’’نئے ٹیلنٹ کو متعارف کرانا چاہتا ہوں‘‘
برطانوی شوبز کی دنیا میں نام کمانے والے پاکستانی اداکار و گلوکار یاسر اختر سے گفتگو
ہمیشہ وہی لوگ ملک وقوم کا نام روشن کرتے ہیں جوزندگی کے مختلف شعبوںمیں ایسا انوکھا اورمنفرد کام کریں جس سے ان کے وطن کوایک نئی پہچان ملے۔
کھلاڑیوں اور فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کو ملنے والی پذیرائی صرف اپنے ملک تک محدود نہیں ہوتی کیونکہ یہ دو شعبے ایسے ہیں جن کی کوئی سرحد نہیں ہے۔ کھلاڑیوں کے کھیل کو پسند کرنے والوںکا تعلق کسی ایک ملک، قوم سے نہیں ہوتا ، اسی طرح فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں اپنے فن سے منفرد پہچان بنانے والوں کو بھی ہر جگہ سراہاجاتا ہے۔ ان کا فن سرحدوں کو ختم کرتا اور لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔
خاص طور پر گلوکاراور میوزیشن اپنے فن کے ذریعے جہاں لوگوں کو تفریح فراہم کرتے ہیں وہیں امن، محبت، بھائی چارے کا پیغام بھی دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ ایسے ہی فنکاروں میں ایک نام یاسر اخترکا بھی ہے۔ جنہوں نے صرف پانچ برس کی عمر میں اداکاری کے شعبے میں قدم رکھا اورپھراپنی فنی صلاحیتوں کے ذریعے سچے سروںکا پرچار کیا۔ انہوں نے جہاں اپنے فنی سفرکے دوران ایکٹنگ اورگلوکاری کے شعبوں میں خوب نام کمایا، وہیں پروڈکشن کے شعبے میں بھی ایسا نمایاں کام کیا، جس کوبرطانیہ میں بسنے والے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب یاسراخترکا نام اعتماد کی علامت بن چکا ہے اسی لئے تواب وہ اپنے پروڈکشن ہاؤس کے بینرتلے دنیا کے مختلف ممالک میں کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اکثرلندن کے علاوہ یورپ، مڈل ایسٹ اورپاکستان سمیت دیگرممالک میں اپنے پراجیکٹس کومکمل کرنے کیلئے جاتے رہتے ہیں۔ اپنی بے پناہ مصروفیات کے دوران یاسراختر نے ''ایکسپریس'' کوخصوصی انٹرویودیا ، جوقارئین کی نذر ہے۔
یاسراخترنے بتایا کہ ان کی پروڈکشن کمپنی ویسے توعرصہ دراز سے برطانیہ میں کام کررہی ہے اوروہاں وہ میوزک کنسرٹس، شارٹ فلمیں اوردیگرسرگرمیوں میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ جس کا مقصد دیارغیرمیں پاکستان کا سافٹ امیج متعارف کروانا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ باقاعدگی کے ساتھ جہاں جشن آزادی کی تقریبات کاانعقاد کرتے ہیں، وہیں عیدالفطراور عیدالاضحی سمیت اہم مذہبی اورقومی تہواروںکو روایتی جوش وجذبے اورعقیدت کے ساتھ مناتے ہیں۔
