کرتارپور راہداری بھارت میں پھوٹی چنگاری
جس بھارتی میڈیا کو سدھو کی جپھی ناگوار گزری تھی اسے گوپال چاولہ کا آرمی چیف سے ہاتھ ملانا ایک آنکھ نہیں بھایا۔ سکھ کمیونٹی جسے اپنی خوشی اور عید کا دن قرار دے رہی ہے، بھارتی حکومتی اسی پر ماتم کناں ہے۔ بھارت کا اعتراض ہے کہ خالص مذہبی تقریب کو سیاسی بنادیا گیا، ان کو وزیراعظم کے کشمیر کا ذکر کرنے کا بھی غصہ ہے۔
جنرل باجوہ سے خالصتان تحریک سے منسلک رہنما گوپال چاولہ کے ہاتھ ملانے پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ بھارت نے ایک بار پھر پاکستان پر شدت پسندوں کی سرپرستی کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ بھارت کہتا ہے کہ کرتار پور راہداری مقدس لیکن کشمیر انڈیا کا اٹوٹ انگ ہے۔ ایک چینل نے اس راہداری کو خالصتان کے قیام کےلیے پل قرار دے دیا۔ بھارتی حکومت نے کرتار پور راہداری کھولنے کا فیصلہ قبول کرکے کڑوا گھونٹ پی تو لیا ہے لیکن اب اس سے ہضم نہیں ہو پارہا۔ اب یہ نہ قے کرسکتا ہے اور نہ اسے حلق سے نیچے لے جاسکتا ہے۔ بھارتی حکومت اور اس کا میڈیا سمجھ رہے ہیں کہ یہ صرف راہداری ہی نہیں بلکہ کمزور پڑتی خالصتان تحریک کو پھر تقویت دینے کا بہانہ ہے۔ اسے یہ بھی خدشہ ہے کہ اگر سکھ اس کے ہاتھ سے نکلتے ہیں تو کشمیر سے بھی گرفت ختم ہوجائے گی۔
بھارت حسب روایت اسے تکمیل تک پہنچنے سے پہلے ہی متنازع بنانا چاہتا ہے۔ کسی حد تک اس کے خدشے میں وزن بھی ہے کیونکہ اس راہداری کی جیو پولیٹیکل اہمیت بھی ہے۔ پاکستانی پنجاب، بھارتی پنجاب سے کلچر اور زبان کا رشتہ رکھتا ہے۔ اگر یہاں امن ہوتا ہے تو پاکستان کی مشرقی سرحد محفوظ ہوجائے گی، پاکستان کو ہندو ذہنیت سے خطرہ کم ہوگا۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے جس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا ہے، اس پر چھ ماہ میں کام مکمل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ فیز ون میں نالہ بئیں اور دریائے راوی پر دو پل بنائے جائیں گے۔ سڑک کی تعمیر کےلیے سروے مکمل کر لیا گیا ہے۔ سڑک بھارتی سرحد میں قائم درشن پوائنٹ تک بنے گی جہاں بھارتی حکومت اپنے علاقے میں کوریڈور کا کام مکمل کرے گی۔ اس منصوبے سے جہاں سکھ برادری کو مذہبی فائدہ ہوگا، یہاں کے رہنے والوں کی معاشی حالت بھی بہتر ہوجائے گی۔ روزانہ ہزاروں لوگ یہاں آئیں گے، بازار بنیں گے، ہوٹل اور مصنوعات کی خریداری کے پوائنٹس بنیں گے، سرحد کے دونوں طرف زندگی خوشحال ہوجائے گی۔
یہ فاصلہ مٹانے کی ایک زبردست کاوش ہے۔ جو لوگ واہگہ کے ذریعے آیا کرتے تھے، جو چار سو کلومیٹر کا راستہ تھا، یہ اب چار کلومیٹر تک محدود ہوگیا ہے۔ راستے کم ہوگئے ہیں، جب راستے کم ہوں گے اور آمدورفت میں اضافہ ہوگا تو تعلقات میں بہتری آئے گی۔ بقول وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، پہلے دن سے وزیراعظم عمران خان کی خواہش تھی کہ ہمارے خطے میں امن ہو۔ تاریخی تنازعات ہیں، تو ان کا حل کیا ہے؟ جنگ تو حل نہیں۔
دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں، لڑائی کرنا تو خوکشی کے مترادف ہوگا، لڑائی کی تو گنجائش ہی نہیں۔ تو پھر راستہ کیا ہے؟ پاکستان اور بھارت دونوں کو امن کا راستہ تلاش کرنا چاہیے نہ کہ آگ کی طرف بڑھنا چاہیے۔ مودی کی انتہاء پسند حکومت اپنی روایتی ہٹ دھرمی سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف آئے، ہم سے پیار کرے تو ہم بھی پیار دیں گے۔ بقول ساحر لدھیانوی
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لیے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