یوٹرن اور رائٹ ٹرن

ہمارے اس دوست نے یکدم جو یوٹرن لے کر پاکٹ میں پڑی ایک ملازمت چھوڑ کر دوسری ملازمت حاصل کر لی۔

h.sethi@hotmail.com

آپ گھر سے 'دفتر سے' دکان سے' کار خانے سے' یا پارلیمنٹ ہائوس سے نکلیں تو اگلی منزل آپ کے ذہن اور علم میں ہوتی ہے، یوں آپ کا رخ خود بخود اور کبھی تھوڑی سوچ بچار کے بعد اس طرف ہو جاتا ہے' رستے میں موڑ بھی آتے ہیں۔ یوٹرن بھی اور بعض اوقات سیدھا رستہ بوجہ مرمت بند بھی ملتا ہے جس کے باعث آپ کو روٹ تبدیل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔

کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ رستہ بے حد خراب یا زیر آب آ جانے کی وجہ سے سفر کو اس روز التوا میں ڈالنے اور کسی آئندہ دن پر ٹالنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن اگر آپ نے پوری نیت سے طے شدہ منزل یا اس جگہ کی طرف جہاں آپ نے پہنچنے کا قوی ارادہ کر لیا ہے' گامزن ہو جائیں تو جلد یا بدیر پہنچ ہی جائیں کیونکہ ؎

چلے تو کٹ ہی جائیگا سفر آہستہ آہستہ

ہمارے ایک دوست کو پاکستان ایئرفورس میں جانے کا بیحد شوق تھا، اخبار میں اشتہار دیکھ کر انٹرویو کے لیے جا پہنچا اور کامیاب قرار دیا گیا۔ اب اسے مزید انٹرویو، جسمانی ورزشی ٹیسٹ اور دیے گئے۔ موضوع پر اظہار خیال کے مدارج سے گزرنے کے لیے کوہاٹ اکیڈمی جانا پڑا وہاں بھی کامیاب ہوا تو وہیں سے Combined Medical Board (CMB) کے لیے کراچی روانہ کیا گیا۔ جسمانی ٹیسٹوں میں تو کامیاب رہا لیکن وزن کم ہونے کی بنا پر تین ماہ کے لیے Deffer کر دیا گیا اب اسے تین ماہ میں 5 پونڈ وزن بڑھا کر دوبارہ میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہونا تھا' اسے مشورہ ملا کہ خوب کھائو پیو اور طبی نیند کے مزے لے کر وزن بڑھا لو۔

ایسے وزن کے اضافے میں مشغول ہوئے چند ہی دن گزرے تھے کہ اس کے قریبی دوست توقیر نے مشورہ دیا کہ وہ اس کے گھر شفٹ ہو جائے جہاں دونوں سول سروس کے لیے ہونے والے امتحان کی تیاری کریں گے۔ اگرچہ وہ PAF میں جانے کے لیے ماسوا Under Weight ہونے کے Select ہو چکا تھا اور وزن بڑھانے میں مشغول تھا۔ ہمارے اس دوست نے یکدم یوٹرن لیا توقیر حسین کے گھر شفٹ ہو گیا کتابیں خریدیں، تیاری شروع کی، امتحان دیا اور خدا کی قدرت دونوں دوست نہ صرف کامیاب ہوئے سول سروس میں آ کر باعزت مدت ملازمت بھی پوری کر لی۔

ہمارے اس دوست نے یکدم جو یوٹرن لے کر پاکٹ میں پڑی ایک ملازمت چھوڑ کر دوسری ملازمت حاصل کر لی، شاید وہ کسی سے مشورہ کرتا تو تب کوئی بھی اس کے فیصلے کی حمایت نہ کرتا، اس یو ٹرن نے صرف یہ ثابت کیا کہ نیک نیتی سے لیے یوٹرن کا نتیجہ کامیابی کی شکل میں نکل سکتا ہے۔ ان دو دوستوں میں سے ایک کئی ممالک میں ایمبیسڈر رہا، دوسرا کمشنر کے منصب تک پہنچا۔ ان دو میں پہلا دوست آج کل امریکا کی ایک یونیورسٹی میں لیکچر دیتا ہے جب کہ دوسرا یہاں ہائی کورٹ کی سطح پر کنسلٹنسی کا کام کرتا ہے۔ دونوں دوست اس شعر سے رہنمائی حاصل ہے کرتے رہتے ہیں،

زندگی ہر قدم پہ بدلے گی

زندگی بھر قدم قدم جانا

پاکستان کے عوام نے ہندی کی مشہور کہاوت ''راجہ بیوپاری پر جا بھکاری'' کو تو خود پر لاگو یا پورا ہوتے دیکھ ہی لیا تھا لیکن گزشتہ دنوں ایک بظاہر ان ہونی بھی ہوتے دیکھی، بہت سوں کو تو اب تک اس پر پورا یقین نہیں آ رہا اور حیران ہیں کہ اپنی سیاسی پارٹی کے پہلے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی ایک سیٹ جیتنے والا کس طرح نو باریاں لینے والے شریف برادران کو جیل کا رستہ دکھا کر وزارت عظمیٰ کے منصب تک جا پہنچا اور مہاتیر محمد کے نقش قدم پر چلتا ہوا گزشتہ دنوں ان کے سائے میں بیٹھا دیکھا گیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ مقدر کا سکندر ہے اور اب عمران خان یقیناً یہ کہنے کی پوزیشن میں ہے کہ ؎

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا


ہم نے ملک کی 71 سالہ زندگی میں کئی کارواں بنتے اقتدار کی راہوں پر چلتے منزلیں مارتے لیکن ایک دن ٹوٹتے بکرتے اور وقت کی دھول میں گم ہوتے دیکھے اس لیے کوئی اس زعم میں نہ رہے کہ وہ ابدی زندگی لے کر وقت کی لہروں پر ابھرا ہے اور یاس یگانہ چنگیزی کا یہ شعر اگر کوئی حکمران یاد نہ رکھے تو اپنے برے دنوں کے لیے تیار رہے۔

خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا

خدا بنے تھے یگانہؔ مگر بنا نہ گیا

ملک میں اب تک کئی افراد اور گھرانوں کی کسی نے چند ماہ، کئی نے چند سال اور کچھ نے سالہا سال تک حکومت کی۔ کسی نے مزے لوٹے تو کسی نے ملک کو جی بھر کے لوٹا۔ اس بار ایک سپورٹس مین وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھا ہے۔ اس نے کھیل اور فلاحی کاموں میں نام کمایا ہے، اب تک اس کی شہرت مال کمانے کی نہیں سنی ستر کی عمر کو پہنچنے والا ہے، اب لوٹ مار کا موقع بھی ملا تو کس کے لیے مال و دولت جمع کرے گا۔ ملک کے وہ لٹیرے جو اس عادت میں مبتلا ہوتے ہیں' وہ روز اول ہی سے تجوریاں بھرتے دکھائی دے جاتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں موجودہ وزیراعظم اکیلا مسافر ہے' کہاں تک چل سکے گا' کچھ لوگ ایمان رکھتے ہیں ؎

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتر ہے

ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

جہاں تک میں عمران خان کو سمجھ سکا ہوں، وہ ان چار مصرعوں میں کہہ کر اس کی اس سوچ سے اتفاق کرتا ہوں کہ

میں اگر جا سکا نہ منزل تک

عجز سے لوٹ کر نہ آئوں گا

یا بگولوں کا روپ دھاروں گا

یا شعاعوں میں پھیل جائوں گا
Load Next Story