چمک تجھؐ سے پاتے ہیں سب پانے والے
’’ اے نبیؐ! ہم نے آپ ؐ کو شاہد، مبشّر، نذیر، داعی الی اللہ اور سراج منیر خود اپنے حکم سے بناکر بھیجا ہے۔‘‘ (القرآن)
خالقِ ارض و سما اور مالک کون و مکاں نے تعریف محمدی صلی اللہ علیہ وسلم و توصیف اور ذکر مصطفویؐ کو اپنے اوپر لازم ٹھہراتے ہوئے لحظہ بہ لحظہ اور لمحہ بہ لمحہ ذکرِ حبیبؐ کی رفعت و ترقی کا خود ذمہ اٹھایا۔ '' ورفعنا لک ذکرک۔ اور ہم نے آپؐ کے ذکر کو رفعتیں عطا کیں۔'' القرآن۔ اسی طرح آپؐ پر نازل ہونے والے قرآن حکیم کی حفاظت و پاسبانی کا ذمہ بھی خود حق تعالیٰ کے ہی شایان شان ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے: ''بے شک ہم ہی قرآن کے نازل کرنے والے اور ہم ہی اس کے محافظ و نگہبان ہیں۔'' (القرآن)
قرآن حکیم جا بہ جا خدا تعالیٰ کی بے مثل و بے مثال الہامی زبان میں ذکر حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے معمور و مزّین ہے۔ گویا تاقیامت جیسے قرآن محفوظ ہے اسی طرح شانِ حبیبِ خدا ﷺ بھی محفوظ و مامون رہے گی اور اس ''الکوثر'' قرآن حکیم کے ذریعے سے آپؐ کے دشمن بے نام و نشان اور ذلیل و رسوا ہوکر رہیں گے۔
مٹ گئے، مٹ جائیں گے اعداء تیرے
مٹا ہے، نہ مٹے گا کبھی چَرچا تیرا
قرآن حکیم کی ایک آیت کریمہ میں حق تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات خمسہ کا تذکرہ کچھ اس انداز سے فرمایا: '' اے نبیؐ! ہم نے آپؐ کو شاہد، مبشّر، نذیر، داعی الی اللہ اور سراج منیر خود اپنے حکم سے بناکر بھیجا ہے۔'' (القرآن)
زیر نظر آیت کریمہ میں پہلی صفت ''شاہد'' کا تذکرہ فرمایا، جس کا مطلب گواہ ہوتا ہے یعنی آپؐ نہ صرف اس جہانِ رنگ و بُو اور دیگر جہانوں بل کہ جانِ جہاں اور تمام جہانوں کی روح کی حقیقت و صداقت پر گواہ ہیں۔ مزید برآں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم اس تمام تر کائناتی و آفاقی اور مابعد الطبیعیاتی و روحانی نظام کے خالقِ حقیقی و مالک ازلی و ابدی کے وجود یعنی ''حقیقت کبریٰ'' اور ''صداقت عظمیٰ'' پر بھی شاہد اعظم ہیں۔ یہ شہادت محض مشاہداتی و علمی نوعیت کی نہیں بل کہ عین الیقین اور علم الیقین سے بہت آگے حق الیقین کے احسن ترین درجے کی ہے۔ جسے ہم معراج کا بھی حاصل و مقصود ٹھہراتے ہیں۔
جلتے ہیں جس مقام پر جبریل کے پَر
اُس کی حقیقتوں سے شناسا تمھی تو ہو
اس درجے کی حقیقتوں سے شناسائی اور اعزاز و انعام کے بعد قدرت نے آپؐ کو ''مبشّر'' بنادیا تاکہ آپؐ کے ذریعے سے رہتی دنیا تک کے انسانوں کو ''حقیقت کبریٰ '' کی خوش خبری ملتی رہے اور سبھی اپنی اس خوش نصیبی پر راضی بہ رضا رہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہر دور میں ماحول کی آلائشوں سے لبریز بعض ضدی طبیعتیں نہ صرف حق کو قبول کرنے سے باز رہتی ہیں بل کہ دیگر طالبانِ حق و صداقت کی راہ میں روڑے اٹکانے پر بھی مُصر رہتی ہیں۔
لہٰذا مبشّر کے ساتھ آپؐ کو نذیر بھی بنایا گیا تاکہ ہٹ دھرم اور ضدی قسم کے لوگوں کو خدا کے عذابِ عظیم اور عذاب الیم سے ڈرا کر صراط مستقیم کی طرف رجوع کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ اس حوالے سے واضح رہے کہ کم زور اور مظلوم انسانوں پر جبر، ڈر، خوف اور ظلم مسلط کرنے والوں کے لیے محض بشارت اور نصیحت کافی نہیں ہوتی اور قدرت کی طرف سے ہی ان کا شافی علاج ہوتا ہے۔ جب شاہد، مبشّر اور نذیر کی تین صفاتِ عالیہ یک جا ہوتی ہیں تو ''داعی الی اللہ'' کا منصبِ جلیلہ وجود پذیر ہوتا ہے۔
