جوا یا جائز
میں نے بڑے بڑے متقی اور صالح لوگوں کو بڑے محتاط طریقے سے شیئرز کا کاروبار کرتے بھی دیکھا ہے اور اسے خالص قمار بازی۔۔۔
شیئرز کی خریداری اور اسٹاک مارکیٹ میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے پیش نظر میں وقتاً فوقتاً اس کا ذکر کرتا رہتا ہوں۔ آج کا کالم میں خصوصی طور پر اسی کے بارے میں لکھ رہا ہوں۔ اسے لکھنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ بہت سے قارئین کے دل میں حصص کے کاروبار کے جائز ہونے کے بارے میں کئی وسوسے اٹھتے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ خالص سٹہ، جوا اور قمار بازی ہے۔
دراصل اس کے مختلف پہلو ہیں۔ میں نے بڑے بڑے متقی اور صالح لوگوں کو بڑے محتاط طریقے سے شیئرز کا کاروبار کرتے بھی دیکھا ہے اور اسے خالص قمار بازی کا روپ دینے والوں کو بھی دیکھا ہے۔ کسی کا حسن کرشمہ ساز اسے جوا بنادیتا ہے اور کسی کی حکمت عملی اسے ایک جائز کاروبار کی شکل دے دیتی ہے۔
یہاں میں مختصراً یہ بتاتا چلوں کہ شیئر دراصل ہے کیا؟ آسانی کے لیے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔
فرض کریں کہ آپ اور آپ کے دو دوست کوئی نیا کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے چار لاکھ روپے کی ضرورت ہے۔ ایک ایک لاکھ روپیہ آپ تینوں مہیا کرتے ہیں اور باقی ایک لاکھ روپیہ حاصل کرنے کے لیے آپ عام لوگوں کو پیشکش کرتے ہیں کہ ان میں سے جو لوگ اس کاروبار میں آپ کے حصے دار بننا چاہتے ہیں وہ مل کے ایک لاکھ روپیہ مہیا کردیں۔ یعنی کوئی دس ہزار دے کوئی بیس ہزار اور کوئی اس سے زیادہ جو جتنے پیسے دے گا آپ کے کاروبار میں اس کا اتنا ہی حصہ ہوگا۔ اگر آپ اپنی سہولت کے لیے ہر دس روپے کو ایک حصہ قرار دے لیں تو آپ کے کل سرمایے یعنی چار لاکھ روپے کے کل حصے چالیس ہزار ہوں گے۔ گویا جو شخص دس ہزار روپے دے گا اس کے پاس ایک ہزار حصے ہوں گے۔ اسٹاک مارکیٹ میں بھی ان حصوں یعنی شیئرز کی تقسیم عام طور پر اسی طرح ہوتی ہے۔
سال کے آخر میں مالکان سارے بزنس کا حساب تیار کرتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں کہ جو نفع کمایا گیا ہے اسے حصے داروں میں تقسیم کردینا چاہیے یا اس سے کاروبار کو مزید توسیع دینا چاہیے۔ نفع تقسیم کرنا ہو تو تمام حصے داروں کو ان کے حصص کے مطابق چیک ارسال کردیے جاتے ہیں۔ یہ نفع ڈیونڈنڈ کہلاتا ہے۔
اگر کاروبار اچھا چل رہا ہے اور کمپنی نفع کما رہی ہے تو اس میں حصہ ڈالنے یعنی اس کاروبار کا پارٹنر بننے میں مزید لوگ بھی دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ اب چونکہ کمپنی تو مزید پارٹنر نہیں بنانا چاہتی لہٰذا دلچسپی رکھنے والوں کو ان لوگوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے جن کے پاس پہلے سے اس کے شیئرز موجود ہیں اور وہ انھیں آفر کرتے ہیں کہ ہم دس روپے والے حصے کے گیارہ، بارہ روپے یا اس سے بھی کہیں زیادہ رقم دینے کو تیار ہیں۔ اگر سودا طے ہوجاتا ہے تو یہی نئی قیمت کمپنی کے شیئر کی موجودہ قیمت بن جاتی ہے۔ حصے یعنی شیئرز فروخت کرنے والے کو اس کی قیمت خرید پر قیمت فروخت کا فرق نفع کی صورت میں ملتا ہے اسے کیپیٹل گین کہتے ہیں۔اسٹاک مارکیٹ میں شیئرز کا جوبھی کاروبار ہوتا ہے وہ اوپر درج کیے گئے دونوں طرح کے فوائد حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی لوگ کسی اچھی کمپنی کا شیئر خرید کر بیٹھ جاتے ہیں اور ہر سال اس کا ڈیونڈنڈ کھاتے رہتے ہیں۔ درمیان میں کسی مرحلے پر اگر شیئر کی قیمت کافی بڑھ جاتی ہے تو وہ اسے فروخت بھی کردیتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ ایک دکان لے کر کرائے پر دے دیں۔ ہر ماہ اس کا کرایہ وصول کریں اور اگر کبھی ضرورت پڑ جائے یا قیمت بہت بڑھ جائے تو دکان کو ہی فروخت کرکے وہ رقم کہیں اور لگا دیں۔اب رہی بات اس کاروبار کے جائز ہونے کی تو عرض ہے کہ میری ناچیز سی تحقیق کے مطابق اوپر بیان کی ہوئی دونوں صورتوں میں نفع کمانا جائز ہے لیکن یہ اسی صورت میں ہے جب کہ آپ کسی ایسی کمپنی کا شیئر خریدیں جو کوئی ناجائز مثلاً سودی کاروبار کرنے یا غلط چیز مثلاً شراب وغیرہ بنانے میں مصروف نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ جو کام ہی شرعی طور پر ناجائز ہو اس میں آپ حصہ دار بن جائیں تو آپ کی آمدنی بھی جائز نہیں ہوگی۔جناب مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے ایک فتویٰ میں کسی مسلمان کے لیے کسی جوائنٹ اسٹاک کمپنی کے شیئرز خریدنے کے لیے یہ شرائط ضروری قرار دی ہیں۔
1۔کمپنی کا زیادہ ترکاروبار حلال اور شریعت کے مطابق جائز ہو۔ لہٰذا کوئی مسلمان کسی ایسی کمپنی کے شیئرز میں رقم نہیں لگا سکتا جس کا مین بزنس حرام ہو۔ مثلاً روایتی بینکاری، انشورنس اور شراب کا کام کرنے والی کمپنیاں وغیرہ۔
2۔اگر کمپنی کا مین بزنس حلال ہے لیکن وہ بینکوں وغیرہ میں رقم رکھنے کے ساتھ سودی قرض بھی لیتی ہے تو شیئر خریدنے والے کو کمپنی کے سالانہ اجلاس عام میں اس کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی چاہیے۔
3
۔جب کوئی مسلمان شیئر ہولڈر منافع یا ڈیونڈنڈ وصول کرے تو ضروری ہے کہ وہ نفع کا اتنا حصہ جو کمپنی کو سودی اکاؤنٹ کے ذریعے حاصل ہوا ہے اپنے ڈیونڈنڈ میں سے کسی مستحق زکوٰۃ کو دے۔
4۔ اگر کسی کمپنی کا تمام سرمایہ ابھی تک نقد کی صورت میں موجود ہے اور اس نے ابھی تک کوئی جائیداد یا تجارتی مقاصد کے لیے کوئی مال نہیں خریدا ہے تو اس کے شیئر کی خریدوفروخت صرف اس کی اصلی اور بنیادی قیمت پر ہی جائز ہے۔
