نعت کو ادبی میزانیے میں بھی رکھ کر لکھنا ضروری ہے مقررین

عالمی اردو کانفرنس سے افتخار عارف، رضا علی عابدی،فراست رضوی ، گوہر اعظمی، امینہ سیدا وردیگرکاخطاب

آج بھی ملک بھرمیں بچوں کے رسائل کی تعداد 56ہے کچھ رسائل کی اشاعت ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ فوٹو: فائل

معروف شاعر افتخار عارف نے کہا ہے کہ نعت کو ادب کی صنف کے طور پر شمار کرنا چاہے یعنی نعت کو ادب کی جمالیات پر پورا اْترنا چاہیے،اگر کوئی نعت لکھ رہا ہے تو یقینا وہ ثواب کا مستحق تو ہوگا مگر ادب میں شمار نہیں ہوگا۔

افتخار عارف نے کہاکہ علامہ اقبال نے خود اکیلے جتنا کام نعت پر کیا ہے اتنا کام کسی اور نے نہیں کیا، کوئی شخص اپنے عقیدے کے مطابق نعت لکھ رہا ہے توکسی اور کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ وہ اسے پابند کرے کہ وہ اس کے عقیدے یا کسی اور عقیدے کے مطابق نعت لکھے، انہوں نے کہاکہ موجودہ زمانے میں نعت کو عروج حاصل ہورہا ہے اور کئی نعت کہنے والے شاعر سامنے آرہے ہیں، نئے آنے والے شعراسے یہ درخواست کروں گا کہ وہ نعت کو ادبی میزانیہ میں بھی رکھ کر ضرور دیکھیں اور کسی سینئر نعت گو شاعر سے اس پر اصلاح بھی لیں۔

فراست رضوی نے ''نعت کے تخلیقی و جمالیاتی پہلو'' کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ تقدیسِ عقیدت میں ڈوبے نعت کے الفاظ اْردو شاعری کا معجزہ ہے مغفرت کا سبب بھی ہے اور اْمت کے لیے یکجہتی کا پیغام بھی، ساتھ ہی ساتھ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اْمتی ہونے کا افتخار بھی، نعت کے سوا اور کون سی صنف سخن ایسی نہیں ہے جس کی اتنی اخلاقی جہتیں ہوں، خالقِ کائنات تو خود اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ثنا خواں ہے، وہ جس کے لیے کائنات وجود میں آئی اس کی تعریف بھلا ہم کیسے کرسکتے ہیں، وہ تو اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔

انھوں نے کہاکہ محض عقیدت کے جذبات سے پر اثر نعت نہیں لکھی جاسکتی، نعت کے تخلیقی تقاضے کئی زیادہ ہیں،عہدرسالت میں ہی نعت گوئی کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، آپ کے چچا ابو طالب نعت کے پہلے شاعر ہیں، اْردو میں نعتیہ شاعری کا آغاز میلاد نامے اور معراج نامے لکھنے سے ہوا، پاکستان بنتے وقت جو لہو کے دریا بہے وہ کرب بھی نعت نگاری کا سبب بنا، بہت زیادہ علم رکھنا نعت گوئی کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ سلیقہ اور عقیدت کا متقاضی بھی ہے۔

انھوں نے کہاکہ نعت تہذیب اظہار اور جمالیات کی عکاس ہونی چاہے، نعت نگاری کی جمالیات کو دوسطحوں پر سمجھا جاسکتا ہے، نعت میں علامت، استعارے اور تشبیہ کا استعمال بھی اہم ہے، موجودہ عہد میں نعت پر کئی پی ایچ ڈی مقالے بھی لکھے جاچکے ہیں اور کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے، جدید اْردو نعت میں اْمت کے دْکھو ں کا عکس بھی ہے، یہ سچ ہے کہ حقِ مدحت انسانوں سے ادا نہیں ہوسکتا، اللہ تعالیٰ ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو جانتا اور پہچانتا ہے، مدحت ِرسول کا یہ سفر تاقیامت جاری رہے گا کیونکہ اس ذکر کو اللہ تعالیٰ نے خود بلند کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

گوہر اعظمی نے ''اْردو شاعری میں سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم'' کے موضوع پر مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ جب سیرت کی بات ہوتی ہے تو اس کا تصور تخلیقِ کائنات سے پہلے خالقِ کائنات کے تصور میں موجود تھا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو یہ کائنات وجود میں نہ آتی، سیرت کی ضرورت صرف تاریخ کی حیثیت رکھتی ہے، اسلام سے پہلے عرب میں لکھنے پڑھنے کا رجحان کم تھا مگر مدتوں سے چلا آرہا تھا، مدینہ منورہ میں لکھنے کا رواج عام تھا اس لئے نثر کے علاوہ وہاں نظم لکھنے والوں کی کمی نہیں تھی، انہوں نے کہاکہ سیرت کے مختلف گوشوں کو اْجاگر کرنے کا وصف دنیا کی ہر زبان میں جاری ہے، فارسی زبان کے شاعروں نے سیرت کو بہت زیادہ بیان کیا ہے۔


