سندھ میں یتیم خانوں کی ازسرنو رجسٹریشن کا فیصلہ سروے کرایا جائے گا
صوبے بھر میں یتیم خانوں میں مقیم بچوں کے حوالے سے کوئی ریکارڈ اور ڈیٹا دستیاب نہیں ہے، ذرائع محکمہ سماجی بہبود سندھ
سندھ حکومت نے صوبے بھر کے یتیم خانوں کو ازسرنو رجسٹرڈ کرنے اور انھیں 1976کے ایکٹ کے تحت قانون کا پابند کرنے کے لیے سروے کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
کراچی سمیت سندھ بھر میں درجنوں یتیم خانے 1976کے مروجہ ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ نہ ہونے کا انکشاف ہواہے۔ یتیم خانے سندھ اورفنیج سپرویژن اینڈ کنٹرول بورڈ سے لائسنس یافتہ ہونے کے بجائے این جی اوز کے نام پر رجسٹرڈ کروا کر چلائے جارہے ہیں۔
اس حوالے سے محکمہ سماجی بہبود سندھ کے ذرائع نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ صوبے بھر میں یتیم خانوں میں مقیم بچوں کے حوالے سے کوئی ریکارڈ اور ڈیٹا دستیاب نہیں ہے جبکہ یتیم خانے مروجہ قواعد کے برخلاف کام کررہے ہیں، یتیم خانوں کو ملنے والے ملکی وبیرونی فنڈنگ کا ریکارڈ اور یتیم بچوں کو دی جانی والی تعلیمی ، طبی اور دیگر سماجی سہولیات کے حوالے سے بھی صورتحال حوصلہ افزا نہیں ہے۔ بیشتر یتیم خانوں کے پاس بھاری فنڈز موجود ہیں مگر یتیم بچوں کو اعلی تعلیم یا کوئی حصول روزگار میں معاون فنی مہارت فراہم نہیں کی جاتی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی کے صرف ایک یتیم خانے کا جب سرکاری سطح پر کمرشل آڈٹ کرایاگیا تو مالی بے ضابطگی سامنے آئی جبکہ سماجی سطح پر خطرناک صورتحال یہ ہے کہ یتیم خانوں میں مقیم کم عمر بچوں کا مستقبل بہتر بنانے یا انھیں معاشرے کا کا رآمد فرد بنانے کے لیے کوئی مربوط اور ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔
دوسری جانب صوبائی سیکریٹری محکمہ سماجی بہبود طحہ فاروقی نے اس حوالے سے ایکسپریس کو بتایا کہ 1976 کے مروجہ ایکٹ کے تحت یتیم خانوں کی رجسٹریشن ،لائسنسنگ اور یتیم خانوں کی انسپیکشن کے لیے ازسر نو سروے کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
کراچی سمیت سندھ بھر میں درجنوں یتیم خانے 1976کے مروجہ ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ نہ ہونے کا انکشاف ہواہے۔ یتیم خانے سندھ اورفنیج سپرویژن اینڈ کنٹرول بورڈ سے لائسنس یافتہ ہونے کے بجائے این جی اوز کے نام پر رجسٹرڈ کروا کر چلائے جارہے ہیں۔
اس حوالے سے محکمہ سماجی بہبود سندھ کے ذرائع نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ صوبے بھر میں یتیم خانوں میں مقیم بچوں کے حوالے سے کوئی ریکارڈ اور ڈیٹا دستیاب نہیں ہے جبکہ یتیم خانے مروجہ قواعد کے برخلاف کام کررہے ہیں، یتیم خانوں کو ملنے والے ملکی وبیرونی فنڈنگ کا ریکارڈ اور یتیم بچوں کو دی جانی والی تعلیمی ، طبی اور دیگر سماجی سہولیات کے حوالے سے بھی صورتحال حوصلہ افزا نہیں ہے۔ بیشتر یتیم خانوں کے پاس بھاری فنڈز موجود ہیں مگر یتیم بچوں کو اعلی تعلیم یا کوئی حصول روزگار میں معاون فنی مہارت فراہم نہیں کی جاتی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی کے صرف ایک یتیم خانے کا جب سرکاری سطح پر کمرشل آڈٹ کرایاگیا تو مالی بے ضابطگی سامنے آئی جبکہ سماجی سطح پر خطرناک صورتحال یہ ہے کہ یتیم خانوں میں مقیم کم عمر بچوں کا مستقبل بہتر بنانے یا انھیں معاشرے کا کا رآمد فرد بنانے کے لیے کوئی مربوط اور ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔
دوسری جانب صوبائی سیکریٹری محکمہ سماجی بہبود طحہ فاروقی نے اس حوالے سے ایکسپریس کو بتایا کہ 1976 کے مروجہ ایکٹ کے تحت یتیم خانوں کی رجسٹریشن ،لائسنسنگ اور یتیم خانوں کی انسپیکشن کے لیے ازسر نو سروے کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