تین قیمتی انسان
ادب اورتعلیم دونوں اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں کہ دونوں میدانوں سے نہ صرف ہنرمند لوگ تیزی سے کم ہوتے جارہے ہیں۔
ابھی پروین عاطف اور فہمیدہ ریاض کے ماتم کی گونج ہی مدھم نہیں ہوئی تھی کہ اوپر تلے ایک ایک دن کے وقفے سے شاعر صفدر سلیم سیال اور سہیل غازی پوری کے ساتھ نامور ماہر تعلیم ڈاکٹر کنیز فاطمہ یوسف بھی اس دار فانی سے پردہ کرگئے۔
موت تو برحق ہے اور ہرذی روح کو بالآخر اس کا رزق بننا ہی ہے مگر ہمارے دور کا المیہ یہ ہے کہ جانے والوں کی جگہ ان جیسے یا ان سے ملتے جلتے لوگ ڈھونڈے سے بھی کم کم ہی ملتے ہیں کہ جو بھی جاتا ہے اپنے پیچھے ایک ایسا خلا چھوڑ جاتا ہے جو بظاہر بھرنے کے باوجود بھی مدتوں اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ ایسے میں اگر دو تین قیمتی لوگ یکدم اور ایک ساتھ رخصت ہوجائیں تو ایک بحران کی سی صورت حال بن جاتی ہے۔
ادب اور تعلیم دونوں اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں کہ دونوں میدانوں سے نہ صرف ہنرمند لوگ تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں بلکہ ترجیحات کے اعتبار سے بھی ان کا گراف مسلسل گررہا ہے کہ فی زمانہ ادب ایک بے کار مشغلہ اور تعلیم ایک کاروبار کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔
اتفاق سے ان تازہ ترین مرحومین میں سے دو کا تعلق نظریاتی اور ترقی پسندانہ سوچ اور سیاست سے اور تیسرے کا تعلق خالص اور تاریخی ادب کی روایت سے تھا کہ صفدر سلیم سیال کی ساری زندگی اور شاعری کا محور ایک انصاف اور آزادی پر مبنی معاشرے کے قیام کا ایک ایسا خواب رہا جس کی تعبیر انھیں اگر اپنی زندگی میں دیکھنا نصیب بھی ہوئی تو بقول غالب ،کچھ اس طرح کہ ''ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے'' بھٹو صاحب کی تحریک اور ان کی حکومت کے ابتدائی کچھ عرصے میں اس کی ایک جھلک سی نظر تو آئی مگر ان کی زندگی ہی میں یہ ماضی کا حصہ بن گئی۔ میری معلومات کے مطابق یہی وہ زمانہ تھا جب ڈاکٹر کنیز فاطمہ یوسف نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی وائس چانسلر شپ سنبھالی اور تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے لیے آزادی کے بعد سے اب تک پہلی بار ایک سنجیدہ کوشش کی۔
مجھے ان سے ملاقات کے زیادہ مواقعے تو نہیں مل سکے مگر جب بھی ان سے بات ہوئی دل و دماغ کو پہلے سے زیادہ روشن محسوس کیا۔ وہ میری کچھ نظموں اور ڈرامہ سیریل ''وارث'' کا ذکر بہت محبت سے کرتیں اور ہمیشہ مجھے اسی طرح کی مزید چیزیں لکھنے پر اکساتیں کہ ان کے خیال میں ان سے ان انسانی اقدار اور انقلابی فکر کو فروغ ملتا تھا جس کی بنیاد پر پاکستان کی اس معاشرت کو استوار ہونا تھا جس کے لیے وہ خود جدوجہد کررہی تھیں۔ وہ ایک بالغ نظر مفکر، عمدہ استاد اور صحیح معنوں میں ایک انقلابی دانشور تھیں۔
ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے دانش کو بھی سیاست کا تابع بنا دیا ہے اور ہمارے نزدیک سچ صرف وہ ہے جسے ہم سچ سمجھتے ہوں یا جس کے ساتھ ہمارے سیاسی یا معاشی مفادات وابستہ ہوں اور یوں ہم ہر اختلاف رکھنے والی سوچ، آواز یا شخصیت سے آزادی اظہار کا وہ حق عملی طور پر چھین لیتے ہیں جس کے لیے ہم اپنے تئیں خود پرچم بردار بنے ہوتے ہیں۔ مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ خود وہ لوگ بھی سنگ زنوں کی اس بھیڑ میں شامل ہوجاتے ہیں جن کی خاطر ڈاکٹر کنیز فاطمہ جیسے دانشور دنیا بھر کی راحتوں کو ٹھکرا کر اپنی جان ہتھیلی پر لیے زندہ رہتے ہیں۔ میرے علم میں نہیں کہ بھٹو صاحب کی حکومت کے خاتمے کے بعد انھوں نے کب کہاں اور کیسے زندگی بسر کی لیکن اب ان کی وفات کی خبر سن کر ایک بار پھر اس جرم کا احساس ہوا ہے جس کے ہم سب دانستہ یا نادانستہ طور پر مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔
