ریبیز کا عالمی دن
چند دنوں کی ظاہری پابندی کے بعد یہ کاروبار پھر آب و تاب اور نئی توانائیوں اور بے خوفی کے ساتھ شروع ہوجاتے ہیں۔
MIANWALI:
25 جون سگ گزیدگی یعنی باؤلے (پاگل)کتوں کے کاٹنے سے لاحق ہونے والی بیماری کے انسداد کا عالمی دن ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی یہ دن منایا گیا۔ کتے کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری ریبیز (Rabies) دنیا کی دسویں بڑی بیماری ہے، جس میں شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ ریبیز کا مرض لاحق ہونے سے مریض میں ہائیڈرو فوبیا ہوجاتا ہے، وہ پانی اور روشنی سے ڈرنے لگتا ہے، مریض پر جو گزرتی ہے وہ تو وہی جانتا ہے لیکن اسے دیکھنے والے بھی بڑی اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔
ایسے مریضوں کو انھیں اپنے تشدد سے بچانے کے لیے آخری چارہ کار کے طور پر رسیوں اور چارپائیوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔ کتے کے کاٹنے سے ہونے والے مرض کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، بعض اوقات متاثرہ شخص یا اس کے گھر والے زخم کی معمولی سی نوعیت کے سبب اس واقعے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور اس کے علاج کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے روایتی قسم کی مرہم پٹی یا زخم میں مرچیں بھر کر بے خبر و مطمئن ہوجاتے ہیں، جب مرض کی شدت بڑھتی ہے، مریض کو تیز بخار، کپکپی، جھٹکے اور رال ٹپکنا شروع ہوتی ہے تو اس وقت علاج کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، جب یہ مرض لاعلاج ہوچکا ہوتا ہے۔
اس مرض کے علاج اور اس کی حفاظتی ویکسین بھی عموماً عام مقامات پر میسر نہیں ہوتی اور اتنی مہنگی ہوتی ہیں کہ غریب افراد کی دسترس سے باہر ہوتی ہیں، سرکاری اسپتالوں میں تو عنقا ہوتی ہیں نہ اس سے متعلق عملہ یا شعبہ جات ہوتے ہیں بلکہ راقم کو ایک مرتبہ خود مشاہدہ ہوا کہ ایک متاثرہ شخص جو اینٹی ریبیز ویکسین خرید کر اسپتال میں لایا مگر اس انجکشن کی سیل ڈاکٹر سے نہیں کھل رہی تھی، وہ کبھی انجکشن سے زور آزمائی کر رہا تھا کبھی اس کے لٹریچر کو پڑھ رہا تھا، اسی دوران دوسرا ڈاکٹر بھی آگیا دونوں یہ ہی عمل دہراتے رہے۔
کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں درجنوں بڑے بڑے نامی گرامی اسپتال موجود ہیں، ان میں سے ایک دو میں ہی کتے، سانپ، بندر، چوہے و دیگر جانوروں کے کاٹنے کے علاج سے متعلق شعبہ جات موجود ہیں۔ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی نے پاگل کتوں کے کاٹنے سے متاثرہ افراد کی جانیں بچانے کے لیے Anti Rabies اور Anti Bodies کی تیاری کے لیے تحقیق شروع کردی ہے۔ کتوں کے کاٹنے سے پاکستان میں سالانہ 8 ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیں اور اس کے تدارک کے لیے سالانہ 8 لاکھ حفاظتی ویکسین کی ضرورت ہے۔
