آرمی چیف کا انتباہ اور مذہبی سماجی اور لسانی بغاوتیں
ریاست کے اندر ریاست بنانا , چلانا اور اس کو منظم کرنا یہ سب کچھ کیسے ہورہا ہے
پاکستان کو ریاستی تناظرمیں ایک بڑا چیلنج معاشرے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور تقسیم کی سامنا ہے ۔اس تقسیم کے کچھ عوامل داخلی نوعیت کے ہیں اور کچھ کا تعلق برا ہ راست خارجی معاملات سے ہے ۔اگرچہ انتظامی بنیادوں پر ہم نے کافی حد تک اس انتہا پسندی کے خلاف کا میابیاں حاصل کرلی ہیں ۔لیکن یہ چیلنج بدستور موجود ہے ۔ قومی بیانیہ کے تناظر میں ہم نے بیس نکات پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا تھا اس پر عملدرآمد کے تناظر میں حکومتی اور ادارہ جاتی سطح پر ہماری سیاسی کمٹمنٹ بھی وہ نہیں جو ہونی چاہیے تھی۔دہشت گردی پر تو کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے لیکن جو انتہا پسندی کے حوالے سے فکری بیانیہ یا مائنڈ سیٹ کی جنگ ہے اس پر ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔
پچھلے دنوں آئی ایس پی آر کے زیر اہتمام ہونے والی نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قومی ریاست کو انتہا پسندی اور سیاسی , سماجی ,لسانی , مذہبی اور فرقہ وارانہ تناظر میں درپیش چیلنجز کا بڑی سنجیدگی سے نشاندہی کی ہے ۔ ان کے بقول اول پاکستان کو ہائبرڈجنگ کا سامنا ہے جہاں ہمارا دشمن ہمیں مذہبی ,مسلکی , لسانی اور سماجی حوالے سے نشانہ بنانا چاہتا ہے اور ہم عملا ایک بغاوت کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ دوئم اس جنگ سے نمٹنے کے لیے ہمیں ایک جامع قومی بیانیہ کی ضرورت ہے او ر ہماری ریاستی سطح پر ذمے داریاں پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ سوئم اس جنگ کا مقابلہ سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا بلکہ قومی سطح پر ایک مشترکہ جواب اور ٹھوس اقدامات پر مبنی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ چہارم اگرچہ کچھ ہمارے داخلی مسائل او رذمینی حقایق ہیں مگر ایک منظم پروپیگنڈا کو بنیاد بنا کر نئی نسل کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔پنجم ہماری سیکیورٹی فورسز نے بڑی بہادری او رکامیابی سے انتہا پسندی اور دہشت گردی سے موجود چیلنجز کا مقابلہ کیا ہے ,مگر اب ترقی او رامن کو بنیاد بنانا ہوگا ۔
آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے جن امور کی نشاندہی کی ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ ریاست اہم اداروں کی سطح پر بھی ایک غوروفکر موجود ہے کہ ہمیں کن چیلنجز کا سامنا ہے او ران سے کیسے نمٹنا ہے ۔یقینی طور پر معاشرے میں انتہا پسندی کے تناظر میں جو تقسیم بڑھی ہے یہ آج کا کھیل نہیں بلکہ اس کھیل کو پیدا کرنے میں ہمارے تمام اداروں اور بالخصوص ماضی کی غلط پالیسیوں او رحکمت عملیوں کا نتیجہ ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ آج یہ موذی مرض ایک بڑے بحران کی صورتحال اختیار کرگیا ہے ۔ ریاست کے مقابلے میں کئی ریاستوں کا جنم لینا اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنا او راپنی متبادل رٹ قائم کرنے کی روش زیادہ خطرناک امر بن گیا ہے ۔یقینی طور پر دشمن داخلی سطح کا ہو یا خارجی سطح کا اس کا ایک مقصد تو کافی حد تک واضح ہے کہ وہ ہمیں نہ صرف ان مسائل کی بنیاد پر تقسیم بلکہ کمزور اور عدم استحکام پیدا کرکے اپنے مفاد کا کھیل کھیلنا چاہتا ہے ,جو یقینی طور پر ہمیں کئی محاذوں پر جنجھوڑتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔
