صرف مشرف نہیں
نواز شریف کے خلاف کراچی میں پرویز مشرف کے جہاز کو اغوا کرنے کا مقدمہ چلا۔
ISLAMABAD:
فوج کے سابق سربراہ جنرل جہانگیر کرامت نے اپنی تقریر میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کے قیام کی تجویز پیش کی تھی ۔ اس کونسل کے قیام کا مقصد منتخب وزیراعظم کو نیشنل سیکیورٹی کونسل کے تابع کرنا تھا۔ یہ تجویز صدر کے قومی اسمبلی کو توڑنے کے اختیار کے خاتمے کے بعد پیش کی گئی تھی۔ میاں نواز شریف کے لیے ایک فوجی افسر کی اطاعت قابل قبول نہیں تھی، جہانگیر کرامت کے پاس استعفیٰ کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔
جنرل جہانگیر کرامت کے استعفے کے دوسرے دن ملک کے ایک انگریزی اخبار میں معروف رپورٹر کی یہ تفصیلی رپورٹ شایع ہوئی، جس میں کہا گیا تھا کہ جنرل کرامت کے استعفیٰ کے باوجود جنرل ہیڈ کوارٹر کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے حوالے سے پالیسی برقرار رہے گی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جنرل جہانگیر کرامت کے بے وقت استعفے کو اعلیٰ فوجی افسروں نے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ وزیراعظم نواز شریف نے ایک جونیئر جنرل پرویز مشرف کو فوج کا نیا سربراہ مقرر کیا۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے پیش رو کی پالیسی کو برقرار رکھا، انھوں نے منتخب حکومت کی اجازت کے بغیر کارگل میں فوج کشی کی۔ جنرل پرویز مشرف کی کارگل کی مہم جوئی سے بھارت اور پاکستان جنگ کے قریب پہنچ گئے۔ میاں نواز شریف کی بھارتی وزیراعظم واجپائی کے ساتھ مل کر دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش سبوتاژ ہوگئی۔ جنرل پرویز مشرف اکتوبر 1999 میں سری لنکا گئے، جب ان کا طیارہ واپسی میں کراچی کی طرف پرواز کررہا تھا تو وزیراعظم سے ان کی سبکدوشی کا نوٹیفکیشن جاری ہوا۔ جی ایچ کیو میں تعینات فوجی جنرل 1973 کے آئین کی پاسداری کا حلف بھول گئے۔
بریگیڈ III نے وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کیا، منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف کو ایک کمرے میں بند کردیا گیا۔ کراچی کے کور کمانڈر نے ایئرپورٹ پر برطرف ہونے والے فوجی سربراہ کا استقبال کیا۔ فوجی دستے نے جنرل مشرف کو سلامی دی، وہ کراچی میں کور ہیڈ کوارٹر گئے اور پھر 1973 کے آئین کو معطل کرنے اور خودساختہ چیف ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھالا۔ اس دوران وزیراعظم نواز شریف سے پوچھ گچھ کرنے والے فوجی افسروں نے انھیں استعفیٰ دینے کی پیشکش کی تاکہ وہ عام شہری کی حیثیت سے زندگی گزار سکیں مگر میاں نواز شریف نے انکار کیا۔ میاں صاحب کو پہلے مری میں اور پھر اٹک قلعے میں نظر بند کیا گیا۔
نواز شریف کے خلاف کراچی میں پرویز مشرف کے جہاز کو اغوا کرنے کا مقدمہ چلا۔ لانڈھی جیل میں آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی ملاقات ہوئی، جو پرانے سیاسی مخالفین کے درمیان پہلی دفعہ مفاہمت کی ابتدا ہوئی۔کہا جاتا ہے کہ آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کے خلاف مقدمہ کی سماعت کرنے والے سندھ سے تعلق رکھنے والے جسٹس رحمت جعفری کو پیغام بھجوایا کہ میاں صاحب کو سزائے موت دینے سے گریز کریں، انھیں عمر قید کی سزا ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے فوج کے اقدام کو جائز قرار دیا اور جنرل صاحب کو آئین میں ترمیم کا بھی اختیار دے دیا، یوں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کو آئینی تحفظ حاصل ہوا۔
جنرل مشرف نے 2002 میں انتخابات منعقد کراکے 1973 کا آئین بحال کیا تو پی سی او کے ذریعے بہت سے قوانین کو آئینی حیثیت دلادی۔ 2002 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی اکثریتی جماعت کی حیثیت سے ابھری مگر عسکری مقتدرہ کے فیصلے کے تحت مسلم لیگ ق وجود میں آئی۔ پیپلزپارٹی کے اراکین قومی اسمبلی کا ایک علیحدہ گروپ قائم کیا گیا اور مذہبی جماعتوں کو ایک منصوبے کے تحت متحدہ مجلس عمل میں ضم کیا گیا۔ ایم ایم اے نے جنرل پرویز مشرف کے صدر کے عہدے کے ساتھ فوج کے سربراہ کا عہدہ ساتھ رکھنے کی اجازت دی۔