گوناگوں مسائل اور مصائب میں گھری حکومتوں کی ترجیحات میں اس قسم کے معاملات یا تو ہوتے ہی نہیں ہیں یا پھر آخری درجے میں ہوتے ہیں، اس سلسلے میں میڈیا اور این جی اوز اس موذی و خطرناک مرض کی سنگینی سے متعلق آگاہی مہم کے ذریعے بڑی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں تو ریت پڑچکی ہے کہ ہیپاٹائٹس نے مہلک صورتحال اختیار کی اور لوگ اس کے حفاظتی ویکسین کی طرف متوجہ ہوئے تو بازاروں میں غیر معیاری ویکسین کے انبار لگ گئے، حکومتی اداروں کی ملی بھگت سے غیر معیاری، ناقص اور سستی ویکسین انتہائی مہنگے داموں پر فراہم کی گئیں۔ میڈیکل اسٹورز اور طبی عملے نے خرد برد اور غیر معیاری طریقے سے ناموزوں حالات میں ان کا ذخیرہ اور خریدوفروخت کرکے ان کی افادیت ہی ختم کر دی، جس کی وجہ سے لوگوں کا پیسہ اور زندگیاں دونوں تباہ ہوئیں۔
بہت سی مہلک بیماریاں، اموات اور ہلاکتیں ایسی ہیں جن میں خود ہمارا اپنا یا حکومتی اداروں کا ہاتھ کارفرما ہوتا ہے، اگر ان معاملات پر توجہ دی جائے تو ان ہلاکتوں میں بہت حد تک کمی لائی جاسکتی ہے مثلاً ملک میں سالانہ ایک لاکھ سے زائد افراد اپنی زندگیاں تمباکونوشی کی نذر کردیتے ہیں، زچگی کے دوران 25 ہزار خواتین اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ سالانہ 1.2 ملین بچوں کی زندگیاں غفلت کی نذر ہوجاتی ہیں، 15 ملین سے زائد افراد غیر معیاری پانی کے استعمال سے مختلف قسم کی مہلک بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، بے ہنگم اور خلاف قانون ڈرائیونگ کی وجہ سے 10 ہزار سے زائد افراد اپنی زندگیاں گنوا دیتے ہیں، سماجی و معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے سیکڑوں افراد خودکشیاں کرکے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیتے ہیں۔
حکومتی ادارے، این جی اوز اور میڈیا ان قومی معاملات پر بغیر کسی بڑے اضافی خرچے کے بھی قانون کے عملی نفاذ اور عوامی آگاہی کے ذریعے بڑے مثبت نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق صرف گٹکے، مین پوری اور سپاری کے استعمال سے سالانہ ڈیڑھ لاکھ افراد گلے، پھیپھڑوں، سانس کی نالی اور مثانے کے کینسر میں مبتلا ہورہے ہیں، جن میں 55 فیصد سے زائد کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں زیادہ تناسب 12 سال سے کم عمر کے بچوں کا ہے۔
اس شرح میں روز اضافہ ہورہا ہے، اس کی بڑی وجہ بچوں میں گٹکا، مین پوری اور سپاری جیسی مضرصحت اشیاء کا بڑی تعداد میں اور بے محل استعمال اور ان کے کاروبار میں بے پناہ منافع اور متعلقہ اداروں کو دی جانے والی بڑی بڑی رشوتیں ہیں۔ حکومت وقتی اشتہاری اور نمائشی قسم کی مہمات چلانے کے بجائے سنجیدگی اور اخلاص سے اقدامات کرے تو ان لاکھوں زندگیوں کو بچایا جاسکتا ہے۔ حکومت کو ریونیو پر نظر رکھنے کے بجائے اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ان خرافات کی درآمد پر کتنا کثیر زرمبادلہ ضایع ہوتا ہے۔ حکومت امن وامان اور شہریوں کے تحفظ کے لیے پولیس کو اربوں روپے دیتی ہے تو اسے تمباکونوشی کے نتیجے میں اس سے کئی گنا بڑی تعداد کی ہلاکتوں پر بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
