نیلم جہلم پاور پراجیکٹ ’’دہائی خدا کی‘‘
تین سال کا منصوبہ تیس برس میں بھی مکمل نہ ہوسکا
ہمارے ہاں کارپردازانِ سفید و سیاہ خاص طور پر ان منصوبوں کے ساتھ بے سواؤں کا سا سلوک کرتے ہیں جن سے عوام کو فائدہ ہونے کا ذرہ بھر بھی ''احتمال'' ہو، اس تازہ ترین صورتِ حال سے اس کا ان دازہ کیا جا سکتا ہے۔
نیلم جہلم ہائیڈروپاور پلانٹ پانی سے توانائی حاصل کرنے کا ایک منصوبہ ہے، جو دریائے جہلم پر زیر تعمیر ہے۔ اس کا محل وقوع آزاد کشمیر کے جنوب میں آزاد صدر مقام مظفرآباد سے کوئی 16 میل کے فاصلے پر ہے۔ برقابی حاصل کرنے کے لیے دریائے نیلم سے پانی کی روانی کو دریائے جہلم پر نصب پاور سٹیشن کی طرف موڑنا ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی توانائی کا تخمینہ 969 میگاواٹ ہے۔
پس منظر
نیلم جہلم پراجیکٹ کی منظوری دراصل 1989 میں دی گئی تھی بعد میں اس کے ڈیزائن کو مزید بہتر بنایا گیا جس میں اس کے ٹنل کی لمبائی اور اس کی پیداواری استعداد میں اضافہ کیا گیا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق اس کا آغاز 2002 میں ہونا تھا اور اسے 2008 تک پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا ممکن نہ ہو سکا اور یہ اب 2013 تک نامکمل پڑا ہے۔ 7 جولائی 2007 میں اس کی تعمیر کا ٹھیکا چین کی کمپنیوں کے ایک کنسورشیم کو دے دیا گیا تھا۔
جس میں دو کمپنیاں سی جی جی سی (گیثروبا گروپ) اور سی این ایم آئی اینڈ ای (چائنا نیشنل مشینری امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کمپنی) شامل ہیں۔ ان کے ذمے دونوں کام تھے یعنی انہوں نے ڈیم تعمیر بھی کرنا تھا اور اس پر پاور اسٹیشن بھی نصب کرنا تھا اور جنوری 2008 تک اسے مکمل ہونا تھا۔ بہ ہر حال ملک کی سیاسی نامستحکمی کے منفی اثرات اس پر پڑتے رہے اور منصوبہ اپنی مطلوبہ مدت میں مکمل نہیں ہو پایا حتیٰ کہ آمر پرویز مشرف کا دور آ گیا، انہوں نے بھی منصوبے پر کام کے آغاز کا اعلان کیا۔ اکتوبر 2011 تک دریائے نیلم کا رخ موڑنے کے لیے بنائی جانے والی (Diversion) سرنگ البتہ مکمل کی جا چکی تھی۔
اخراجات
نیلم جہلم پراجیکٹ کا منصوبہ 1989 میں تیار کیا گیا تھا، اس وقت اس پر اخراجات کا جو تخمینہ لگایا گیا تھا وہ 167 ملین امریکی ڈالر تھا۔ 2005 کے قیامت آفریں زلزلے کے باعث اس کی ڈیزائننگ ازسر نو کی گئی جس سے اس پر اخراجات کا تخمینہ بڑھ کر 935 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گیا اور یہ اخراجات مسلسل بڑھتے چلے گئے حتیٰ کہ 2011 کے ایک تخمینے کے مطابق یہ 2.89 ارب امریکی ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔ اخراجات میں اس بے پناہ اضافے کا سبب واپڈا کو قرار دیا جاتاہے۔
کیوں کہ کام کا نگران یہ ہی ادارہ تھا۔ اخراجات کا ذمہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور کمپنی، مشرق وسطیٰ، چین کے بنکوں نے اٹھایا تھا اس کے علاوہ ٹیکسوں اور بانڈز کی آمدنی بھی اس میں شامل کی جانا تھی، اس وقت واپڈا مطلوبہ رقوم حاصل کرنے کے لیے چینی بنکوں کے کنسورشیم سے رجوع کیے ہوئے ہے۔ منصوبہ 38 فی صد مکمل ہو چکا ہے، ٹنل بورنگ مشینیں (ٹی بی ایمز) کو سرنگ (ٹنل) کی کھدائی کا کام تیز تر کرنے کا حکم دیا گیا، ذمہ داروں کا دعویٰ تھا کہ پراجیکٹ جولائی 2012 تک مکمل ہو کر کارآمد ہو جائے گا، بتایا گیا تھا کہ واپڈا ڈیم کے لیے جنریٹر حاصل کرنے کا بندوبست کر رہا ہے۔
کشن گنگا پراجیکٹ کے اثرات