اس موقع پرجہاں پاکستانی کمیونٹی موجود ہوتی ہے، وہیں بھارت سمیت دنیا کے بیشترممالک کے افراد کی کثیرتعداد بھی شرکت کرتی ہے۔ یہ سماں واقعی ہی دیدنی ہوتا ہے جب ہمارے قومی تہواروںپرپاکستان کی سلامتی کیلئے نعرے لگتے ہیں تواس کا جواب صرف پاکستانی کمیونٹی ہی نہیں بلکہ سب لوگ دیتے ہیں اوریہ بہت خوبصورت منظرہوتا ہے۔ اسی لئے وہ ہربارجہاں اپنی تقریبات کوپہلے سے زیادہ خوبصورت بنانے پرزوردیتے ہیں، وہیں ایسی سرگرمیوں کا زیادہ اہتمام کرتے ہیںِ ، جس کے ذریعے نوجوان نسل کوپاکستان کی اہمیت سے اجاگرکیا جاسکے۔
اپنی ترجیحات کے متعلق بتاتے ہوئے کہتے ہیں:'' جہاں تک بات میرے پراجیکٹس کی ہے تومیری کوشش ہوتی ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو کام کے مواقع فراہم کروں۔ میں کچھ عرصہ قبل جب پاکستان گیاتو اس دوران میں نے پاکستان کے باصلاحیت فنکاروں اور گلوکاروں کیلئے ایک ایسا ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام ترتیب دیا ، جس سے ان کی زندگیاں سنوریں گی۔ جو بھی باصلاحیت لڑکا اورلڑکی عمدہ کام کرے گا، اس کوشوبز کے افق پرچمکنے کیلئے ایسے مواقع فراہم کئے جائیں گے جس کیلئے ایک فنکار کو برسوں انتظارکرنا پڑتا ہے۔
اس سلسلہ میں، میں نے پاکستان کے مختلف پرائیویٹ چینلزکے منتظمین سے بھی خصوصی ملاقاتیں کیں، جس کا مقصد اپنے پراجیکٹس کوعملی شکل دینا تھا۔ کیونکہ میں صرف ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام ہی نہیں بلکہ شارٹ فلمیں اورڈرامہ سیریزبھی بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ یہ ٹاسک خاصا مشکل ہے لیکن میں نے اس کیلئے تمام ترتیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ اس دورہ کے دوران میں نے بہت سے سینئر فنکاروںکو بھی اپنے ساتھ کام کرنے کیلئے راضی کرلیا ہے، تاکہ جب آئندہ برس ان پراجیکٹس پرکام شروع کریں تواس سے پہلے ہر طرح کی کاغذی کارروائی مکمل ہو اورشیڈول کے مطابق سب کچھ کیا جائے۔''
اپنے کیریئر کے بارے میں انہوں نے بتاتا: ''میرا کیرئیر بطورچائلڈ سٹارشروع ہوا، اس وقت تومجھے بھی پتہ نہ تھا کہ مستقبل میں یہی شعبہ میرا پروفیشن بن جائے گا۔ لیکن پھرفنی سفرآگے بڑھتا چلا گیا اورمیں ایکٹنگ کے ساتھ ساتھ میوزک کے شعبے میںکام کرنے لگا۔ پاکستان میں جب میوزک چینل چارٹس بنتے تھے ، اس وقت میرے گیتوںکے ویڈیو بے حدمقبول ہوئے۔ حالانکہ اس وقت وائٹل سائن، علی حیدر، سٹرنگزاوربہت سے میوزک بینڈز اور گلوکار پاپ میوزک میں کام کررہے تھے۔ یہاں پرکام کرتے کرتے ملک بھرمیں میوزک کنسرٹس کئے اور پھرمیں برطانیہ منتقل ہوگیا۔ بطورایک مقبول آرٹسٹ آپ کیلئے یہ خاصا مشکل ہوتا ہے کہ کسی دوسرے دیس میں جا کرزندگی بسرکریں، لیکن میں نے ایساکیا اوربہت سی مشکلات بھی سامنے آئیں، مگرمیں نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا۔ اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ میں نے پیسے کمانے ہیں، کیونکہ میں پاکستان میں کام کرتے ہوئے اچھے پیسے کماتا تھا۔ برطانیہ میں کام کرنے کا مقصد صرف ایک ہی تھا کہ دیارغیرمیں جہاں پڑوسی ملک کے لوگ چھائے ہوئے تھے، وہاں کوئی پاکستانی بھی ایسا کام کرکے دکھائے ، جس پرسب کوفخر ہو۔ میں نے یہ سلسلہ شروع کیا اورپھردیکھتے ہی دیکھتے برطانیہ میں یاسراخترکا نام چھانے لگا۔ میں نے اپنے پروڈکشن ہاؤس کے بینرتلے اب تک 400 سے زائد ویڈیو پروڈیوس کئے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیلی فلمیں، ڈرامے اورمیوزک پروگراموں کا انعقاد معمول کی بات تھی۔''
یاسراخترنے مزید بتایا کہ ''پاکستان میں ٹیلنٹ کی کبھی بھی کمی نہیں رہی۔ میرے پراجیکٹس کے حوالے سے ابھی توکچھ لوگ خوفزدہ ہیں لیکن میں یہ بات بخوبی جانتا ہوں کہ پاکستان کے کونے کونے میں ٹیلنٹ بھرا پڑا ہے ۔ انہیں صرف ایک بہترین پلیٹ فارم مہیاکرنے کی ضرورت ہے۔ پھریہ ٹیلنٹ ملک کی سرحدوں کوپارکرتے ہوئے دنیا بھرمیں امن، دوستی اوربھائی چارے کا پیغام پہنچائے گا۔ اس کیلئے ایک زبردست پلان تیارکرلیا گیاہے اورجب میں پاکستان آؤںگا توپھرمیرے ساتھ چاروں صوبوں کے نوجوان فنکارہوںگے ، جومستقبل میں پاکستان کانام روشن کرنے کے ساتھ مہدی حسن، ملکہ ترنم نورجہاں، ریشماں، غلام علی، فریدہ خانم اورنصرت فتح علی خاں کے فن کوآگے بڑھائیں گے۔ اسی نیک مقصد کے ساتھ میں نے اس کام کوشروع کیا ہے ۔ ابھی تومیں اکیلا ہوں، لیکن بہت جلد میری یہ کاوش ایک کاروان کی شکل اختیارکرے گی جس کی خوشبو سب محسوس کریں گے۔ یہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ میرے تمام پراجیکٹس شائقین جب دیکھیں گے تواس کوسپورٹ کریںگے اورخوب لطف اندوز بھی ہوں گے۔''
کھلاڑیوں اور فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کو ملنے والی پذیرائی صرف اپنے ملک تک محدود نہیں ہوتی کیونکہ یہ دو شعبے ایسے ہیں جن کی کوئی سرحد نہیں ہے۔ کھلاڑیوں کے کھیل کو پسند کرنے والوںکا تعلق کسی ایک ملک، قوم سے نہیں ہوتا ، اسی طرح فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں اپنے فن سے منفرد پہچان بنانے والوں کو بھی ہر جگہ سراہاجاتا ہے۔ ان کا فن سرحدوں کو ختم کرتا اور لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔
خاص طور پر گلوکاراور میوزیشن اپنے فن کے ذریعے جہاں لوگوں کو تفریح فراہم کرتے ہیں وہیں امن، محبت، بھائی چارے کا پیغام بھی دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ ایسے ہی فنکاروں میں ایک نام یاسر اخترکا بھی ہے۔ جنہوں نے صرف پانچ برس کی عمر میں اداکاری کے شعبے میں قدم رکھا اورپھراپنی فنی صلاحیتوں کے ذریعے سچے سروںکا پرچار کیا۔ انہوں نے جہاں اپنے فنی سفرکے دوران ایکٹنگ اورگلوکاری کے شعبوں میں خوب نام کمایا، وہیں پروڈکشن کے شعبے میں بھی ایسا نمایاں کام کیا، جس کوبرطانیہ میں بسنے والے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب یاسراخترکا نام اعتماد کی علامت بن چکا ہے اسی لئے تواب وہ اپنے پروڈکشن ہاؤس کے بینرتلے دنیا کے مختلف ممالک میں کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اکثرلندن کے علاوہ یورپ، مڈل ایسٹ اورپاکستان سمیت دیگرممالک میں اپنے پراجیکٹس کومکمل کرنے کیلئے جاتے رہتے ہیں۔ اپنی بے پناہ مصروفیات کے دوران یاسراختر نے ''ایکسپریس'' کوخصوصی انٹرویودیا ، جوقارئین کی نذر ہے۔
یاسراخترنے بتایا کہ ان کی پروڈکشن کمپنی ویسے توعرصہ دراز سے برطانیہ میں کام کررہی ہے اوروہاں وہ میوزک کنسرٹس، شارٹ فلمیں اوردیگرسرگرمیوں میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ جس کا مقصد دیارغیرمیں پاکستان کا سافٹ امیج متعارف کروانا ہے۔ اس سلسلہ میں وہ باقاعدگی کے ساتھ جہاں جشن آزادی کی تقریبات کاانعقاد کرتے ہیں، وہیں عیدالفطراور عیدالاضحی سمیت اہم مذہبی اورقومی تہواروںکو روایتی جوش وجذبے اورعقیدت کے ساتھ مناتے ہیں۔
اس موقع پرجہاں پاکستانی کمیونٹی موجود ہوتی ہے، وہیں بھارت سمیت دنیا کے بیشترممالک کے افراد کی کثیرتعداد بھی شرکت کرتی ہے۔ یہ سماں واقعی ہی دیدنی ہوتا ہے جب ہمارے قومی تہواروںپرپاکستان کی سلامتی کیلئے نعرے لگتے ہیں تواس کا جواب صرف پاکستانی کمیونٹی ہی نہیں بلکہ سب لوگ دیتے ہیں اوریہ بہت خوبصورت منظرہوتا ہے۔ اسی لئے وہ ہربارجہاں اپنی تقریبات کوپہلے سے زیادہ خوبصورت بنانے پرزوردیتے ہیں، وہیں ایسی سرگرمیوں کا زیادہ اہتمام کرتے ہیںِ ، جس کے ذریعے نوجوان نسل کوپاکستان کی اہمیت سے اجاگرکیا جاسکے۔
اپنی ترجیحات کے متعلق بتاتے ہوئے کہتے ہیں:'' جہاں تک بات میرے پراجیکٹس کی ہے تومیری کوشش ہوتی ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو کام کے مواقع فراہم کروں۔ میں کچھ عرصہ قبل جب پاکستان گیاتو اس دوران میں نے پاکستان کے باصلاحیت فنکاروں اور گلوکاروں کیلئے ایک ایسا ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام ترتیب دیا ، جس سے ان کی زندگیاں سنوریں گی۔ جو بھی باصلاحیت لڑکا اورلڑکی عمدہ کام کرے گا، اس کوشوبز کے افق پرچمکنے کیلئے ایسے مواقع فراہم کئے جائیں گے جس کیلئے ایک فنکار کو برسوں انتظارکرنا پڑتا ہے۔
اس سلسلہ میں، میں نے پاکستان کے مختلف پرائیویٹ چینلزکے منتظمین سے بھی خصوصی ملاقاتیں کیں، جس کا مقصد اپنے پراجیکٹس کوعملی شکل دینا تھا۔ کیونکہ میں صرف ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام ہی نہیں بلکہ شارٹ فلمیں اورڈرامہ سیریزبھی بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ یہ ٹاسک خاصا مشکل ہے لیکن میں نے اس کیلئے تمام ترتیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ اس دورہ کے دوران میں نے بہت سے سینئر فنکاروںکو بھی اپنے ساتھ کام کرنے کیلئے راضی کرلیا ہے، تاکہ جب آئندہ برس ان پراجیکٹس پرکام شروع کریں تواس سے پہلے ہر طرح کی کاغذی کارروائی مکمل ہو اورشیڈول کے مطابق سب کچھ کیا جائے۔''