جنرل پرویز مشرف فوجی وردی میں صدر منتخب ہوگئے مگر 2008 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی کامیابی کے بعد وہ مواخذے سے بچنے کے لیے صدر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ فوج کے چاق و چوبند دستے نے ایوان صدر سے رخصت ہوتے وقت گارڈ آف آنر پیش کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے دو دفعہ آئین و عدالت عظمیٰ کو توڑا اور دونوں دفعہ عبوری آئینی حکم یعنی PCO کے ذریعے نئی سپریم کورٹ بنائی۔ جنرل پرویز مشرف کے یہ سارے اقدامات غیر قانونی تھے مگر 1999 کے اقدامات کی 2002 کی قومی اسمبلی نے توثیق کردی مگر نومبر 2007 میں ایمرجنسی کو آئینی تحفظ نہیں مل سکا ۔
تاہم آئین کو توڑنے، منتخب حکومت کو برطرف کرنے کے فیصلوں کی کوئی پارلیمنٹ خواہ توثیق کردے یا عدالت ان کے جواز کو تسلیم کرے یہ غیر آئینی ہی رہتے ہیں، جو جنرل مشرف کے 10 سالہ دور میں صرف وہ اکیلے آئین توڑنے، منتخب حکومت کو برطرف کرنے کے ذمے دار نہیں تھے، ان کے ساتھ جی ایچ کیو کے جنرل سپریم کورٹ کے جج صاحبان، ان کی مقرر کردہ کابینہ اور 2002 کی اسمبلی میں شامل وہ تمام اراکین شامل تھے جنھوں نے جنرل مشرف کے اقدامات کو آئینی جواز فراہم کیا تھا۔ صورتحال یہ ظاہر کرتی ہے کہ کچھ ریٹائرڈ جنرل میاں نواز شریف کی مداح سرائی کررہے ہیں۔
میاں نواز شریف نے 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے لیے جنرل پرویز مشرف کی جماعت میں شامل کئی اراکین کو ٹکٹ دیے، حتیٰ کہ نومبر 2007 میں جنرل پرویز مشرف کے وزیرقانون زاہد حامد کو پھر وزیر قانون بنا دیا تھا۔ اس طرح مسلم لیگ ن نے اپنی انتخابی ضروریات کے تحت آمریت کے حامیوں اور مخالفوں کی تفریق ختم کردی تھی۔ اب یہ دلیل دی جارہی ہے کہ اکتوبر 1999 کے اقدامات کو آئینی تحفظ حاصل ہوگیا تھا، اس لیے جنرل مشرف کا اقتدار پر قبضے کا اقدام آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی میں نہیں آتا، صرف نومبر 2007 کی ایمرجنسی اور پی سی او کا نفاذ آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بات منطق کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے۔
اگر اکتوبر 1999 کا اقدام نہیں ہوتا تو پھر نومبر 2007 میں ایمرجنسی نہیں لگتی۔ بعض ناقدین کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ارشاد کی زیر صدارت فل بینچ نے جنرل مشرف کے اکتوبر 1999 کے اقدام کو آئینی حیثیت دی،ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے، یوں دیکھا جائے تو اب آمریت کی تاریخ 3 نومبر 2007 سے شروع ہوگی۔ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں فوج نے پہلی دفعہ آئین کو پامال نہیں کیا، یہ سلسلہ 1958 سے باقاعدہ طور پر جاری ہے۔ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل ضیاء الحق نے آئین توڑا، اعلیٰ عدالتوں کے سینئر ججوں کو بے دخل کیا گیا، اس طرح فوجی سول افسروں، ججوں اور سیاستدانوں کے ایک طبقے نے ان جنرلوں کے اقدامات کی نا صرف حمایت کی اور فوجی آمروں کے حق میں فضا ہموار کرنے کی کوشش کی۔
ان فوجی حکومتوں سے مستفید ہونے والے امراء کا ایک نیا طبقہ وجود میں آگیا، اب اگر صرف پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہوگا کہ ان سے ذاتی انتقام لیا جارہا ہے اور چونکہ انھوں نے مذہبی انتہاپسندوں کے خلاف پہلی دفعہ اقدامات کیے تھے اس لیے انھیں عبرت کا نشان بنایا جارہا ہے۔ اگر پرویز مشرف اور ان کی حمایت کرنے والے افسروں کے خلاف مقدمہ چلتا ہے تو پھر ہر سطح پر آمریت کی باقیات کی حوصلہ شکنی ہوگی اور آئین کی بالادستی کا تصور تقویت پائے گا۔ اب میاں صاحب کی بصیرت ہی جمہوری اداروں کو ہمیشہ کے لیے مستحکم کرسکے گی۔
