا کسی مصلحت کی وجہ سے جبراً اختیارکردہ معلوم ہوتی ہے، وہ اگر ایسا نہ کرتے تو شاید کسی مقدس ادارے کی توہین کے جرم میں ایک ایک کرکے سبھی جیل یاترا پر مجبور ہو جاتے۔ اب نہ ''ووٹ کو عزت دو'' کی باتیں ہو رہی ہیں اور نہ جمہوریت کو بچانے کی قسمیں ہیں۔
وزیراعظم عمران خان، وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری اور وزیر ریل اور مواصلات شیخ رشید، میاں نواز شریف اور اُن کے رفقاء کی اِس خاموشی سے خاصے مضطرب دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ مقتدر حلقے اُن کی اِس خاموشی سے متاثر ہوکر پس پردہ کہیں کوئی سمجھوتہ نہ کر لیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی این آر او کے نہ کیے جانے کا بار بار نہ تذکرہ کرکے نہ صرف اپنے آپ کو بھی ہمت و دلاسہ دیتے رہتے ہیں بلکہ در پردہ بالواسطہ طور پر خفیہ طاقتوں کو بھی اپنی پریشانی اور بے چینی سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔
میاں صاحب کی اِس پر اسرار خاموشی کے پیچھے حکمت ودانائی کے وہی رازچھپے ہوئے ہیں جن کا ادارک اگر انھیں پہلے ہو جاتا تو معاملات اِس نہج پر نہیں پہنچتے اور ممکن ہے وہ آج تک نہ صرف برسر اقتدار رہتے۔ بھرپور طاقت کی حامل مقتدر قوتوں سے ٹکرا کر انھوں نے نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ اپنے پورے خاندان سمیت پارٹی کے کئی پرخلوص جاں نثاروں کو بھی انتہائی مشکل میں ڈال دیا۔ ایسا کرکے میاں صاحب نے اپنے سابقہ گناہوں کاکفارہ تو ضرور ادا کر دیا لیکن اِس جرأت رندانہ کی سزا وہ اور اُن کے ساتھی نجانے کب تک بھگتتے رہیں گے۔ دیکھنا اب یہ ہے کہ آیا وہ کب تک غالب قوتوں کے سامنے اپنے اِسی غیر متزلزل فولادی عزم اور ہمت و حوصلے کے ساتھ ڈٹے رہتے ہیں یا پھرجاں بخشی کے لیے اندرون خانہ بیک ڈور چینل کے ذریعے کسی خفیہ سمجھوتے پر راضی ہو جاتے ہیں۔