محکمہ صحت سندھ کے بیشتر پروگرام غیر فعال تحقیقاتی کمیٹی قائم
انسداد نابینا پن پروگرام منصوبے کو سول اسپتال کراچی سے حیدرآباد منتقل کیا جا رہا ہے۔
محکمہ صحت سندھ کے بیشتر پروگرام غیرفعال ہیں تاہم تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی۔
صوبائی محکمہ صحت کے ماتحت چلنے والے صحت کے بیشتر منصوبوں کی کارکردگی پرسوالات اٹھادیے گئے۔ متاثرہ مریضوں کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ غریب مریضوں کے نام پر بجٹ میں صحت کے ان منصوبوں میں سالانہ اربوں روپے مختص کرنے کا اعلان کرتی ہے لیکن ان منصوبوں میں مریضوںکودوا تک نہیں ملتی، صوبے میں صحت کے12 سے زائدمختلف منصوبے جاری ہیں جس کے لیے حکو مت سندھ نے اربوں روپے سالانہ مختص کرتی ہے لیکن ان میں بیشتر منصوبے صرف کاغذات پر رکھے گئے ہیں۔ ان میں متعدد منصوبوں کے لیے بجٹ کتاب میں رقم بھی مختص کی جاتی ہے۔
ایک منصوبہ577 ملین کی لاگت سے500 بستروں پر مشتمل نیپا اسپتال قائم کرنا تھا جس کیلیے آلات کی خریداری بھی کی گئی لیکن بعدازاں عوام کے اس منصوبے کوصوبائی کابینہ سے منظوری لے کرجناح اسپتال سے رٹائر ہونے والے ایک آرتھوپیڈک ڈاکٹر کے حوالے کرنے کا عملی پروگرام بنالیا گیا اوراسپتال کا نام بھی تبدیل کرکے سرکاری اسپتال کو خودمختار بناکر سیاسی بنیادوں پر ایک ڈاکٹرکے نام کرنے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں صرف اس بات کا انتظار کیا جارہا ہے کہ رٹائرہونے والے ڈاکٹرکے2سال مکمل ہوتے ہی اسپتال ڈاکٹرکے حوالے کردیا جائے۔
اسی طرح صوبے میں انسداد نابیناکنٹرول پروگرام، انسدادغذائی قلت، انسداد ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام، سندھ ایڈزکنٹرول پروگرام، انسداد ٹی بی کنٹرول پروگرام، لیڈیزہیلتھ ورکرز پروگرام، ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کا پروگرام سمیت دیگرمنصوبے شامل ہیں جوعملاً غیرفعال ہیں، ان اہم منصوبوںپرمنظورنظرافسران کوانتظامی سربراہان مقررکررکھاہے جس کی وجہ سے صحت کے جاری منصوبوںکی کارکردگی سوالیہ نشان بن گئی ہے۔
صوبائی محکمہ صحت کے ماتحت چلنے والے صحت کے بیشتر منصوبوں کی کارکردگی پرسوالات اٹھادیے گئے۔ متاثرہ مریضوں کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ غریب مریضوں کے نام پر بجٹ میں صحت کے ان منصوبوں میں سالانہ اربوں روپے مختص کرنے کا اعلان کرتی ہے لیکن ان منصوبوں میں مریضوںکودوا تک نہیں ملتی، صوبے میں صحت کے12 سے زائدمختلف منصوبے جاری ہیں جس کے لیے حکو مت سندھ نے اربوں روپے سالانہ مختص کرتی ہے لیکن ان میں بیشتر منصوبے صرف کاغذات پر رکھے گئے ہیں۔ ان میں متعدد منصوبوں کے لیے بجٹ کتاب میں رقم بھی مختص کی جاتی ہے۔
ایک منصوبہ577 ملین کی لاگت سے500 بستروں پر مشتمل نیپا اسپتال قائم کرنا تھا جس کیلیے آلات کی خریداری بھی کی گئی لیکن بعدازاں عوام کے اس منصوبے کوصوبائی کابینہ سے منظوری لے کرجناح اسپتال سے رٹائر ہونے والے ایک آرتھوپیڈک ڈاکٹر کے حوالے کرنے کا عملی پروگرام بنالیا گیا اوراسپتال کا نام بھی تبدیل کرکے سرکاری اسپتال کو خودمختار بناکر سیاسی بنیادوں پر ایک ڈاکٹرکے نام کرنے کی تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں صرف اس بات کا انتظار کیا جارہا ہے کہ رٹائرہونے والے ڈاکٹرکے2سال مکمل ہوتے ہی اسپتال ڈاکٹرکے حوالے کردیا جائے۔
اسی طرح صوبے میں انسداد نابیناکنٹرول پروگرام، انسدادغذائی قلت، انسداد ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام، سندھ ایڈزکنٹرول پروگرام، انسداد ٹی بی کنٹرول پروگرام، لیڈیزہیلتھ ورکرز پروگرام، ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کا پروگرام سمیت دیگرمنصوبے شامل ہیں جوعملاً غیرفعال ہیں، ان اہم منصوبوںپرمنظورنظرافسران کوانتظامی سربراہان مقررکررکھاہے جس کی وجہ سے صحت کے جاری منصوبوںکی کارکردگی سوالیہ نشان بن گئی ہے۔