فوج کے سابق سربراہ جنرل جہانگیر کرامت نے اپنی تقریر میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کے قیام کی تجویز پیش کی تھی ۔ اس کونسل کے قیام کا مقصد منتخب وزیراعظم کو نیشنل سیکیورٹی کونسل کے تابع کرنا تھا۔ یہ تجویز صدر کے قومی اسمبلی کو توڑنے کے اختیار کے خاتمے کے بعد پیش کی گئی تھی۔ میاں نواز شریف کے لیے ایک فوجی افسر کی اطاعت قابل قبول نہیں تھی، جہانگیر کرامت کے پاس استعفیٰ کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔
جنرل جہانگیر کرامت کے استعفے کے دوسرے دن ملک کے ایک انگریزی اخبار میں معروف رپورٹر کی یہ تفصیلی رپورٹ شایع ہوئی، جس میں کہا گیا تھا کہ جنرل کرامت کے استعفیٰ کے باوجود جنرل ہیڈ کوارٹر کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے حوالے سے پالیسی برقرار رہے گی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جنرل جہانگیر کرامت کے بے وقت استعفے کو اعلیٰ فوجی افسروں نے پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ وزیراعظم نواز شریف نے ایک جونیئر جنرل پرویز مشرف کو فوج کا نیا سربراہ مقرر کیا۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے پیش رو کی پالیسی کو برقرار رکھا، انھوں نے منتخب حکومت کی اجازت کے بغیر کارگل میں فوج کشی کی۔ جنرل پرویز مشرف کی کارگل کی مہم جوئی سے بھارت اور پاکستان جنگ کے قریب پہنچ گئے۔ میاں نواز شریف کی بھارتی وزیراعظم واجپائی کے ساتھ مل کر دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش سبوتاژ ہوگئی۔ جنرل پرویز مشرف اکتوبر 1999 میں سری لنکا گئے، جب ان کا طیارہ واپسی میں کراچی کی طرف پرواز کررہا تھا تو وزیراعظم سے ان کی سبکدوشی کا نوٹیفکیشن جاری ہوا۔ جی ایچ کیو میں تعینات فوجی جنرل 1973 کے آئین کی پاسداری کا حلف بھول گئے۔
بریگیڈ III نے وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کیا، منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف کو ایک کمرے میں بند کردیا گیا۔ کراچی کے کور کمانڈر نے ایئرپورٹ پر برطرف ہونے والے فوجی سربراہ کا استقبال کیا۔ فوجی دستے نے جنرل مشرف کو سلامی دی، وہ کراچی میں کور ہیڈ کوارٹر گئے اور پھر 1973 کے آئین کو معطل کرنے اور خودساختہ چیف ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھالا۔ اس دوران وزیراعظم نواز شریف سے پوچھ گچھ کرنے والے فوجی افسروں نے انھیں استعفیٰ دینے کی پیشکش کی تاکہ وہ عام شہری کی حیثیت سے زندگی گزار سکیں مگر میاں نواز شریف نے انکار کیا۔ میاں صاحب کو پہلے مری میں اور پھر اٹک قلعے میں نظر بند کیا گیا۔
نواز شریف کے خلاف کراچی میں پرویز مشرف کے جہاز کو اغوا کرنے کا مقدمہ چلا۔ لانڈھی جیل میں آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی ملاقات ہوئی، جو پرانے سیاسی مخالفین کے درمیان پہلی دفعہ مفاہمت کی ابتدا ہوئی۔کہا جاتا ہے کہ آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کے خلاف مقدمہ کی سماعت کرنے والے سندھ سے تعلق رکھنے والے جسٹس رحمت جعفری کو پیغام بھجوایا کہ میاں صاحب کو سزائے موت دینے سے گریز کریں، انھیں عمر قید کی سزا ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے فوج کے اقدام کو جائز قرار دیا اور جنرل صاحب کو آئین میں ترمیم کا بھی اختیار دے دیا، یوں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کو آئینی تحفظ حاصل ہوا۔
جنرل مشرف نے 2002 میں انتخابات منعقد کراکے 1973 کا آئین بحال کیا تو پی سی او کے ذریعے بہت سے قوانین کو آئینی حیثیت دلادی۔ 2002 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی اکثریتی جماعت کی حیثیت سے ابھری مگر عسکری مقتدرہ کے فیصلے کے تحت مسلم لیگ ق وجود میں آئی۔ پیپلزپارٹی کے اراکین قومی اسمبلی کا ایک علیحدہ گروپ قائم کیا گیا اور مذہبی جماعتوں کو ایک منصوبے کے تحت متحدہ مجلس عمل میں ضم کیا گیا۔ ایم ایم اے نے جنرل پرویز مشرف کے صدر کے عہدے کے ساتھ فوج کے سربراہ کا عہدہ ساتھ رکھنے کی اجازت دی۔