اس وقت ایک نئی وبا شیشہ نوشی کی صورت میں پھیل چکی ہے۔ شیشہ نوشی شوق اور فیشن سے بڑھ کر اب نوجوانوں کی لت اور مجبوری بنتا جارہا ہے۔ اس میں طلبا وطالبات کے علاوہ کم عمر لڑکے اور لڑکیاں اپنے والدین سے چھپ کر شیشہ پارلرز کا رخ کرتے ہیں، والدین کو دھوکا دے کر اپنا پیسہ، وقت اور مستقبل شیشہ پارلرز میں ضایع کرتے ہیں، کچھ یہی حال آئسکریم پارلرز کا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں بازار تو بارہ بجے کے بعد کھلنا شروع ہوتے ہیں لیکن یہ آئسکریم پارلر صبح 8 بجے سے رات گئے تک آباد رہتے ہیں، طلبا و طالبات اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے نوجوان سیدھا ان پارلرز کا رخ اختیار کرتے ہیں۔
مسلسل شیشہ نوشی کی وجہ سے ان نوجوانوں کو گردوں، پھپپھڑوں اور سانس کی نالیوں کے کینسر کے شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں، یہ کم عمر اور ناپختہ ذہن کے حامل بچے ابتداً شیشہ کا شوقیہ استعمال کرتے ہیں پھر اس نشے کے عادی ہوجاتے ہیں، یہاں سے ان میں بہت سی اخلاقی برائیوں کی ابتدا بھی ہوجاتی ہے۔ حکومت ایسے اہم قومی معاملات پر وقتاً فوقتاً مہمات چلاتی ہے۔ گٹکے، مین پوری، سپاریاں، حقے وغیرہ ضبط کیے جاتے ہیں، کچھ شیشہ پارلرز بھی بند کرادیے جاتے ہیں، دفعہ 144 کے تحت پابندیاں اور نوٹیفکیشن جاری کیے جاتے ہیں لیکن ان سب کارروائیوں کا مثبت نتیجہ سامنے آنے کے بجائے منفی نتائج ہی سامنے آتے ہیں کہ اس سے رشوتوں کے نرخ اور ان مضر صحت اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
چند دنوں کی ظاہری پابندی کے بعد یہ کاروبار پھر آب و تاب اور نئی توانائیوں اور بے خوفی کے ساتھ شروع ہوجاتے ہیں۔ اگر حکومت نے ان چھوٹے چھوٹے سے مسائل جو اس کی عدم دلچسپی ولاپرواہی اور متعلق اداروں کی مجرمانہ غفلت بلکہ سرپرستی سے گمبھیر صورت حال اختیار کرچکے ہیں، کے تدارک کے لیے سنجیدہ اور مخلصانہ کوششیں نہیں کیں تو یہ نوجوانوں اور ملک دونوں کے مستقبل کو تباہی سے دوچار کرسکتی ہیں۔
25 جون سگ گزیدگی یعنی باؤلے (پاگل)کتوں کے کاٹنے سے لاحق ہونے والی بیماری کے انسداد کا عالمی دن ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی یہ دن منایا گیا۔ کتے کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری ریبیز (Rabies) دنیا کی دسویں بڑی بیماری ہے، جس میں شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ ریبیز کا مرض لاحق ہونے سے مریض میں ہائیڈرو فوبیا ہوجاتا ہے، وہ پانی اور روشنی سے ڈرنے لگتا ہے، مریض پر جو گزرتی ہے وہ تو وہی جانتا ہے لیکن اسے دیکھنے والے بھی بڑی اذیت کا شکار ہوتے ہیں۔
ایسے مریضوں کو انھیں اپنے تشدد سے بچانے کے لیے آخری چارہ کار کے طور پر رسیوں اور چارپائیوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔ کتے کے کاٹنے سے ہونے والے مرض کی کئی وجوہات ہوتی ہیں، بعض اوقات متاثرہ شخص یا اس کے گھر والے زخم کی معمولی سی نوعیت کے سبب اس واقعے کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اور اس کے علاج کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے روایتی قسم کی مرہم پٹی یا زخم میں مرچیں بھر کر بے خبر و مطمئن ہوجاتے ہیں، جب مرض کی شدت بڑھتی ہے، مریض کو تیز بخار، کپکپی، جھٹکے اور رال ٹپکنا شروع ہوتی ہے تو اس وقت علاج کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، جب یہ مرض لاعلاج ہوچکا ہوتا ہے۔
