پرویز مشرف پر مقدمے کے مضمرات
ابھی زیادہ عرصہ نہ ہوا برازیل کی سیاسی پارٹیوں نے مل کر مہنگائی کے خلاف عظیم الشان مظاہرے کیے۔
گزشتہ5برسوں سے مسلسل مذمتی قراردادیں ہمارے ملک کی اسمبلی منظور کر رہی ہے مگر مداوائے الم نہ ہوا بلکہ ہر قرارداد کے بعد ستم اور بڑھا، خون اور پھیلا۔ 5 برسوں کے بعد نئی اسمبلی آئی سوچا تھا کوئی فرق تو آئے گا، رفتہ رفتہ ہی آئے مگر ہندی زبان کی مثل ہے پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں، کچھ بھی نہ بدلا ہر شے زوال پذیر، ہر انڈسٹری بند، بجلی نہ ہونے، گیس نہ ہونے، بھتہ خوری کا عروج، ہر روز قتل وغارت گری کی نت نئی داستان ، ہر چیز کا علاج پریس کانفرنس اور قراردادوں سے۔
ابھی زیادہ عرصہ نہ ہوا برازیل کی سیاسی پارٹیوں نے مل کر مہنگائی کے خلاف عظیم الشان مظاہرے کیے، سڑک پر کھڑے ہونے والوں نے اسمبلی میں بیٹھنے والوں سے مطالبے منوا لیے مگر پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں مہنگائی، بے روزگاری، عوام کے قتل پر خاموش تماشائی ہیں، ملک پر سیاسی دباؤ، معاشی دباؤ اور اسی قسم کے اب ایسے ہی عالمی دباؤ آنے کو ہیں کہ حکومت کو اس کا مقابلہ کرنا آسان نہ ہوگا، افغان بحران کا اب وقت آخر ہے، ایک نئے بحران کا آغاز اب یہ بحران اور وسیع ہونے کو ہے کیونکہ طالبان کے نام پر کئی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں، کئی گروپ اور جن کے الگ الگ مقاصد ہیں، ایک وہ طالبان ہیں جو افغانستان کے فکری فرمان کے تابع، ایک وہ جو پاکستان کے حامی، ایک وہ جو ازخود طالبان ہیں اور پھر پنجابی طالبان سمیت کئی وہ دھڑے ہیں جو ان کے حامی اور مددگار ہیں۔
بعض کی کارروائیاں امریکی افواج کے خلاف ہیں تو بعض کی پاکستانی عمل داری کے خلاف جس کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ پشاور شہر سے ملحقہ علاقوں میں حکومت کی عمل داری رات ہوتے ہی ختم ہونے لگتی ہے جو لشکر بنائے گئے تھے کہ وہ طالبان کے خلاف صف آرا ہوں گے وہ بھی اس طویل گوریلا جنگ میں بے سود ثابت ہوئے اور اب تقریباً تحلیل کے مرحلے میں ہیں، جب کہ افغان حکومت کے حامی طالبان افغانستان کے سرحدی علاقوں کی توسیع پر یقین رکھتے ہیں، بعض گروہ اٹک کے پل تک افغانستان کا بارڈر چاہتے ہیں۔ غرض قیادت میں ایک خیال ایک قیادت اور ایک رخ نہیں ہے۔
خدا جانے ان کے حتمی مقاصد کیا ہیں اور ان کو کس طرح مربوط کیا جائے گا۔ ابھی قطر میں جس کانفرنس کا آغاز ہونا تھا اس آس پر جو جھنڈا نصب کیا گیا تھا اس جھنڈے پر تحریر تھا ''اسلامی امارات افغانستان'' مگر چند دنوں کے بعد مغربی بہادروں کے کہنے پر یہ جھنڈا دفتر پر سے اتار دیا گیا کیونکہ اس جھنڈے کے ساتھ بات چیت سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ افغان عوام کی نمایندہ حکومت کا دفتر ہے۔ کرزئی نے تو پہلے ہی روز انکار کردیا۔ پھر معاملات آگے بھی نہ بڑھے۔ وسیع مشاورت ضروری ہے۔