جنرل پرویز مشرف فوجی وردی میں صدر منتخب ہوگئے مگر 2008 کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کی کامیابی کے بعد وہ مواخذے سے بچنے کے لیے صدر کے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ فوج کے چاق و چوبند دستے نے ایوان صدر سے رخصت ہوتے وقت گارڈ آف آنر پیش کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے دو دفعہ آئین و عدالت عظمیٰ کو توڑا اور دونوں دفعہ عبوری آئینی حکم یعنی PCO کے ذریعے نئی سپریم کورٹ بنائی۔ جنرل پرویز مشرف کے یہ سارے اقدامات غیر قانونی تھے مگر 1999 کے اقدامات کی 2002 کی قومی اسمبلی نے توثیق کردی مگر نومبر 2007 میں ایمرجنسی کو آئینی تحفظ نہیں مل سکا ۔
تاہم آئین کو توڑنے، منتخب حکومت کو برطرف کرنے کے فیصلوں کی کوئی پارلیمنٹ خواہ توثیق کردے یا عدالت ان کے جواز کو تسلیم کرے یہ غیر آئینی ہی رہتے ہیں، جو جنرل مشرف کے 10 سالہ دور میں صرف وہ اکیلے آئین توڑنے، منتخب حکومت کو برطرف کرنے کے ذمے دار نہیں تھے، ان کے ساتھ جی ایچ کیو کے جنرل سپریم کورٹ کے جج صاحبان، ان کی مقرر کردہ کابینہ اور 2002 کی اسمبلی میں شامل وہ تمام اراکین شامل تھے جنھوں نے جنرل مشرف کے اقدامات کو آئینی جواز فراہم کیا تھا۔ صورتحال یہ ظاہر کرتی ہے کہ کچھ ریٹائرڈ جنرل میاں نواز شریف کی مداح سرائی کررہے ہیں۔
میاں نواز شریف نے 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے لیے جنرل پرویز مشرف کی جماعت میں شامل کئی اراکین کو ٹکٹ دیے، حتیٰ کہ نومبر 2007 میں جنرل پرویز مشرف کے وزیرقانون زاہد حامد کو پھر وزیر قانون بنا دیا تھا۔ اس طرح مسلم لیگ ن نے اپنی انتخابی ضروریات کے تحت آمریت کے حامیوں اور مخالفوں کی تفریق ختم کردی تھی۔ اب یہ دلیل دی جارہی ہے کہ اکتوبر 1999 کے اقدامات کو آئینی تحفظ حاصل ہوگیا تھا، اس لیے جنرل مشرف کا اقتدار پر قبضے کا اقدام آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی میں نہیں آتا، صرف نومبر 2007 کی ایمرجنسی اور پی سی او کا نفاذ آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بات منطق کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے۔
اگر اکتوبر 1999 کا اقدام نہیں ہوتا تو پھر نومبر 2007 میں ایمرجنسی نہیں لگتی۔ بعض ناقدین کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ارشاد کی زیر صدارت فل بینچ نے جنرل مشرف کے اکتوبر 1999 کے اقدام کو آئینی حیثیت دی،ان کا بھی احتساب ہونا چاہیے، یوں دیکھا جائے تو اب آمریت کی تاریخ 3 نومبر 2007 سے شروع ہوگی۔ پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں فوج نے پہلی دفعہ آئین کو پامال نہیں کیا، یہ سلسلہ 1958 سے باقاعدہ طور پر جاری ہے۔ جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل ضیاء الحق نے آئین توڑا، اعلیٰ عدالتوں کے سینئر ججوں کو بے دخل کیا گیا، اس طرح فوجی سول افسروں، ججوں اور سیاستدانوں کے ایک طبقے نے ان جنرلوں کے اقدامات کی نا صرف حمایت کی اور فوجی آمروں کے حق میں فضا ہموار کرنے کی کوشش کی۔
ان فوجی حکومتوں سے مستفید ہونے والے امراء کا ایک نیا طبقہ وجود میں آگیا، اب اگر صرف پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہوگا کہ ان سے ذاتی انتقام لیا جارہا ہے اور چونکہ انھوں نے مذہبی انتہاپسندوں کے خلاف پہلی دفعہ اقدامات کیے تھے اس لیے انھیں عبرت کا نشان بنایا جارہا ہے۔ اگر پرویز مشرف اور ان کی حمایت کرنے والے افسروں کے خلاف مقدمہ چلتا ہے تو پھر ہر سطح پر آمریت کی باقیات کی حوصلہ شکنی ہوگی اور آئین کی بالادستی کا تصور تقویت پائے گا۔ اب میاں صاحب کی بصیرت ہی جمہوری اداروں کو ہمیشہ کے لیے مستحکم کرسکے گی۔