بے ُسرے گلوکاروں کی وجہ سے موسیقی زوال پذیر ہے پروڈیوسر و گلوکار سلیم بزمی

سلیم بزمی شعبہ موسیقی سے وابستہ ایک ایسی شخصیت ہیں۔ جن کو سُر اور تال کی مکمل سمجھ بوجھ ہے۔

سلیم بزمی شعبہ موسیقی سے وابستہ ایک ایسی شخصیت ہیں۔ جن کو سُر اور تال کی مکمل سمجھ بوجھ ہے۔ فوٹو : فائل

سُر اور تال کی سمجھ بوجھ ہر شخص کو نہیں ہوتی ان دونوں کو سمجھنے کیلئے خدا داد صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے اور یہ صلاحیت ہر کسی میں نہیں بلکہ کسی کسی میں پائی جاتی ہے۔

سلیم بزمی شعبہ موسیقی سے وابستہ ایک ایسی شخصیت ہیں۔ جن کو سُر اور تال کی مکمل سمجھ بوجھ ہے۔وہ ریڈیو پاکستان لاہور سٹیشن کے سنٹرل پروڈکشن یونٹ میں بطور پروڈیوسر خدمات انجام دے رہے ہیں۔سلیم بزمی نے اپنی عملی زندگی میں بے شمار موسیقاروں اور گلوکاروں کے ساتھ کام کیا ۔انہوں نے کلاسیکل،نیم کلاسیکل ،غزل اور لائٹ غزل کے ساتھ ساتھ ملّی نغمے بھی ریکارڈ کئے اُن کی شاندار کارکردگی کی وجہ سے انہیں متعدد اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔سلیم بزمی کی یہ بات قابل ذکر ہے کہ اُن کے ریکارڈ کردہ ملّی نغمے اسلام آباد اور لاہور میں ہمیشہ اوّل پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

گزشتہ دنوں ''ایکسپریس''کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے شعبہ موسیقی کی اس عظیم شخصیت نے جو گفتگو کی وہ قارئین کی نذر ہے۔سلیم بزمی نے بتایاکہ ''بے سُرے گلوکاروں کی وجہ سے گائیکی کا شعبہ زوال پذیر ہے۔ انسان کو وہ کام ہرگز نہیں کرنا چاہیے جس کاوہ شعور نہیں رکھتا۔میری پیدائش 21جنوری ہے، اس اعتبار سے میرا سٹار (aquairius) بنتا ہے اس ستار کے حامل لوگ اپنی دھن کے پکے ہوتے ہیں وہ ایک بار جس کام کو کرنے کی ٹھان لیں اسے انجام دے کر ہی دم لیتے ہیں۔میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد سے لے کر اب تک اپنا ہر کام مکمل منصوبہ بندی سے انجام دیا ہے۔




میں وہ نہیں ہوں جو باتیں زیادہ اور عمل کم کرتے ہیںمیری زندگی عمل سے تعبیر ہے۔میں نے اپنی زندگی میں جن لوگوں سے استفادہ کیا، اُن میں موسیقار بخشی وزیر،شفقت امانت علی خان،استاد اختر حسین اکھیاں ،ماسٹر منظور حسین،وجاہت عطرے،فدا حسین اورغلام عباس کے نام نمایاں ہیں۔ایک سوال کے جواب میں سلیم بزمی نے کہا کہ موسیقی میں چار بنیادی باتوں''سُر''،''تال''،''تلفّظ''اور''ادائیگی'' کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔ماسٹر منظور حسین اور وزیرافضل کہتے ہیں کہ اچھا گانے والے سُر کے قریب ہیں وہ پورا سُر نہیں لگاتے اگرگلوکار پورا سر لگائے تو اس کا جگر پھٹ جائے۔ استاد بخشی وزیر کہتے ہیں کہ طرز دو اور دو کا پہاڑا ہوتی ہے۔اساتذہ کہتے ہیں کہ سُر استاد ہوتا ہے اور ہر سُر کی ایک فریکوئنسی ہوتی ہے۔جیسے پہلا کالا کی فریکوئنسی 440 سائیکلز فی سیکنڈ ہوتی ہے۔''

سلیم بزمی کے بقول: میں نے جن موسیقاروں اور گلوکاروں کے ساتھ کام کیا ہے اُن میں موسیقار وجاہت عطرے،وجاہت حسین، رفیق حسین،ماسٹر منظور حسین،اختر حسین اکھیاں،قادر علی شگن،فیاض علی خان،وزیر افضل،ماسٹر امین،افضال حسین،معین بوبی، حسین بخش گلّو،غلام حسین شگن،غلام علی خان،استاد غلام حیدر خان،استاد فتح علی خان حیدر آبادی،استاد فتح علی خان پٹیالہ والے،شفقت سلامت علی خان،ذاکر علی خان،مبارک علی خان،شبیر حسین، جعفر حسین،فدا حسین،غلام حسین،اعجاز قیصر،استاد حامد علی خان،اسد امانت علی خان،ڈاکٹر امجد پرویز،سلمیٰ آغا، سائرہ نسیم، طاہرہ سید،شبنم مجید،فریحہ پرویز،خلیل حیدر، وارث بیگ اور صائمہ ممتاز شامل ہیں۔میں نے سجاد طافو،صائمہ ممتاز،سجاد طافو،ندیم عباس لونے والا اور سارہ رضا خان کو متعارف کروایا ہے۔

کالج میں شفقت امانت علی خان میرے کلاس فیلو اور علی ظفر کالج فیلو تھے۔ 2006میں مجھے پی بی سی نیشنل ایکسیلنس ایوارڈ مل چکا ہے۔ایوارڈ کام کرنے والے کیلئے آکسیجن ہوتے ہیں ۔ ریڈیو پاکستان کے لاہور سٹیشن کے حوالے سے بھارت کے معروف موسیقار اے آر رحمان کا کہنا ہے کہ میں نے اس سٹیشن کو سن کر بہت کچھ سیکھا ہے۔

بطور گائیک میرا یک البم مارکیٹ میں موجود ہے اس کے علاوہ تمام موبائل کمپنیوں کی لسٹ میں میرے گانوں کی رنگ ٹونز موجود ہیں۔سلیم بزمی نے کہا کہ (arrangement) میں سازوں کا انتخاب بہت اہم ہوتا ہے۔کمپوزیشن بناتے وقت شاعری کا انتخاب بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔موسیقی کے متوالوں کیلئے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ جن گیتوں میں عبادت کا ذکر ہوتا ہے وہ صبح کے راگوں میں اور غمگین شام کے راگوں میں کمپوز کئے جاتے ہیں۔
Load Next Story