ڈاکٹر شیرشاہ کی زبانی

ڈاکٹر شیرشاہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر 20 منٹ کے بعد ایک ماں زچگی کے دوران اپنی جان سے جاتی رہتی ہے۔

zb0322-2284142@gmail.com

ویسے تو ڈاکٹر شیر شاہ سید ڈاکٹر ہیں اور پروفیسر بھی لیکن پاکستان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بانی اور معروف افسانہ نویس و ناول نگار بھی ہیں، مگر اس بار میری نظروں سے ان کا جو ناول گزرا وہ صرف کہانی نہیں بلکہ ان کے والد کی سوانح عمری ہے۔ اس کتاب کا نام بھی اسی نسبت سے سو فیصد درست ہے۔ ''وہ صورت گر کچھ خوابوں کا''۔ کتاب کے حرف اول میں ڈاکٹر صاحب ایک واقعہ ''گنگا'' کا بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''گنگا کی شکل بار بار میری آنکھوں کے سامنے آ رہی تھی، سر جھکائے ہوئے دبلی پتلی، اجڑی ہوئی گنگا! وہ 1994ء کی گرمیوں کی ایک صبح تھی، نمی اور حبس سے بھرپور۔

میں سول اسپتال کراچی کے گائنی وارڈ نمبر 3 میں اپنے کمرے میں بیٹھا تھا۔ دوسرے سرکاری اسپتالوں کی طرح سول اسپتال میں بھی ہوا، روشنی اور پنکھوں کا انتظام ناقص تھا جس کی وجہ سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا جاتا تھا لیکن اس وقت میں گرمی کی وجہ سے اتنا پریشان نہیں تھا جتنا سندھ کے دور افتادہ ضلع تھر سے آنیوالی لڑکی گنگا کے بارے میں سوچ کر پریشان ہو رہا تھا۔ اسے آپریشن تھیٹر میں ٹیبل پر لٹایا جا چکا تھا کہ شاید اس کی بیماری کا علاج کیا جا سکے۔ وہ ایک ایسی بیماری کا شکار تھی جس کی مریض ہزاروں عورتیں پاکستان کے مختلف علاقوں میں موجود تھیں۔

وہ صرف 15 سال کی تھی اور اسے فیسٹیولا کی بیماری ہو گئی تھی۔ اس بیماری کی وجہ سے اس کے فاقہ زدہ دبلے پتلے جسم سے پیشاب کی بدبو کے بھپکے اٹھ رہے تھے۔ چند ماہ قبل زچگی کے بعد نہ اس نے مناسب کھانا کھایا تھا اور نہ ہی جسم سے مسلسل بہنے والے پیشاب پر قابو پاسکی تھی۔ اس کی ماں اسے علاج کے لیے کراچی لائی تھی۔ شوہر نے یہ کہہ کر اسے چھوڑ دیا تھا کہ وہ کسی ایسی عورت کے ساتھ نہیں رہ سکتا جس کے جسم سے مستقل پیشاب بہتا رہتا ہے۔ آپریشن کے لیے جانے سے قبل جس وقت میں نل کے نیچے اپنے ہاتھ دھو رہا تھا، میرے ذہن میں گنگا کی ماں کے الفاظ گونج رہے تھے ''زچگی میں تو مائیں مرتی رہتی ہیں، میری بچی تو اتنی بدقسمت تھی کہ مری نہیں بلکہ اس بیماری کا شکار ہو گئی، اس سے اچھا تھا کہ یہ مر جاتی''۔ بعدازاں آپریشن کامیاب ہوا اور گنگا صحت یاب ہو کر تھر واپس چلی گئی''۔