قارئین! میرا خیال ہے کہ اوپر درج شدہ چند احتیاطوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی بچتوں کو شیئرز کی خریداری میں لگایا جاسکتا ہے۔ اگرچہ مارکیٹ اچھی خاصی بڑھ چکی ہے لیکن اچھی کمپنیوں میں سرمایہ کاری اب بھی سودمند ہوگی۔ ملک میں اس وقت ایک بزنس فرینڈلی حکومت موجود ہے جو کاروبار کے بھید بھاؤ اچھی طرح سمجھتی ہے، میرا خیال ہے اس پر بھروسہ کرکے دیکھنا چاہیے۔ کل، یعنی یکم جولائی سے نئے مالی سال کا آغاز ہورہا ہے۔ دیکھتے ہیں یہ اپنی جھولی میں کتنی خوش بختی لے کے آتا ہے۔
دراصل اس کے مختلف پہلو ہیں۔ میں نے بڑے بڑے متقی اور صالح لوگوں کو بڑے محتاط طریقے سے شیئرز کا کاروبار کرتے بھی دیکھا ہے اور اسے خالص قمار بازی کا روپ دینے والوں کو بھی دیکھا ہے۔ کسی کا حسن کرشمہ ساز اسے جوا بنادیتا ہے اور کسی کی حکمت عملی اسے ایک جائز کاروبار کی شکل دے دیتی ہے۔
یہاں میں مختصراً یہ بتاتا چلوں کہ شیئر دراصل ہے کیا؟ آسانی کے لیے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔
فرض کریں کہ آپ اور آپ کے دو دوست کوئی نیا کاروبار شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے چار لاکھ روپے کی ضرورت ہے۔ ایک ایک لاکھ روپیہ آپ تینوں مہیا کرتے ہیں اور باقی ایک لاکھ روپیہ حاصل کرنے کے لیے آپ عام لوگوں کو پیشکش کرتے ہیں کہ ان میں سے جو لوگ اس کاروبار میں آپ کے حصے دار بننا چاہتے ہیں وہ مل کے ایک لاکھ روپیہ مہیا کردیں۔ یعنی کوئی دس ہزار دے کوئی بیس ہزار اور کوئی اس سے زیادہ جو جتنے پیسے دے گا آپ کے کاروبار میں اس کا اتنا ہی حصہ ہوگا۔ اگر آپ اپنی سہولت کے لیے ہر دس روپے کو ایک حصہ قرار دے لیں تو آپ کے کل سرمایے یعنی چار لاکھ روپے کے کل حصے چالیس ہزار ہوں گے۔ گویا جو شخص دس ہزار روپے دے گا اس کے پاس ایک ہزار حصے ہوں گے۔ اسٹاک مارکیٹ میں بھی ان حصوں یعنی شیئرز کی تقسیم عام طور پر اسی طرح ہوتی ہے۔
سال کے آخر میں مالکان سارے بزنس کا حساب تیار کرتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں کہ جو نفع کمایا گیا ہے اسے حصے داروں میں تقسیم کردینا چاہیے یا اس سے کاروبار کو مزید توسیع دینا چاہیے۔ نفع تقسیم کرنا ہو تو تمام حصے داروں کو ان کے حصص کے مطابق چیک ارسال کردیے جاتے ہیں۔ یہ نفع ڈیونڈنڈ کہلاتا ہے۔
اگر کاروبار اچھا چل رہا ہے اور کمپنی نفع کما رہی ہے تو اس میں حصہ ڈالنے یعنی اس کاروبار کا پارٹنر بننے میں مزید لوگ بھی دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ اب چونکہ کمپنی تو مزید پارٹنر نہیں بنانا چاہتی لہٰذا دلچسپی رکھنے والوں کو ان لوگوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے جن کے پاس پہلے سے اس کے شیئرز موجود ہیں اور وہ انھیں آفر کرتے ہیں کہ ہم دس روپے والے حصے کے گیارہ، بارہ روپے یا اس سے بھی کہیں زیادہ رقم دینے کو تیار ہیں۔ اگر سودا طے ہوجاتا ہے تو یہی نئی قیمت کمپنی کے شیئر کی موجودہ قیمت بن جاتی ہے۔ حصے یعنی شیئرز فروخت کرنے والے کو اس کی قیمت خرید پر قیمت فروخت کا فرق نفع کی صورت میں ملتا ہے اسے کیپیٹل گین کہتے ہیں۔