اس مرض کے علاج اور اس کی حفاظتی ویکسین بھی عموماً عام مقامات پر میسر نہیں ہوتی اور اتنی مہنگی ہوتی ہیں کہ غریب افراد کی دسترس سے باہر ہوتی ہیں، سرکاری اسپتالوں میں تو عنقا ہوتی ہیں نہ اس سے متعلق عملہ یا شعبہ جات ہوتے ہیں بلکہ راقم کو ایک مرتبہ خود مشاہدہ ہوا کہ ایک متاثرہ شخص جو اینٹی ریبیز ویکسین خرید کر اسپتال میں لایا مگر اس انجکشن کی سیل ڈاکٹر سے نہیں کھل رہی تھی، وہ کبھی انجکشن سے زور آزمائی کر رہا تھا کبھی اس کے لٹریچر کو پڑھ رہا تھا، اسی دوران دوسرا ڈاکٹر بھی آگیا دونوں یہ ہی عمل دہراتے رہے۔
کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں درجنوں بڑے بڑے نامی گرامی اسپتال موجود ہیں، ان میں سے ایک دو میں ہی کتے، سانپ، بندر، چوہے و دیگر جانوروں کے کاٹنے کے علاج سے متعلق شعبہ جات موجود ہیں۔ ایک اچھی خبر یہ ہے کہ ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی نے پاگل کتوں کے کاٹنے سے متاثرہ افراد کی جانیں بچانے کے لیے Anti Rabies اور Anti Bodies کی تیاری کے لیے تحقیق شروع کردی ہے۔ کتوں کے کاٹنے سے پاکستان میں سالانہ 8 ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیں اور اس کے تدارک کے لیے سالانہ 8 لاکھ حفاظتی ویکسین کی ضرورت ہے۔
گوناگوں مسائل اور مصائب میں گھری حکومتوں کی ترجیحات میں اس قسم کے معاملات یا تو ہوتے ہی نہیں ہیں یا پھر آخری درجے میں ہوتے ہیں، اس سلسلے میں میڈیا اور این جی اوز اس موذی و خطرناک مرض کی سنگینی سے متعلق آگاہی مہم کے ذریعے بڑی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں تو ریت پڑچکی ہے کہ ہیپاٹائٹس نے مہلک صورتحال اختیار کی اور لوگ اس کے حفاظتی ویکسین کی طرف متوجہ ہوئے تو بازاروں میں غیر معیاری ویکسین کے انبار لگ گئے، حکومتی اداروں کی ملی بھگت سے غیر معیاری، ناقص اور سستی ویکسین انتہائی مہنگے داموں پر فراہم کی گئیں۔ میڈیکل اسٹورز اور طبی عملے نے خرد برد اور غیر معیاری طریقے سے ناموزوں حالات میں ان کا ذخیرہ اور خریدوفروخت کرکے ان کی افادیت ہی ختم کر دی، جس کی وجہ سے لوگوں کا پیسہ اور زندگیاں دونوں تباہ ہوئیں۔
بہت سی مہلک بیماریاں، اموات اور ہلاکتیں ایسی ہیں جن میں خود ہمارا اپنا یا حکومتی اداروں کا ہاتھ کارفرما ہوتا ہے، اگر ان معاملات پر توجہ دی جائے تو ان ہلاکتوں میں بہت حد تک کمی لائی جاسکتی ہے مثلاً ملک میں سالانہ ایک لاکھ سے زائد افراد اپنی زندگیاں تمباکونوشی کی نذر کردیتے ہیں، زچگی کے دوران 25 ہزار خواتین اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ سالانہ 1.2 ملین بچوں کی زندگیاں غفلت کی نذر ہوجاتی ہیں، 15 ملین سے زائد افراد غیر معیاری پانی کے استعمال سے مختلف قسم کی مہلک بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں، بے ہنگم اور خلاف قانون ڈرائیونگ کی وجہ سے 10 ہزار سے زائد افراد اپنی زندگیاں گنوا دیتے ہیں، سماجی و معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے سیکڑوں افراد خودکشیاں کرکے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیتے ہیں۔