آرمی چیف,حکمران طبقات اور سیاسی جماعتوں اور قیادت سمیت مختلف طبقات کو اس بنیادی نکتہ پر غورکرنا ہوگا کہ ہم نے قومی سطح پر جو نئے بیانیہ کی تلاش میں بیس نکاتی )قومی نیشنل ایکشن پلان (اور فرقہ وارانہ مسائل سے نجات کے لیے جو )پیغام پاکستان (جیسے اہم دستاویزات کو ترتیب دیا اور اسے قومی نصاب کا درجہ دیا گیا اس کا حاصل کیا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست میں موجود سیاسی ہنگامہ آرائی, محاذآرائی اور الزام تراشیوں پر مبنی سیاست کے مسائل نے حکمرانوں کو سنجیدہ نوعیت کے مسائل پر کچھ نہیں کرنے دیا یا یہ ان کی اہم قومی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں بن سکا۔ اس کام کو موثر انداز میں کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر وزیر اعظم اور وزیر اعلی کی سربراہی میں جواپیکس کمیٹیاں بنائی گئیں جس میں سیکیورٹی ادارے بھی شامل تھے باہمی چپقلش کا شکار ہوگئے ہیں ۔
ریاست کے اندر ریاست بنانا , چلانا اور اس کو منظم کرنا یہ سب کچھ کیسے ہورہا ہے او رکون اس کی داخلی اور خارجی محاذ پر سرپرستی کررہا ہے اس پر بہت کچھ سوچنے اور اس سے کچھ سیکھ کر نئی حکمت عملی بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔
آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے خاص طور پر نوجوانوں کی طرف اشارہ کیا ہے او ران کے بقول اس بڑے طبقہ کو ریاست او رملک کے خلاف چلنے والی منفی پروپگینڈا کی مہم سے نکالنا ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت منفی قوتوں کا اصل ٹارگٹ ہی نوجوان نسل ہے او راسی کو بنیاد بنا کر وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے۔لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس نئی نسل کو کیسے نکالا جائے کہ وہ اس انتہا پسندی اور سماجی , فرقہ کی بنیاد پر موجود بغاوتوں سے کیسے باہر نکلے ۔ یہ کام محض تقریروں یا سیاسی ومذہبی واعظوں سے ممکن نہیں ۔اس کے لیے قومی سطح پر اپنی جمہوریت اور حکمرانی سے جڑے سماجی , معاشی نظام میں انصاف قائم کرنا بنیادی ترجیح ہونا چاہیے ۔ایک ایسا نظام پیش کرنا جو تعصب یا طبقاتی تقسیم کے بجائے سب کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرکے ہی ہم اپنی نئی نسل کو مختلف نوعیت پر مبنی بغاوتوں سے دور رکھ کر ان کو امن ,رواداری او رایک دوسرے کو قبول کرنے کے نظام کا حصہ دار بناسکتے ہیں ۔