سہیل غازی پورے ادبی حوالے سے اس تہذیب اور روایت کے آدمی تھے جسے عرف عام میں گنگا جمنی یا اس کی باقیات کہا جاسکتا ہے۔ ان سے ملنے اور انھیں بالمشافہ سننے کا موقع تو کم کم ملا مگر ان کی شاعری کسی نہ کسی حوالے سے نظر سے گزرتی رہی اور یوں اس خوب صورت روایت کی یاد تازہ ہوتی رہی جو اب ماضی کی ایک یادگار بنتی جارہی ہے۔ سہیل غازی پوری اس وضع داری اور تہذیب کے آخری نمایندوں میں سے تھے اور بلاشبہ انھوں نے یہ ذمے داری بہت سلیقے اور خوبصورتی کے ساتھ نبھائی ہے۔
جہاں تک صفدر سلیم سیال کا تعلق ہے ان سے دوستی اور محبت کا رشتہ کم و بیش نصف صدی کا ہے۔ اس کا آغاز ''فنون'' کے صفحات سے ہوا لیکن پھر مختلف مشاعروں، محفلوں اور اداروں کی وساطت سے یہ تعلق مسلسل گہرا ہوتا گیا۔ وہ خاصے عرصے سے مختلف طرح کے عوارض کا شکار چلے آرہے تھے اور ہر بار ملاقات پر جسمانی طور پر پہلے سے زیادہ کمزور دکھائی دیتے مگر زندگی اور ادب کے ساتھ ان کی محبت میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ پیشے کے اعتبار سے زمیندار اور Live Stock کے ماہرین میں سے تھے اور اس حوالے سے غالباً واحد ہم عصر شاعر تھے جو زمین کی محبت کے ساتھ ساتھ اس کی سائنس اور گرامر کو بھی بخوبی سمجھتے تھے۔ ان کی شاعری میں احتجاج، بغاوت اور مزاحمت کا رنگ ہمیشہ نمایاں رہا اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد ان کی بیشتر تحریروں کا محور ٹھہری ان کے شعری مجموعے ''خواب تبدیل کریں'' کا تعارفی شعر دیکھیے۔
اور کچھ بھی نہیں ممکن تو بقا کی خاطر
آؤ اک دوسرے سے خواب ہی تبدیل کریں
اس روشن ضمیر اور انسان دوست شاعر کے چند شعر جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ کیا اچھا انسان اور عمدہ شاعر ہمارے درمیان سے اٹھ گیا ہے۔
زندہ رہنے کے لیے وجہ پذیرائی دے
رزق اوروں کو دیا ہے مجھے دانائی دے
ملے ہیں دکھ بھی بہت عزت دوام کے ساتھ
تمام عمر گزاری ہے یوں عوام کے ساتھ
موت تو برحق ہے اور ہرذی روح کو بالآخر اس کا رزق بننا ہی ہے مگر ہمارے دور کا المیہ یہ ہے کہ جانے والوں کی جگہ ان جیسے یا ان سے ملتے جلتے لوگ ڈھونڈے سے بھی کم کم ہی ملتے ہیں کہ جو بھی جاتا ہے اپنے پیچھے ایک ایسا خلا چھوڑ جاتا ہے جو بظاہر بھرنے کے باوجود بھی مدتوں اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ ایسے میں اگر دو تین قیمتی لوگ یکدم اور ایک ساتھ رخصت ہوجائیں تو ایک بحران کی سی صورت حال بن جاتی ہے۔
ادب اور تعلیم دونوں اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں کہ دونوں میدانوں سے نہ صرف ہنرمند لوگ تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں بلکہ ترجیحات کے اعتبار سے بھی ان کا گراف مسلسل گررہا ہے کہ فی زمانہ ادب ایک بے کار مشغلہ اور تعلیم ایک کاروبار کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔
اتفاق سے ان تازہ ترین مرحومین میں سے دو کا تعلق نظریاتی اور ترقی پسندانہ سوچ اور سیاست سے اور تیسرے کا تعلق خالص اور تاریخی ادب کی روایت سے تھا کہ صفدر سلیم سیال کی ساری زندگی اور شاعری کا محور ایک انصاف اور آزادی پر مبنی معاشرے کے قیام کا ایک ایسا خواب رہا جس کی تعبیر انھیں اگر اپنی زندگی میں دیکھنا نصیب بھی ہوئی تو بقول غالب ،کچھ اس طرح کہ ''ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے'' بھٹو صاحب کی تحریک اور ان کی حکومت کے ابتدائی کچھ عرصے میں اس کی ایک جھلک سی نظر تو آئی مگر ان کی زندگی ہی میں یہ ماضی کا حصہ بن گئی۔ میری معلومات کے مطابق یہی وہ زمانہ تھا جب ڈاکٹر کنیز فاطمہ یوسف نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کی وائس چانسلر شپ سنبھالی اور تعلیمی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے لیے آزادی کے بعد سے اب تک پہلی بار ایک سنجیدہ کوشش کی۔