یعنی داعی پہلے درجے میں خود اپنے نظریۂ و ایمان پر کامل سطح کا یقین و اطمینان اور رسوخ حاصل کرے۔ اس لیے کہ اگر داعی خود اپنے مشن کی صداقت میں تذبذب اور وسوسہ کا شکار ہوگا تو وہ دوسروں کو اپنی دعوت کی قبولیت پر بہترین نتائج اور عدم قبولیت پر بدترین انجام کی آگہی و ابلاغ سے کماحقہ عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ یہ لازوال اور سدا بہار حکمت ہمیں اسوۂ حسنہ میں بہ درجۂ اتم نظر آتی ہے جس کی وجہ سے دنیا کی کوئی ترغیبی و تنبیہی طاقت آپؐ کو اپنے مشن سے نہیں ہٹا سکی۔
قرآنِ حکیم نے زیربحث آیتِ کریمہ میں نبی اکرم ﷺ کی صفات اربعہ شاہد، مبشّر، نذیر اور داعی الی اللہ کے بعد آپؐ کو سراج منیر کے لقب سے سرفراز فرمایا ہے۔ یعنی شہادت، تبشیر اور انذار کی ترکیب سے ایسا داعی وجود میں آئے کہ صرف گفتار کا غازی نہ ہو بل کہ مجسّم حق و صداقت اور کردار کا غازی بن کر سراج منیر ٹھہرے اور یقینا اس مقامِ محمود کی صداقت صرف اور صرف آقائے نام دار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات والصفات ہے۔
یہاں آپؐ کو شمس و قمر کی صفات کے ذریعے سے متعارف کرانے کے بہ جائے سراج منیر فرمایا گیا، جس کا مطلب روشن چراغ ہے۔ اس کی وجہ چراغ کی وہ اپنی منفرد خوبیاں ہیں جن سے شمس و قمر بھی محروم ہیں۔ چراغ شب ظلمت میں اُجالے کا ذریعہ و وسیلہ ہوتا ہے۔ جب آپؐ دنیا میں تشریف لائے تو چار سُو رات کی تاریکی جیسا سیاہ ترین منظر نامہ غالب تھا۔ لہٰذا آپؐ کو قدرت نے سراج منیر بنایا تاکہ تدریجی طور پر اس چراغِ روشن سے دیگر بُجھے اور ٹمٹماتے ہوئے چھوٹے چھوٹے چراغ روشنیوں کی خیرات حاصل کرتے ہوئے ظلم و کفر کی تاریک ترین رات میں ہدایت کے اجالے بکھیرتے رہیں۔ حتیٰ کہ '' حق آگیا اور باطل مٹ گیا'' کا شمسِ ہدایت طلوع ہوجائے۔
سراج منیر کا اختصاص یہ ہے کہ یہ زمانے کی آندھیوں اور طوفانوں کے مدمقابل بھی قیامت کی صبح تک روشن رہے گا اور ہر لحظہ روشنیاں بانٹنے سے اس کی روشنی کو مزید جلا ملتی رہے گی اور یہ مبارک سلسلہ ہائے اُجالا سنبھالنے سے نہ سنبھالا جائے گا۔
چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
میرا دل بھی چمکا دے چمکانے والے
قرآن حکیم جا بہ جا خدا تعالیٰ کی بے مثل و بے مثال الہامی زبان میں ذکر حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے معمور و مزّین ہے۔ گویا تاقیامت جیسے قرآن محفوظ ہے اسی طرح شانِ حبیبِ خدا ﷺ بھی محفوظ و مامون رہے گی اور اس ''الکوثر'' قرآن حکیم کے ذریعے سے آپؐ کے دشمن بے نام و نشان اور ذلیل و رسوا ہوکر رہیں گے۔
مٹ گئے، مٹ جائیں گے اعداء تیرے
مٹا ہے، نہ مٹے گا کبھی چَرچا تیرا
قرآن حکیم کی ایک آیت کریمہ میں حق تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات خمسہ کا تذکرہ کچھ اس انداز سے فرمایا: '' اے نبیؐ! ہم نے آپؐ کو شاہد، مبشّر، نذیر، داعی الی اللہ اور سراج منیر خود اپنے حکم سے بناکر بھیجا ہے۔'' (القرآن)
زیر نظر آیت کریمہ میں پہلی صفت ''شاہد'' کا تذکرہ فرمایا، جس کا مطلب گواہ ہوتا ہے یعنی آپؐ نہ صرف اس جہانِ رنگ و بُو اور دیگر جہانوں بل کہ جانِ جہاں اور تمام جہانوں کی روح کی حقیقت و صداقت پر گواہ ہیں۔ مزید برآں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم اس تمام تر کائناتی و آفاقی اور مابعد الطبیعیاتی و روحانی نظام کے خالقِ حقیقی و مالک ازلی و ابدی کے وجود یعنی ''حقیقت کبریٰ'' اور ''صداقت عظمیٰ'' پر بھی شاہد اعظم ہیں۔ یہ شہادت محض مشاہداتی و علمی نوعیت کی نہیں بل کہ عین الیقین اور علم الیقین سے بہت آگے حق الیقین کے احسن ترین درجے کی ہے۔ جسے ہم معراج کا بھی حاصل و مقصود ٹھہراتے ہیں۔
