حکمران عوام میں شامل ہو جائیں
ملک میں لوڈشیڈنگ تو شاید خود جائے گی اندیشہ ہے کسی حکمران کو بھی لے جائے گی
قارئین کرام کی تفریح طبع کے لیے یہ خوشخبری عرض ہے کہ ہمارے حکمران اخبار نہیں پڑھتے ان کے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہوتا اور حکومتی کاموں کی مصروفیت انھیں اس کا موقع ہی نہیں دیتی۔ ممکن ہے ان کی نظر کبھی غلطی سے اخبار پر پڑ جاتی ہو گی لیکن بہت جلد لوٹ کر سرکاری کاموں میں الجھ جاتی ہے۔
حکمرانوں اور اخبار کا ذکر آیا تو یہ مشہور واقعہ آپ کو یاد دلاتا ہوں، یہ پہلے بھی آپ نے سنا ہو گا کہ ایوب خان کے معاون اپنے صاحب کو اخباری پیدا کردہ خرخشوں اور ناگوار باتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے صاحب کے مطالعے کے لیے جعلی طور پر پسندیدہ اخبار چھپوا دیتے تھے جو صبح صبح صاحب کو پیش کیے جاتے، وہ اپنا یہ ہمدرد پریس دیکھ کر خوش ہو جاتے اور بے فکر ہو کر حکمرانی شروع کر دیتے۔ اب آج کے حکمرانوں کے پاس ایسے ذہین اور جرات مند اہلکار نہیں ہیں جیسے ایوب خان کے ندرت خیال والے الطاف گوہر وغیرہ تھے، ایسے لوگ صرف اپنے اپنے صاحب سے بُری خبروں کو چُھپانے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں، غیر معمولی طور پر مصروف حکمرانوں کو اتنی ہوش نہیں ہوتی کہ وہ اخباروں میں الجھ کر وقت ضایع کریں، ان کے سامنے ملک کو درپیش اتنے بڑے بڑے چیلنج ہیں کہ تعجب ہوتا ہے، وہ ان کی موجودگی میں ہوش و حواس میں کیسے ہیں۔
ملک میں لوڈشیڈنگ تو شاید خود جائے گی اندیشہ ہے کسی حکمران کو بھی لے جائے گی لیکن روز مرہ کی عوامی مشکلات جو ایک اچھی انتظامیہ بغیر کسی آئی ایم ایف کی مالی امداد اور قرض کے حل کر سکتی ہے وہ ضرور ہونی چاہیے، شاید اسی لیے حکم دیا گیا ہے کہ چیف سیکریٹری صاحب اتنے وقت کے لیے اور سیکریٹری صاحبان پورے دفتری وقت میں موجود رہیں اور عوام کے مسائل سنیں۔ مجھے تو یہ اسی قسم کا حکم نظر آتا ہے جو پہلی جماعت سے انگریزی میں تعلیم کا دکھائی دیتا ہے۔
یہ ایک الگ موضوع ہے اس وقت سوال یہ ہے کہ پورے صوبے میں اپنے اپنے محکمے کے سربراہ اگر اپنے ماتحتوں کو ٹھیک نہیں کر پاتے کہ وہ عوام کے مسائل کو اپنی نچلی سطح پر حل کر دیں تو اکیلے سیکریٹری صاحب ان کو کیسے حل کر سکتے ہیں جو ہر حکم اپنے کسی ماتحت کو ہی دیں گے جس کی نا اہلی کی وجہ سے ہی کسی کا کوئی مسئلہ ان کے سامنے پیش ہوا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ سیکریٹری صاحب عوام کے لیے موجود اور حاضر ہیں یا نہیں سوال یہ ہے کہ سیکریٹری صاحب کے ماتحت کہاں سو گئے ہیں۔
