مضر صحت اشیاء کی فروخت عروج پر

کیا حکومت اس اہم مسئلے پر قابو پاسکے گی؟

کیا حکومت اس اہم مسئلے پر قابو پاسکے گی؟ فوٹو : فائل

شہر کراچی کے مختلف علاقوں بالخصوص اولڈ سٹی ایریاز میں صفائی کے ناقص انتظامات، گندگی کے ڈھیر، اُبلتے گٹروں کا مسئلہ تو کافی پُرانا ہے جس پر کافی کچھ لکھا اور مختلف فورمز پر بولا جا چکا ہے۔

یہ ایسے مسائل ہیں جو ملک کے کم وبیش تمام شہروں میں یکساں طور پر موجود ہیں۔ ذرایع ابلاغ آئے روز ایسے بے شمار مسائل کا احاطہ کر رہے ہیں۔آخر ہم کس ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں، کیا ہمارے ملک میں قانون نام کی کوئی شے موجود ہے؟ ہر شخص اپنے تئیں خود مختار بنا بیٹھا ہے۔ جس کے بس میں جو آتا ہے بغیر کسی روک ٹوٹ کے کر گزرتا ہے، چاہے وہ عمل کتنا ہی غیر قانونی و غیر اخلاقی ہی کیوں نہ ہو۔ کوئی بیچ سڑک پر ٹھیلا لگا کر پوری ٹریفک جام کر دے، یا ذخیرہ اندوزی کرکے راتوں رات اپنے مال کی قیمت آسمان پر پہنچا دے، اُسے نہ ہی قانون کا ڈر ہے اور نہ ہی اس بات کا خوف کہ کل مرنے کے بعد آخرت میں جواب دہی ہونی ہے۔

یہ تمام مسائل تو اپنی جگہ اہم ہیں ہی، اس کے ساتھایک سنگین مسئلہ ہمارے ہاں ملاوٹ اور ناقص اشیاء کی فروخت کا بھی ہے۔ ہمارے علم میں ہے کہ قصائی مردہ اور بیمار جانوروں کو بھی ذبح کر کے اور اُن کا گوشت ہم تک پہنچا رہے ہیں۔ اُن کے مذبح خانے گندگی سے اٹے ہوئے ہیں۔ گوشت جن گاڑیوں میں لادا جاتا ہے اُن کی حالت بھی انتہائی خستہ ہوتی ہے۔ پھر پورا راستہ گرد و غبار اور دھویں میں جانوروں کا گوشت ہم تک پہنچتا ہے اور اس طرح حفظانِ صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔



کبھی ہم سنتے ہیں کہ بھینس کے بچے کا گوشت بکری کا گوشت بنا کر فروخت کیا جا رہا ہے تو کبھی ان میں پانی بھر کر مصنوعی طریقے سے وزن بڑھانے کی وارداتیں سامنے آتی ہیں۔ گھی کمپنیوں میں جائیں تو وہاں گندگی کی ایک الگ ہی داستان ہوتی ہے۔ پھر دودھ میں ملاوٹ، آٹے اور چینی میں ملاوٹ، عام پانی کو خاص بنا کر منہگے داموں فروخت کرنا، ایک طویل سلسلہ ہے جس کا ترقی یافتہ تو دور کسی ترقی پذیر ممالک میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔

عوام کی صحت، تعلیم اور اُن کی جان و مال کا تحفظ حکومت کی اولین ذمے داری ہوتی ہے لیکن اگر ہمارے ملک میں ان تینوں شعبوں کا جائزہ لیا جائے تو صورت حال انتہائی افسوس ناک دکھائی دیتی ہے۔ صارفین کو پتا نہیں چلتا کہ جو کچھ وہ کھا رہے ہیں آیا وہ اس قابل بھی ہے کہ اُسے کھایا جائے؟ گلی، محلے اور بازار تو ایک طرف اسکولوں کے باہر شکرین ملا شربت اور گنڈے گولے فروخت ہو رہے ہیں، جن سے معصوم بچوں کی صحت تباہ کی جارہی ہے۔ دکانوں پر پان، گٹکے کی نت نئی اقسام کھلے عام فروخت ہوتی ہیں اور نوجوان نسل بڑی تیزی سے اس میں مبتلا ہو رہی ہے۔ اسپتالوں میں جائیں تو کئی نوجوان یہ مضرِصحت اشیاء استعمال کر کے زندگی کی آخری سانسیں لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے مضر صحت اشیاء کی فروخت روکنے میں مکمل طور پر بے بس دکھائی دیتے ہیں۔