امیر مینائی، احمد رضا بریلوی، الطاف حسین حالی، علامہ اقبال، شکیل بدایونی، مولانا ظفر علی خان، مولانا ماہر القادری، حفیظ جالندھری، راغب مراد آبادی، ادیب رائے پوری اور اقبال عظیم سمیت دیگر نے سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادہ کام کیا ہے، علامہ اقبال نے تو بہت آسان اور صاف انداز میں نعت کہی ہیں، آج کل کے دور میں جاذب قریشی، طاہر سلطانی، عزیز الدین خاکی اور بہت سی دیگر شخصیات سیرت پر کام کررہی ہیں، انہوں نے کہاکہ نئے شعراکو قرآن و حدیث کا مطالعہ ضرور کرنا چاہے۔

اس موقع پر معروف شاعر اعجاز رحمانی نے اپنے خوبصورت اور ترنم انداز میں نعت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کی۔علاوہ ازیں معروف براڈ کاسٹر،کالم نگار اور ادیب رضا علی عابدی نے کہا ہے کہ بچوں کا ادب لکھنے والے کو فرشتہ صفت ہونا چاہیے کیونکہ اس کو پڑھنے والے فرشتے ہیں، بچوں کی کہانی میں مٹھاس ہوتی ہے جس میں سے شہد ٹپکتا ہے، بچوں کا ادب وہاں تخلیق ہوتا ہے جہاں وہ خود تخلیق ہوتے ہیں یعنی آسمانوں پر، بچوں کا ادب نکھارا جاتا ہے، اْسے سنوارا جاتا ہے، اس کے رْخسار پر چھوٹا سا تِل لگایا جاتا ہے، ہماری فضا، ہوا، ہمارے گرد پھیلی ہوئی روشنی، ہمیں چین سے سلانے والی تاریکی، ہماری خاموشی میںکہیں دور سے آنے والی کسی بچے کی صدا یہ سب مل کر بچوں کا ادب تخلیق کرتے ہیں،بچوں کا ادیب وہی ہے جو ماں کی خوشبو بھری گود میں بیٹھے بچے کی سوچ کو پڑھ کر اْس سوچ کا حال لکھ دے، ان خیالات کا اظہار انھوں نے آرٹس کونسل کے زیر اہتمام منعقدہ گیارہویں عالمی اْردو کانفرنس کے تیسرے دن ''بچوں کا ادب'' کے حوالے سے منعقدہ دوسرے اجلاس سے بحیثیت صاحبِ صدر خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر سلیم مغل، ابنِ آس،فرزانہ روحی اسلم اور امینہ سید نے اظہارِ خیال کیا، جبکہ نظامت کے فرائض رضوان زیدی نے انجام دیے، ابنِ آس نے کہاکہ عام طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بچوں کا ادب ختم ہوتا جارہا ہے مگر ایسا نہیں ہے، آج بھی ملک بھرمیں بچوں کے رسائل کی تعداد 56ہے جو تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں اور ان میں کچھ رسائل تو ایسے ہیں جن کی اشاعت ایک لاکھ سے بھی زائد ہے، انہوں نے کہاکہ بچوں کے نئے ادیب بھی منظر عام پر آرہے ہیں، بچے آج بھی جن، دیو ، پرَی اور ٹارزن کی کہانیاں پڑھ رہے ہیں اور ان موضوعات پر لکھی گئی کتابیں آج بھی کافی زیادہ تعداد میں شائع ہورہی ہیں۔

زبانیں کسی کا استحصال نہیں کرتیں، قلم کار

ملک میں اداروں کو مضبوط ہونا چاہیے،مختلف تعلیمی بورڈز بنائے گئے مگر وہ اس طرح فعال نہیں رہے جس طرح انھیں ہونا چاہیے تھا، یہ سب ادارے اور بورڈز زبان اور ادب کی ترقی کے لیے بنے تھے، شاعری بھرپور تجربہ ہے مگر زندگی کی تشریح نہیں کرسکتا کیونکہ زندگی کی تشریح کرنے والا ایک ادیب اور رائٹر ہوتا ہے، پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانیں قومی زبانیں ہیں، زبانیں کسی کا استحصال نہیں کرتیں،حضرت امام حسینؓ بھی عربی بھی بولتے تھے اور یزید بھی عربی بولتا تھا، ایسا ادارہ یا پلیٹ فارم ہونا ضروری ہے کہ جس سے ہمیں یہ معلوم ہوسکے کہ ملک کے کس صوبے میں ادب اور زبان کی کیا صورتحال ہے، الفاظ اپنے بولنے والے کی شخصیت کو چھپانے اور کھولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس لیے الفاظ کو بلند مقام حاصل ہے، قومی کلچر کا تصور یہی ہے کہ سب کی عزت کرو ،پاکستانی ثقافت اور تہذیب ایک گلدستے کی مانند ہے جس میں مختلف رنگ کے خوشبو دار پھول موجود ہیں۔

ان خیالات کا اظہار ملک کے نامور ترین ماہر لسانیات ،ماہر تعلیم، محققین، اْدبا اورشعرا منیر بادینی، سید مظہر جمیل، انوار احمد، قاسم بگھیو، امداد حسینی، گل حسن کلتمی، احمد فواد، عظمیٰ سلیم اور دیگر نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام منعقدہ گیارہویں عالمی اْردو کانفرنس کے تیسرے دن ''پاکستانی زبانیں، پاکستانی ثقافت،ایک گفتگو'' کے حوالے سے منعقدہ تیسرے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا، نظامت کے فرائض ایوب شیخ نے انجام دیے۔

 
Load Next Story