مسائل کو ان کی پیدائش پر ہی حل کرنے کا سلسلہ انگریز حکمرانوں نے شروع کیا تھا جو ہم پاکستانیوں نے اپنے لیے غیر مفید یا مشکل پا کر ختم کر دیا۔ ہر ضلعے میں ایک ڈی سی ایک ایس پی اور ایک سیشن جج انگریز ہوتا تھا جو برطانوی تاج کے وقار کی حفاظت کرتا تھا۔ ڈی سی اور ایس پی عوام کا کوئی مسئلہ اپنے سے آگے نہیں جانے دیتے تھے۔ وہ اپنے قانون کی حفاظت ہی نہیں کرتے تھے اس کے احترام اور وقار کو لازم سمجھتے تھے اور اس کے لیے جان تک لڑاتے تھے بچاتے نہیں تھے۔
میانوالی کے ایس پی کو اطلاع ملی کہ حکومت کا فلاں مفرور اس وقت فلاں مکان میں چھپا ہوا ہے۔ ایس پی اس مکان کے سامنے پہنچا اور مفرور کی موجودگی کی تسلی کر کے خود اس کمرے کے دروازے کے سامنے کھڑا ہو گیا اور حکم دیا کہ دروازہ کھول دو۔ اہلکاروں نے ڈرتے ڈرتے کہ اس مسلح مقابلے میں نہ جانے کیا ہو دروازہ توڑدیا۔ ایس پی نے للکارا کہ سامنے آئو ہاتھ میں ریوالور لے کر مفرور نے سامنے آ کر ایس پی پر فائر کیا جوابی فائرنگ میں مفرور کو گولی لگ گئی تاج برطانیہ کا محافظ کامیاب رہا۔
جان پر کھیل جانا اس کی ذمے داری تھی یہی احساس ذمے داری تھا کہ صرف چند ہزار مٹھی بھر انگریزوں نے پورے ہندوستان پر حکومت کی' تعداد کوئی چالیس ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے لیکن ہم کوئی غیر نہیں ہیں مگر ہمارا اپنا ملک ہمارے قابو میں نہیں ہمارے پریشان حکمران پوری کوشش کر رہے ہیں کہ حالات پر قابو پا لیں یہ اعلیٰ افسروں کی دفتروں میں حاضری وغیرہ حکمرانوں کی کوششوں کا ایک نمونہ ہیں لیکن مجھے خیال آیا کہ سیکیورٹی کے اس خطرناک زمانے میں کون عوامی سائل کسی افسر تک پہنچ پائے گا۔ تلاشی میں ہی مارا جائے گا۔
ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ہاں ہر قانون موجود ہے اس پر عمل درکار ہے ایک ڈی سی نے اپنے دفتر کی الماری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں رکھی کتابوں میں ہر قانون بھی موجود ہے اور ہر مرض کا علاج بھی۔ اتنے میں چپڑاسی نے اطلاع دی کہ سر فلاں صاحب ملنے آئے ہیں یہ ایک ایم پی اے تھے۔ میرے اس دوست ڈی سی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ قانون آ گیا ہے ان کا فلاں کام ہے جو سراسر ناجائز ہے حق تلفی ہے۔
مجھے چند لمحے قبل انصاف کی جذباتی باتیں کرتے ہوئے اس افسر پر بڑا ترس آیا۔ عرض ہے کہ ایسی صورت حال میں کوئی حکمران کس طرح کسی بحران سے نپٹ سکتا ہے صرف اپنی جان ہلکان کر سکتا ہے صرف ایک صورت باقی ہے کہ حکمران اپنی رعایا کو یہ یقین دلا دیں کہ وہ بھی ان میں سے ہیں ان کی زندگی بھی ان جیسی ہے ان سے برتر نہیں ہے پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ وہ فرش پر بیٹھیں اور کوئی نمایاں ہو کر اونچا بیٹھنے کو کہے تو جواب دیں کہ جو فرش پر بیٹھتا ہے وہ گرتا نہیں (حضرت علیؓ)