حکومتی ادارے، این جی اوز اور میڈیا ان قومی معاملات پر بغیر کسی بڑے اضافی خرچے کے بھی قانون کے عملی نفاذ اور عوامی آگاہی کے ذریعے بڑے مثبت نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق صرف گٹکے، مین پوری اور سپاری کے استعمال سے سالانہ ڈیڑھ لاکھ افراد گلے، پھیپھڑوں، سانس کی نالی اور مثانے کے کینسر میں مبتلا ہورہے ہیں، جن میں 55 فیصد سے زائد کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں زیادہ تناسب 12 سال سے کم عمر کے بچوں کا ہے۔
اس شرح میں روز اضافہ ہورہا ہے، اس کی بڑی وجہ بچوں میں گٹکا، مین پوری اور سپاری جیسی مضرصحت اشیاء کا بڑی تعداد میں اور بے محل استعمال اور ان کے کاروبار میں بے پناہ منافع اور متعلقہ اداروں کو دی جانے والی بڑی بڑی رشوتیں ہیں۔ حکومت وقتی اشتہاری اور نمائشی قسم کی مہمات چلانے کے بجائے سنجیدگی اور اخلاص سے اقدامات کرے تو ان لاکھوں زندگیوں کو بچایا جاسکتا ہے۔ حکومت کو ریونیو پر نظر رکھنے کے بجائے اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ان خرافات کی درآمد پر کتنا کثیر زرمبادلہ ضایع ہوتا ہے۔ حکومت امن وامان اور شہریوں کے تحفظ کے لیے پولیس کو اربوں روپے دیتی ہے تو اسے تمباکونوشی کے نتیجے میں اس سے کئی گنا بڑی تعداد کی ہلاکتوں پر بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
اس وقت ایک نئی وبا شیشہ نوشی کی صورت میں پھیل چکی ہے۔ شیشہ نوشی شوق اور فیشن سے بڑھ کر اب نوجوانوں کی لت اور مجبوری بنتا جارہا ہے۔ اس میں طلبا وطالبات کے علاوہ کم عمر لڑکے اور لڑکیاں اپنے والدین سے چھپ کر شیشہ پارلرز کا رخ کرتے ہیں، والدین کو دھوکا دے کر اپنا پیسہ، وقت اور مستقبل شیشہ پارلرز میں ضایع کرتے ہیں، کچھ یہی حال آئسکریم پارلرز کا ہے۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں بازار تو بارہ بجے کے بعد کھلنا شروع ہوتے ہیں لیکن یہ آئسکریم پارلر صبح 8 بجے سے رات گئے تک آباد رہتے ہیں، طلبا و طالبات اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے نوجوان سیدھا ان پارلرز کا رخ اختیار کرتے ہیں۔
مسلسل شیشہ نوشی کی وجہ سے ان نوجوانوں کو گردوں، پھپپھڑوں اور سانس کی نالیوں کے کینسر کے شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں، یہ کم عمر اور ناپختہ ذہن کے حامل بچے ابتداً شیشہ کا شوقیہ استعمال کرتے ہیں پھر اس نشے کے عادی ہوجاتے ہیں، یہاں سے ان میں بہت سی اخلاقی برائیوں کی ابتدا بھی ہوجاتی ہے۔ حکومت ایسے اہم قومی معاملات پر وقتاً فوقتاً مہمات چلاتی ہے۔ گٹکے، مین پوری، سپاریاں، حقے وغیرہ ضبط کیے جاتے ہیں، کچھ شیشہ پارلرز بھی بند کرادیے جاتے ہیں، دفعہ 144 کے تحت پابندیاں اور نوٹیفکیشن جاری کیے جاتے ہیں لیکن ان سب کارروائیوں کا مثبت نتیجہ سامنے آنے کے بجائے منفی نتائج ہی سامنے آتے ہیں کہ اس سے رشوتوں کے نرخ اور ان مضر صحت اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
چند دنوں کی ظاہری پابندی کے بعد یہ کاروبار پھر آب و تاب اور نئی توانائیوں اور بے خوفی کے ساتھ شروع ہوجاتے ہیں۔ اگر حکومت نے ان چھوٹے چھوٹے سے مسائل جو اس کی عدم دلچسپی ولاپرواہی اور متعلق اداروں کی مجرمانہ غفلت بلکہ سرپرستی سے گمبھیر صورت حال اختیار کرچکے ہیں، کے تدارک کے لیے سنجیدہ اور مخلصانہ کوششیں نہیں کیں تو یہ نوجوانوں اور ملک دونوں کے مستقبل کو تباہی سے دوچار کرسکتی ہیں۔