ہمارے نیلم جہلم پراجیکٹ کا آئیڈیا 1989 میں بار پا گیا تھا جب کہ بھارت نے 2007 کشن گنگا پراجیکٹ کی تعمیر شروع کی۔ کشن گنگا بھی دریائے جہلم ہی کا دوسرا نام ہے۔ بھارتی پراجیکٹ کا مقام ہمارے نیلم جہلم ڈیم سے اوپر کی طرف ہے۔ بھارتی ماہرین نے بھی وہی طریقۂ کار اختیار کیا جو پاکستان نے۔ یعنی انہوں نے بھی اسی دریا کے پانی کو پاور اسٹیشن کی طرف کھینچا، اس مقصد کے لیے انہوں نے وولر جھیل سے اوپر کی طرف پاور اسٹیشن تعمیر کیا۔ یاد رہے کہ وولر جھیل کا پانی بھی دریائے جہلم کا مرہون منت ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ کشن گنگا پراجیکٹ کے لیے بھی پانی دریائے نیلم ہی سے لیا جانا ہے لہٰذا ہماری طرف اس دریا کے پانی کابہاؤ لامحالہ متاثر ہو گا اور ہمارے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پلانٹ کی توانائی کی پیداواری استعداد سکڑ جائے گی۔ بھارت کی یقین دہانی ہے کہ وہ دریا کے بہاؤ کا محض 10 فی صد اپنے منصوبے کی طرف موڑے گا لیکن یہ یقین دہانی اس وقت شبہے کا شکار ہو جاتی ہے جب دوسرے یہ باور کراتے ہیں کہ بھارت بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہا ہے، درحقیقت وہ 33 فی صد تک پانی کاٹے گا۔ ماہرین یوں بھی خبردار کرتے ہیں کہ آزاد کشمیر کی وادی نیلم کا محل وقوع نیلم جہلم ڈیم سے نچلی سمت ہے لہٰذا دونوں ملک اپنے لیے پانی کاٹیں گے جس سے وادی نیلم بری طرح متاثر ہو گی۔
پاکستان کی اپیل
2010 میں پاکستان کے کارپردازان کو اچانک خیال آیا کہ بھارت کا کشن گنگا پراجیکٹ تو معاہدۂ دریائے سندھ کی خلاف ورزی ہے اور اس سے پاکستان کے آبی مفادات متاثر ہوں گے سو وہ ثالثی کے لیے بھاگم بھاگ ہیگ (نیدر لینڈ) کی سی او اے (پرماننٹ کورٹ آف آربی ٹریشن) کے پاس پہنچا اور عرض گزاری کہ دریائے جہلم کی آب گیری ایک تو معاہدۂ دریائے سندھ کی خلاف ورزی ہے، دوسرے جہلم کے پانی پر پاکستان کے حقوق بھی متاثر ہوں گے۔
2011 میں عدالت نے دونوں جانب یعنی نیلم جہلم اور کشن گنگا ڈیم کے معائنے کیے، محسوس کیا کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ بھارت کی طرف سے ہو رہی ہے سو اگست 2011 میں سی او اے نے بھارت کو حکم دیا کہ وہ اپنے (کشن گنگا) پراجیکٹ کے بارے میں مزید تیکنیکی ڈیٹا فراہم کرے۔ بھارت اس سے پہلے ہی اپنے ڈیم کی بلندی کو 322 فٹ سے کم کرکے 121 فٹ تک لا چکا تھا۔ عدالت نے ستمبرکے اواخر میں بھارت کو کوئی مستقل تعمیراتی کام کرنے سے روک دیا یعنی کوئی ایسا کام جس سے دریا کے پانی کی روانی میں خلل پڑتا ہو، اب بھارت ڈیم تو تعمیر نہیں کر سکتا تھا تاہم اس نے ٹنل اور پاور پلانٹ پر کام جاری رکھا۔ فروری 2013 میں ہیگ عدالت نے ایک فیصلہ صادر کیا کہ بھارت اپنے پراجیکٹ کے لیے کم از کم پانی حاصل کرے۔
ڈیزائن اور آپریشن
نیلم جہلم ڈیم کے ڈیزائن کے مطابق اس کی اونچائی 154 فٹ (47 میٹر)، لمبائی 4110 فٹ (125میٹر) ہو گی۔ اس میں آب گیری کی گنجائش 80 لاکھ مکعب میٹر (6486 ایکڑ فٹ) ہوگی، اس میں پیک سٹوریج (Peak storage) 2270 ایکڑ فٹ یا 28 لاکھ مکعب میٹر ہو گی۔ اس کے ٹنل کی لمبائی 18 میل یا 28.5 کلومیٹر ہو گی۔ اس کے آغاز کی دو سرنگوں کی طوالت 9 میل یا 15 کلومیٹر ہو گی جو دونوں آگے چل کر ایک دوسرے میں ضم ہو کر ایک ہی ٹنل میں چلی جائیں گی۔
یہ ٹنل دریائے جہلم کے نیچے نیچے 1247 فٹ یا 380 میٹر، پانی گزارے گا۔ سرنگ کے ٹرمینل پر پانی سرج چیمبر میں پہنچے گا جو 1,1197 فٹ یا 341 میٹر بلند سرج شافٹ اور 820 میٹر یا 2690 فٹ سرج ٹنل ہے جس کا کام پانی کے بے پناہ قوی تھپیڑوں کی شدت کو سلب کرنا ہے۔ سرج چیمبر سے پانی چار شاخوں میں تقسیم ہو جائے گا جو 242 میگاواٹ کے چاروں فرانسز ٹربائین جنریٹرز میں جائے گا، جو زیر زمین پاور ہاؤس میں نصب ہوں گے، یہاں برقابی کے عمل کے بعد پانی جنوب مغرب کی طرف برآمد ہو کر ایک بار پھر دریائے جہلم میں ایک ساڑھے تین کلومیٹر یا دو میل لمبی سرنگ کے ذریعے شامل ہو جائے گا۔
منصوبے کی تکمیل میں ناروا تاخیر
نیلم جہلم پراجیکٹ 1989 میں منظور کیا گیا تھا، ربع صدی سے زیادہ گزرنے کو ہے اور یہ منصوبہ تاحال مکمل نہیں ہو پایا حال آں کہ اس سے قبل اس سے زیادہ میگا پراجیکٹس بہت کم مدت میں مکمل ہو کر نتائج بھی دینے لگ گئے تھے۔ اس تاخیر کی کوئی واضح وجہ سامنے نہیں لائی جا رہی۔ گزشتہ دنوں جب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اس پراجیکٹ کا دورہ کیا تو خاصے بدمزہ ہوئے اور دہائی دیے بغیر نہ رہ سکے کہ منصوبے کو تین سال کے اندر اندر مکمل ہو جانا چاہیے تھا لیکن 29 برس گزرنے کے باوجود کام 50 فی صدی بھی مکمل نہیں ہو پایا اور جو منصوبہ 40 ارب روپے میں تیار ہو جانا چاہیے تھا، وہ اب 330 ارب میں پڑ رہا ہے یعنی اصل لاگت میں 60 گنا اضافہ؛ وزیراعظم کیا کہ سکتے تھے، سوائے اس کے کہ یہ صرف اور صرف ذاتی مفادات کے حصول کا شاخ سانہ ہے۔
انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر غیر مبہم الفاظ واپڈا کے افسروں کو اس تاخیر کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے انہیں عیاش قرار دیا۔ یہ پہلی بار نہیں کہ ملک کے منتخب وزیراعظم کام کی رفتار دیکھ کر سر پیٹ کر رہ گئے ہوں، ان سے قبل یہ ہی عمل سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی کر چکے ہیں۔ نومبر 2011 میں گیلانی صاحب اعلیٰ سطح کے ایک اجلاس کے دوران یہ سن کر دنگ رہ گئے کہ یہ پراجیکٹ 27 برس کے بعد بھی صرف 38 فی صد تک پہنچ پایا ہے۔ (اس موقع پر ان کی نظریں بجلی پانی کے وفاقی وزیر نوید قمر کو ڈھونڈتی رہیں لیکن معاملہ خاصا گمبھیر تھا اور اس موقع پر اونگھنے کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی تھی سو وہ منظر سے غائب تھے)، اس موقع پر انہوں نے مجلس توانائی (انرجی کمیٹی) کو ہدایت فرمائی کہ پراجیکٹ کی راہ میں درپیش رکاوٹیں دور کی جائیں اور یہ کہ یہ کمیٹی وزیر خزانہ کی سربراہی میں ہر پندرھواڑے کو اجلاس کیا کرے اور کام کی رفتار تیز رکھے۔
نیلم جہلم منصوبہ جلد مکمل کیا جائے، نواز شریف
وزیرِ اعظم نوازشریف نے18 جون 2013 کو جب نیلم جہلم ہائیڈروپروجیکٹ کا دورہ کیا تو اس موقع پر ان کو جو بریفنگ دی گئی اس پر وزیر اعظم نے جو ردعمل ظاہر کیا وہ ہماری ان بد اعمالیوں کا غماز ہے جس کی وجہ سے آج ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود غیروں سے توانائی کی بھیک مانگتے پھررہے ہیں۔ وزیرِ اعظم نے متعلقہ حکام کو کام تیز کرنے کی ہدایات جاری کیں اور کہا '' منصوبہ اگلے دوسال میں مکمل ہونا چاہیے''۔ منصوبے کی تکمیل کے لیے 2016 تک کی مہلت مانگی گئی جو وسائل کی فراہمی سے مشروط تھی مگر وزیرِ اعظم کے انکار نے ڈھول کا پول کھول دیا۔
پراجیکٹ کی تکمیل میں تاخیر پر وزیراعظم نے واپڈا حکام کی سخت سرزنش کی اور چیئرمین واپڈا راغب شاہ کو ہدایت کی ہے کہ بے جا تاخیر کے ذمہ دار حکام کا تعین کرکے ایک ہفتے میں انہیں رپورٹ پیش کی جائے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا ''دہائی خدا کی لوگ بجلی کے ہاتھوں پریشان ہیں اور واپڈا حکام یہاں مزے کررہے ہیں، تین سال میں مکمل ہونے والا منصوبہ 29 سال میں مکمل نہیں ہوسکا۔
ایم ڈی جنرل زبیر نے جب بریفنگ دینا شروع کی تو وزیراعظم نے سخت لہجے میں کہا تین سال کا منصوبہ انتیس سال میں بھی کیوں مکمل نہ ہوسکا ان کے الفاظ تھے ''دہائی خدا کی قوم بجلی کے بغیر تڑپ رہی ہے، اقتصادی سرگرمیاں نہ ہونے کے مترادف ہیں، غریب کا چولہا بجھ چکا ہے مگر واپڈا کے افسران یہاں بیٹھے عیاشی کررہے ہیں''۔انہوں نے اس منصوبے کو15۔2014 میں مکمل کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا ''ہم ایسے منصوبوں کی تکمیل کے لیے ایک ایک منٹ وقف کریں گے''۔
*
دو سال پہلے حکومت نے جو کیا وہ خبروں کا نمایاں حصہ تھا مگر ۔۔۔۔؟ نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کے لیے رقوم کی ادائی کے طریقہ کار پر آڈیٹر جنرل کے اعتراضات، معاہدے اور اصل قیمت طے کیے بغیر کنٹریکٹر کو رقم ادا کردی گئی تھی۔ ٹنل بورنگ مشین کی خریداری کے لیے اکہتر کروڑ روپے کی رقم کی ادائی پر چیف فنانشل آفیسر نے جو رپورٹ مرتب کی اس میں ''آڈٹ پیراز'' لگائے گئے ۔ رپورٹ کے مطابق ٹنل کے لیے روایتی ڈرل اینڈ بلاسٹ سسٹم کا طریقہ کار استعمال کرنے کے بجائے کنٹریکٹر کو ٹنل بورنگ مشین کی ادائی کے لیے اکہتر کروڑ روپے کی رقم کی ادائی معاہدے اور اصل قیمت طے کیے بغیر ادا کر دی گئی ، کنٹریکٹر کو تیس کروڑ روپے کی ادائی پہلے کر دی گئی تھی جب کہ سیلاب کے باعث بعد میں کی جانے والی بیس کروڑ روپے کی ادائی بھی غیر قانونی ہوئی تھی ، اس پر واپڈا ذرائع نے کہا تھا ''جب کسی منصوبے کی رپورٹ مکمل ہوتی ہے تو آڈیٹر جنرل اگر کسی بات سے متفق نہ ہوں تو آڈٹ پیراز لگائے جاتے ہیں جن کا جواب داخل کیا جاتا ہے، اگر آڈیٹڑ جنرل جواب سے مطمئن نہ ہوں تو اس کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ رقوم کی ادائی کے حوالے سے بھی ابھی صرف آڈٹ پیراز لگے ہیں جب کہ باقی کی کارروائی طریقہ کار کے مطابق عمل میں لائی جائے گی''۔
