طبی مراکز بھی کرپشن سے محفوظ نہیں
کیا انکوائری کمیٹی کی واضح رپورٹ پر کارروائی ہوسکے گی؟
سکھر سمیت بالائی سندھ کے سرکاری ہسپتالوں اور درس گاہوں کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو یہ انتہائی مایوس کن نظر آتی ہے۔
حکومت کی اس ناقص کارکردگی کا ناجائز فائدہ نجی اداروں، ہسپتالوں اور درس گاہوں کو ہو رہا ہے جو معیار کے نام پر عوام سے بھاری فیسیں وصول کر رہے ہیں۔ اگرچہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے مذکورہ اداروں پر خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے، مگر اس کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ رہے۔ ان دونوں اداروں کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے سکھر اور گردونواح کے مکینوں کو شدید دشواری کا سامنا ہے۔ موسم گرما اور سرما کے دوران درجنوں افراد مختلف امراض میں مبتلا ہوکر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
حکومت کی جانب سے ان دونوں محکموں پر خطیر رقم خرچ ہونے کے باوجود بالائی سندھ میں متعلقہ اداروں کے افسران فنڈز اور ملازمین تنخواہوں کی کمی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کے معالجین اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی بڑی تعداد غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے قائم رفاحی ہسپتالوں اور اپنے کلینکس پر مریضوں کا علاج تو بڑی خوش دلی سے کرتے ہیں لیکن یہی عملہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج کے لیے حیلے بہانے بناتا نظر آتا ہے۔ غلام محمد مہر میڈیکل کالج سول ہسپتال، انور پراچہ ہسپتال، تعلقہ ہسپتال روہڑی، بیسک ہیلتھ یونٹ بچل شاہ، تعلقہ ہسپتال پنوعاقل و دیگر سرکاری اداروں، ڈسپنسریوں، بنیادی ہیلتھ یونٹس میں آنے والے افراد علاج معالجے کی بہتر سہولتیں حاصل کرنے کے بجائے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر یہاں سے جاتے ہیں۔
سکھر سمیت اندرون سندھ کے ان طبی مراکز پر نظر ڈالی جائے تو ان میں خرابی کی ایک اہم وجہ نام ور ادویہ ساز کمپنی کے وہ نمائندے بھی ہیں جو اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے ڈاکٹروں کو مراعات اور ٹور پیکیج دیتے ہیں۔ حکومتی کوششوں اور اقدامات کے باوجود اس اہم شعبے کی کارکردگی آج تک وہ نہیں رہی جن مقاصد کے لیے انہیں قائم کیا گیا تھا۔ غلام محمد مہر میڈیکل کالج سول ہسپتال سمیت دیگر سرکاری ہسپتالوں کی عمارتوں کی حالت انتہائی خستہ ہے۔
سکھر اور آس پاس کے علاقوں میں فرائض انجام دینے والے بیش تر افراد جنہیں عام شہری مسیحا کا درجہ دیتے ہیں ان کی لاپرواہی اور غفلت کے باعث شہریوں، معصوم بچوں کی اموات ہونا معمول بن چکا ہے مگر متعلقہ ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ متعلقہ اداروں کے افسران کی عدم توجہی اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے سکھر ریجن میں موجود میڈیکل اسٹوروں، نجی ہسپتالوں اور کلینکس میں غیر معیاری ادویات کا استعمال عام ہے، مگر انتظامیہ نے اس اہم مسئلے پر اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ نوبت یہ آ چکی ہے کہ چند ہزار روپے رشوت لے کر نائب قاصد، قاصد اور کلرک کے معیار پر بھی پورا نہ اترنے والے لوگوں کو میڈیکل اسٹورکھولنے کے لیے جعلی ڈرگ لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔
گزشتہ دونوں سکھر، روہڑی، پنوعاقل، صالح پٹ، گھوٹکی، ڈہرکی، اوباڑو، میرپور ماتھیلو، خیرپور، پریالو، پیر جو گوٹھ، نوشہروفیروز سمیت دیگر چھوٹے بڑے دیہی علاقوں میں چلنے والے میڈیکل اسٹوروں کو جاری ہونے والے ڈرگ لائسنس کے غیر مستند ہونے کے انکشاف کے بعد محکمہ صحت انتہائی متحرک ہوگیا۔ بعض شہریوں کی جانب سے ارسال کردہ درخواستوں کے بعد چیف ڈرگ انسپکٹر سندھ کے احکامات پر اعلیٰ سطحی انکوائری کے لیے 3 رکنی کمیٹی قائم کی گئی جس کے چیئرمین محمد ادریس شیخ اور اراکین میں غلام اکبر قاضی اور شاہ جہان شامل تھے۔
چند روز تک جاری رہنے والی انکوائری میں ڈسٹرکٹ ڈرگ انسپکٹر ایس ایم خورشید کی جانب سے یہ رپورٹ سامنے آئی کہ 2 جنوری 2010ء کے بعد سے آج تک کسی بھی شخص کو ڈرگ لائسنس جاری نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس حوالے سے ڈرگ لائسنس کی فیس، جو کہ نیشنل بینک میں جمع ہوتی ہے، کے چالان موجود ہیں۔ انکوائری میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ غیر مستند اور جعلی ڈرگ لائسنس کو مستند بنانے کے لیے غیر قانونی حربے استعمال کیے گئے۔ اس مقصد کے لیے بی فارمیسی کرنے والے نوجوانوں کے جعلی اسناد اور سرٹیفکیٹ کو استعمال کرکے لوگوں کو لائسنس جاری کیے گئے۔
جن افراد کے نام پر جعلی لائسنس جاری ہوئے انہوں نے انکوائری کمیٹی کے سامنے تحریری بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے کسی بھی قسم کا لائسنس نہیں لیا۔ نامعلوم افراد نے ہمارے فوٹو اور نام استعمال کرکے کام کیا۔ انکوائری کمیٹی نے چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری سندھ، چیف ڈرگ انسپکٹر سندھ، ایگزیکٹیو ہیلتھ آفیسر سکھر، محتسب اعلیٰ سکھر ریجن و دیگر متعلقہ افسران کو رپورٹ پیش کرتے ہوئے سفارش کی ہے کہ ڈویژنل ڈرگ انسپکٹر کے دفتر میں تعینات بعض افسران خصوصاً نائب قاصد مذکورہ گھناؤنے کاروبار میں ملوث پائے گئے ہیں اور مذکورہ اہلکار انکوائری میں طلب کیے جانے کے باوجود پیش نہیں ہوئے۔
ان کا فوری طور پر مذکورہ دفتر یا ہیلتھ آفس سے 3 سال تک ٹرانسفر کردیا جائے اور ڈی ایچ او کی جانب سے جاری ہونے والے کسی بھی لائسنس کو غیر مستند تصور کیا جائے۔ 6 جون 2013 ء کو جاری ہونے والی اعلیٰ سطحی انکوائری کی رپورٹ ملنے کے بعد محکمہ صحت سندھ نے افسران و اہلکاروں کے لیے مزید محکمہ جاتی کارروائی کے لیے کام شروع کر دیا ہے اور آئندہ چند روز میں اس کام میں ملوث افسران و اہلکاروں کے خلاف کارروائی متوقع ہے۔ سکھر ڈویژن کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں پر محکمہ صحت میں تعینات افسران خصوصاً ڈرگ انسپکٹر کی عدم توجہی کی وجہ سے ہیلتھ قوانین کی سنگین خلاف ورزی جاری ہے۔ ڈرگ انسپکٹر میں تعینات اہلکار شہر سمیت آس پاس کے علاقوں میں موجود میڈیکل اسٹورز سے ماہانہ بھاری نذرانہ وصول کرکے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں اور مذکورہ افراد کو سیاسی جماعتوں کے با اثر افراد کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔
حکومت کی اس ناقص کارکردگی کا ناجائز فائدہ نجی اداروں، ہسپتالوں اور درس گاہوں کو ہو رہا ہے جو معیار کے نام پر عوام سے بھاری فیسیں وصول کر رہے ہیں۔ اگرچہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے مذکورہ اداروں پر خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے، مگر اس کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ رہے۔ ان دونوں اداروں کی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے سکھر اور گردونواح کے مکینوں کو شدید دشواری کا سامنا ہے۔ موسم گرما اور سرما کے دوران درجنوں افراد مختلف امراض میں مبتلا ہوکر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
حکومت کی جانب سے ان دونوں محکموں پر خطیر رقم خرچ ہونے کے باوجود بالائی سندھ میں متعلقہ اداروں کے افسران فنڈز اور ملازمین تنخواہوں کی کمی کا رونا روتے نظر آتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کے معالجین اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی بڑی تعداد غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے قائم رفاحی ہسپتالوں اور اپنے کلینکس پر مریضوں کا علاج تو بڑی خوش دلی سے کرتے ہیں لیکن یہی عملہ سرکاری ہسپتالوں میں علاج کے لیے حیلے بہانے بناتا نظر آتا ہے۔ غلام محمد مہر میڈیکل کالج سول ہسپتال، انور پراچہ ہسپتال، تعلقہ ہسپتال روہڑی، بیسک ہیلتھ یونٹ بچل شاہ، تعلقہ ہسپتال پنوعاقل و دیگر سرکاری اداروں، ڈسپنسریوں، بنیادی ہیلتھ یونٹس میں آنے والے افراد علاج معالجے کی بہتر سہولتیں حاصل کرنے کے بجائے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر یہاں سے جاتے ہیں۔
سکھر سمیت اندرون سندھ کے ان طبی مراکز پر نظر ڈالی جائے تو ان میں خرابی کی ایک اہم وجہ نام ور ادویہ ساز کمپنی کے وہ نمائندے بھی ہیں جو اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے ڈاکٹروں کو مراعات اور ٹور پیکیج دیتے ہیں۔ حکومتی کوششوں اور اقدامات کے باوجود اس اہم شعبے کی کارکردگی آج تک وہ نہیں رہی جن مقاصد کے لیے انہیں قائم کیا گیا تھا۔ غلام محمد مہر میڈیکل کالج سول ہسپتال سمیت دیگر سرکاری ہسپتالوں کی عمارتوں کی حالت انتہائی خستہ ہے۔
سکھر اور آس پاس کے علاقوں میں فرائض انجام دینے والے بیش تر افراد جنہیں عام شہری مسیحا کا درجہ دیتے ہیں ان کی لاپرواہی اور غفلت کے باعث شہریوں، معصوم بچوں کی اموات ہونا معمول بن چکا ہے مگر متعلقہ ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ متعلقہ اداروں کے افسران کی عدم توجہی اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے سکھر ریجن میں موجود میڈیکل اسٹوروں، نجی ہسپتالوں اور کلینکس میں غیر معیاری ادویات کا استعمال عام ہے، مگر انتظامیہ نے اس اہم مسئلے پر اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ نوبت یہ آ چکی ہے کہ چند ہزار روپے رشوت لے کر نائب قاصد، قاصد اور کلرک کے معیار پر بھی پورا نہ اترنے والے لوگوں کو میڈیکل اسٹورکھولنے کے لیے جعلی ڈرگ لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔
گزشتہ دونوں سکھر، روہڑی، پنوعاقل، صالح پٹ، گھوٹکی، ڈہرکی، اوباڑو، میرپور ماتھیلو، خیرپور، پریالو، پیر جو گوٹھ، نوشہروفیروز سمیت دیگر چھوٹے بڑے دیہی علاقوں میں چلنے والے میڈیکل اسٹوروں کو جاری ہونے والے ڈرگ لائسنس کے غیر مستند ہونے کے انکشاف کے بعد محکمہ صحت انتہائی متحرک ہوگیا۔ بعض شہریوں کی جانب سے ارسال کردہ درخواستوں کے بعد چیف ڈرگ انسپکٹر سندھ کے احکامات پر اعلیٰ سطحی انکوائری کے لیے 3 رکنی کمیٹی قائم کی گئی جس کے چیئرمین محمد ادریس شیخ اور اراکین میں غلام اکبر قاضی اور شاہ جہان شامل تھے۔
چند روز تک جاری رہنے والی انکوائری میں ڈسٹرکٹ ڈرگ انسپکٹر ایس ایم خورشید کی جانب سے یہ رپورٹ سامنے آئی کہ 2 جنوری 2010ء کے بعد سے آج تک کسی بھی شخص کو ڈرگ لائسنس جاری نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس حوالے سے ڈرگ لائسنس کی فیس، جو کہ نیشنل بینک میں جمع ہوتی ہے، کے چالان موجود ہیں۔ انکوائری میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ غیر مستند اور جعلی ڈرگ لائسنس کو مستند بنانے کے لیے غیر قانونی حربے استعمال کیے گئے۔ اس مقصد کے لیے بی فارمیسی کرنے والے نوجوانوں کے جعلی اسناد اور سرٹیفکیٹ کو استعمال کرکے لوگوں کو لائسنس جاری کیے گئے۔
جن افراد کے نام پر جعلی لائسنس جاری ہوئے انہوں نے انکوائری کمیٹی کے سامنے تحریری بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے کسی بھی قسم کا لائسنس نہیں لیا۔ نامعلوم افراد نے ہمارے فوٹو اور نام استعمال کرکے کام کیا۔ انکوائری کمیٹی نے چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری سندھ، چیف ڈرگ انسپکٹر سندھ، ایگزیکٹیو ہیلتھ آفیسر سکھر، محتسب اعلیٰ سکھر ریجن و دیگر متعلقہ افسران کو رپورٹ پیش کرتے ہوئے سفارش کی ہے کہ ڈویژنل ڈرگ انسپکٹر کے دفتر میں تعینات بعض افسران خصوصاً نائب قاصد مذکورہ گھناؤنے کاروبار میں ملوث پائے گئے ہیں اور مذکورہ اہلکار انکوائری میں طلب کیے جانے کے باوجود پیش نہیں ہوئے۔
ان کا فوری طور پر مذکورہ دفتر یا ہیلتھ آفس سے 3 سال تک ٹرانسفر کردیا جائے اور ڈی ایچ او کی جانب سے جاری ہونے والے کسی بھی لائسنس کو غیر مستند تصور کیا جائے۔ 6 جون 2013 ء کو جاری ہونے والی اعلیٰ سطحی انکوائری کی رپورٹ ملنے کے بعد محکمہ صحت سندھ نے افسران و اہلکاروں کے لیے مزید محکمہ جاتی کارروائی کے لیے کام شروع کر دیا ہے اور آئندہ چند روز میں اس کام میں ملوث افسران و اہلکاروں کے خلاف کارروائی متوقع ہے۔ سکھر ڈویژن کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں پر محکمہ صحت میں تعینات افسران خصوصاً ڈرگ انسپکٹر کی عدم توجہی کی وجہ سے ہیلتھ قوانین کی سنگین خلاف ورزی جاری ہے۔ ڈرگ انسپکٹر میں تعینات اہلکار شہر سمیت آس پاس کے علاقوں میں موجود میڈیکل اسٹورز سے ماہانہ بھاری نذرانہ وصول کرکے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں اور مذکورہ افراد کو سیاسی جماعتوں کے با اثر افراد کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