اپنے کیریئر کے بارے میں انہوں نے بتاتا: ''میرا کیرئیر بطورچائلڈ سٹارشروع ہوا، اس وقت تومجھے بھی پتہ نہ تھا کہ مستقبل میں یہی شعبہ میرا پروفیشن بن جائے گا۔ لیکن پھرفنی سفرآگے بڑھتا چلا گیا اورمیں ایکٹنگ کے ساتھ ساتھ میوزک کے شعبے میںکام کرنے لگا۔ پاکستان میں جب میوزک چینل چارٹس بنتے تھے ، اس وقت میرے گیتوںکے ویڈیو بے حدمقبول ہوئے۔ حالانکہ اس وقت وائٹل سائن، علی حیدر، سٹرنگزاوربہت سے میوزک بینڈز اور گلوکار پاپ میوزک میں کام کررہے تھے۔ یہاں پرکام کرتے کرتے ملک بھرمیں میوزک کنسرٹس کئے اور پھرمیں برطانیہ منتقل ہوگیا۔ بطورایک مقبول آرٹسٹ آپ کیلئے یہ خاصا مشکل ہوتا ہے کہ کسی دوسرے دیس میں جا کرزندگی بسرکریں، لیکن میں نے ایساکیا اوربہت سی مشکلات بھی سامنے آئیں، مگرمیں نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا۔ اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ میں نے پیسے کمانے ہیں، کیونکہ میں پاکستان میں کام کرتے ہوئے اچھے پیسے کماتا تھا۔ برطانیہ میں کام کرنے کا مقصد صرف ایک ہی تھا کہ دیارغیرمیں جہاں پڑوسی ملک کے لوگ چھائے ہوئے تھے، وہاں کوئی پاکستانی بھی ایسا کام کرکے دکھائے ، جس پرسب کوفخر ہو۔ میں نے یہ سلسلہ شروع کیا اورپھردیکھتے ہی دیکھتے برطانیہ میں یاسراخترکا نام چھانے لگا۔ میں نے اپنے پروڈکشن ہاؤس کے بینرتلے اب تک 400 سے زائد ویڈیو پروڈیوس کئے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیلی فلمیں، ڈرامے اورمیوزک پروگراموں کا انعقاد معمول کی بات تھی۔''
یاسراخترنے مزید بتایا کہ ''پاکستان میں ٹیلنٹ کی کبھی بھی کمی نہیں رہی۔ میرے پراجیکٹس کے حوالے سے ابھی توکچھ لوگ خوفزدہ ہیں لیکن میں یہ بات بخوبی جانتا ہوں کہ پاکستان کے کونے کونے میں ٹیلنٹ بھرا پڑا ہے ۔ انہیں صرف ایک بہترین پلیٹ فارم مہیاکرنے کی ضرورت ہے۔ پھریہ ٹیلنٹ ملک کی سرحدوں کوپارکرتے ہوئے دنیا بھرمیں امن، دوستی اوربھائی چارے کا پیغام پہنچائے گا۔ اس کیلئے ایک زبردست پلان تیارکرلیا گیاہے اورجب میں پاکستان آؤںگا توپھرمیرے ساتھ چاروں صوبوں کے نوجوان فنکارہوںگے ، جومستقبل میں پاکستان کانام روشن کرنے کے ساتھ مہدی حسن، ملکہ ترنم نورجہاں، ریشماں، غلام علی، فریدہ خانم اورنصرت فتح علی خاں کے فن کوآگے بڑھائیں گے۔ اسی نیک مقصد کے ساتھ میں نے اس کام کوشروع کیا ہے ۔ ابھی تومیں اکیلا ہوں، لیکن بہت جلد میری یہ کاوش ایک کاروان کی شکل اختیارکرے گی جس کی خوشبو سب محسوس کریں گے۔ یہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ میرے تمام پراجیکٹس شائقین جب دیکھیں گے تواس کوسپورٹ کریںگے اورخوب لطف اندوز بھی ہوں گے۔''