*
نیلم جہلم ہائیڈرو پاور منصوبے کی لاگت 90 ارب روپے بڑھ گئی
10۔اگست 2012 کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا تھا کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے اس کی لاگت 90 ارب روپے بڑھ گئی ہے اور اس پر صرف ابھی 38 فی صد کام ہوا ہے۔ کمیٹی کو بتایاگیا کہ منصوبہ 274 ارب روپے ارب کی لاگت سے 2016 میں مکمل کرلیا جائے گا۔ اس وقت کے چیئرمین واپڈا شکیل درانی نے بتایاکہ منصوبے کے لیے چین کے ایگزم بینک سے 44 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کا قرضہ ایک ہفتے میں مل جائے گا، حکومتی ترجیح بھاشا ڈیم ہے، اس پر دواسو ڈیم کو فوقیت نہیں دے سکتے۔
اگر دواسو ڈیم پر کام شروع کیا تو اس سے بھاشا ڈیم پر 10 سال تک کام شروع نہیں ہو سکے گا۔ چیئرمین کمیٹی زاہد خان کا کہنا تھا کہ بھاشا ڈیم کی ترجیح کے معاملے پر انہیں اعتراض ہے جس پر چیئرمین واپڈا نے بتایا کہ یہ حکومت کا فیصلہ ہے اور واپڈا وہی کرے گی جو حکومت کہے گی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس وقت سینٹ کو بتایا گیا اس پر عمل ہوا۔۔۔۔ ؟ پھر یہ خبر آئی کہ پاکستان اور چین کے درمیان نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تکمیل کے لیے ایک معاہدے پر دست خط ہو گئے۔
چین کا ایگزم بینک منصوبے کی تکمیل کیلئے چوالیس کروڑ اسی لاکھ ڈالر دے گا۔ ایگزم بنک اور حکومت پاکستان کے درمیان معاہدہ ہو چکا ہے۔ بعد ازاں اس منصوبے کے لیے پاکستان نے سعودی عرب سے 131 ملین ڈالر اضافی قرض کی درخواست کی۔ اس وقت سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان نے نیلم جہلم ہائیڈرو پاوور پروجیکٹ پر کام کرنے والی چینی کمپنی کو فوری طور پر 7 ارب روپے کی مزید ادائی کرنی ہے اور مالی مشکلات کے باعث سعودی عرب سے 131 ملین ڈالر اضافی قرضے کی درخواست کی گئی ہے توقع ہے کہ 100ملین ڈالر فوری طور پر مل جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق نیلم جہلم ہائیڈرو پاوور پروجیکٹ کیلئے بجلی کمپنیوں نے صارفین سے نیلم سرچارج کی مد میں 26 ملین ڈالر بھی اکٹھے کئے اورآئندہ چار سال میں اتنی ہی رقم مزید ملنے کی توقع ظاہر کی اس کے علاوہ کویت فنڈ کے ساتھ 42 ملین ڈالر قرضے کے معاملات طے پانے کی خبر بھی سامنے آئی اور یہ بھی قوم کو بتایا گیا کہ پاکستان میں بجلی کی کھپت اور رسد میں مسلسل بڑھتے ہوئے فرق کے باعث کشمیر میں پن بجلی کے ایک اہم منصوبے پر کام تیز کر دیا گیا ہے۔ نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کے ڈائریکٹرجنرل (کوآرڈیینشین) سردار محمد الطاف نے اس وقت میڈیا کو بتایا تھا کہ پاکستانی کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے ۰۴ کلومیٹر دور نوسیری کے مقام پر ۹۳ کلومیٹر طویل دو سرنگوں کے ذریعے دریائے نیلم کے پانی کا رخ تبدیل کرکے سستی بجلی پیدا کی جائے گی۔
اس منصوبے پر مجموعی لاگت کا ابتدائی تخمینہ ۰۳۱ ارب روپے لگایا گیا تھا لیکن مہنگائی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے اب یہ ۲۷۲ ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ سے حاصل ہونے والی بجلی نیشنل گریڈ میں شامل کرکے ملک کے مختلف حصوں میں فراہم کی جائے گی۔ سردار محمد الطاف نے بتایا کہ بھارت کی طرف اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس دریا پر تعمیر کیے جانے والے کِشن گنگا ڈیم کی وجہ سے نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کی اصل پیداوار صلاحیت میں ۳۱ فیصد کمی کا سامنا ہوگا، لیکن اس فرق کو ایک متبادل سرنگ کے ذریعے پن بجلی کی پیداوار سے پورا کر لیا جائے گا۔ اس متبادل سرنگ سے حاصل ہونے والی بجلی براہ راست پاکستانی کشمیر کے دارالحکومت اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کو مہیا کی جائے گئی۔