ریاست او رحکومتی سطح پر کچھ کڑوے فیصلے کرنے ہوںگے ۔ فرقوں کی بنیاد پر مذہب کی تقسیم , مساجد او رمدارس کی تقسیم اور مذہبی و فرقہ وارانہ بنیاد پر لٹریچر کی اشاعت یا آڈیو یا وڈیوسمیت سوشل میڈیا کا استعمال یا مذہب کوبنیاد بنا کر فرقہ وارنہ مباحث نفرتیں پیدا کرنے کے کھیل کو روک کر اپنی ذمے داری ادا کرنی چاہیے ۔ تعلیمی اداروں کو اپنی توجہ کا محور بنایا جائے ا س میں رسمی اور غیر رسمی تعلیمی ادارے , مدارس اور رسمی تعلیم کے مراکز سمیت استاد, طالب علم اور ان تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو ایسے بیانیہ کا حصہ بنایا جائے جو ملک میں سیاسی ,سماجی ,معاشی اور مذہبی اہم اہنگی کو پیدا کرنے کا سبب بن سکے ۔میڈیا کو اس جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنا ہے او راس کی نگرانی کا نظام خود میڈیا کے اپنے داخلی محاذ پر نگرانی کے نظام کو موثر اور شفاف بنانا ہوگا۔
ریاست کو ان امور سے نمٹنے کے لیے پہلے سے موجود قوانین او رپالیسیوں کا جائزہ لینا چاہیے ۔ کوئی ایسی قانون سازی یا پالیسی میں تبدیلی یا نئی پالیسی یا قانون سازی کی ضرورت ہے ۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ہمیں بقول آرمی چیف غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے تو پھر اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے بھی غیر معمولی اقدامات او ر کڑوی گولیوں کی ضرورت ہے ۔اس کام میں سیاسی , مذہبی جماعتوں, میڈیا اور سول سوسائٹی سمیت معاشرے میں موجود اہل دانش , شاعر, ادیب , صحافی ,مصنفین ,علمائے کرام ,استاد سب کو جوڑنا ہوگا او ران کو ایک نئے بیانیہ کی جنگ میں مضبوط پیمانوںپر حصہ دار بنانا ہوگا۔یہ سمجھناہوگا کہ جو خارجی سطح پر مسائل یا سازشیں ہیں ان کا حقیقی مقابلہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم داخلی محاذ پر موجود اپنے مسائل , فکری مغالطوں اور تضادات پر مبنی پالیسیوں سے گریز کریں گے ۔
حکومت اور حکومتی اداروں کی سطح پر اس جنگ سے نمٹنے کا واضح اور شفاف پروگرام سب کو نظربھی آنا چاہیے۔ ہرفریق اس جنگ میں کیسے موثر کردار ادا کرسکتا ہے اس کا احساس حکومتی پالیسی اور عملدرآمد کے نظام میں موجود ہونا چاہیے ۔اگر ریاستی و حکومتی ادارے نئی نسل کو ترقی کی بنیاد بنا کر ان کو اس جنگ میں ایک بڑے سفیر کے طور پر استعمال کریں او ران کی تربیت سمیت ان کو ایسے مواقع فراہم کرے جہاں وہ خود بطور سفیر اس جنگ میں ایک سپاہی کے طور پر کچھ کرسکیں تو یہ امر کئی طرح کی بغاوتوں کو کمزور کرنے یا ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔
پچھلے دنوں آئی ایس پی آر کے زیر اہتمام ہونے والی نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قومی ریاست کو انتہا پسندی اور سیاسی , سماجی ,لسانی , مذہبی اور فرقہ وارانہ تناظر میں درپیش چیلنجز کا بڑی سنجیدگی سے نشاندہی کی ہے ۔ ان کے بقول اول پاکستان کو ہائبرڈجنگ کا سامنا ہے جہاں ہمارا دشمن ہمیں مذہبی ,مسلکی , لسانی اور سماجی حوالے سے نشانہ بنانا چاہتا ہے اور ہم عملا ایک بغاوت کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ دوئم اس جنگ سے نمٹنے کے لیے ہمیں ایک جامع قومی بیانیہ کی ضرورت ہے او ر ہماری ریاستی سطح پر ذمے داریاں پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ سوئم اس جنگ کا مقابلہ سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا بلکہ قومی سطح پر ایک مشترکہ جواب اور ٹھوس اقدامات پر مبنی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ چہارم اگرچہ کچھ ہمارے داخلی مسائل او رذمینی حقایق ہیں مگر ایک منظم پروپیگنڈا کو بنیاد بنا کر نئی نسل کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔پنجم ہماری سیکیورٹی فورسز نے بڑی بہادری او رکامیابی سے انتہا پسندی اور دہشت گردی سے موجود چیلنجز کا مقابلہ کیا ہے ,مگر اب ترقی او رامن کو بنیاد بنانا ہوگا ۔
آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے جن امور کی نشاندہی کی ہے وہ ظاہر کرتا ہے کہ ریاست اہم اداروں کی سطح پر بھی ایک غوروفکر موجود ہے کہ ہمیں کن چیلنجز کا سامنا ہے او ران سے کیسے نمٹنا ہے ۔یقینی طور پر معاشرے میں انتہا پسندی کے تناظر میں جو تقسیم بڑھی ہے یہ آج کا کھیل نہیں بلکہ اس کھیل کو پیدا کرنے میں ہمارے تمام اداروں اور بالخصوص ماضی کی غلط پالیسیوں او رحکمت عملیوں کا نتیجہ ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ آج یہ موذی مرض ایک بڑے بحران کی صورتحال اختیار کرگیا ہے ۔ ریاست کے مقابلے میں کئی ریاستوں کا جنم لینا اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنا او راپنی متبادل رٹ قائم کرنے کی روش زیادہ خطرناک امر بن گیا ہے ۔یقینی طور پر دشمن داخلی سطح کا ہو یا خارجی سطح کا اس کا ایک مقصد تو کافی حد تک واضح ہے کہ وہ ہمیں نہ صرف ان مسائل کی بنیاد پر تقسیم بلکہ کمزور اور عدم استحکام پیدا کرکے اپنے مفاد کا کھیل کھیلنا چاہتا ہے ,جو یقینی طور پر ہمیں کئی محاذوں پر جنجھوڑتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔
آرمی چیف,حکمران طبقات اور سیاسی جماعتوں اور قیادت سمیت مختلف طبقات کو اس بنیادی نکتہ پر غورکرنا ہوگا کہ ہم نے قومی سطح پر جو نئے بیانیہ کی تلاش میں بیس نکاتی )قومی نیشنل ایکشن پلان (اور فرقہ وارانہ مسائل سے نجات کے لیے جو )پیغام پاکستان (جیسے اہم دستاویزات کو ترتیب دیا اور اسے قومی نصاب کا درجہ دیا گیا اس کا حاصل کیا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست میں موجود سیاسی ہنگامہ آرائی, محاذآرائی اور الزام تراشیوں پر مبنی سیاست کے مسائل نے حکمرانوں کو سنجیدہ نوعیت کے مسائل پر کچھ نہیں کرنے دیا یا یہ ان کی اہم قومی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں بن سکا۔ اس کام کو موثر انداز میں کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر وزیر اعظم اور وزیر اعلی کی سربراہی میں جواپیکس کمیٹیاں بنائی گئیں جس میں سیکیورٹی ادارے بھی شامل تھے باہمی چپقلش کا شکار ہوگئے ہیں ۔
ریاست کے اندر ریاست بنانا , چلانا اور اس کو منظم کرنا یہ سب کچھ کیسے ہورہا ہے او رکون اس کی داخلی اور خارجی محاذ پر سرپرستی کررہا ہے اس پر بہت کچھ سوچنے اور اس سے کچھ سیکھ کر نئی حکمت عملی بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے ۔
آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے خاص طور پر نوجوانوں کی طرف اشارہ کیا ہے او ران کے بقول اس بڑے طبقہ کو ریاست او رملک کے خلاف چلنے والی منفی پروپگینڈا کی مہم سے نکالنا ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت منفی قوتوں کا اصل ٹارگٹ ہی نوجوان نسل ہے او راسی کو بنیاد بنا کر وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے۔لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس نئی نسل کو کیسے نکالا جائے کہ وہ اس انتہا پسندی اور سماجی , فرقہ کی بنیاد پر موجود بغاوتوں سے کیسے باہر نکلے ۔ یہ کام محض تقریروں یا سیاسی ومذہبی واعظوں سے ممکن نہیں ۔اس کے لیے قومی سطح پر اپنی جمہوریت اور حکمرانی سے جڑے سماجی , معاشی نظام میں انصاف قائم کرنا بنیادی ترجیح ہونا چاہیے ۔ایک ایسا نظام پیش کرنا جو تعصب یا طبقاتی تقسیم کے بجائے سب کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرکے ہی ہم اپنی نئی نسل کو مختلف نوعیت پر مبنی بغاوتوں سے دور رکھ کر ان کو امن ,رواداری او رایک دوسرے کو قبول کرنے کے نظام کا حصہ دار بناسکتے ہیں ۔
ریاست او رحکومتی سطح پر کچھ کڑوے فیصلے کرنے ہوںگے ۔ فرقوں کی بنیاد پر مذہب کی تقسیم , مساجد او رمدارس کی تقسیم اور مذہبی و فرقہ وارانہ بنیاد پر لٹریچر کی اشاعت یا آڈیو یا وڈیوسمیت سوشل میڈیا کا استعمال یا مذہب کوبنیاد بنا کر فرقہ وارنہ مباحث نفرتیں پیدا کرنے کے کھیل کو روک کر اپنی ذمے داری ادا کرنی چاہیے ۔ تعلیمی اداروں کو اپنی توجہ کا محور بنایا جائے ا س میں رسمی اور غیر رسمی تعلیمی ادارے , مدارس اور رسمی تعلیم کے مراکز سمیت استاد, طالب علم اور ان تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو ایسے بیانیہ کا حصہ بنایا جائے جو ملک میں سیاسی ,سماجی ,معاشی اور مذہبی اہم اہنگی کو پیدا کرنے کا سبب بن سکے ۔میڈیا کو اس جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنا ہے او راس کی نگرانی کا نظام خود میڈیا کے اپنے داخلی محاذ پر نگرانی کے نظام کو موثر اور شفاف بنانا ہوگا۔
ریاست کو ان امور سے نمٹنے کے لیے پہلے سے موجود قوانین او رپالیسیوں کا جائزہ لینا چاہیے ۔ کوئی ایسی قانون سازی یا پالیسی میں تبدیلی یا نئی پالیسی یا قانون سازی کی ضرورت ہے ۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ہمیں بقول آرمی چیف غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے تو پھر اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے بھی غیر معمولی اقدامات او ر کڑوی گولیوں کی ضرورت ہے ۔اس کام میں سیاسی , مذہبی جماعتوں, میڈیا اور سول سوسائٹی سمیت معاشرے میں موجود اہل دانش , شاعر, ادیب , صحافی ,مصنفین ,علمائے کرام ,استاد سب کو جوڑنا ہوگا او ران کو ایک نئے بیانیہ کی جنگ میں مضبوط پیمانوںپر حصہ دار بنانا ہوگا۔یہ سمجھناہوگا کہ جو خارجی سطح پر مسائل یا سازشیں ہیں ان کا حقیقی مقابلہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم داخلی محاذ پر موجود اپنے مسائل , فکری مغالطوں اور تضادات پر مبنی پالیسیوں سے گریز کریں گے ۔
حکومت اور حکومتی اداروں کی سطح پر اس جنگ سے نمٹنے کا واضح اور شفاف پروگرام سب کو نظربھی آنا چاہیے۔ ہرفریق اس جنگ میں کیسے موثر کردار ادا کرسکتا ہے اس کا احساس حکومتی پالیسی اور عملدرآمد کے نظام میں موجود ہونا چاہیے ۔اگر ریاستی و حکومتی ادارے نئی نسل کو ترقی کی بنیاد بنا کر ان کو اس جنگ میں ایک بڑے سفیر کے طور پر استعمال کریں او ران کی تربیت سمیت ان کو ایسے مواقع فراہم کرے جہاں وہ خود بطور سفیر اس جنگ میں ایک سپاہی کے طور پر کچھ کرسکیں تو یہ امر کئی طرح کی بغاوتوں کو کمزور کرنے یا ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