امریکی حکومت پاکستان کی سیاسی حکومت سے محض زبانی کلامی گفتگو کرتی ہے، اس سے یہ ظاہر ہوا کہ سیاسی قلم دان میں خارجہ کا قلم دان عملاً موجود نہیں، داخلہ کا قلم دان محض تقریر، تصویر اور قراردادوں تک ہی محدود ہے۔ اصل میں سیاسی حکومت کے اردگرد اہم اندرونی اور بیرونی مسائل ہیں جن کا ادراک ضروری ہے مگر دلچسپی کس چیز میں ہے، وہ ہے نمائش۔ اگر آپ کو یاد ہو تو جب نئی حکومت کی اسمبلی کے ارکان ایوان میں آئے تو ایسا لگا کہ جیسے کسی دعوت ولیمہ کی تقریب ہے زرق برق لباس، میک اپ کی زیادتی، خصوصاً خواتین نے تیز و شوخ رنگ کے لباس و آرائش گیسو کیا بیان ہو مردوں کا بھی شخصیت کو نمایاں کرنے میں کم نہ تھے، مگر پڑوس میں دیکھیں کل کا مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش ہے اس کی کرنسی ہم سے بلند ہے مگر حسینہ واجد سفید ساڑھی جس کی قیمت بمشکل 300 ٹکہ سے بھی کم ہوگی وہ زیب تن کرتی ہیں ، نہ نمائش نہ شوشا کیونکہ وہ قوم کی رہنما ہے سادگی دکھائے گی تو قوم آگے بڑھے گی یہ نہیں کہ امپورٹ کے بل ایکسپورٹ سے دگنے، پھر ایک کشکول جو آئی ایم ایف کے در پر لیے کھڑے ہیں۔
آئے ہیں تیرے در پہ تو کچھ لے جائیں گے! یہ کیسا تماشا ہے کہ اسمبلی اور وزارتوں کے اخراجات پورا ملک بھگتتا ہے، یہ ایک مذاق اور عوام کو بے وقوف بنانے کے سوا اور کیا ہے؟ جس ملک میں توانائی کا بدترین بحران ہو وہاں سرمایہ کاری کے لیے محفلیں سجائی جاتی ہیں۔ دوسری جانب آرٹیکل 6 کے تحت پرویز مشرف پر مقدمہ چلایا جاتا ہے اور منیر ملک کو اٹارنی جنرل بناکر حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ یہ مسئلہ بہت آسان ہے ، اس کے بعد کیا ہونے کو ہے کچھ اندازہ ہی نہیں کہ این آر او کے تحت اس سے پہلے کی اسمبلی معرض وجود میں آئی جس کی قیادت جناب زرداری کر رہے تھے، یہ معاہدے کن کے کہنے پر ہوئے تھے، آئین معطل کرانے والے تو حکومت میں وزارتوں پر فائز رہے، اس میں کچھ نہیں سیکڑوں پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں۔ جس کا جواب اٹارنی جنرل دینے سے قاصر رہیں گے، گویا ملک جو خود بحران میں ہے، اس کو سیاسی بحران میں مبتلا کرنا کون سی دانشمندی ہے۔
پاکستان میں اب تک جو بھی ہوا غلط ہوا۔ مشرف کے عمل سے صرف حکومت ہی تو بدلی گئی ملک کوئی جان سے تو نہ گیا، وہ بھی فرد واحد نے ایسا نہ کیا اس وقت کے تمام کورکمانڈر مشرف کے ساتھی تھے اور چوہدری برادران اور دیگر رہنما تو یہاں تک کہتے تھے کہ مشرف ہمیں وردی میں بھی منظور ہیں۔ تو جن لوگوں نے پرویز مشرف کی حکومت میں معاونت کی وہ کہاں جائیں گے۔ ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنا درست نہیں، شاید سیاسی بصیرت پوری حکمراں جماعت سے دور رہ گئی، کوئی بھی دیدہ ور اتنی بڑی حکومت میں نہیں کہ یہ عمل خودکشی کے مترادف آرٹیکل 6 کا ہندسہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت اس مسئلے کو خیرباد کہہ دے۔ پہلی توجہ انرجی، دوسری توجہ ملک کے نظم و ضبط کی ہے، مانا کہ پنجاب کی آبادی بڑی ہے، پنجاب کی عددی اعتبار سے فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے سوچنے کی ضرورت ہے۔