جلتے ہیں جس مقام پر جبریل کے پَر
اُس کی حقیقتوں سے شناسا تمھی تو ہو
اس درجے کی حقیقتوں سے شناسائی اور اعزاز و انعام کے بعد قدرت نے آپؐ کو ''مبشّر'' بنادیا تاکہ آپؐ کے ذریعے سے رہتی دنیا تک کے انسانوں کو ''حقیقت کبریٰ '' کی خوش خبری ملتی رہے اور سبھی اپنی اس خوش نصیبی پر راضی بہ رضا رہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہر دور میں ماحول کی آلائشوں سے لبریز بعض ضدی طبیعتیں نہ صرف حق کو قبول کرنے سے باز رہتی ہیں بل کہ دیگر طالبانِ حق و صداقت کی راہ میں روڑے اٹکانے پر بھی مُصر رہتی ہیں۔
لہٰذا مبشّر کے ساتھ آپؐ کو نذیر بھی بنایا گیا تاکہ ہٹ دھرم اور ضدی قسم کے لوگوں کو خدا کے عذابِ عظیم اور عذاب الیم سے ڈرا کر صراط مستقیم کی طرف رجوع کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ اس حوالے سے واضح رہے کہ کم زور اور مظلوم انسانوں پر جبر، ڈر، خوف اور ظلم مسلط کرنے والوں کے لیے محض بشارت اور نصیحت کافی نہیں ہوتی اور قدرت کی طرف سے ہی ان کا شافی علاج ہوتا ہے۔ جب شاہد، مبشّر اور نذیر کی تین صفاتِ عالیہ یک جا ہوتی ہیں تو ''داعی الی اللہ'' کا منصبِ جلیلہ وجود پذیر ہوتا ہے۔
یعنی داعی پہلے درجے میں خود اپنے نظریۂ و ایمان پر کامل سطح کا یقین و اطمینان اور رسوخ حاصل کرے۔ اس لیے کہ اگر داعی خود اپنے مشن کی صداقت میں تذبذب اور وسوسہ کا شکار ہوگا تو وہ دوسروں کو اپنی دعوت کی قبولیت پر بہترین نتائج اور عدم قبولیت پر بدترین انجام کی آگہی و ابلاغ سے کماحقہ عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ یہ لازوال اور سدا بہار حکمت ہمیں اسوۂ حسنہ میں بہ درجۂ اتم نظر آتی ہے جس کی وجہ سے دنیا کی کوئی ترغیبی و تنبیہی طاقت آپؐ کو اپنے مشن سے نہیں ہٹا سکی۔
قرآنِ حکیم نے زیربحث آیتِ کریمہ میں نبی اکرم ﷺ کی صفات اربعہ شاہد، مبشّر، نذیر اور داعی الی اللہ کے بعد آپؐ کو سراج منیر کے لقب سے سرفراز فرمایا ہے۔ یعنی شہادت، تبشیر اور انذار کی ترکیب سے ایسا داعی وجود میں آئے کہ صرف گفتار کا غازی نہ ہو بل کہ مجسّم حق و صداقت اور کردار کا غازی بن کر سراج منیر ٹھہرے اور یقینا اس مقامِ محمود کی صداقت صرف اور صرف آقائے نام دار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات والصفات ہے۔
یہاں آپؐ کو شمس و قمر کی صفات کے ذریعے سے متعارف کرانے کے بہ جائے سراج منیر فرمایا گیا، جس کا مطلب روشن چراغ ہے۔ اس کی وجہ چراغ کی وہ اپنی منفرد خوبیاں ہیں جن سے شمس و قمر بھی محروم ہیں۔ چراغ شب ظلمت میں اُجالے کا ذریعہ و وسیلہ ہوتا ہے۔ جب آپؐ دنیا میں تشریف لائے تو چار سُو رات کی تاریکی جیسا سیاہ ترین منظر نامہ غالب تھا۔ لہٰذا آپؐ کو قدرت نے سراج منیر بنایا تاکہ تدریجی طور پر اس چراغِ روشن سے دیگر بُجھے اور ٹمٹماتے ہوئے چھوٹے چھوٹے چراغ روشنیوں کی خیرات حاصل کرتے ہوئے ظلم و کفر کی تاریک ترین رات میں ہدایت کے اجالے بکھیرتے رہیں۔ حتیٰ کہ '' حق آگیا اور باطل مٹ گیا'' کا شمسِ ہدایت طلوع ہوجائے۔
سراج منیر کا اختصاص یہ ہے کہ یہ زمانے کی آندھیوں اور طوفانوں کے مدمقابل بھی قیامت کی صبح تک روشن رہے گا اور ہر لحظہ روشنیاں بانٹنے سے اس کی روشنی کو مزید جلا ملتی رہے گی اور یہ مبارک سلسلہ ہائے اُجالا سنبھالنے سے نہ سنبھالا جائے گا۔
چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
میرا دل بھی چمکا دے چمکانے والے