ہم ناساز گار حالات کی قیامت سے گزر رہے ہیں ہمیں پوری زندگی ہی بدلنی ہو گی لیکن یہ سب میرے آپ کے خواب ہیں۔ کبھی خوابوں کی زندگی میں بھی بڑا لطف آتا ہے آئیے اس لطف سے محظوظ ہوں حکمرانوں کو اونچا ہی بیٹھنے دیں خود فرش پر بیٹھیں اور امت مسلمہ کے لیے ثواب حاصل کریں لیکن حکمران جب تک ہم جیسے نہیں بنیں گے تب تک وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔
حکمرانوں اور اخبار کا ذکر آیا تو یہ مشہور واقعہ آپ کو یاد دلاتا ہوں، یہ پہلے بھی آپ نے سنا ہو گا کہ ایوب خان کے معاون اپنے صاحب کو اخباری پیدا کردہ خرخشوں اور ناگوار باتوں سے محفوظ رکھنے کے لیے صاحب کے مطالعے کے لیے جعلی طور پر پسندیدہ اخبار چھپوا دیتے تھے جو صبح صبح صاحب کو پیش کیے جاتے، وہ اپنا یہ ہمدرد پریس دیکھ کر خوش ہو جاتے اور بے فکر ہو کر حکمرانی شروع کر دیتے۔ اب آج کے حکمرانوں کے پاس ایسے ذہین اور جرات مند اہلکار نہیں ہیں جیسے ایوب خان کے ندرت خیال والے الطاف گوہر وغیرہ تھے، ایسے لوگ صرف اپنے اپنے صاحب سے بُری خبروں کو چُھپانے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں، غیر معمولی طور پر مصروف حکمرانوں کو اتنی ہوش نہیں ہوتی کہ وہ اخباروں میں الجھ کر وقت ضایع کریں، ان کے سامنے ملک کو درپیش اتنے بڑے بڑے چیلنج ہیں کہ تعجب ہوتا ہے، وہ ان کی موجودگی میں ہوش و حواس میں کیسے ہیں۔
ملک میں لوڈشیڈنگ تو شاید خود جائے گی اندیشہ ہے کسی حکمران کو بھی لے جائے گی لیکن روز مرہ کی عوامی مشکلات جو ایک اچھی انتظامیہ بغیر کسی آئی ایم ایف کی مالی امداد اور قرض کے حل کر سکتی ہے وہ ضرور ہونی چاہیے، شاید اسی لیے حکم دیا گیا ہے کہ چیف سیکریٹری صاحب اتنے وقت کے لیے اور سیکریٹری صاحبان پورے دفتری وقت میں موجود رہیں اور عوام کے مسائل سنیں۔ مجھے تو یہ اسی قسم کا حکم نظر آتا ہے جو پہلی جماعت سے انگریزی میں تعلیم کا دکھائی دیتا ہے۔
یہ ایک الگ موضوع ہے اس وقت سوال یہ ہے کہ پورے صوبے میں اپنے اپنے محکمے کے سربراہ اگر اپنے ماتحتوں کو ٹھیک نہیں کر پاتے کہ وہ عوام کے مسائل کو اپنی نچلی سطح پر حل کر دیں تو اکیلے سیکریٹری صاحب ان کو کیسے حل کر سکتے ہیں جو ہر حکم اپنے کسی ماتحت کو ہی دیں گے جس کی نا اہلی کی وجہ سے ہی کسی کا کوئی مسئلہ ان کے سامنے پیش ہوا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ سیکریٹری صاحب عوام کے لیے موجود اور حاضر ہیں یا نہیں سوال یہ ہے کہ سیکریٹری صاحب کے ماتحت کہاں سو گئے ہیں۔
مسائل کو ان کی پیدائش پر ہی حل کرنے کا سلسلہ انگریز حکمرانوں نے شروع کیا تھا جو ہم پاکستانیوں نے اپنے لیے غیر مفید یا مشکل پا کر ختم کر دیا۔ ہر ضلعے میں ایک ڈی سی ایک ایس پی اور ایک سیشن جج انگریز ہوتا تھا جو برطانوی تاج کے وقار کی حفاظت کرتا تھا۔ ڈی سی اور ایس پی عوام کا کوئی مسئلہ اپنے سے آگے نہیں جانے دیتے تھے۔ وہ اپنے قانون کی حفاظت ہی نہیں کرتے تھے اس کے احترام اور وقار کو لازم سمجھتے تھے اور اس کے لیے جان تک لڑاتے تھے بچاتے نہیں تھے۔