ڈاکٹر شیرشاہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ہر 20 منٹ کے بعد ایک ماں زچگی کے دوران اپنی جان سے جاتی رہتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی اس کتاب میں صرف تعلیم حاصل کرنے اور سب کچھ ٹھیک ہو جانے پر مرکوز نہیں بلکہ سماج کی طبقاتی خلیج، سرمایہ داری کے استحصال اور طبقاتی تقسیم پر عام قاری کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ چند لوگ تمام سہولتوں سے مستفید ہیں جب کہ عام شہری اور محنت کش کراہ رہے ہیں ۔ وہ اپنے والد ابوظفر آزاد کا ہندوستان کے ایک واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''ہمارے گھر روزے میں افطار پارٹیاں ہوتی تھیں، اس موقع پر دستر خوان بچھائے جاتے تھے۔ ایک شرفاء اور امراء کے لیے اور دوسرا کمتر درجات رکھنے والے لوگوں کے لیے ۔ ایک بار ان کے گھر والوں نے ابو ظفر آزاد کو کہا کہ تم دستر خوان لگاؤ اور میزبانی کرو۔ ابو ظفر نے سب کے لیے ایک ہی دستر خوان لگا دیا۔ نتیجتاً محلے کے اعلیٰ درجے کے شرفاء روزہ کھولے بغیر گھر واپس چلے گئے۔ یہ تھی ابو ظفر کی سچائی۔


ڈاکٹر شیرشاہ کے والد محترم ظفر آزاد پاکستان آ کر لیاری میں چٹائی بچھا کر لوگوں کی درخواستیں لکھتے تھے اور روزانہ 1/2 روپے کما لیتے تھے۔ یہ تھی ان کی محنت، اصول، سچائی اور لگن۔ جس نے اپنے اٹل عہد و پیماں سے نہ صرف 40 ڈاکٹر بنائے بلکہ ان کے بنائے ہوئے ڈاکٹر اب تک ہزاروں، لاکھوں مریضوں کا علاج کر کے انسانی حیات کو طول دے چکے ہیں۔ ڈاکٹر شیر شاہ کے والد ابو ظفر آزاد جنہوں نے تاریخ میں ماسٹر کیا ہوا تھا اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے، انھوں نے اپنی بیگم عطیہ ظفر کو ایم بی بی ایس اور گائنی کولوجسٹ بنایا جب کہ شادی کے وقت وہ صرف قرآن پڑھ سکتی تھیں۔

شیرشاہ کی والدہ ڈاکٹر عطیہ نے اپنے شوہر ظفر آزاد سے تعاون نہ کیا ہوتا تو شاید اس خاندان میں اتنے ڈاکٹر نہ بنتے۔ ڈاکٹر شیرشاہ نے اپنے نظریات، خیالات اور افعال کو نہیں چھپایا، وہ جب طالب علم تھے تو ان کا تعلق این ایس ایف سے تھا اور این ایس ایف کمیونسٹ پارٹی کا طلبا محاذ تھا۔ اسی طرح سے پروفیسر ڈاکٹر ٹیپو سلطان کا تعلق بھی این ایس ایف سے تھا، وہ بھی اشتراکی خیالات سے معمور ہیں، جو کہ اب پھیل کر وال اسٹریٹ قبضہ تحریک تک پہنچ گئی ہے۔ ڈاکٹر شیر شاہ کئی بار فیل ہوئے جس کا انھوں نے اس طرح تذکرہ کیا کہ ''میں اپنے تمام بھائی بہنوں میں پڑھائی میں سب سے زیادہ نالائق تھا۔ مگر اس وقت وہ پاکستان کے بہت مشہور، لائق اور ہردلعزیز پروفیسر اور ڈاکٹر ہیں۔

وہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری بھی رہ چکے ہیں۔ انھوں نے کبھی بھی حکمرانوں سے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ حکومتوں کی صحت پالیسی پر غلط موقف اور کم بجٹ پر ہمیشہ تنقیدی نقطہ نگاہ اختیار کیا۔ کارل مارکس جب یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تو انھوں نے اس پر بار بار غور کیا کہ وہ کیوں پیدا ہوئے؟ مگر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پارہے تھے، آخر کار وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ''انسان کا پیدا ہونے کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہیں کہ وہ دوسروں کی خدمت کرے''۔ یہ بات ابوظفر آزاد اور ان کے خاندان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ کوہی گوٹھ جنرل اسپتال لانڈھی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ابوظفر آزاد کے تمام بچوں نے (جو سب ڈاکٹر ہیں) مل کر یہ اسپتال قائم کیا ہے۔ جہاں نہ صرف فیسٹیولا کا علاج ہوتا ہے بلکہ خواتین اور بچوں سے متعلق ہر قسم کا علاج ہوتا ہے اور آپریشن بھی۔ یہاں مڈوائفز اسکول، ٹرینرز اور نرسنگ کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ 35 بیڈز ہر وقت استعمال میں ہوتے ہیں۔ اس اسپتال میں علاج، رہائش، ادویات اور آپریشن سب کچھ مفت ہوتا ہے۔ ابو ظفر آزاد اپنے بچوں کی طرح دوسروں کی خدمت، مدد اور عزت کرتے ہیں۔ نواب شاہ اسٹیشن پر ایک بار ظفر صاحب بیٹھے تھے اور ایک بچہ جس کا نام غلام بشیر کھوکھر تھا، اس کا باپ کھیت مزدور تھا، جب 10 سال کا تھا تو اس کا باپ مر گیا، میٹرک تو پاس کر لیا تھا مگر گھر کی معاشی حالت اچھی نہیں تھی، وہ اپنے گاؤں بچاری گوٹھ سے نواب شاہ نوکری کی تلاش میں آیا تھا، اب نوکری نہ ملنے کی شکل میں گھر واپس جا رہا تھا۔

بہرحال ابوظفر آزاد نے بعد ازاں خط و کتابت کے ذریعے اسے اپنے گھر بلا لیا، پڑھایا اور دو بھائیوں کو بھی پڑھنے میں مدد کی۔ دوسرا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ دین محمد درگاہی جو کہ بہار سے ایک جاگیردار خاندان کے ساتھ خدمت گار کے طور پر پاکستان آ گئے تھے۔ ان کے والد نے انھیں غازی محمد بن قاسم اسکول لیاری میں داخلہ کروایا۔ شروع میں جاگیردار کو یہ پتہ نہیں چلا کہ دین محمد نے اسکول میں داخلہ لیا ہے۔ جب یہ پتہ لگا تو اس کے اپنے گھر میں داخلے پر پابندی لگا دی۔ اس لیے کہ جاگیردار کا خدمت گار تعلیم کیسے حاصل کر سکتا ہے۔ ابوظفر نے دین محمد کو اپنے گھر رکھ لیا۔ اور وہ خاندان کے ایک فرد بن گئے۔ پھر انھوں نے ٹیکنیکل تعلیم حاصل کر کے نوکری کر لی اور اپنے والدین کو جاگیردار کے گھر سے بلا لیا۔ اچھے کام بہت سے اچھے لوگ کرتے آرہے ہیں۔ جیسا کہ عبدالستار ایدھی، ادیب الحسن رضوی، سیلانی اور ابوظفر آزاد وغیرہ۔ یہ سارے لوگ اور کام قابل احترام بھی ہیں اور قابل فخر بھی۔ لیکن اس سرمایہ دارانہ نظام میں بھوک، بے روزگاری، جہالت، بیماری، بے گھری اور غلاظتوں میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ ان ساری مشکلات اور استحصال کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور دنیا بھر میں ایسے غیر طبقاتی سماج کی تشکیل کے لیے انقلاب لایا جائے جہاں کوئی ارب پتی ہو اور نہ گداگر، لاعلاج رہے اور نہ کوئی بھوکا۔ ایسا سماج صرف نسل انسانی کی امداد باہمی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
Load Next Story