نیلم جہلم ہائیڈروپاور پلانٹ پانی سے توانائی حاصل کرنے کا ایک منصوبہ ہے، جو دریائے جہلم پر زیر تعمیر ہے۔ اس کا محل وقوع آزاد کشمیر کے جنوب میں آزاد صدر مقام مظفرآباد سے کوئی 16 میل کے فاصلے پر ہے۔ برقابی حاصل کرنے کے لیے دریائے نیلم سے پانی کی روانی کو دریائے جہلم پر نصب پاور سٹیشن کی طرف موڑنا ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی توانائی کا تخمینہ 969 میگاواٹ ہے۔
پس منظر
نیلم جہلم پراجیکٹ کی منظوری دراصل 1989 میں دی گئی تھی بعد میں اس کے ڈیزائن کو مزید بہتر بنایا گیا جس میں اس کے ٹنل کی لمبائی اور اس کی پیداواری استعداد میں اضافہ کیا گیا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق اس کا آغاز 2002 میں ہونا تھا اور اسے 2008 تک پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا ممکن نہ ہو سکا اور یہ اب 2013 تک نامکمل پڑا ہے۔ 7 جولائی 2007 میں اس کی تعمیر کا ٹھیکا چین کی کمپنیوں کے ایک کنسورشیم کو دے دیا گیا تھا۔
جس میں دو کمپنیاں سی جی جی سی (گیثروبا گروپ) اور سی این ایم آئی اینڈ ای (چائنا نیشنل مشینری امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کمپنی) شامل ہیں۔ ان کے ذمے دونوں کام تھے یعنی انہوں نے ڈیم تعمیر بھی کرنا تھا اور اس پر پاور اسٹیشن بھی نصب کرنا تھا اور جنوری 2008 تک اسے مکمل ہونا تھا۔ بہ ہر حال ملک کی سیاسی نامستحکمی کے منفی اثرات اس پر پڑتے رہے اور منصوبہ اپنی مطلوبہ مدت میں مکمل نہیں ہو پایا حتیٰ کہ آمر پرویز مشرف کا دور آ گیا، انہوں نے بھی منصوبے پر کام کے آغاز کا اعلان کیا۔ اکتوبر 2011 تک دریائے نیلم کا رخ موڑنے کے لیے بنائی جانے والی (Diversion) سرنگ البتہ مکمل کی جا چکی تھی۔
اخراجات
نیلم جہلم پراجیکٹ کا منصوبہ 1989 میں تیار کیا گیا تھا، اس وقت اس پر اخراجات کا جو تخمینہ لگایا گیا تھا وہ 167 ملین امریکی ڈالر تھا۔ 2005 کے قیامت آفریں زلزلے کے باعث اس کی ڈیزائننگ ازسر نو کی گئی جس سے اس پر اخراجات کا تخمینہ بڑھ کر 935 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گیا اور یہ اخراجات مسلسل بڑھتے چلے گئے حتیٰ کہ 2011 کے ایک تخمینے کے مطابق یہ 2.89 ارب امریکی ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔ اخراجات میں اس بے پناہ اضافے کا سبب واپڈا کو قرار دیا جاتاہے۔
کیوں کہ کام کا نگران یہ ہی ادارہ تھا۔ اخراجات کا ذمہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور کمپنی، مشرق وسطیٰ، چین کے بنکوں نے اٹھایا تھا اس کے علاوہ ٹیکسوں اور بانڈز کی آمدنی بھی اس میں شامل کی جانا تھی، اس وقت واپڈا مطلوبہ رقوم حاصل کرنے کے لیے چینی بنکوں کے کنسورشیم سے رجوع کیے ہوئے ہے۔ منصوبہ 38 فی صد مکمل ہو چکا ہے، ٹنل بورنگ مشینیں (ٹی بی ایمز) کو سرنگ (ٹنل) کی کھدائی کا کام تیز تر کرنے کا حکم دیا گیا، ذمہ داروں کا دعویٰ تھا کہ پراجیکٹ جولائی 2012 تک مکمل ہو کر کارآمد ہو جائے گا، بتایا گیا تھا کہ واپڈا ڈیم کے لیے جنریٹر حاصل کرنے کا بندوبست کر رہا ہے۔
کشن گنگا پراجیکٹ کے اثرات
ہمارے نیلم جہلم پراجیکٹ کا آئیڈیا 1989 میں بار پا گیا تھا جب کہ بھارت نے 2007 کشن گنگا پراجیکٹ کی تعمیر شروع کی۔ کشن گنگا بھی دریائے جہلم ہی کا دوسرا نام ہے۔ بھارتی پراجیکٹ کا مقام ہمارے نیلم جہلم ڈیم سے اوپر کی طرف ہے۔ بھارتی ماہرین نے بھی وہی طریقۂ کار اختیار کیا جو پاکستان نے۔ یعنی انہوں نے بھی اسی دریا کے پانی کو پاور اسٹیشن کی طرف کھینچا، اس مقصد کے لیے انہوں نے وولر جھیل سے اوپر کی طرف پاور اسٹیشن تعمیر کیا۔ یاد رہے کہ وولر جھیل کا پانی بھی دریائے جہلم کا مرہون منت ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ کشن گنگا پراجیکٹ کے لیے بھی پانی دریائے نیلم ہی سے لیا جانا ہے لہٰذا ہماری طرف اس دریا کے پانی کابہاؤ لامحالہ متاثر ہو گا اور ہمارے نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پلانٹ کی توانائی کی پیداواری استعداد سکڑ جائے گی۔ بھارت کی یقین دہانی ہے کہ وہ دریا کے بہاؤ کا محض 10 فی صد اپنے منصوبے کی طرف موڑے گا لیکن یہ یقین دہانی اس وقت شبہے کا شکار ہو جاتی ہے جب دوسرے یہ باور کراتے ہیں کہ بھارت بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہا ہے، درحقیقت وہ 33 فی صد تک پانی کاٹے گا۔ ماہرین یوں بھی خبردار کرتے ہیں کہ آزاد کشمیر کی وادی نیلم کا محل وقوع نیلم جہلم ڈیم سے نچلی سمت ہے لہٰذا دونوں ملک اپنے لیے پانی کاٹیں گے جس سے وادی نیلم بری طرح متاثر ہو گی۔
پاکستان کی اپیل
2010 میں پاکستان کے کارپردازان کو اچانک خیال آیا کہ بھارت کا کشن گنگا پراجیکٹ تو معاہدۂ دریائے سندھ کی خلاف ورزی ہے اور اس سے پاکستان کے آبی مفادات متاثر ہوں گے سو وہ ثالثی کے لیے بھاگم بھاگ ہیگ (نیدر لینڈ) کی سی او اے (پرماننٹ کورٹ آف آربی ٹریشن) کے پاس پہنچا اور عرض گزاری کہ دریائے جہلم کی آب گیری ایک تو معاہدۂ دریائے سندھ کی خلاف ورزی ہے، دوسرے جہلم کے پانی پر پاکستان کے حقوق بھی متاثر ہوں گے۔
2011 میں عدالت نے دونوں جانب یعنی نیلم جہلم اور کشن گنگا ڈیم کے معائنے کیے، محسوس کیا کہ کچھ نہ کچھ گڑبڑ بھارت کی طرف سے ہو رہی ہے سو اگست 2011 میں سی او اے نے بھارت کو حکم دیا کہ وہ اپنے (کشن گنگا) پراجیکٹ کے بارے میں مزید تیکنیکی ڈیٹا فراہم کرے۔ بھارت اس سے پہلے ہی اپنے ڈیم کی بلندی کو 322 فٹ سے کم کرکے 121 فٹ تک لا چکا تھا۔ عدالت نے ستمبرکے اواخر میں بھارت کو کوئی مستقل تعمیراتی کام کرنے سے روک دیا یعنی کوئی ایسا کام جس سے دریا کے پانی کی روانی میں خلل پڑتا ہو، اب بھارت ڈیم تو تعمیر نہیں کر سکتا تھا تاہم اس نے ٹنل اور پاور پلانٹ پر کام جاری رکھا۔ فروری 2013 میں ہیگ عدالت نے ایک فیصلہ صادر کیا کہ بھارت اپنے پراجیکٹ کے لیے کم از کم پانی حاصل کرے۔
ڈیزائن اور آپریشن
نیلم جہلم ڈیم کے ڈیزائن کے مطابق اس کی اونچائی 154 فٹ (47 میٹر)، لمبائی 4110 فٹ (125میٹر) ہو گی۔ اس میں آب گیری کی گنجائش 80 لاکھ مکعب میٹر (6486 ایکڑ فٹ) ہوگی، اس میں پیک سٹوریج (Peak storage) 2270 ایکڑ فٹ یا 28 لاکھ مکعب میٹر ہو گی۔ اس کے ٹنل کی لمبائی 18 میل یا 28.5 کلومیٹر ہو گی۔ اس کے آغاز کی دو سرنگوں کی طوالت 9 میل یا 15 کلومیٹر ہو گی جو دونوں آگے چل کر ایک دوسرے میں ضم ہو کر ایک ہی ٹنل میں چلی جائیں گی۔
یہ ٹنل دریائے جہلم کے نیچے نیچے 1247 فٹ یا 380 میٹر، پانی گزارے گا۔ سرنگ کے ٹرمینل پر پانی سرج چیمبر میں پہنچے گا جو 1,1197 فٹ یا 341 میٹر بلند سرج شافٹ اور 820 میٹر یا 2690 فٹ سرج ٹنل ہے جس کا کام پانی کے بے پناہ قوی تھپیڑوں کی شدت کو سلب کرنا ہے۔ سرج چیمبر سے پانی چار شاخوں میں تقسیم ہو جائے گا جو 242 میگاواٹ کے چاروں فرانسز ٹربائین جنریٹرز میں جائے گا، جو زیر زمین پاور ہاؤس میں نصب ہوں گے، یہاں برقابی کے عمل کے بعد پانی جنوب مغرب کی طرف برآمد ہو کر ایک بار پھر دریائے جہلم میں ایک ساڑھے تین کلومیٹر یا دو میل لمبی سرنگ کے ذریعے شامل ہو جائے گا۔
منصوبے کی تکمیل میں ناروا تاخیر
نیلم جہلم پراجیکٹ 1989 میں منظور کیا گیا تھا، ربع صدی سے زیادہ گزرنے کو ہے اور یہ منصوبہ تاحال مکمل نہیں ہو پایا حال آں کہ اس سے قبل اس سے زیادہ میگا پراجیکٹس بہت کم مدت میں مکمل ہو کر نتائج بھی دینے لگ گئے تھے۔ اس تاخیر کی کوئی واضح وجہ سامنے نہیں لائی جا رہی۔ گزشتہ دنوں جب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اس پراجیکٹ کا دورہ کیا تو خاصے بدمزہ ہوئے اور دہائی دیے بغیر نہ رہ سکے کہ منصوبے کو تین سال کے اندر اندر مکمل ہو جانا چاہیے تھا لیکن 29 برس گزرنے کے باوجود کام 50 فی صدی بھی مکمل نہیں ہو پایا اور جو منصوبہ 40 ارب روپے میں تیار ہو جانا چاہیے تھا، وہ اب 330 ارب میں پڑ رہا ہے یعنی اصل لاگت میں 60 گنا اضافہ؛ وزیراعظم کیا کہ سکتے تھے، سوائے اس کے کہ یہ صرف اور صرف ذاتی مفادات کے حصول کا شاخ سانہ ہے۔
انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر غیر مبہم الفاظ واپڈا کے افسروں کو اس تاخیر کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے انہیں عیاش قرار دیا۔ یہ پہلی بار نہیں کہ ملک کے منتخب وزیراعظم کام کی رفتار دیکھ کر سر پیٹ کر رہ گئے ہوں، ان سے قبل یہ ہی عمل سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی کر چکے ہیں۔ نومبر 2011 میں گیلانی صاحب اعلیٰ سطح کے ایک اجلاس کے دوران یہ سن کر دنگ رہ گئے کہ یہ پراجیکٹ 27 برس کے بعد بھی صرف 38 فی صد تک پہنچ پایا ہے۔ (اس موقع پر ان کی نظریں بجلی پانی کے وفاقی وزیر نوید قمر کو ڈھونڈتی رہیں لیکن معاملہ خاصا گمبھیر تھا اور اس موقع پر اونگھنے کی اجازت بھی نہیں دی جا سکتی تھی سو وہ منظر سے غائب تھے)، اس موقع پر انہوں نے مجلس توانائی (انرجی کمیٹی) کو ہدایت فرمائی کہ پراجیکٹ کی راہ میں درپیش رکاوٹیں دور کی جائیں اور یہ کہ یہ کمیٹی وزیر خزانہ کی سربراہی میں ہر پندرھواڑے کو اجلاس کیا کرے اور کام کی رفتار تیز رکھے۔
نیلم جہلم منصوبہ جلد مکمل کیا جائے، نواز شریف
وزیرِ اعظم نوازشریف نے18 جون 2013 کو جب نیلم جہلم ہائیڈروپروجیکٹ کا دورہ کیا تو اس موقع پر ان کو جو بریفنگ دی گئی اس پر وزیر اعظم نے جو ردعمل ظاہر کیا وہ ہماری ان بد اعمالیوں کا غماز ہے جس کی وجہ سے آج ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود غیروں سے توانائی کی بھیک مانگتے پھررہے ہیں۔ وزیرِ اعظم نے متعلقہ حکام کو کام تیز کرنے کی ہدایات جاری کیں اور کہا '' منصوبہ اگلے دوسال میں مکمل ہونا چاہیے''۔ منصوبے کی تکمیل کے لیے 2016 تک کی مہلت مانگی گئی جو وسائل کی فراہمی سے مشروط تھی مگر وزیرِ اعظم کے انکار نے ڈھول کا پول کھول دیا۔
پراجیکٹ کی تکمیل میں تاخیر پر وزیراعظم نے واپڈا حکام کی سخت سرزنش کی اور چیئرمین واپڈا راغب شاہ کو ہدایت کی ہے کہ بے جا تاخیر کے ذمہ دار حکام کا تعین کرکے ایک ہفتے میں انہیں رپورٹ پیش کی جائے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا ''دہائی خدا کی لوگ بجلی کے ہاتھوں پریشان ہیں اور واپڈا حکام یہاں مزے کررہے ہیں، تین سال میں مکمل ہونے والا منصوبہ 29 سال میں مکمل نہیں ہوسکا۔
ایم ڈی جنرل زبیر نے جب بریفنگ دینا شروع کی تو وزیراعظم نے سخت لہجے میں کہا تین سال کا منصوبہ انتیس سال میں بھی کیوں مکمل نہ ہوسکا ان کے الفاظ تھے ''دہائی خدا کی قوم بجلی کے بغیر تڑپ رہی ہے، اقتصادی سرگرمیاں نہ ہونے کے مترادف ہیں، غریب کا چولہا بجھ چکا ہے مگر واپڈا کے افسران یہاں بیٹھے عیاشی کررہے ہیں''۔انہوں نے اس منصوبے کو15۔2014 میں مکمل کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا ''ہم ایسے منصوبوں کی تکمیل کے لیے ایک ایک منٹ وقف کریں گے''۔
*
دو سال پہلے حکومت نے جو کیا وہ خبروں کا نمایاں حصہ تھا مگر ۔۔۔۔؟ نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کے لیے رقوم کی ادائی کے طریقہ کار پر آڈیٹر جنرل کے اعتراضات، معاہدے اور اصل قیمت طے کیے بغیر کنٹریکٹر کو رقم ادا کردی گئی تھی۔ ٹنل بورنگ مشین کی خریداری کے لیے اکہتر کروڑ روپے کی رقم کی ادائی پر چیف فنانشل آفیسر نے جو رپورٹ مرتب کی اس میں ''آڈٹ پیراز'' لگائے گئے ۔ رپورٹ کے مطابق ٹنل کے لیے روایتی ڈرل اینڈ بلاسٹ سسٹم کا طریقہ کار استعمال کرنے کے بجائے کنٹریکٹر کو ٹنل بورنگ مشین کی ادائی کے لیے اکہتر کروڑ روپے کی رقم کی ادائی معاہدے اور اصل قیمت طے کیے بغیر ادا کر دی گئی ، کنٹریکٹر کو تیس کروڑ روپے کی ادائی پہلے کر دی گئی تھی جب کہ سیلاب کے باعث بعد میں کی جانے والی بیس کروڑ روپے کی ادائی بھی غیر قانونی ہوئی تھی ، اس پر واپڈا ذرائع نے کہا تھا ''جب کسی منصوبے کی رپورٹ مکمل ہوتی ہے تو آڈیٹر جنرل اگر کسی بات سے متفق نہ ہوں تو آڈٹ پیراز لگائے جاتے ہیں جن کا جواب داخل کیا جاتا ہے، اگر آڈیٹڑ جنرل جواب سے مطمئن نہ ہوں تو اس کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ رقوم کی ادائی کے حوالے سے بھی ابھی صرف آڈٹ پیراز لگے ہیں جب کہ باقی کی کارروائی طریقہ کار کے مطابق عمل میں لائی جائے گی''۔