سبزیاں لینے جائیں تو وہاں بھی ایک الگ نوحہ ہے۔ بازاروں میں گندگی تو ایک طرف، صارفین کو یہ بھی نہیں پتا چلتا کہ جن زمینوں پر یہ سبزیاں کاشت ہوئی ہیں، اُن زمینوں کو کس پانی سے سیراب کیا گیا ہے۔ اخبارات اور ٹیلی ویژن پر اس حوالے سے مختلف رپورٹس آتی رہتی ہیں کہ ندی نالوں اور بعض اوقات فیکٹریوں کے گندے پانی سے بعض زمینیں سیراب کی جا رہی ہیں۔ لیکن انتظامیہ اور متعلقہ محکمے اس طرف سے غفلت برت رہے ہیں۔ شہر میں جگہ جگہ فروٹ کی ریڑھیاں لگی ہوئی ہیں جہاں لوگ خوب صورت انداز میں کٹا ہوا پھل دیکھ کر للچا جاتے ہیں اور اُسے کھانے کے لیے لپکتے ہیں۔ اُنہیں اندازہ ہی نہیں کہ جو کچھ وہ کھانے جا رہے ہیں اس میں بھی مصنوعی طریقے سے مٹھاس بھری گئی ہے، ساتھ ہی ساتھ گرد و غبار اور دھواں الگ سے ان پر پڑتا دکھائی دیتا ہے۔

آخر حکومت کب حرکت میں آئے گی اور کب عوام کو صاف شفاف اشیاء کھانے کو میسر آئیں گی۔ رمضان کی آمد آمد ہے، اس مقدس مہینے میں ویسے ہی اشیاء خوردونوش کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ اس موقع پر ایک طرف ذخیرہ اندوز موقع کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں تو دوسری طرف کئی لوگ ناقص اشیاء فروخت کر کے عوام کی بے بسی کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ حکومتی سطح پر ہر سال رمضان المبارک سے قبل قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے اور عوام تک خالص اشیاء کی فراہمی کے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں لیکن آخر میں ہوتا وہی ہے جو ہمیشہ سے ہم دیکھتے آ رہے ہیں۔

لوگوں کو کھانے پینے کی صاف ستھری اشیاء کی فراہمی کے حوالے سے گزشتہ دنوں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر ہاشم رضا زیدی کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں سینئر ڈائیریکٹر میڈیکل اینڈ ہیلتھ سروسز ڈاکٹر محمد علی عباسی، سینئر ڈائیریکٹر میونسپل سروسز مسعود عالم اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں ایڈمنسٹریٹر کراچی ہاشم رضا زیدی نے کہا کہ موسم گرما کے حوالے سے شہری تمام تر احتیاطی تدابیر احتیار کریں تاکہ وہ خود کو مختلف وبائی امراض سے محفوظ رکھ سکیں۔



انہوں نے محکمہ میڈیکل اینڈ ہیلتھ سروسز کو ہدایت کی کہ وہ ضلعی میونسپل کارپوریشنز اور دیگر متعلقہ محکموں کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ دکان دار اور ہوٹل مالکان جالی لگا کر اشیائے خوردونوش کو گردو غبار سے محفوظ رکھیں اور ساتھ ہی دکان داروں، خوانچہ فروشوں اور ٹھیلے والوں کو تنبیہ کی جائے کہ وہ گرد و غبار سے اٹی اور ملاوٹ شدہ خوردنی اشیاء، گلے سڑے پھل اور ناقص مشروبات فروخت کرنے سے باز رہیں، ورنہ ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کہا کہ مون سون کی بارشوں کے دوران شہری لازمی احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔

انہوں نے محکمہ میونسپل سروسز کو ہدایت کی کہ بارشوں کے دوران شہر کے تمام علاقوں میں جراثیم کش اسپرے کو جاری رکھا جائے اور اسپرے کے شیڈول پر مکمل عمل درآمد کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ برساتی نالوں کی صفائی کا عمل بھی جلد از جلد مکمل کر لیا جائے تاکہ برساتی پانی کی نکاسی بہتر انداز میں ممکن ہوسکے اور شہریوں کو بارشوں میں کم سے کم زحمت کا سامنا ہو۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت اور بالخصوص شہری انتظامیہ رمضان المبارک میں عوام تک صاف ستھری اور خالص اشیاء کی کنٹرولڈ قیمتوں پر فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ صفائی ستھرائی کے مسئلے کا مستقبل حل تلاش کرے۔ اس مقصد کے لیے قانون کو حرکت میں آنا ہوگا اور زبانی کلامی دعووں کے بجائے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
Load Next Story