افغانستان سے امریکی افواج کی روانگی قریب ہے جانے کس قسم کی سیاسی تبدیلی ہمارے پختون علاقوں میں ہونے کو ہے، اگر قطر کانفرنس نے طالبان کے حق میں فیصلہ کیا یعنی کچھ لو اور کچھ دو تو کم ازکم طالبان 2 مطالبوں سے دستبردار نہ ہوں گے۔ اسلامی نظام حکومت اور نظام تعلیم ۔ اب یہاں مسئلہ یہ پیدا ہونے کو ہے کہ کابل میں اسلامی نظام کی تشریحات ہر مکتبہ فکر اپنے اعتبار سے کرے گا اور جوں جوں آپ شمال کی طرف چلیں تو فارسی زبان میں گفتگو کی جاتی ہے لہٰذا پشتو اور فارسی زبان بولنے والوں میں رسہ کشی ہوگی اور ایک نئی جنگ جیساکہ رشید دوستم کی ملیشیا نے کی تھی، ازبک اور دیگر لوگوں کے مسائل افغانستان میں ایک بار پھر تقسیم کی لہر پیدا ہوگی کیونکہ خطے کے ممالک چین، ایران بھی اس میں دلچسپی رکھتے ہیں، محض خلیجی ممالک مسئلہ حل نہیں کرسکتے اور بھارت بھی اپنے اثرورسوخ رکھتا ہے کیونکہ طالبان حکومت کے دور میں کرزئی بھارت میں ہی مقیم تھے لہٰذا امریکا کے کرنے سے تمام معاملات فوری طور پر حل نہ ہوں گے۔ جب کہ شورش ناگن چورنگی، کراچی اور کٹی پہاڑی کے گردونواح سے ہوتی ہوئی نانگا پربت تک پہنچ گئی، وہ وادی جو زینت افلاک تھی اور دنیا کے اہم ممالک سے تعلقات ٹور ازم کے ذریعے تعمیر کرتی تھی وہ بھی خون آلود ہے، اب تعلقات خراب ہوں گے، یہ ہمارا ملک نہیں ہے، غیر ممالک اپنے ایک کتے کا حساب مانگتے ہیں یہ تو انسان تھے۔
اب بھی وقت ہے، حکومت اپنے داخلی مسائل کو حل کرے ورنہ خارجہ محاذ محض شرمندگی ہوتی رہے گی اور خدانخواستہ مملکت خداداد کو دنیا بھر میں فیل اسٹیٹ کے نام سے پکارا جانے لگے۔ اندرونی خلیج کو جلدازجلد پاٹنا ہوگا۔ صورت حال یہ ہے کہ کالم چھپنے تک جانے کتنی خبریں ملک میں ہولناکی کی آتی رہیں گی ہر روز بریکنگ نیوز، یہ حالت جنگ نہیں تو اور کیا ہے۔ دشمن گلی کوچوں اور محلوں میں موجود ہے اور ہم اپنی کرسی کو دیکھ رہے ہیں آخر میں آپ کو جیمس روسل کا ایک قول سناتا چلوں ''ناکامی کوئی جرم نہیں بلکہ تنگ نظری ایک جرم ہے''۔
ابھی زیادہ عرصہ نہ ہوا برازیل کی سیاسی پارٹیوں نے مل کر مہنگائی کے خلاف عظیم الشان مظاہرے کیے، سڑک پر کھڑے ہونے والوں نے اسمبلی میں بیٹھنے والوں سے مطالبے منوا لیے مگر پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں مہنگائی، بے روزگاری، عوام کے قتل پر خاموش تماشائی ہیں، ملک پر سیاسی دباؤ، معاشی دباؤ اور اسی قسم کے اب ایسے ہی عالمی دباؤ آنے کو ہیں کہ حکومت کو اس کا مقابلہ کرنا آسان نہ ہوگا، افغان بحران کا اب وقت آخر ہے، ایک نئے بحران کا آغاز اب یہ بحران اور وسیع ہونے کو ہے کیونکہ طالبان کے نام پر کئی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں، کئی گروپ اور جن کے الگ الگ مقاصد ہیں، ایک وہ طالبان ہیں جو افغانستان کے فکری فرمان کے تابع، ایک وہ جو پاکستان کے حامی، ایک وہ جو ازخود طالبان ہیں اور پھر پنجابی طالبان سمیت کئی وہ دھڑے ہیں جو ان کے حامی اور مددگار ہیں۔