میانوالی کے ایس پی کو اطلاع ملی کہ حکومت کا فلاں مفرور اس وقت فلاں مکان میں چھپا ہوا ہے۔ ایس پی اس مکان کے سامنے پہنچا اور مفرور کی موجودگی کی تسلی کر کے خود اس کمرے کے دروازے کے سامنے کھڑا ہو گیا اور حکم دیا کہ دروازہ کھول دو۔ اہلکاروں نے ڈرتے ڈرتے کہ اس مسلح مقابلے میں نہ جانے کیا ہو دروازہ توڑدیا۔ ایس پی نے للکارا کہ سامنے آئو ہاتھ میں ریوالور لے کر مفرور نے سامنے آ کر ایس پی پر فائر کیا جوابی فائرنگ میں مفرور کو گولی لگ گئی تاج برطانیہ کا محافظ کامیاب رہا۔
جان پر کھیل جانا اس کی ذمے داری تھی یہی احساس ذمے داری تھا کہ صرف چند ہزار مٹھی بھر انگریزوں نے پورے ہندوستان پر حکومت کی' تعداد کوئی چالیس ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے لیکن ہم کوئی غیر نہیں ہیں مگر ہمارا اپنا ملک ہمارے قابو میں نہیں ہمارے پریشان حکمران پوری کوشش کر رہے ہیں کہ حالات پر قابو پا لیں یہ اعلیٰ افسروں کی دفتروں میں حاضری وغیرہ حکمرانوں کی کوششوں کا ایک نمونہ ہیں لیکن مجھے خیال آیا کہ سیکیورٹی کے اس خطرناک زمانے میں کون عوامی سائل کسی افسر تک پہنچ پائے گا۔ تلاشی میں ہی مارا جائے گا۔
ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ہاں ہر قانون موجود ہے اس پر عمل درکار ہے ایک ڈی سی نے اپنے دفتر کی الماری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں رکھی کتابوں میں ہر قانون بھی موجود ہے اور ہر مرض کا علاج بھی۔ اتنے میں چپڑاسی نے اطلاع دی کہ سر فلاں صاحب ملنے آئے ہیں یہ ایک ایم پی اے تھے۔ میرے اس دوست ڈی سی نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ قانون آ گیا ہے ان کا فلاں کام ہے جو سراسر ناجائز ہے حق تلفی ہے۔
مجھے چند لمحے قبل انصاف کی جذباتی باتیں کرتے ہوئے اس افسر پر بڑا ترس آیا۔ عرض ہے کہ ایسی صورت حال میں کوئی حکمران کس طرح کسی بحران سے نپٹ سکتا ہے صرف اپنی جان ہلکان کر سکتا ہے صرف ایک صورت باقی ہے کہ حکمران اپنی رعایا کو یہ یقین دلا دیں کہ وہ بھی ان میں سے ہیں ان کی زندگی بھی ان جیسی ہے ان سے برتر نہیں ہے پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ وہ فرش پر بیٹھیں اور کوئی نمایاں ہو کر اونچا بیٹھنے کو کہے تو جواب دیں کہ جو فرش پر بیٹھتا ہے وہ گرتا نہیں (حضرت علیؓ)
ہم ناساز گار حالات کی قیامت سے گزر رہے ہیں ہمیں پوری زندگی ہی بدلنی ہو گی لیکن یہ سب میرے آپ کے خواب ہیں۔ کبھی خوابوں کی زندگی میں بھی بڑا لطف آتا ہے آئیے اس لطف سے محظوظ ہوں حکمرانوں کو اونچا ہی بیٹھنے دیں خود فرش پر بیٹھیں اور امت مسلمہ کے لیے ثواب حاصل کریں لیکن حکمران جب تک ہم جیسے نہیں بنیں گے تب تک وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