اسٹاک مارکیٹ میں شیئرز کا جوبھی کاروبار ہوتا ہے وہ اوپر درج کیے گئے دونوں طرح کے فوائد حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی لوگ کسی اچھی کمپنی کا شیئر خرید کر بیٹھ جاتے ہیں اور ہر سال اس کا ڈیونڈنڈ کھاتے رہتے ہیں۔ درمیان میں کسی مرحلے پر اگر شیئر کی قیمت کافی بڑھ جاتی ہے تو وہ اسے فروخت بھی کردیتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ ایک دکان لے کر کرائے پر دے دیں۔ ہر ماہ اس کا کرایہ وصول کریں اور اگر کبھی ضرورت پڑ جائے یا قیمت بہت بڑھ جائے تو دکان کو ہی فروخت کرکے وہ رقم کہیں اور لگا دیں۔اب رہی بات اس کاروبار کے جائز ہونے کی تو عرض ہے کہ میری ناچیز سی تحقیق کے مطابق اوپر بیان کی ہوئی دونوں صورتوں میں نفع کمانا جائز ہے لیکن یہ اسی صورت میں ہے جب کہ آپ کسی ایسی کمپنی کا شیئر خریدیں جو کوئی ناجائز مثلاً سودی کاروبار کرنے یا غلط چیز مثلاً شراب وغیرہ بنانے میں مصروف نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ جو کام ہی شرعی طور پر ناجائز ہو اس میں آپ حصہ دار بن جائیں تو آپ کی آمدنی بھی جائز نہیں ہوگی۔جناب مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے ایک فتویٰ میں کسی مسلمان کے لیے کسی جوائنٹ اسٹاک کمپنی کے شیئرز خریدنے کے لیے یہ شرائط ضروری قرار دی ہیں۔
1۔کمپنی کا زیادہ ترکاروبار حلال اور شریعت کے مطابق جائز ہو۔ لہٰذا کوئی مسلمان کسی ایسی کمپنی کے شیئرز میں رقم نہیں لگا سکتا جس کا مین بزنس حرام ہو۔ مثلاً روایتی بینکاری، انشورنس اور شراب کا کام کرنے والی کمپنیاں وغیرہ۔
2۔اگر کمپنی کا مین بزنس حلال ہے لیکن وہ بینکوں وغیرہ میں رقم رکھنے کے ساتھ سودی قرض بھی لیتی ہے تو شیئر خریدنے والے کو کمپنی کے سالانہ اجلاس عام میں اس کے خلاف اپنی آواز بلند کرنی چاہیے۔
3
۔جب کوئی مسلمان شیئر ہولڈر منافع یا ڈیونڈنڈ وصول کرے تو ضروری ہے کہ وہ نفع کا اتنا حصہ جو کمپنی کو سودی اکاؤنٹ کے ذریعے حاصل ہوا ہے اپنے ڈیونڈنڈ میں سے کسی مستحق زکوٰۃ کو دے۔
4۔ اگر کسی کمپنی کا تمام سرمایہ ابھی تک نقد کی صورت میں موجود ہے اور اس نے ابھی تک کوئی جائیداد یا تجارتی مقاصد کے لیے کوئی مال نہیں خریدا ہے تو اس کے شیئر کی خریدوفروخت صرف اس کی اصلی اور بنیادی قیمت پر ہی جائز ہے۔
قارئین! میرا خیال ہے کہ اوپر درج شدہ چند احتیاطوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی بچتوں کو شیئرز کی خریداری میں لگایا جاسکتا ہے۔ اگرچہ مارکیٹ اچھی خاصی بڑھ چکی ہے لیکن اچھی کمپنیوں میں سرمایہ کاری اب بھی سودمند ہوگی۔ ملک میں اس وقت ایک بزنس فرینڈلی حکومت موجود ہے جو کاروبار کے بھید بھاؤ اچھی طرح سمجھتی ہے، میرا خیال ہے اس پر بھروسہ کرکے دیکھنا چاہیے۔ کل، یعنی یکم جولائی سے نئے مالی سال کا آغاز ہورہا ہے۔ دیکھتے ہیں یہ اپنی جھولی میں کتنی خوش بختی لے کے آتا ہے۔