بعض کی کارروائیاں امریکی افواج کے خلاف ہیں تو بعض کی پاکستانی عمل داری کے خلاف جس کا کھلا ثبوت یہ ہے کہ پشاور شہر سے ملحقہ علاقوں میں حکومت کی عمل داری رات ہوتے ہی ختم ہونے لگتی ہے جو لشکر بنائے گئے تھے کہ وہ طالبان کے خلاف صف آرا ہوں گے وہ بھی اس طویل گوریلا جنگ میں بے سود ثابت ہوئے اور اب تقریباً تحلیل کے مرحلے میں ہیں، جب کہ افغان حکومت کے حامی طالبان افغانستان کے سرحدی علاقوں کی توسیع پر یقین رکھتے ہیں، بعض گروہ اٹک کے پل تک افغانستان کا بارڈر چاہتے ہیں۔ غرض قیادت میں ایک خیال ایک قیادت اور ایک رخ نہیں ہے۔
خدا جانے ان کے حتمی مقاصد کیا ہیں اور ان کو کس طرح مربوط کیا جائے گا۔ ابھی قطر میں جس کانفرنس کا آغاز ہونا تھا اس آس پر جو جھنڈا نصب کیا گیا تھا اس جھنڈے پر تحریر تھا ''اسلامی امارات افغانستان'' مگر چند دنوں کے بعد مغربی بہادروں کے کہنے پر یہ جھنڈا دفتر پر سے اتار دیا گیا کیونکہ اس جھنڈے کے ساتھ بات چیت سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ افغان عوام کی نمایندہ حکومت کا دفتر ہے۔ کرزئی نے تو پہلے ہی روز انکار کردیا۔ پھر معاملات آگے بھی نہ بڑھے۔ وسیع مشاورت ضروری ہے۔
امریکی حکومت پاکستان کی سیاسی حکومت سے محض زبانی کلامی گفتگو کرتی ہے، اس سے یہ ظاہر ہوا کہ سیاسی قلم دان میں خارجہ کا قلم دان عملاً موجود نہیں، داخلہ کا قلم دان محض تقریر، تصویر اور قراردادوں تک ہی محدود ہے۔ اصل میں سیاسی حکومت کے اردگرد اہم اندرونی اور بیرونی مسائل ہیں جن کا ادراک ضروری ہے مگر دلچسپی کس چیز میں ہے، وہ ہے نمائش۔ اگر آپ کو یاد ہو تو جب نئی حکومت کی اسمبلی کے ارکان ایوان میں آئے تو ایسا لگا کہ جیسے کسی دعوت ولیمہ کی تقریب ہے زرق برق لباس، میک اپ کی زیادتی، خصوصاً خواتین نے تیز و شوخ رنگ کے لباس و آرائش گیسو کیا بیان ہو مردوں کا بھی شخصیت کو نمایاں کرنے میں کم نہ تھے، مگر پڑوس میں دیکھیں کل کا مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش ہے اس کی کرنسی ہم سے بلند ہے مگر حسینہ واجد سفید ساڑھی جس کی قیمت بمشکل 300 ٹکہ سے بھی کم ہوگی وہ زیب تن کرتی ہیں ، نہ نمائش نہ شوشا کیونکہ وہ قوم کی رہنما ہے سادگی دکھائے گی تو قوم آگے بڑھے گی یہ نہیں کہ امپورٹ کے بل ایکسپورٹ سے دگنے، پھر ایک کشکول جو آئی ایم ایف کے در پر لیے کھڑے ہیں۔
آئے ہیں تیرے در پہ تو کچھ لے جائیں گے! یہ کیسا تماشا ہے کہ اسمبلی اور وزارتوں کے اخراجات پورا ملک بھگتتا ہے، یہ ایک مذاق اور عوام کو بے وقوف بنانے کے سوا اور کیا ہے؟ جس ملک میں توانائی کا بدترین بحران ہو وہاں سرمایہ کاری کے لیے محفلیں سجائی جاتی ہیں۔ دوسری جانب آرٹیکل 6 کے تحت پرویز مشرف پر مقدمہ چلایا جاتا ہے اور منیر ملک کو اٹارنی جنرل بناکر حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ یہ مسئلہ بہت آسان ہے ، اس کے بعد کیا ہونے کو ہے کچھ اندازہ ہی نہیں کہ این آر او کے تحت اس سے پہلے کی اسمبلی معرض وجود میں آئی جس کی قیادت جناب زرداری کر رہے تھے، یہ معاہدے کن کے کہنے پر ہوئے تھے، آئین معطل کرانے والے تو حکومت میں وزارتوں پر فائز رہے، اس میں کچھ نہیں سیکڑوں پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں۔ جس کا جواب اٹارنی جنرل دینے سے قاصر رہیں گے، گویا ملک جو خود بحران میں ہے، اس کو سیاسی بحران میں مبتلا کرنا کون سی دانشمندی ہے۔