*
نیلم جہلم ہائیڈرو پاور منصوبے کی لاگت 90 ارب روپے بڑھ گئی
10۔اگست 2012 کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا تھا کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور منصوبے میں تاخیر کی وجہ سے اس کی لاگت 90 ارب روپے بڑھ گئی ہے اور اس پر صرف ابھی 38 فی صد کام ہوا ہے۔ کمیٹی کو بتایاگیا کہ منصوبہ 274 ارب روپے ارب کی لاگت سے 2016 میں مکمل کرلیا جائے گا۔ اس وقت کے چیئرمین واپڈا شکیل درانی نے بتایاکہ منصوبے کے لیے چین کے ایگزم بینک سے 44 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کا قرضہ ایک ہفتے میں مل جائے گا، حکومتی ترجیح بھاشا ڈیم ہے، اس پر دواسو ڈیم کو فوقیت نہیں دے سکتے۔
اگر دواسو ڈیم پر کام شروع کیا تو اس سے بھاشا ڈیم پر 10 سال تک کام شروع نہیں ہو سکے گا۔ چیئرمین کمیٹی زاہد خان کا کہنا تھا کہ بھاشا ڈیم کی ترجیح کے معاملے پر انہیں اعتراض ہے جس پر چیئرمین واپڈا نے بتایا کہ یہ حکومت کا فیصلہ ہے اور واپڈا وہی کرے گی جو حکومت کہے گی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس وقت سینٹ کو بتایا گیا اس پر عمل ہوا۔۔۔۔ ؟ پھر یہ خبر آئی کہ پاکستان اور چین کے درمیان نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تکمیل کے لیے ایک معاہدے پر دست خط ہو گئے۔
چین کا ایگزم بینک منصوبے کی تکمیل کیلئے چوالیس کروڑ اسی لاکھ ڈالر دے گا۔ ایگزم بنک اور حکومت پاکستان کے درمیان معاہدہ ہو چکا ہے۔ بعد ازاں اس منصوبے کے لیے پاکستان نے سعودی عرب سے 131 ملین ڈالر اضافی قرض کی درخواست کی۔ اس وقت سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان نے نیلم جہلم ہائیڈرو پاوور پروجیکٹ پر کام کرنے والی چینی کمپنی کو فوری طور پر 7 ارب روپے کی مزید ادائی کرنی ہے اور مالی مشکلات کے باعث سعودی عرب سے 131 ملین ڈالر اضافی قرضے کی درخواست کی گئی ہے توقع ہے کہ 100ملین ڈالر فوری طور پر مل جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق نیلم جہلم ہائیڈرو پاوور پروجیکٹ کیلئے بجلی کمپنیوں نے صارفین سے نیلم سرچارج کی مد میں 26 ملین ڈالر بھی اکٹھے کئے اورآئندہ چار سال میں اتنی ہی رقم مزید ملنے کی توقع ظاہر کی اس کے علاوہ کویت فنڈ کے ساتھ 42 ملین ڈالر قرضے کے معاملات طے پانے کی خبر بھی سامنے آئی اور یہ بھی قوم کو بتایا گیا کہ پاکستان میں بجلی کی کھپت اور رسد میں مسلسل بڑھتے ہوئے فرق کے باعث کشمیر میں پن بجلی کے ایک اہم منصوبے پر کام تیز کر دیا گیا ہے۔ نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کے ڈائریکٹرجنرل (کوآرڈیینشین) سردار محمد الطاف نے اس وقت میڈیا کو بتایا تھا کہ پاکستانی کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے ۰۴ کلومیٹر دور نوسیری کے مقام پر ۹۳ کلومیٹر طویل دو سرنگوں کے ذریعے دریائے نیلم کے پانی کا رخ تبدیل کرکے سستی بجلی پیدا کی جائے گی۔
اس منصوبے پر مجموعی لاگت کا ابتدائی تخمینہ ۰۳۱ ارب روپے لگایا گیا تھا لیکن مہنگائی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے اب یہ ۲۷۲ ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ سے حاصل ہونے والی بجلی نیشنل گریڈ میں شامل کرکے ملک کے مختلف حصوں میں فراہم کی جائے گی۔ سردار محمد الطاف نے بتایا کہ بھارت کی طرف اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس دریا پر تعمیر کیے جانے والے کِشن گنگا ڈیم کی وجہ سے نیلم جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کی اصل پیداوار صلاحیت میں ۳۱ فیصد کمی کا سامنا ہوگا، لیکن اس فرق کو ایک متبادل سرنگ کے ذریعے پن بجلی کی پیداوار سے پورا کر لیا جائے گا۔ اس متبادل سرنگ سے حاصل ہونے والی بجلی براہ راست پاکستانی کشمیر کے دارالحکومت اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کو مہیا کی جائے گئی۔