بیروزگاری پر قابو پانے کیلیے زراعت کو ترقی دینا ہوگی ڈویژنل کمشنر
خوراک میں خود کفالت کیلیے سائنس دان کم پانی سے تیاراور نمکیات برداشت کرنیوالی اجناس متعارف کرائیں
ڈویژنل کمشنر حیدرآباد جمال مصطفی سید نے زرعی سائنس دانوں پر زور دیا ہے کہ وہ کم پانی لینے والی فصلوں اور زیادہ پانی ، نمکیات برداشت کرنے والی اجناس تیار کرنے پر توجہ دیں ۔
جس سے ناصرف ہم خوراک میںخود کفیل ہوں گے بلکہ سندھ کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ روز گار کے مواقع بھی ملیں گے۔ سیہون میں حضرت لعل شہباز قلندرؒ کے سہ روزہ عرس کے پہلے روز زرعی اسٹالوں اور زرعی و صنعتی نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے ماہرین نے زرعی تحقیق میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن کاشتکاروں میں اس حوالے سے آگاہی کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پانی کی کمی، ماحولیاتی آلودگی اور زرعی زمینوں میں نمکیات جیسے چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کیلیے ماحول کے مطابق فصلیں کاشت کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ کے کرم سے ہمارے زرعی شعبے میں بڑی صلاحیت ہے مگر ان قدرتی وسائل کو ہم مناسب طریقے سے استعمال نہیں کرتے۔ زرعی شعبے نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روز گار کے مواقع فراہم کیے ہیں اور اداروں کو چاہیے کہ وہ اس شعبے میں توجہ دیں ۔ بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ڈویژنل کمشنر نے کہا کہ زراعت ، لائیو اسٹاک ، ماہیگیری ، پولٹری فارمنگ اور دستکاری خصوصاً دیہی علاقوں کے لوگوں کے لیے آمدن اور روزگار کے بڑے ذرائع ہیں۔ ہم ان ذرائع کو سائنسی تحقیق سے ترقی دے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عرس کے پہلے روز تقریباً 7 لاکھ زائرین نے شرکت کی ہے، ڈویژن اور ضلعی انتظامیہ نے زائرین کی سیکیورٹی کے ناقابل شکست انتظامات کیے ہیں، انہیں پینے کا صاف پانی اور دیگر سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔
تاہم شہر کی آبادی سے 5 گنا زیادہ افراد کی موجودگی سے کچھ مسائل پیدا ہو تے ہیں۔ انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ تمام نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ نہر میں ڈوبنے کے واقعات سے متعلق سوال پر کمشنر نے کہا کہ اب تک ایک شخص کے ڈوبنے کی اطلاع ہے جبکہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے اور اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جا رہا ہے، پاکستان نیوی اور نجی شعبوں سے 60 تیراکوں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ انہوں نے دریائے سندھ کے حفاظتی بندوں کی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ حیدرآباد ڈویژن سے گزرنے والے دریائے سندھ کے تمام حفاظتی بند بڑے مضبوط ہیں اور ان میں امکانی سیلاب کے پانی کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہے۔ اسی طرح ایل بی او ڈی کے حساس مقامات کو بھی مضبوط کیاگیا ہے۔
جس سے ناصرف ہم خوراک میںخود کفیل ہوں گے بلکہ سندھ کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ روز گار کے مواقع بھی ملیں گے۔ سیہون میں حضرت لعل شہباز قلندرؒ کے سہ روزہ عرس کے پہلے روز زرعی اسٹالوں اور زرعی و صنعتی نمائش کا افتتاح کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے ماہرین نے زرعی تحقیق میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن کاشتکاروں میں اس حوالے سے آگاہی کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پانی کی کمی، ماحولیاتی آلودگی اور زرعی زمینوں میں نمکیات جیسے چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کیلیے ماحول کے مطابق فصلیں کاشت کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ کے کرم سے ہمارے زرعی شعبے میں بڑی صلاحیت ہے مگر ان قدرتی وسائل کو ہم مناسب طریقے سے استعمال نہیں کرتے۔ زرعی شعبے نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روز گار کے مواقع فراہم کیے ہیں اور اداروں کو چاہیے کہ وہ اس شعبے میں توجہ دیں ۔ بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ڈویژنل کمشنر نے کہا کہ زراعت ، لائیو اسٹاک ، ماہیگیری ، پولٹری فارمنگ اور دستکاری خصوصاً دیہی علاقوں کے لوگوں کے لیے آمدن اور روزگار کے بڑے ذرائع ہیں۔ ہم ان ذرائع کو سائنسی تحقیق سے ترقی دے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عرس کے پہلے روز تقریباً 7 لاکھ زائرین نے شرکت کی ہے، ڈویژن اور ضلعی انتظامیہ نے زائرین کی سیکیورٹی کے ناقابل شکست انتظامات کیے ہیں، انہیں پینے کا صاف پانی اور دیگر سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔
تاہم شہر کی آبادی سے 5 گنا زیادہ افراد کی موجودگی سے کچھ مسائل پیدا ہو تے ہیں۔ انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ تمام نظام کامیابی سے چل رہا ہے۔ نہر میں ڈوبنے کے واقعات سے متعلق سوال پر کمشنر نے کہا کہ اب تک ایک شخص کے ڈوبنے کی اطلاع ہے جبکہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے دفعہ 144 نافذ کی گئی ہے اور اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جا رہا ہے، پاکستان نیوی اور نجی شعبوں سے 60 تیراکوں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ انہوں نے دریائے سندھ کے حفاظتی بندوں کی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ حیدرآباد ڈویژن سے گزرنے والے دریائے سندھ کے تمام حفاظتی بند بڑے مضبوط ہیں اور ان میں امکانی سیلاب کے پانی کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہے۔ اسی طرح ایل بی او ڈی کے حساس مقامات کو بھی مضبوط کیاگیا ہے۔