مجھے ان سے ملاقات کے زیادہ مواقعے تو نہیں مل سکے مگر جب بھی ان سے بات ہوئی دل و دماغ کو پہلے سے زیادہ روشن محسوس کیا۔ وہ میری کچھ نظموں اور ڈرامہ سیریل ''وارث'' کا ذکر بہت محبت سے کرتیں اور ہمیشہ مجھے اسی طرح کی مزید چیزیں لکھنے پر اکساتیں کہ ان کے خیال میں ان سے ان انسانی اقدار اور انقلابی فکر کو فروغ ملتا تھا جس کی بنیاد پر پاکستان کی اس معاشرت کو استوار ہونا تھا جس کے لیے وہ خود جدوجہد کررہی تھیں۔ وہ ایک بالغ نظر مفکر، عمدہ استاد اور صحیح معنوں میں ایک انقلابی دانشور تھیں۔
ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے دانش کو بھی سیاست کا تابع بنا دیا ہے اور ہمارے نزدیک سچ صرف وہ ہے جسے ہم سچ سمجھتے ہوں یا جس کے ساتھ ہمارے سیاسی یا معاشی مفادات وابستہ ہوں اور یوں ہم ہر اختلاف رکھنے والی سوچ، آواز یا شخصیت سے آزادی اظہار کا وہ حق عملی طور پر چھین لیتے ہیں جس کے لیے ہم اپنے تئیں خود پرچم بردار بنے ہوتے ہیں۔ مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ خود وہ لوگ بھی سنگ زنوں کی اس بھیڑ میں شامل ہوجاتے ہیں جن کی خاطر ڈاکٹر کنیز فاطمہ جیسے دانشور دنیا بھر کی راحتوں کو ٹھکرا کر اپنی جان ہتھیلی پر لیے زندہ رہتے ہیں۔ میرے علم میں نہیں کہ بھٹو صاحب کی حکومت کے خاتمے کے بعد انھوں نے کب کہاں اور کیسے زندگی بسر کی لیکن اب ان کی وفات کی خبر سن کر ایک بار پھر اس جرم کا احساس ہوا ہے جس کے ہم سب دانستہ یا نادانستہ طور پر مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔
سہیل غازی پورے ادبی حوالے سے اس تہذیب اور روایت کے آدمی تھے جسے عرف عام میں گنگا جمنی یا اس کی باقیات کہا جاسکتا ہے۔ ان سے ملنے اور انھیں بالمشافہ سننے کا موقع تو کم کم ملا مگر ان کی شاعری کسی نہ کسی حوالے سے نظر سے گزرتی رہی اور یوں اس خوب صورت روایت کی یاد تازہ ہوتی رہی جو اب ماضی کی ایک یادگار بنتی جارہی ہے۔ سہیل غازی پوری اس وضع داری اور تہذیب کے آخری نمایندوں میں سے تھے اور بلاشبہ انھوں نے یہ ذمے داری بہت سلیقے اور خوبصورتی کے ساتھ نبھائی ہے۔
جہاں تک صفدر سلیم سیال کا تعلق ہے ان سے دوستی اور محبت کا رشتہ کم و بیش نصف صدی کا ہے۔ اس کا آغاز ''فنون'' کے صفحات سے ہوا لیکن پھر مختلف مشاعروں، محفلوں اور اداروں کی وساطت سے یہ تعلق مسلسل گہرا ہوتا گیا۔ وہ خاصے عرصے سے مختلف طرح کے عوارض کا شکار چلے آرہے تھے اور ہر بار ملاقات پر جسمانی طور پر پہلے سے زیادہ کمزور دکھائی دیتے مگر زندگی اور ادب کے ساتھ ان کی محبت میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ پیشے کے اعتبار سے زمیندار اور Live Stock کے ماہرین میں سے تھے اور اس حوالے سے غالباً واحد ہم عصر شاعر تھے جو زمین کی محبت کے ساتھ ساتھ اس کی سائنس اور گرامر کو بھی بخوبی سمجھتے تھے۔ ان کی شاعری میں احتجاج، بغاوت اور مزاحمت کا رنگ ہمیشہ نمایاں رہا اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد ان کی بیشتر تحریروں کا محور ٹھہری ان کے شعری مجموعے ''خواب تبدیل کریں'' کا تعارفی شعر دیکھیے۔
اور کچھ بھی نہیں ممکن تو بقا کی خاطر
آؤ اک دوسرے سے خواب ہی تبدیل کریں
اس روشن ضمیر اور انسان دوست شاعر کے چند شعر جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ کیا اچھا انسان اور عمدہ شاعر ہمارے درمیان سے اٹھ گیا ہے۔
زندہ رہنے کے لیے وجہ پذیرائی دے
رزق اوروں کو دیا ہے مجھے دانائی دے
ملے ہیں دکھ بھی بہت عزت دوام کے ساتھ
تمام عمر گزاری ہے یوں عوام کے ساتھ