پاکستان میں اب تک جو بھی ہوا غلط ہوا۔ مشرف کے عمل سے صرف حکومت ہی تو بدلی گئی ملک کوئی جان سے تو نہ گیا، وہ بھی فرد واحد نے ایسا نہ کیا اس وقت کے تمام کورکمانڈر مشرف کے ساتھی تھے اور چوہدری برادران اور دیگر رہنما تو یہاں تک کہتے تھے کہ مشرف ہمیں وردی میں بھی منظور ہیں۔ تو جن لوگوں نے پرویز مشرف کی حکومت میں معاونت کی وہ کہاں جائیں گے۔ ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنا درست نہیں، شاید سیاسی بصیرت پوری حکمراں جماعت سے دور رہ گئی، کوئی بھی دیدہ ور اتنی بڑی حکومت میں نہیں کہ یہ عمل خودکشی کے مترادف آرٹیکل 6 کا ہندسہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکومت اس مسئلے کو خیرباد کہہ دے۔ پہلی توجہ انرجی، دوسری توجہ ملک کے نظم و ضبط کی ہے، مانا کہ پنجاب کی آبادی بڑی ہے، پنجاب کی عددی اعتبار سے فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے سوچنے کی ضرورت ہے۔
افغانستان سے امریکی افواج کی روانگی قریب ہے جانے کس قسم کی سیاسی تبدیلی ہمارے پختون علاقوں میں ہونے کو ہے، اگر قطر کانفرنس نے طالبان کے حق میں فیصلہ کیا یعنی کچھ لو اور کچھ دو تو کم ازکم طالبان 2 مطالبوں سے دستبردار نہ ہوں گے۔ اسلامی نظام حکومت اور نظام تعلیم ۔ اب یہاں مسئلہ یہ پیدا ہونے کو ہے کہ کابل میں اسلامی نظام کی تشریحات ہر مکتبہ فکر اپنے اعتبار سے کرے گا اور جوں جوں آپ شمال کی طرف چلیں تو فارسی زبان میں گفتگو کی جاتی ہے لہٰذا پشتو اور فارسی زبان بولنے والوں میں رسہ کشی ہوگی اور ایک نئی جنگ جیساکہ رشید دوستم کی ملیشیا نے کی تھی، ازبک اور دیگر لوگوں کے مسائل افغانستان میں ایک بار پھر تقسیم کی لہر پیدا ہوگی کیونکہ خطے کے ممالک چین، ایران بھی اس میں دلچسپی رکھتے ہیں، محض خلیجی ممالک مسئلہ حل نہیں کرسکتے اور بھارت بھی اپنے اثرورسوخ رکھتا ہے کیونکہ طالبان حکومت کے دور میں کرزئی بھارت میں ہی مقیم تھے لہٰذا امریکا کے کرنے سے تمام معاملات فوری طور پر حل نہ ہوں گے۔ جب کہ شورش ناگن چورنگی، کراچی اور کٹی پہاڑی کے گردونواح سے ہوتی ہوئی نانگا پربت تک پہنچ گئی، وہ وادی جو زینت افلاک تھی اور دنیا کے اہم ممالک سے تعلقات ٹور ازم کے ذریعے تعمیر کرتی تھی وہ بھی خون آلود ہے، اب تعلقات خراب ہوں گے، یہ ہمارا ملک نہیں ہے، غیر ممالک اپنے ایک کتے کا حساب مانگتے ہیں یہ تو انسان تھے۔
اب بھی وقت ہے، حکومت اپنے داخلی مسائل کو حل کرے ورنہ خارجہ محاذ محض شرمندگی ہوتی رہے گی اور خدانخواستہ مملکت خداداد کو دنیا بھر میں فیل اسٹیٹ کے نام سے پکارا جانے لگے۔ اندرونی خلیج کو جلدازجلد پاٹنا ہوگا۔ صورت حال یہ ہے کہ کالم چھپنے تک جانے کتنی خبریں ملک میں ہولناکی کی آتی رہیں گی ہر روز بریکنگ نیوز، یہ حالت جنگ نہیں تو اور کیا ہے۔ دشمن گلی کوچوں اور محلوں میں موجود ہے اور ہم اپنی کرسی کو دیکھ رہے ہیں آخر میں آپ کو جیمس روسل کا ایک قول سناتا چلوں ''ناکامی کوئی جرم نہیں بلکہ تنگ نظری ایک جرم ہے''۔